
26/07/2025
“افسوس! عافیہ صدیقی کو عمران خان سے جوڑنا؟ ایک سنگین سیاسی مغالطہ”
تحریر:
ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے ایک ایسی بات کی، جس نے نہ صرف سیاسی شعور رکھنے والوں کو چونکا دیا، بلکہ انصاف اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کر دیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ میں سزا ملی، کیونکہ وہ امریکی قوانین کے تحت مقدمہ تھا، اور پاکستان نے اس میں مداخلت نہیں کی۔ پھر اسی جملے میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان میں عمران خان کو سزا ملی ہے، تو اس پر بھی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
کیا یہ تقابل منطقی ہے؟ کیا یہ انصاف کی سچی ترجمانی ہے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی — ایک پاکستانی شہری — کو امریکہ نے ایک ایسا مقدمہ چلا کر 86 سال کی غیر انسانی سزا سنائی، جو خود ایک عالمی عدالتی سوال بن چکا ہے۔ اس مقدمے میں گواہوں کی غیر موجودگی، شواہد کا فقدان، تشدد کی رپورٹس اور خود امریکی سول سوسائٹی کی تنقید موجود ہے۔ جبکہ وہ امریکی نہیں تھیں، ان کا کیس وہاں کی عدالت میں چلایا گیا، اور وہ آج بھی انسانی ہمدردی اور قانونی انصاف کے لیے ایک استعارہ بن چکی ہیں۔
دوسری طرف، عمران خان — ایک سابق وزیرِاعظم، عوامی نمائندہ، اور پاکستان کا شہری — پاکستان کے اندر اپنی ہی ریاست کے نظامِ انصاف کے تحت سزا یافتہ ہوئے، اور ان کے مقدمات اور فیصلے ایک متنازع سیاسی ماحول میں سامنے آئے۔ سوال یہ نہیں کہ سزا دی گئی، سوال یہ ہے کہ کیا وہ سزا انصاف پر مبنی تھی یا سیاسی انتقام کا شاخسانہ؟
اسحاق ڈار نے ان دونوں شخصیات کو ایک ہی سانس میں جوڑ کر نہ صرف ایک غیر منصفانہ تقابل کیا، بلکہ اس سے یہ تاثر دیا کہ جیسے دونوں ہی قانونی طور پر درست سزائیں پا چکے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا دی گئی، تو کیا اُن امریکی فوجی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کو بھی سزا دی گئی، جنہوں نے عراق، افغانستان، گوانتانامو، اور پاکستان میں غیر قانونی اقدامات کیے؟ وہ تو آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ کیا یہی قانون ہے؟
اگر میں وکیل ہوتا عافیہ صدیقی کا، تو یہ میرا پہلا نکتہ ہوتا:
جس جرم میں اسے سزا ملی، وہ جرم تو کرنے والے آج اقتدار میں ہیں، اور وہ عورت، جو خود ایک متاثرہ ہے، آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
تو پھر جرم کس نے کیا؟
اور سزا کس کو ملی؟
یہی منافقت اور یہی انصاف کا دہرا معیار آج دنیا کو بے نقاب کر رہا ہے۔
اور جب پاکستان کا ایک سینیئر وزیر — عالمی فورمز پر — اس ظلم کو جائز قرار دینے کے لیے اسے اپنے سیاسی مخالف کے ساتھ جوڑتا ہے، تو یہ صرف ایک سیاسی جملہ نہیں، بلکہ ایک قومی ضمیر کا زوال ہے۔
اسحاق ڈار کا بیان صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ وہ مثال ہے کہ جب سیاست اتنی انتقامی بن جائے کہ اس میں آپ مظلوموں کو بھی اپنے بیانیے کے لیے استعمال کرنے لگیں، تو پھر انصاف، قانون اور انسانیت — تینوں کا جنازہ ایک ساتھ نکلتا ہے۔
پاکستان کو ایسے بیانیے نہیں، بلکہ اصولوں پر مبنی قیادت کی ضرورت ہے۔ جہاں ہر قیدی کا مقدمہ الگ ہو، ہر مظلوم کی آواز سنی جائے، اور ہر سیاستدان اپنے الفاظ کی حرمت پہچانے۔