03/09/2025
قدیم زمانے سے ہی انسان دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے ہیں۔ پانی نے زندگی دی، زمین زرخیز بنائی، تجارت کے راستے دیے اور خوشحالی لائی۔ لیکن پانی کے ساتھ سیلاب کا خطرہ بھی آتا رہا ہے۔
آج بھی دنیا کے بڑے شہر، جیسے برسبین، سڈنی، میلبورن اور کئی دیگر، دریاؤں کے کنارے ہیں۔ اور ہاں، وہ بھی کبھی کبھار سیلاب دیکھتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہاں Flood Studies، بند اور منصوبہ بندی کے ذریعے خطرات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں عام کہاوت ہے: “دریا نے اپنی زمین واپس لے لی”۔ یہ غلط فہمی ہے۔ دریا اچانک زمین واپس نہیں لیتے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے سیلابی زمینوں (floodplains) کو صحیح طرح منظم نہیں کیا۔
ہمارے یہاں لوگ دریا کے کنارے گھر اور کاروبار بنا لیتے ہیں، اکثر بغیر حفاظتی بند یا سیلابی منصوبہ بندی کے۔ خشک موسم میں یہ زمینیں زرخیز ہیں، کسان اور مویشی یہاں خوشحال ہیں۔ لیکن جب سیلاب آتا ہے، دریا اپنی قدرتی راہوں میں بہتا ہے اور گھر، کاروبار اور مستقبل بہا لے جاتا ہے۔
👉 زیادہ تر متاثرین غریب ہوتے ہیں، اس لیے نقصان قدرت کی سزا لگتی ہے، حالانکہ اصل وجہ غیر منصوبہ بندی ہے۔
👉 جب امیر علاقوں جیسے لاہور کے رہائشی سوسائٹیز میں سیلاب آتا ہے، تو خبریں زیادہ سنائی دیتی ہیں، لیکن مسئلہ وہی رہتا ہے۔
اکثر سنا جاتا ہے: “یہ بارش 30 یا 40 سال کا ریکارڈ توڑ گئی”۔ حقیقت یہ ہے:
✅ دنیا کے تمام اہم منصوبے 1-in-100 سال کے سیلاب (ہر سال 1٪ امکان) کے لیے بنائے جاتے ہیں، کچھ ممالک میں 1-in-200 سال کے لیے بھی۔
✅ 100 سال کا سیلاب یعنی: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال اس کے ہونے کا امکان 1% ہوتا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ صدی میں ایک بار آتا ہے، یعنی دو سال لگاتار بھی آ سکتا ہے۔
صاف بات یہ ہے: دریا یا ساحل کے کنارے رہنا ناممکن نہیں۔ حقیقت میں، آسٹریلیا کے 85٪ لوگ ساحل پر رہتے ہیں، اور دنیا کے زیادہ تر بڑے شہر دریاؤں یا ساحل کے کنارے ہیں۔ حل زمین چھوڑنا نہیں، بلکہ منصوبہ بندی، ڈیزائن اور حفاظتی اقدامات ہیں۔
🏠 ہاؤسنگ سوسائٹیز اور ڈویلپرز کو مکمل سیلابی مطالعہ (Flood Studies) اور خطرے کا تجزیہ (Flood Hazard Analysis) کروانا چاہیے، اور ہر گھر کی تعمیر اور ڈیزائن کی منظوری کے وقت سیلاب سے محفوظ ہونے کی تصدیق (Flood-Safe Approval) لازمی ہونی چاہیے۔
🛡️ بند، دیواریں اور حفاظتی ڈھانچے کم از کم 1-in-100 سال کے سیلاب کے لیے مضبوط اور مؤثر طور پر بنائے جائیں۔
🌍 کمیونٹیز کو صرف متاثرین نہ بنایا جائے، بلکہ سیلابی مزاحم (Flood-Resilient) بنایا جائے تاکہ وہ قدرتی آفات کے خلاف محفوظ رہیں۔
💡 نئی قانون سازی میں ضروری ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ہاؤسنگ، سڑک، پل یا شہری منصوبہ سیلابی مطالعہ اور خطرے کے تجزیے کے بغیر ڈیزائن کی منظوری نہ پا سکے۔
💧 یاد رکھیں، صرف ڈیمز سیلاب کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتے۔ سیلابی پانی کو قابو میں رکھنے کے لیے مربوط پانی کے وسائل اور سیلابی منصوبہ بندی (Integrated Water Resource and Flood Management) کی ضرورت ہے۔
مشرقی دریا، جیسے Ravi، Sutlej اور Bias، جن پر پانی کے کنٹرول کا فیصلہ بھارت کے پاس ہے، جب یہ دریائیں پاکستان میں داخل ہوتی ہیں تو زمین ہموار اور زرخیز ہوتی ہے، وہاں ڈیم بنانا عملی طور پر ممکن نہیں۔
مغربی دریا، جن پر ہمارا کنٹرول ہے، کے اوپری حصوں میں ڈیم پانی روک سکتے ہیں، لیکن نچلے حصوں میں بارش یا سیلابی پانی پھر بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسی لیے سیلاب کے انتظام کے لیے نیکسس اپروچ (Nexus Approach) ضروری ہے، یعنی پانی، زراعت اور زمین کے استعمال کو مربوط انداز میں پلان کرنا۔
✅ صحیح منصوبہ بندی اور مینجمنٹ کے ذریعے ہم سیلابی پانی کو نقصان دینے والے عنصر کی بجائے موقع میں بدل سکتے ہیں، اور اسے ذخیرہ شدہ پانی (Storage Water) یا زرخیز زمینوں میں استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔
دریاؤں کے کنارے لوگوں کو بغیر حفاظت آباد کرنا ایسا ہے جیسے ہائی وے پر گھر بنا دیا جائے اور امید کی جائے کہ ٹریفک نہیں آئے گی۔
وقت آگیا ہے کہ ہم غلط فہمیاں، الزام تراشی یا الہی وجوہات کے پیچھے نہ چھپیں۔ سیلاب آئیں گے؛ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کے لیے تیار ہیں؟
ڈاکٹر عثمان خلیل