24/10/2025
اس زندگی میں انسان کو خوف سے آزاد کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے —
اور وہ ہے ایمان پر استقامت،
یعنی ایمان کے راستے پر ثابت قدم رہنا۔
دنیا میں جب انسان کو اختیار ملتا ہے،
تو وہ کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو فرعون سمجھ بیٹھتا ہے۔
لیکن یاد رکھیں —
ہر فرعون کے مقابل کھڑا ہونے والا ایک مؤمن ضرور آتا ہے۔
ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ڈریں،
بلکہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے مدد طلب کریں اور ایمان پر استقامت دکھائیں۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
(سورۃ الأحقاف، آیت 13)
ترجمہ:
“بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر قائم رہے،
ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔”
تمام دوستوں اور ساتھیوں کے لیے، خصوصاً وہ جو سرکاری اداروں یا اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں —
یاد رکھیں! یہ زندگی اللہ کی امانت ہے۔
ہم سب اللہ کے بندے ہیں، اور یہ دنیا آزمائش کا میدان ہے۔
ایک دن ہم سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
خوف صرف اللہ سے ہونا چاہیے۔
نہ یہ نوکری، نہ کوئی عہدہ، نہ کوئی انسان ہماری زندگی یا عزت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ مشکلات نہیں آئیں گی،
بلکہ یہ سکھاتی ہے کہ اگر تم ایمان اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہو،
تو اللہ تمہارے دلوں کو سکون اور ہمت دے گا۔
اور سورۃ المؤمن (آیت 45) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا
“تو اللہ نے اُس مؤمن کو اُن (فرعونیوں) کی سازشوں کے شر سے بچا لیا۔”
یہ وہ شخص تھا جس نے فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰؑ کی حمایت میں حق بات کہی —
اور اللہ نے اُسے فرعون کی چالوں سے محفوظ رکھا۔
یہ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم حق پر ڈٹ جائیں،
تو اللہ خود ہماری حفاظت فرماتا ہے۔
دنیا کا ہر اختیار عارضی ہے،
مگر اللہ کی قدرت دائمی ہے۔
اللہ ہمیں ایمان کے ساتھ استقامت عطا فرمائے،
اور ایمان کی حالت میں موت نصیب کرے۔
آمین۔
ڈاکٹر عثمان خلیل