19/12/2025
انتخابات کی تاخیر اور سیاسی شعور, گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ایک نادر موقع
اقبال عیسیٰ خان 19 دسمبر 2025
گلگت بلتستان میں انتخابات میں تاخیر، بالخصوص اعلیٰ پہاڑی علاقوں میں شدید موسمی حالات کے سبب، عموماً ایک منفی خبر کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ امیدوار بے چین ہیں، سیاسی کارکن مایوس ہیں اور عوام میں سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مگر ہر چیلنج کے اندر ایک موقع چھپا ہوتا ہے، اور یہی موقع اس وقت گلگت بلتستان کے عوام کے لیے سیاسی شعور اور اپنے حقوق کو سمجھنے کا نادر موقع بن سکتا ہے۔
انتخابات کا موسم دنیا کے ہر خطے میں جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وعدے، نعرے اور جلسے عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مگر اسی شور میں اکثر یہ سوال دب جاتا ہے کہ ہمارا حق کیا ہے، ہماری نمائندگی کس حد تک بااختیار ہے اور ہم کس نظام کے حصہ ہیں۔ گلگت بلتستان میں یہ تاخیر عوام کو یہ سوچنے کا موقع دیتی ہے کہ ووٹ صرف ایک نشان نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے، اور انتخاب کا صحیح استعمال ان کی زندگی، مستقبل اور علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
یہ موقع عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مثال کے طور پر، ناروے اور سویڈن میں موسمِ سردی یا قدرتی آفات کے سبب انتخابات میں تاخیر کے دوران عوام کو وسیع سطح پر تعلیمی اور معلوماتی مہمات کے ذریعے اپنے حقوق اور نمائندگی کے طریقہ کار سے آگاہ کیا گیا۔ اس سے نہ صرف ووٹ کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری کا شعور بھی بڑھا۔ اسی طرح جنوبی کوریا میں طوفانی موسم کے سبب انتخابات مؤخر کیے گئے، اور اس دوران عوام نے مقامی اور قومی پالیسیوں پر مکالمہ بڑھایا، جس کے نتیجے میں پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت نمایاں طور پر بہتر ہوئی۔
اگر ہم گلگت بلتستان کی صورتحال سے موازنہ کریں تو ہمارے ہاں اکثر عوامی مکالمے، انتخابی منشور اور سیاست کی بنیادی حقیقتیں محدود رہ جاتی ہیں۔ تاخیر نے ایک ایسا وقفہ فراہم کیا ہے جہاں گلگت بلتستان کے شہری خود سوچ سکتے ہیں کہ ان کے نمائندے واقعی ان کے حقوق، بااختیار اسمبلی اور فیصلہ سازی میں حقیقی شمولیت کے لیے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہر شہری جلسوں کی ہلچل سے اوپر اٹھ کر اپنے حقوق، مقامی ترقی اور پائیدار منصوبہ بندی پر غور کرے۔
یہ وقت خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ایک تربیتی مرحلہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کو انتخابات کے دوران شعوری انتخاب کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ محض شخصیات یا وعدوں کی بنیاد پر ووٹ نہ دیں بلکہ پالیسی، شفافیت اور عملی اقدامات کو مدنظر رکھیں۔ گلگت بلتستان میں بھی نوجوانوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ سوشل میڈیا، مکالمے اور مطالعات کے ذریعے سیاست کو نظریات اور عمل کے تناظر میں پرکھیں۔
انتخابات میں تاخیر امیدواروں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ عوام سوال پوچھ رہے ہیں، ترجیحات مانگ رہے ہیں اور عملی روڈ میپ طلب کر رہے ہیں۔ جو امیدوار صرف مقبولیت کے لیے سرگرم ہیں، وہ خود کو بے نقاب کر رہے ہیں، جبکہ جو عوامی مکالمے اور شفاف اقدامات کے ذریعے خود کو پیش کر رہے ہیں، وہ قیادت کے حقیقی معیار پر پورا اتر رہے ہیں۔
جذباتی طور پر یہ تاخیر عوام کے صبر کا امتحان ہے، مگر فکری طور پر یہ ایک نادر موقع ہے۔ تاریخی طور پر گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ شعوری فیصلے کیے، اور اسی شعور نے علاقے کی شناخت، امن اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کیا۔ اگر آج اس تاخیر کے دوران عوام نے اپنے حقوق، نمائندگی اور آئینی شناخت پر سنجیدہ مکالمہ کیا، تو یہ صرف وقتی تاخیر نہیں بلکہ مستقبل کی پائیدار سرمایہ کاری بن سکتی ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ انتخابات کی یہ تاخیر گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ایک موقع ہے، سیاست کی تپش میں شعور، سوال اور حق کی پہچان حاصل کرنے کا۔ عالمی مثالوں سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ شعوری عوامی شمولیت نہ صرف انتخابات کو مضبوط بناتی ہے بلکہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اور شفافیت کو بھی یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو گلگت بلتستان کے عوام اس وقت حاصل کر سکتے ہیں تاکہ وہ کل ایک مضبوط، باوقار اور باشعور سیاسی نظام کے مالک ہوں۔