Terichmir News Network

Terichmir News Network Terichmir News. news and media website

ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی  ثریا بی بی نے اپر چترال میں بی ایم سی روڈ بونی (3.2 کلومیٹر )کا باقاعدہ افتتاح کرکے علا...
19/12/2025

ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی ثریا بی بی نے اپر چترال میں بی ایم سی روڈ بونی (3.2 کلومیٹر )کا باقاعدہ افتتاح کرکے علاقے کی ترقی اور عوامی سہولت کے ایک اہم منصوبے کو عملی شکل دے دی۔

یہ منصوبہ بونی اور گردونواح کے عوام کے لیے سفری سہولت، معاشی سرگرمیوں اور علاقائی رابطوں میں بہتری کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

افتتاحی تقریب کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے منصوبے سے متعلق تفصیلات حاصل کیں اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ کام کے معیار اور بروقت تکمیل پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے، تاکہ عوام کو دیرپا فائدہ حاصل ہو۔

اس موقع پر صدر پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال شہزادہ سکندرالملک، جنرل سیکریٹری علاؤالدین عرفی، تحصیل چیئرمین میر جمشید سمیت پارٹی کارکنان اور معزز اہلِ علاقہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔

پاکستان تحریکِ انصاف عوامی مسائل کے حل اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے عزم پر کاربند ہے۔ بی ایم سی روڈ بونی کی تعمیر چیئرمین عمران خان کے ترقیاتی وژن اور عوام دوست سیاست کا عملی ثبوت ہے۔

افگں رضا
فوکل پرسن ٹو
ڈپٹی اسپیکر
(ایم پی اے اپر چترال)

19/12/2025

ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی ثریا بی بی کا اپر چترال میں ریسکیو 1122 دفتر کا افتتاح، عوامی خدمت کے ایک اور اہم منصوبے کا آغاز

انتخابات کی تاخیر اور سیاسی شعور, گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ایک نادر موقعاقبال عیسیٰ خان  19 دسمبر 2025گلگت بلتستان میں...
19/12/2025

انتخابات کی تاخیر اور سیاسی شعور, گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ایک نادر موقع

اقبال عیسیٰ خان 19 دسمبر 2025

گلگت بلتستان میں انتخابات میں تاخیر، بالخصوص اعلیٰ پہاڑی علاقوں میں شدید موسمی حالات کے سبب، عموماً ایک منفی خبر کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ امیدوار بے چین ہیں، سیاسی کارکن مایوس ہیں اور عوام میں سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مگر ہر چیلنج کے اندر ایک موقع چھپا ہوتا ہے، اور یہی موقع اس وقت گلگت بلتستان کے عوام کے لیے سیاسی شعور اور اپنے حقوق کو سمجھنے کا نادر موقع بن سکتا ہے۔
انتخابات کا موسم دنیا کے ہر خطے میں جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وعدے، نعرے اور جلسے عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مگر اسی شور میں اکثر یہ سوال دب جاتا ہے کہ ہمارا حق کیا ہے، ہماری نمائندگی کس حد تک بااختیار ہے اور ہم کس نظام کے حصہ ہیں۔ گلگت بلتستان میں یہ تاخیر عوام کو یہ سوچنے کا موقع دیتی ہے کہ ووٹ صرف ایک نشان نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے، اور انتخاب کا صحیح استعمال ان کی زندگی، مستقبل اور علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
یہ موقع عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مثال کے طور پر، ناروے اور سویڈن میں موسمِ سردی یا قدرتی آفات کے سبب انتخابات میں تاخیر کے دوران عوام کو وسیع سطح پر تعلیمی اور معلوماتی مہمات کے ذریعے اپنے حقوق اور نمائندگی کے طریقہ کار سے آگاہ کیا گیا۔ اس سے نہ صرف ووٹ کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری کا شعور بھی بڑھا۔ اسی طرح جنوبی کوریا میں طوفانی موسم کے سبب انتخابات مؤخر کیے گئے، اور اس دوران عوام نے مقامی اور قومی پالیسیوں پر مکالمہ بڑھایا، جس کے نتیجے میں پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت نمایاں طور پر بہتر ہوئی۔
اگر ہم گلگت بلتستان کی صورتحال سے موازنہ کریں تو ہمارے ہاں اکثر عوامی مکالمے، انتخابی منشور اور سیاست کی بنیادی حقیقتیں محدود رہ جاتی ہیں۔ تاخیر نے ایک ایسا وقفہ فراہم کیا ہے جہاں گلگت بلتستان کے شہری خود سوچ سکتے ہیں کہ ان کے نمائندے واقعی ان کے حقوق، بااختیار اسمبلی اور فیصلہ سازی میں حقیقی شمولیت کے لیے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہر شہری جلسوں کی ہلچل سے اوپر اٹھ کر اپنے حقوق، مقامی ترقی اور پائیدار منصوبہ بندی پر غور کرے۔
یہ وقت خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ایک تربیتی مرحلہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کو انتخابات کے دوران شعوری انتخاب کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ محض شخصیات یا وعدوں کی بنیاد پر ووٹ نہ دیں بلکہ پالیسی، شفافیت اور عملی اقدامات کو مدنظر رکھیں۔ گلگت بلتستان میں بھی نوجوانوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ سوشل میڈیا، مکالمے اور مطالعات کے ذریعے سیاست کو نظریات اور عمل کے تناظر میں پرکھیں۔
انتخابات میں تاخیر امیدواروں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ عوام سوال پوچھ رہے ہیں، ترجیحات مانگ رہے ہیں اور عملی روڈ میپ طلب کر رہے ہیں۔ جو امیدوار صرف مقبولیت کے لیے سرگرم ہیں، وہ خود کو بے نقاب کر رہے ہیں، جبکہ جو عوامی مکالمے اور شفاف اقدامات کے ذریعے خود کو پیش کر رہے ہیں، وہ قیادت کے حقیقی معیار پر پورا اتر رہے ہیں۔
جذباتی طور پر یہ تاخیر عوام کے صبر کا امتحان ہے، مگر فکری طور پر یہ ایک نادر موقع ہے۔ تاریخی طور پر گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ شعوری فیصلے کیے، اور اسی شعور نے علاقے کی شناخت، امن اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کیا۔ اگر آج اس تاخیر کے دوران عوام نے اپنے حقوق، نمائندگی اور آئینی شناخت پر سنجیدہ مکالمہ کیا، تو یہ صرف وقتی تاخیر نہیں بلکہ مستقبل کی پائیدار سرمایہ کاری بن سکتی ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ انتخابات کی یہ تاخیر گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ایک موقع ہے، سیاست کی تپش میں شعور، سوال اور حق کی پہچان حاصل کرنے کا۔ عالمی مثالوں سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ شعوری عوامی شمولیت نہ صرف انتخابات کو مضبوط بناتی ہے بلکہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اور شفافیت کو بھی یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو گلگت بلتستان کے عوام اس وقت حاصل کر سکتے ہیں تاکہ وہ کل ایک مضبوط، باوقار اور باشعور سیاسی نظام کے مالک ہوں۔

پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال کا اہم اجلاس، ڈیزاسٹر فنڈز کی ادائیگی شفاف انکوائری سے مشروطبونی، اپر چترال:پاکستان تحریک...
18/12/2025

پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال کا اہم اجلاس، ڈیزاسٹر فنڈز کی ادائیگی شفاف انکوائری سے مشروط

بونی، اپر چترال:پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال کا ایک اہم اجلاس بونی میں ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محترمہ ثریا بی بی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈیزاسٹر 2024 اور ڈیزاسٹر 2022 کے تحت جاری بحالی منصوبوں اور ان منصوبوں کے لیے سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کو فراہم کی گئی خطیر رقوم کی ادائیگیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی نے فوری اقدام کرتے ہوئے ڈیزاسٹر فنڈز کی ادائیگیوں کو شفاف انکوائری مکمل ہونے تک روکنے کی ہدایت جاری کی۔ اس موقع پر صدر پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال شہزادہ سکندر الملک کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جلد از جلد ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اپر چترال کے تمام علاقوں کا دورہ کرے گی۔

اعلامیے کے مطابق تشکیل دی جانے والی کمیٹی مقامی معتبرین اور علاقائی ذمہ داران کے ہمراہ تمام مکمل شدہ منصوبوں کی فزیکل ویریفکیشن کرے گی۔ جہاں کام مکمل ہو چکا ہوگا وہاں متعلقہ ٹھیکیداروں کو ان کا جائز حق ادا کیا جائے گا، جبکہ جن مقامات پر ورک ڈن سے زائد رقوم وصول کی گئی ہوں گی وہاں اسی تناسب سے کام مکمل کروایا جائے گا۔ کمیٹی اپنی جامع رپورٹ مرتب کرے گی جس کی بنیاد پر سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ اپر چترال ادائیگیوں کا پابند ہوگا۔

اجلاس میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کا بھی فیصلہ کیا گیا، جس کے مطابق صبح 10 بجے بی ایم سی ہسپتال روڈ بونی، دوپہر 12 بجے ریسکیو 1122 بلڈنگ اپر چترال، دن 2 بجے ققلشٹ کے مقام پر بونی–بوزند–تورکہو روڈ کے باقی ماندہ حصے، جبکہ دن 4 بجے سہت روڈ موڑکہو کا افتتاح کیا جائے گا۔

پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال کی جانب سے پارٹی کارکنان اور عوام الناس سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان تقریبات میں بھرپور شرکت کر کے ترقیاتی عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔

جاری کردہ:
خواجہ خلیل
انفارمیشن سیکریٹری
پاکستان تحریکِ انصاف، اپر چترال

پہاڑوں کی خاموش طاقت، گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کی اصل قدراقبال عیسیٰ خان  18 دسمبر 2025پہاڑ صرف قدرتی حسن ...
18/12/2025

پہاڑوں کی خاموش طاقت، گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کی اصل قدر

اقبال عیسیٰ خان 18 دسمبر 2025

پہاڑ صرف قدرتی حسن نہیں ہوتے، یہ قوموں کی بقا، معیشت اور مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کے پہاڑ پاکستان کے لیے محض جغرافیہ نہیں بلکہ آبی سلامتی، موسمی توازن، توانائی اور سیاحت کا اسٹریٹیجک سرمایہ ہیں۔ مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، مسئلہ ان کی قدر شناسی اور درست استعمال کا ہے۔
دنیا نے پہاڑوں کو بوجھ نہیں، موقع سمجھا۔ سوئٹزرلینڈ نے الپس کو جدید سیاحت، ہائیڈرو پاور اور مضبوط لوکل گورننس کے ذریعے قومی معیشت کا ستون بنایا۔ آج وہاں پہاڑی سیاحت اور متعلقہ صنعتیں اربوں ڈالر سالانہ آمدن پیدا کرتی ہیں، جبکہ دیہی علاقوں سے شہری ہجرت محدود ہے۔ یہ کامیابی قدرت کی نہیں، وژن اور پالیسی کی مرہونِ منت ہے۔
نیپال نے ہمالیہ کو غربت کی علامت کے بجائے مہم جو سیاحت اور کمیونٹی بیسڈ ٹورزم میں بدلا۔ محدود وسائل کے باوجود سیاحت اس کی معیشت کا نمایاں حصہ بن چکی ہے، جہاں مقامی گائیڈز، ہوٹلز اور ٹرانسپورٹ نے ہزاروں خاندانوں کو باعزت روزگار دیا۔ چین نے اپنے پہاڑی علاقوں میں انفراسٹرکچر، تعلیم اور گرین انرجی میں سرمایہ کاری کر کے یہ ثابت کیا کہ اگر ریاست چاہے تو پہاڑ پسماندگی نہیں، طاقت بن جاتے ہیں۔
اب ذرا اپنے خطے پر نظر ڈالیں۔ گلگت بلتستان اور چترال دنیا کے ان چند علاقوں میں شامل ہیں جہاں بلند ترین چوٹیاں، بڑے گلیشیئرز اور صاف پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے بڑے دریا انہی پہاڑوں سے جنم لیتے ہیں، یعنی یہ خطے ملک کی آبی سلامتی کی بنیاد ہیں۔ کوہستان اور کشمیر جنگلات، پانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، مگر انسانی ترقی کے اشاریے تشویشناک حد تک کم ہیں۔
یہاں تضاد واضح ہے۔ قدرت نے سب کچھ دیا، مگر پالیسی نے بہت کم لوٹایا۔ سیاحت غیر منظم ہے، ہائیڈرو پاور کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود مقامی آبادی اندھیروں میں ہے، اور نوجوان صلاحیت کے باوجود مواقع سے محروم ہیں۔ ہم سیاح گنتے ہیں، آمدن اور ویلیو نہیں۔ ہم وسائل دیکھتے ہیں، مگر انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پہاڑی ممالک نے فی سیاح زیادہ آمدن، فی میگاواٹ کم لاگت توانائی اور بہتر انسانی ترقی حاصل کی۔ ہمارے ہاں یہی وسائل ہونے کے باوجود مقامی علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار پیچھے رہ گئے۔ یہ جغرافیے کی ناکامی نہیں، قیادت اور ترجیحات کی ناکامی ہے۔
اصل طاقت یہاں کے لوگ ہیں۔ گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کے نوجوان کم وسائل میں عالمی معیار کی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ اگر یہی صلاحیتیں معیاری تعلیم، ٹیکنالوجی، میرٹ بیسڈ نظام اور مقامی مواقع سے جڑ جائیں تو یہ خطے صرف خوبصورت نہیں، خود کفیل بن سکتے ہیں۔
نتیجہ سادہ ہے۔ پہاڑوں کی قدر محض نعروں سے نہیں، پالیسی سے ہوتی ہے۔ ماحول دوست ترقی، منظم سیاحت، ہائیڈرو پاور، مضبوط لوکل گورننس اور نوجوانوں میں سرمایہ کاری وہ راستہ ہے جو دنیا نے اپنایا اور کامیاب ہوئی۔ اگر ہم نے گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کو قومی ترجیح بنا لیا تو یہی پہاڑ پاکستان کے مستقبل کی مضبوط بنیاد بن سکتے ہیں۔
پہاڑ خاموش ہیں، مگر فیصلہ کن۔ سوال یہ نہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اسے کب قومی طاقت میں بدلیں گے۔

18/12/2025

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ملتوی، نیا شیڈول جلد جاری ہوگا: الیکشن کمشنر گلگت بلتستان

پروفیسر ضیاء الحق گورنمنٹ ڈگری کالج بوائر لوئر چترال کے انچارج پرنسپل مقررمحکمۂ اعلیٰ تعلیم خیبر پختونخوا کے احکامات کی...
18/12/2025

پروفیسر ضیاء الحق گورنمنٹ ڈگری کالج بوائر لوئر چترال کے انچارج پرنسپل مقرر

محکمۂ اعلیٰ تعلیم خیبر پختونخوا کے احکامات کی روشنی میں شعبۂ اردو کے پروفیسر ضیاء الحق کو گورنمنٹ ڈگری کالج بوائر چترال کے لیے انچارج پرنسپل تعینات کر دیا گیا ہے

جدید دور کے وژنری نوجوان لیڈر، گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کی ناگزیر ضرورتاقبال عیسیٰ خان 17 دسمبر 2025دنیا ا...
17/12/2025

جدید دور کے وژنری نوجوان لیڈر، گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کی ناگزیر ضرورت

اقبال عیسیٰ خان 17 دسمبر 2025

دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ قیادت کا مفہوم بدل چکا ہے، سیاست کی لغت نئی ہو رہی ہے، اور ترقی کے پیمانے اب صرف نعروں سے نہیں بلکہ وژن، علم، ٹیکنالوجی اور کردار سے ناپے جا رہے ہیں۔ ایسے میں گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر جیسے خوبصورت مگر مسلسل نظرانداز کیے گئے خطوں کے لیے جدید دور کے وژنری نوجوان لیڈر محض ایک خواہش نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکے ہیں۔
ان خطوں کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ان کی ثقافت، روایات، سماجی ڈھانچہ، ذہنی ساخت، تاریخ اور وسائل باقی دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں کے پہاڑ، وادیاں اور قدرتی وسائل صرف جغرافیہ نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ حیات ہیں۔ اسی لیے یہاں قیادت کا ماڈل بھی درآمد شدہ نہیں ہو سکتا۔ ان علاقوں کو ایسے مقامی، indigenous وژنری نوجوان لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس زمین کی خوشبو کو سمجھتے ہوں، جنہوں نے ان پہاڑوں میں آنکھ کھولی ہو، جو یہاں کے مسائل کو کتابوں سے نہیں بلکہ زندگی سے جانتے ہوں، اور جو ترقی کو ثقافت سے جوڑ کر آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
یہ خطے قدرتی وسائل، ذہین نوجوانوں اور بے پناہ پوٹینشل سے مالا مال ہیں، مگر بدقسمتی سے یہاں قیادت کا تسلسل اکثر ماضی کے تصورات، وقتی مفادات اور محدود سوچ کے گرد گھومتا رہا ہے۔ آج کا نوجوان مختلف ہے۔ وہ ڈیجیٹل دنیا میں سانس لیتا ہے، عالمی معیشت کو سمجھتا ہے، موسمیاتی تبدیلی، گورننس، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے چیلنجز کو محض مسائل نہیں بلکہ حل کے مواقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قدرتی وسائل صرف نکالنے کے لیے نہیں بلکہ پائیدار ترقی، ویلیو ایڈیشن اور آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔
جدید دور کا وژنری نوجوان لیڈر وہ ہے جو صرف اقتدار نہیں بلکہ اثر چاہتا ہے۔ جو تقریروں کے بجائے پالیسی کی زبان بولتا ہے، جو سوشل میڈیا کو الزام تراشی کے لیے نہیں بلکہ آگاہی، مکالمے اور نالج شیئرنگ کے لیے استعمال کرتا ہے، اور جو قومیت، مسلک اور علاقے کی تنگ لکیر سے اوپر اٹھ کر انسان، ریاست اور مستقبل کی بات کرتا ہے۔ ایسے لیڈر کے لیے سیاست خدمت ہے، تجارت استحکام ہے، قدرتی وسائل ذمہ داری ہیں، اور تعلیم سب سے بڑی سرمایہ کاری۔
گلگت بلتستان اور چترال کے پہاڑ، کوہستان کی وادیاں اور کشمیر کی سرسبز زمینیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ یہاں ایسی قیادت ابھرے جو ماحول دوست ترقی، سیاحت، انٹرپرینیورشپ، اسکل ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی اور AI جیسے جدید تقاضوں کو مقامی حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکے۔ جو نوجوانوں کو صرف سرکاری نوکری کے محدود خواب سے نکال کر بزنس، اسٹارٹ اپس اور عالمی مارکیٹس سے جوڑ سکے۔ جو خواتین کو محض نعرہ نہیں بلکہ فیصلہ سازی، معیشت اور لیڈرشپ کا فعال حصہ بنائے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک نوجوانوں کو قیادت کے حقیقی مواقع نہیں ملیں گے، مایوسی، ہجرت اور بے اعتمادی بڑھے گی۔ جدید دنیا میں قیادت عمر کی محتاج نہیں، وژن اور اہلیت کی محتاج ہے۔ تجربہ قابلِ احترام ہے، مگر تبدیلی ہمیشہ نئی سوچ، جدید مہارت اور جرات مند فیصلوں سے جنم لیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پالیسی ساز، سیاسی جماعتیں اور معاشرہ مجموعی طور پر مقامی نوجوان قیادت پر اعتماد کرے، انہیں سنے اور آگے بڑھنے کا حقیقی راستہ دے۔
آج اگر ہم نے ان پہاڑوں، وادیوں اور وسائل سے جڑی نوجوان لیڈرشپ کو جگہ نہ دی تو کل تاریخ ہم سے یہ سوال ضرور کرے گی کہ جب وقت نے پکارا تو ہم نے خاموشی کیوں اختیار کی۔ گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور کشمیر کا مستقبل روشن، باوقار اور خودمختار ہو سکتا ہے، بشرطیکہ قیادت کا چراغ اسی سرزمین سے اٹھنے والی نئی نسل کے ہاتھوں میں دیا جائے۔ یہ نسل صرف تبدیلی کا خواب نہیں دیکھتی، اسے حقیقت میں بدلنے کی مکمل صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
یہ وقت انتخاب کا ہے۔ ماضی کی تکرار یا مستقبل کی تعمیر۔ اور مستقبل، بلاشبہ، ان ہی علاقوں سے جنم لینے والے وژنری نوجوان لیڈروں کا منتظر ہے۔

چترالی ثقافت: تنوع، مکالمہ اور مشترکہ ذمہ داری:چترالی ثقافت کے نام پر مولویوں کا ہنگامی اجلاس دیکھ کر واقعی حیرت ہوتی ہے...
17/12/2025

چترالی ثقافت: تنوع، مکالمہ اور مشترکہ ذمہ داری:

چترالی ثقافت کے نام پر مولویوں کا ہنگامی اجلاس دیکھ کر واقعی حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس سے ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے: آخر چترالی ثقافت ہے کیا، اور اس کی نمائندگی کون کرتا ہے؟ چترالی ثقافت محض کسی ایک طبقے، گروہ یا نظریے کی پیداوار نہیں بلکہ یہ صدیوں میں مختلف علاقوں، رسم و رواج اور طرزِ زندگی کے امتزاج سے تشکیل پائی ہے۔ یہ ثقافت نہ کسی مخصوص مذہبی تعبیر پر مکمل طور پر مبنی ہے، نہ سیاسی یا خاندانی نظریات پر، بلکہ یہ ایک علاقائی اور تہذیبی عمل کا نتیجہ ہے۔

اگر ہم اسلامی ثقافت کے تناظر میں بات کریں تو ایک حد تک اتفاق ممکن ہے، کیونکہ اسلام نے اس خطے کی سماجی زندگی پر اثر ضرور ڈالا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ چترال میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم برادریاں بھی آباد ہیں، اور خود مسلمانوں کے اندر مختلف مسالک پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چترال میں کئی نسلی (ethnic) گروہ موجود ہیں جن کے رسم و رواج، تہوار، لباس اور سماجی رویے آج بھی مختلف صورتوں میں زندہ ہیں۔ ان تمام گروہوں کے درمیان اگر کوئی ایک چیز مشترک ہے تو وہ صرف خطۂ چترال ہے، نہ کہ ایک جیسی ثقافتی شناخت۔

اگر آبِ ارندو اور بروغل کے دو افراد کو ایک ساتھ کھڑا کیا جائے تو بظاہر وہ دونوں چترالی ہوں گے، مگر ان کی زبان، رہن سہن، مزاج اور ثقافتی اظہار میں نمایاں فرق ہوگا۔ یہی فرق دراصل چترال کی اصل خوبصورتی اور طاقت ہے۔ چترالی ثقافت یک رنگی نہیں بلکہ تنوع کا نام ہے، اور اسی تنوع کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش خود ثقافت کے ساتھ ناانصافی ہے۔

یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اس ثقافت کو بچانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا یہ ذمہ داری صرف علما، کسی ایک مذہبی گروہ، یا چند بااثر افراد کی ہے؟ یا پھر یہ اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں مقامی برادریاں، دانشور، اساتذہ، نوجوان، خواتین اور مذہبی رہنما سب شامل ہوں؟ ثقافت کا تحفظ کسی ایک طبقے کے فیصلوں سے نہیں بلکہ مکالمے، مشاورت اور باہمی احترام سے ممکن ہوتا ہے۔

اگر بات “چترالی اسلامی ثقافت” تک محدود ہو تو ممکن ہے ہم کسی حد تک ایک صفحے پر آ سکیں، لیکن جب صرف “چترالی ثقافت” کی بات کی جاتی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کے لیے، کیسے، اور کیوں آواز اٹھائی جا رہی ہے؟ یہ کوئی ایک سال یا ایک وقتی ردِعمل کا معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری سوچ اور طویل فکری عمل کا تقاضا کرتا ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ایک گروہ بغیر وسیع مشاورت کے خود کو سب کا نمائندہ سمجھتے ہوئے فیصلے کرنے لگتا ہے۔ ایسی روش نہ صرف اختلافات کو جنم دیتی ہے بلکہ ثقافتی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ چترال جیسے متنوع معاشرے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ثقافت کے نام پر فیصلے مسلط کرنے کے بجائے بات چیت، برداشت اور شمولیت کو فروغ دیا جائے۔

آخر میں، چترالی ثقافت کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اسے ایک زندہ، متحرک اور متنوع حقیقت کے طور پر تسلیم کریں۔ ثقافت کو بند کمروں میں ہونے والے ہنگامی اجلاسوں سے نہیں بلکہ عوامی شعور، باہمی احترام اور اجتماعی مکالمے سے تحفظ ملتا ہے۔ اگر واقعی ہم چترالی ثقافت کے خیر خواہ ہیں تو ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اختلاف کے ساتھ جینا، تنوع کو قبول کرنا، اور فیصلوں میں سب کو شریک کرنا ہی اصل ثقافتی بقا کی ضمانت ہے۔

؀مقبول حسین

نوٹ:یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ ادارہ تمام آراء کا احترام کرتا ہے، تاہم ضروری نہیں کہ ان سے متفق ہو۔

عمیر خلیل کے ساتھ میرا سیاسی اختلاف 101 فیصد نہیں بلکہ ایک ہزار ایک فیصد ہے۔ اس کے طرزِ سیاست سے نہ کبھی مجھے پسند آیا ہ...
17/12/2025

عمیر خلیل کے ساتھ میرا سیاسی اختلاف 101 فیصد نہیں بلکہ ایک ہزار ایک فیصد ہے۔ اس کے طرزِ سیاست سے نہ کبھی مجھے پسند آیا ہے اور نہ آئندہ آئے گااور شاید یہی ردِعمل اس کی طرف سے بھی ہے۔ 2014 کے بعد کچھ عرصہ ہمارے درمیان قریبی دوستی رہی تاہم گزشتہ دو تین سالوں سے اس نے مجھے واٹس ایپ پر بلاک کر رکھا ہے اور میں نے بھی اسے فیس بک پر اَن فرینڈ کیا ہوا ہے۔
جس بنیاد پر اس پر 7-اے ٹی اے سمیت دیگر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی تھیں اس وقت بھی میں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی۔ آج اسے بے جا طور پر شیڈول فور میں ڈال دیا گیا ہےجو ایک اوچھا ہتھکنڈہ ہے۔ ایسے اقدامات سے کسی کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے اور میں اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔
جس طرح مجھ پر 10 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں یہ بھی اسی طرح لوگوں کو اپنے جائز حق کے لیے آواز اٹھانے سے محروم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ عمیر ایک سیاسی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین سماجی کارکن بھی ہے۔
آج اگر یہ اندھا قانون عمیر کے خلاف استعمال ہو رہا ہے تو کل میرے خلاف اور پرسوں آپ کے خلاف بھی لازماً ہو سکتا ہے اس لیے آج ہی اس کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ڈی پی او اپر چترال اور ضلعی انتظامیہ اپر چترال سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں تاکہ چترال ہمارے لیے مزید مسائل کا شکار نہ بنے۔
Umair Khalil Ullah stay strong. You are a strong man!!
خواجہ خلیل وی سی چیرمین تریچ بالا اپر چترال

چترال لائرز فورم پشاور نے سماجی کارکن اور وکیل عمیر خلیل اللہ کا نام Schedule 4 میں شامل کرنے کے حکومتی اقدام پر سخت ردع...
17/12/2025

چترال لائرز فورم پشاور نے سماجی کارکن اور وکیل عمیر خلیل اللہ کا نام Schedule 4 میں شامل کرنے کے حکومتی اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فورم نے اسے غیر آئینی، غیر قانونی اور آزادی اظہارِ رائے کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
فورم کے صدر، شاہد علی خان یفتالی (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ) نے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا اور عوامی حقوق کا تحفظ ہر شہری کا آئینی فریضہ ہے۔ محض عوامی مفاد میں آواز بلند کرنے پر ایک وکیل کو دہشت گردی ایکٹ کے سخت قانون "شیڈول فور" کا نشانہ بنانا بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔چترال لائرز فورم نے حکام بالا سے مطالبہ ہے کہ
عمیر خلیل اللہ ایڈووکیٹ کا نام فوری طور پر شیڈول فور سے خارج کیا جائے۔
اور اس غیر قانونی اقدام کے ذمہ داران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔
فورم نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ فی الفور واپس نہ لیا گیا تو وکلاء برادری آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کا ہر ممکن راستہ اختیار کرے گی۔

پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ کی تاریخی کامیابی، جنوبی قطب تک اسکی مہم مکملپاکستان کی نامور کوہ پیما اور ایڈونچر اسپورٹس ک...
17/12/2025

پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ کی تاریخی کامیابی، جنوبی قطب تک اسکی مہم مکمل

پاکستان کی نامور کوہ پیما اور ایڈونچر اسپورٹس کی عالمی سطح پر پہچانی جانے والی شخصیت ثمینہ بیگ نے ایک اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دیتے ہوئے جنوبی قطب (لاسٹ ڈگری) تک کامیابی سے اسکی مہم مکمل کرلی۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ پاکستان کی پہلی شخصیت بن گئی ہیں۔
یہ مہم ثمینہ بیگ کے لیے نہایت مشکل، طویل اور بامقصد ثابت ہوئی، جو اُن کے خواب یعنی ایکسپلوررز گرینڈ سلام کی تکمیل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ 2013 میں ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے سے لے کر سیون سمٹس (ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں) کی تکمیل، کے ٹو اور نانگا پربت جیسی خطرناک چوٹیوں کو سر کرنے کے بعد اب جنوبی قطب تک پہنچنا اُن کے شاندار سفر کا تسلسل ہے۔
ثمینہ بیگ کے مطابق یہ سفر صبر، حوصلے اور اپنے خواب پر یقین کا امتحان تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی آسان نہیں تھی بلکہ مسلسل جدوجہد، مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہنے اور ناممکن کو ممکن بنانے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کا یہ سفر بالخصوص نوجوان خواتین کے لیے حوصلہ اور تحریک کا باعث بنے گا کہ خواب دیکھنا اور انہیں پورا کرنا ہمیشہ قابلِ قدر ہوتا ہے۔
انہوں نے اس تاریخی مہم کے لیے مالی تعاون فراہم کرنے والے کمیونٹی ممبرز کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ جلد ان کے لیے الگ سے ایک خصوصی پیغام شیئر کریں گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی ٹیم، اہلِ خانہ، نمز ڈائی (Nimsdai)، ایلیٹ ایکسپیڈ (Elite Exped) اور اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان پر اعتماد کیا اور ہر مشکل مرحلے پر ان کا ساتھ دیا۔
ثمینہ بیگ نے کہا کہ پہاڑوں، براعظموں اور برفانی میدانوں میں پاکستان کا قومی پرچم اور اسماعیلی پرچم بلند کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ انہوں نے ہر موقع، ہر سبق اور ہر اُس شخص پر شکرگزاری کا اظہار کیا جو اس تاریخی سفر میں ان کے ہمراہ رہا۔

Address

Sydney
Liverpool, NSW
2168

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Terichmir News Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Terichmir News Network:

Share