
07/07/2025
یزیدِ زماں ، ایک شخص، ایک علامت یا ایک نظریہ؟
تحریر از جے ایم ہزارہ ۔
یزیدِ زماں ایک ایسا تصور ہے جو ہر دور میں نئے روپ، نئے چہروں اور نئے نظاموں میں جنم لیتا رہا ہے۔ لیکن اس کی پہچان ہمیشہ یکساں نہیں رہی۔ تاریخ میں یزید، صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک استعارہ بن چکا ہے۔
ظلم، جبر، آمریت، باطل نظام اور حق کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت کو یزید زماں بھی کہا جاتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ "یزیدِ وقت" کون ہے؟
اس کا جواب ہمیشہ یکساں نہیں رہا ہے ۔ یہ ایک سبجیکٹیو (انفرادی و تناظری) تشخیص ہے۔ جو ایک فرد کے نزدیک ظالم ہے، ممکن ہے دوسرے کے لیے مصلح، محافظ یا حاکم وقت ہو۔ یزید کا مفہوم اب صرف سن 61 ہجری کے ایک شخص تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ ایک ایسا علامتی کردار بن چکا ہے جو ہر اُس فرد یا نظام میں جلوہ گر ہوتا ہے جو حق کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ حق کا راستہ بھی ایک سبجکٹیف ایشو ہے ۔ داعش کے مطابق وہ حق پر ہے ، جبکہ القاعدہ کی نظر میں اہل حق صرف ان کے لوگ ہے ۔ جبکہ صیہونیت والے خود کو حق کہتے پیرتے ہیں جبکہ ولایت فقہ بھی خود کو حق کا وارث سمجھتا ہیں ۔ اسی طرح ان میں سے ہر کسی کا یزید زماں مختلف ہیں ۔ کسی ایک کا یزید زماں دوسرے کا محسن اور حق پرست ہے ۔
جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے، ظلم اور حق کی جنگ نئی شکل اختیار کرتی ہے۔
ایک سیاسی کارکن کے نزدیک یزید وہ آمر ہو سکتا ہے جو عوامی آواز کو دباتا ہے،
ایک عالم دین کے لیے وہ علماء جو دین کو اپنی مرضی سے ڈھالتا ہے،
ایک مظلوم قوم کے لیے وہ ریاست یا نظام ہو سکتا ہے جو ان کے وجود کا انکار کرے،
اور ایک عام شہری کے لیے وہ کوئی بھی طاقت ہو سکتی ہے جو اس کی آزادی اور ضمیر پر پہرہ بٹھائے۔
لہٰذا، یزید کا مفہوم افراد اور معاشروں کے تجربات، احساسات، اقدار اور نظریات سے جُڑا ہوا ہے۔ جس کو تم یزید کہتے ہو، ممکن ہے دوسرا اسے "قائدِ وقت" کہے، کیونکہ اس کا مفاد اس سے جڑا ہو یا اس کے زاویہ نظر میں ظلم کی تعریف کچھ اور ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی کو "یزیدِ زماں" کہتے ہیں، تو ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ محض ایک دینی یا تاریخی اصطلاح نہیں رہی، بلکہ ایک طاقتور سیاسی اور سماجی بیان بھی بن چکی ہے۔ جس کی بنیاد ہمارے جذبات، مشاہدات اور تجربات پر ہے۔
کسی کے نزدیک امریکہ یزیدِ وقت ہے، تو کسی اور کے لیے ایران یا طالبان۔ کسی کے نزدیک بادشاہ ظلم کا استعارہ ہے، تو کسی اور کے نزدیک وہی بادشاہی نظام امن کا ضامن ہے۔
یہ سبجکٹیف حقیقت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے "یزیدِ وقت" کو پہچاننے سے پہلے سوال کریں:
کیا ہم جذباتی تعصب سے فیصلہ کر رہے ہیں یا واقعی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں؟ اور کیا مظلوم کا معیار یکساں ہے یا اپنا پسندیدہ مظلوم ہی مظلوم کہا جاتا ہیں ۔
کیا ہمارا یزید کہنا ظلم کے خلاف ایک شعوری ردعمل ہے یا محض سیاسی مخالفت؟
کیا ہمارا "حق" واقعی حسین کا راستہ ہے یا ذاتی مفاد کا لبادہ؟
یزیدِ وقت ایک زندہ اور متحرک علامت ہے۔ یہ کبھی ایک چہرہ ہوتا ہے، کبھی ایک نظام، کبھی ایک نظریہ۔ لیکن اس کی پہچان ہر فرد، ہر معاشرے اور ہر عہد میں مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے "یزیدِ وقت" کو پہچاننے کے لیے نہ صرف عقل، شعور اور علم کی ضرورت ہے، بلکہ دیانت، انصاف اور وسعتِ نظر کی بھی۔
ہر دور کا حسین وہ ہے جو مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو، اور ہر دور کا یزید وہ جو ظلم کی پشت پناہی کرے لیکن ان کی شناخت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی، کیونکہ سچائی اکثر پردوں میں چھپی ہوتی ہے، اور پردے ہم خود ڈال دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دور کا حسین اور دور کا یزید ایک سبجکیف موضوع ہے ۔ کسی ایک کا یزید زماں دوسرے کا حسین زماں بھی ہو سکتا ہے اور کسی کا حسین زماں کسی اور کا یزید زماں بھی ہو سکتا ہے ۔ لہذا لازم ہے کہ سب کو یکساں نظر سے دیکھنا چاہیے ۔ جب مذہب کا سیاسی استعمال ہوگا تو لوگ اپنے مخالف کو یزید زماں کا لقب دے کر اور اپنے پسندیدہ فرد ، نظام یا نظریے کو حسین زماں کا لقب دے کر سیاسی مفادات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ جس طرح 61 ہجری میں یزید نے امام عالی مقام کے خلاف مذہب کا سیاسی استعمال کرکے امام عالی مقام کو خارجی قرار دے کر ان کی قتل کو جائز قرار دیا تھا ۔