12/05/2024
*سورة الهمزة کا خلاصہ:
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ(1)اِ۟لَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗ(2)یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ(3)كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ٘(4)وَمَاۤ اَدْرٰىكَ كَ مَا الْحُطَمَةُ(5)
*ترجمہ:*
بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو۔(1)جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اسے گنتا رہتا ہو۔(2)وہ سمجھتا ہے کہ اسکا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔(3)ہرگز نھیں ! اس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے۔(4)
اور تمھیں کیا معلوم وہ چورا چورا کرنے والی چیز کیا ہے؟(5)
*سورہ ھمزہ کا تعارف:*
اس سورت کا نام سورة الهمزة ہے پہلی ہی آیت یہ میں لفظ موجود ہے اسی لفظ سے یہ نام لیا گیا ہے، یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے، اس سورت کا نزول کے اعتبار سے بتیس نمبر ہے اس سے پہلے اکتیس سورتیں نازل ہوئی ہیں، قرآن کی ترتیب کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر ایک سو چار(104) ہے،اس سے پہلے 103 سورتیں ہیں اور بعد میں صرف دس سورتیں ہیں، اس سورت کا ایک رکوع اور نو آیتیں ہیں.
*وضاحت:*
سورہ ھُمَزَہ کی ابتدائی پانچ آیات میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں.
( 1)بڑی خرابی کا مستحق ہے وہ آدمی جو پیٹھ پیچھے عیب لگانے والا اور منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو.
( 2)اور وہ آدمی بھی جس نے مال اکٹھا کیا اور اس سے گن گن کر رکھا.
(3)وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس سے ہمیشگی عطا کرے گا.
( 4)ایسا ہرگز نھیں ہے! اس سے تو ایسی جگہ پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے.
(5)تمھیں معلوم بھی ہے کہ وہ چورا چورا کرنے والی کیا ہے؟
*مزید وضاحت:*
بڑی خرابی ہونے والی ہے کل قیامت کے دن اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے لوگوں پر عیب لگاتا پھرے، پیٹھ پیچھے کسی پر چغلی کھاتا ہے اور چغلی کرنے والے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
,, لا يدخلُ الجنَّةَ قتَّاتٌ،،
صحيح بخاری ،حدیث نمبر :6056
سنن ترمذی، حدیث نمبر : 2026
مطبوعہ بیروت
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
عن أسماء بنت يزيد رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفلا أخبرُكُم بشرارِكُم ؟ المشَّاؤونَ بالنَّميمةِ ، المفسِدونَ بينَ الأحبَّةِ ، الباغونَ للبراءِ العنَتَ.
*ترجمہ :*
حضرت اسما بنت يزيد رضي الله عنها سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں سب سے بدترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر فرمایا کہ سب سے بدتر لوگ وہ ہیں جو چغلی کرتے ہیں، محبت رکھنے والوں میں فساد ڈالتے ہیں، باغی ہیں، مخلوق سے بیزار اور متعصب ہیں.
مسند احمد، حدیث نمبر :18998
مطبوعہ بيت الأفكار الدولية بيروت
اس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی دوسری صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ دوسروں کو طعنہ دینے والا بھی ہو، کسی انسان کو طعنہ دینے سے اس کا دل دُکھتا ہے اور کسی انسان کا دل دُکھانا یہ تو اس چغلی کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ وہ ایسا ہو کہ مال جمع کرکے رکھتا ہو، راہِ خدا میں خرچ نہ کرتا ہو بلکہ اس سے گنتے ہوئے بیٹھنے والا ہو، یوں تو فی نفسه مال حاصل کرنا اور کمانا بُری بات نھیں ہے، لیکن مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو جانا کہ بس اس کے سر پر مال ہی کی دُھن سوار ہو اور یہ مال اس سے فرائض وواجبات سے غافل کرکے رکھ دے اور عام طور پر ہوتا ایسا ہی ہے کہ جب انسان کے دل میں حرص اور لالچ بڑھتی جاتی ہے تو اس کے دل سے ایمان اور خوفِ خدا آہستہ آہستہ دور ہوتا جاتا ہے، اور اس سے اپنے اس مال پر اتنا گھمنڈ اور غرور ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہی میرا مال میرے ہروقت کام آنے والا ہے، اور مجھے ہر قسم کی آفتوں سے نکالنے والا ہے، اس طرح وہ سوچنے لگتا ہے کہ مجھے موت سے بچانے والا اگر میں بیمار ہوجاؤں تو مجھے اس بیماری صحت مند بنانے والا اور زندگی بخشنے والا یہی مال ہے، حالانکہ وہ بھول جاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس طرح وہ آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، ایک طویل (لمبی) حدیث شریف میں اس کا ذکر یوں ہے :
عن أبي أمامة الباهلي، عن ثعلبة بن حاطب الأنصاري: أنَّه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادعُ الله أن يرزقني مالًا. قال فقال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم ويحك يا ثعلبة! قليلٌ تُؤدِّي شُكره خيرٌ من كثيرٍ لا تُطيقه، قال ثم قال مرةً أخرى، فقال أما ترضى أن تكون مثل نبي الله؟ فوالذي نفسي بيده، لو شئتُ أن تسير الجبال معي ذهبًا وفضَّةً لسارت، قال: والذي بعثك بالحقِّ، لئن دعوتَ الله فرزقني مالًا لأُعطينَّ كلّ ذي حقٍّ حقَّه. فقال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم اللهم ارزق ثعلبة مَالًا، قال فاتّخذ غنمًا، فنمت كما ينمو الدّود، فضاقت عليه المدينة، فتنحَّى عنها، فنزل واديًا من أوديتها، حتى جعل يُصلي الظهر والعصر في جماعةٍ، ويترك ما سواهما، ثم نمت وكثرت، فتنحَّى حتى ترك الصَّلوات إلا الجمعة، وهي تنمو كما ينمو الدود، حتى ترك الجمعة، فطفق يتلقّى الركبان يوم الجمعة ليسألهم عن الأخبار.
ترجمہ:
ایک صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطاء کرے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ثعلبہ! تیری ناک خاک آلود ہو یہ کیسی تمنا کر رہا ہے؟ وہ صحابی بار بار اللہ کے نبی سے یہی گزارش کرتے رہے اور فرمایا اللہ کی قسم! اگر میرے پاس مال آجائے گا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق دوں گا بالآخر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کردی جس کے نتیجہ میں وہ بہت مال والے ہوگئے، لیکن انھیں اس مال کی محبت نے آہستہ آہستہ دین سے دور کر دیا یہاں تک کہ انھوں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے زکوٰۃ وصول کرنے والے کو ہی زکوٰۃ دینے سے منع فرما دیا.
دلائل النبوۃ 290/5
مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال کی بےجا محبت انسان کو آخرت سے دور کردیتی ہے اور بالآخر اس کا انجام دوزخیوں والا ہوتا ہے جس سے اگلی آیت میں بیان کیا جارہا ہے کہ اے انسان! مال کے تعلق سے تیرا جو گمان ہے وہ بالکل غلط ہے، نہ تو وہ تیرے پاس ہمیشہ رہے گا اور نہ ہی تجھے ہمیشگی عطا کر پائے گا، بلکہ ایسے آدمی کو ایسی جگہ پھینکے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے،پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ہیبت بٹھانے کے لیے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ جانتے ہو وہ چورا چورا کرنے والی کیا ہے؟ اگلی آیات میں اس کی وضاحت آئے گی. (إن شاء الله)
*ملاحظہ:*
*آیات کا ترجمہ ,,آسان ترجمہ قرآن،، تصنیف شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (دامت برکاتہم) سے لیا گیا ہے.*
*جامعہ مرکزالمعارف