
08/18/2025
مجلسِ عزا بسلسلہ شَبِ چہلمِ شُہدائے کربلا
سالہائے گُزِشتہ کی طرح اِمسال بھی سینٹ تھامس میں آصِف زیدی کی رِہائش پر شبِ چِہلُم کی مرکزی مجلس کا اِنعقاد کیا گیا اس شب فِضا کچھ اور ہی سوگ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مکان کی دیواریں چراغوں سے جگمگا رہی تھیں مگر دلوں پر غمِ کربلا کی تاریکی سایہ فگن تھی۔ یہ وہ شب تھی جو دنیا بھر کے عزاداروں کو یاد دلاتی ہے کہ قافلۂ کربلا کی شامِ غریباں کبھی پرانی نہیں ہوتی۔
آغاز حدیثِ کساء سے ہوا۔ نجم نقوی صاحب نے جب اہلِ بیتؑ کی عظمت کو لفظوں میں ڈھالا تو کمرہ گویا مدینہ کی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ اس کے بعد معصوم بچوں نے اپنی ننھی زبانوں سے سلام پیش کیا، اور برادر حمزہ کی آواز نے اس سلام کو دلوں کے اندر اتار دیا۔
پھر سید سردار باقر خان نے اپنے مخصوص انداز میں سلام پیش کیا۔ ان کے لہجے کی گونج نے سننے والوں کو لمحہ بھر کے لیے کربلا کیلئے اشکبار کر دیا۔
اس کے بعد وہ لمحہ آیا جب حیدرآباد دکن کی ادبی روایت کو کینیڈا کی سرزمین پر زندہ کرنے والے شاعرِ اہلِ بیتؑ، جناب علی عرفان صاحب، نے اپنے مخصوص تحت اللفظ میں فضائل اور مصائب سنائے۔ ان کے الفاظ قطرہ قطرہ دلوں پر برس رہے تھے، اور ہر لفظ جیسے کربلا کی خندقوں سے اٹھ کر مجلس میں آ رہا تھا۔
مصائب کے بعد برادر سلمان، آصف اور نقی نے پُراثر سوز “مظلوم کربلا کی عزادار آگئ” سے جناب زینب کی حال کی یاد کو تازہ کیا۔ فضا اس وقت مزید سوگوار ہوگئی جب برادر سلمان عباس نے “امّہ فضا” کا نوحہ اور پھر “جلتے ہوئے خیموں” کی کربناک تصویر گریہ و بکا کے ساتھ پیش کی۔ لندن اور سینٹ تھامس کے ماتمی حضرات نے پُرزور سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو پرسہ بنایا۔
آخر میں نیازِ امامِ علی مقامؑ پیش کی گئی۔ یوں یہ شبِ چہلم کی مجلس ایک اور تاریخ رقم کرتے ہوئے اختتام کو پہنچی، مگر دلوں پر یہ نقش چھوڑ گئی کہ کربلا کی یاد زندہ ہے، اور زندہ رہے گ