Dastak

Dastak ادبی میگزین E.MAIL
[email protected]
[email protected]

08/04/2025

"تتھا گت کی ادھوری نظم"
(ستیہ پال آنند کے لیے)

ڈاکٹر سید

کبھی کبھار، ایک لفظ مر جاتا ہے —
نہ شور سے،
نہ کسی دھماکے سے —
بلکہ یوں، جیسے کوئی پتّا
خزاں کی خاموشی میں
اپنا درخت بھول جائے۔

آج
الفاظ کا ایک درخت زمین پر گرا۔
نہیں، وہ گرا نہیں —
اس نے چپ چاپ اپنی جڑیں اکھاڑیں
اور کسی اور کہکشاں میں
قدم رکھ دیا۔
ہمیں ورثے میں
خاموشی ملی —
ایسی خاموشی،
جو کسی ان کہی دعا کی طرح
پیشانی پر ٹھہر گئی ہے۔

میں نہیں جانتا
یہ موت ہے یا نہیں —
یا وہ ہوا تھی
جو صدیوں سے تہذیبوں میں سانس لیتی رہی،
اور اب اچانک
کہیں چھپ گئی ہے —
وہی ہوا
جو لفظوں کو مقدس بناتی تھی،
اور نظم کو پجاری۔

ستیہ پال،
تم صرف ایک فرد نہ تھے —
تم فراموشی کے ریگزار میں
ایک سایہ دار شجر تھے،
جہاں تھکے ہوئے مسافر
سائے میں بیٹھتے نہیں،
بلکہ گم ہو جاتے ہیں۔

تم ایک ایسی شاخ تھے
جو موسموں کی زبان سمجھتی تھی —
اپنے اندر
بدھ کی خاموشی
اور میر کا اضطراب
چپکے سے سنبھالے ہوئے۔

تم نے جو نظمیں لکھیں،
وہ صرف الفاظ کا رقص نہ تھیں —
وہ بانسری تھیں
جو خلا میں بجتی تھیں،
اور جن کی دھن پر
شعور کے مندروں میں
نیروان کے دیے جلتے تھے۔

تم غزل سے خفا تھے —
کیونکہ قافیہ تمہیں قید لگتا تھا،
اور تم،
آکاش کے پرندے،
رمزوں کے آسمان پر اُڑنا چاہتے تھے۔
تم نے ہر مصرع کو
پیشانی سے چھو کر
کسی دعائیہ ساعت میں بدل دیا تھا۔

تمہاری نظموں میں
خالی مکانوں کی کھڑکیاں تھیں —
جہاں سے پرانی تہذیبیں جھانکتی تھیں —
کبھی بودھی درخت کے نیچے
آنکھیں بند کیے کوئی ماضی بیٹھا ہوتا،
کبھی گنگا کنارے
فکر کی بھیگی چادر اوڑھے
کوئی امروز کھڑا ہوتا۔

اور اب —
جب تم چلے گئے —
تو گویا
ایک سورج لفظوں کی سرزمین سے غروب ہوا۔
لیکن اُس کی روشنی
اب بھی
ہمارے اندر
کسی بےنام شبد کی صورت
گونج رہی ہے۔

تم مرے نہیں —
تم نے اپنی چھاؤں
کسی اور کہکشاں میں
درخت کی صورت لگا دی ہے۔
اور ہم —
ہم تمہیں صرف پڑھتے نہیں،
تمہیں جیتے ہیں —
اپنی اندرونی خلا میں
تمہاری گونج سنتے ہیں۔

ہم سب
ایک ادھوری نظم ہیں —
کسی ایسے شاعر کے منتظر
جو ہمیں مکمل کر دے۔

02/15/2025
06/19/2024

جب ہر طرف انتشار اور بے یقینی کے سائے لہراتے نظر آئیں تو خوشی منانا مشکل ہو جاتا...

https://www.express.pk/story/2641929/268 زباں فہمی نمبر208 ؛ اردوکی نیرنگی
05/20/2024

https://www.express.pk/story/2641929/268 زباں فہمی نمبر208 ؛ اردوکی نیرنگی

اردومیں طویل بحر،درمیانی بحر اور مختصر بحر کی شاعری کی طرح نثر، نیز بول چال کی زبان میں جامعیت واختصار ممکن ہے

05/18/2024

جموعہ کلام ادھورے خواب سے ایک غزل

منافقت میں عظیم دھرتی کے پیرومرشد بدل رہے ہےں
لہو میں پتھر مثال جذبے بھی لمحہ لمحہ پگل رہے ہیں

میں چاہتاہوں کے ملنے آﺅں ،چلی تم آﺅ جہاں ملے تھے
گلوں کی سنگت میں تھے جو لمحے وہ دل میں پھر سے مچل رہے ہیں

لہو سی رنگت کے اشک آنکھوں میں تیرنے کا سبب بتاﺅں
تری رفاقت میں جو ملے تھے وہ زخم سینے میں پل رہے ہیں

لگا کے کاجل لبوں پہ لالی کھڑی ہے گالوں پہ رکھ کے اُنگلی
نظر ملاﺅں تو اُن سے کیسے لہو میں جذبے اُبل رہے ہیں

وہ قید ہیں جوحسین گلشن گلاب وادی سے گل وطن میں
وہ سرہتھیلی پہ رکھ کے گھر سے کفن پہن کے نکل رہے ہیں

بھلائیں کیسے وہ بھائی ،بہنیں ،وہ مائیں بابا،وہ پیرومرشد
لہو سے جن کے چراغ گلشن کی شان راتوں میں جل رہے ہیں

بھلاﺅں کیسے تمہاری آنکھیں گلاب چہرے کی تیری رنگت
تمہارے وعدے تو گل کی سنگت میں جیسے سائے کے چل رہے ہیں

گل بخشالوی ( کھاریاں پاکستان)
٭٭٭

04/03/2024

شاہد صدیقی کا کالمـ - تلوک چند محروم اور راولپنڈی کی یاد 2024-04-03 کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا۔ پڑھنے کے لیے کلک کریں

01/11/2023

انشاؔ جی ہے نام اِنہی کا چاہو تو اِن سے ملوائیں اِن کی روح دہکتا لاوا ہم تو اِن کے پاس نہ جائیں یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں اِن کے ہاتھ ادب سے چومیں اِن...

03/20/2022

  کئی سوالات کے جوابات کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زندگی اور وقت کے شعور کو کسی شاعرہ ن...

02/23/2022

Address

205-335 Webb Drive
Mississauga, ON
L5B4A1

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dastak posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Dastak:

Share

Category