Muhammad Imran

Muhammad Imran To promote your business and collaborate drop an email to [email protected]

پنڈی تینتیس(33) لاکھ روحوں کا شہر، جہاں چھبیس ایم پی ایز اور تیرہ ایم این ایز کی بارگاہیں آباد ہیں۔ مگر المیہ دیکھیے کہ ...
12/09/2025

پنڈی تینتیس(33) لاکھ روحوں کا شہر، جہاں چھبیس ایم پی ایز اور تیرہ ایم این ایز کی بارگاہیں آباد ہیں۔ مگر المیہ دیکھیے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما کی اپنی بہنیں یوں بے سہارگی کی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔
سوچنے کی بات ہے، جس شہر میں سیاست دانوں کی تعداد ٹریفک سگنلوں سے زیادہ ہو، وہاں اگر یہ حال ہے تو باقیوں کا کیا حال ہوگا؟

اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے,اگر یہی خواتین خیبر پختونخوا کے کسی بھی شہر میں ہوتیں، چاہے وہاں جس کا بھی راج ہوتا،اور مان لیا کہ آپ ہمیں پختون ‘ویلا’، ‘سادہ لوح’ یا ‘جذباتی’ کہہ لیتے ہیں، مگر اتنا تو حقیقت ہے کہ ان عورتوں کیلئے ہزار، دو ہزار لوگ نکل ہی آتے ۔
ہم جذباتی سہی، پر بے حس نہیں۔

12/09/2025

پی ٹی آئی والوں کی غلط فہمیاں

12/09/2025

عمران خان صاحب ساڈے تے نہ رہنا ، پنجاب کا عمران خان کو مشورہ

ڈکی بھائی نے اپنی حالیہ ویڈیو میں ایک عجیب و غریب کردار کا ذکر کیا، ایک پراسرار شخصیت جسے وہ “بڑے بھائی” کہتے ہیں، وہی ج...
12/09/2025

ڈکی بھائی نے اپنی حالیہ ویڈیو میں ایک عجیب و غریب کردار کا ذکر کیا، ایک پراسرار شخصیت جسے وہ “بڑے بھائی” کہتے ہیں، وہی جس نے ڈکی بھائی کو ایف آئی اے کے شکنجے سے نکالا ؛ مگر اس کہانی کا
اصل کردار بڑے بھائی نہیں بلکہ، بھائی نظامِ دین ہے۔ اب نظام دین کون ہے؟ کوئی شخص، کوئی افسر یا کوئی ایک ادارہ؟ نظامِ دین ایک علامت ہے,ایک سایہ، ایک سوچ، ایک بیماری، ایک سرطان کے جو پاکستان کے ہر ادارے میں مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ یہ کبھی وردی پہنتا ہے، کبھی کوٹ، کبھی نرم کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ جانے والا وہ شخص بنتا ہے جو قانون پاکستان کو اپنی داشتہ اور رکھیل سمجھتا ہے , یہ کبھی تھانے کا سات سکیل کا حوالدار بنتا ہے جو بغیر ثبوت اور بغیر قانون کے کسی شہری کو بھی حوالات میں پھینک دیتا ہے، کبھی وہی نظامِ دین اسسٹنٹ کمشنر بنتا ہے جو جعلی مقدمے ایسے لکھتا ہے جیسے شاعر غزلیں تراشتے ہیں، کسی کی زمین، دکان، کاروبار، بس دل میں آئی بات اور قانون اس کا ذاتی ملازم بن جاتا ہے۔ کبھی یہی نظامِ دین میجر یا کرنل کی شکل اختیار کر کے پورے آئین کو ایک جملے میں معطل کر دیتا ہے: “نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے!” اور انسان غائب۔ پھر کبھی یہ جج بن کر بیٹھتا ہے، جہاں انصاف کی ترازو اس کی نگاہ کے اشارے پر ڈولتی ہے، طاقتور ہمیشہ پاک ٹھہرتا ہے اور کمزور ہمیشہ مجرم یہ ایک انسان نہیں، ایک چہرہ نہیں، بلکہ پورا سوچا سمجھا نظام ہے جو صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ قانون کتابوں میں بند رہے اور عملی دنیا میں صرف نظامِ دین کی مرضی چلے۔

یہ جو تصویر میں آپ کو ایک خوبرو اور معصوم نوجوان نظر آرہا ہے، یہ نوجوان اب منوں مٹی تلے دفن ہے، اور اس کے ساتھ اس کے خوا...
12/06/2025

یہ جو تصویر میں آپ کو ایک خوبرو اور معصوم نوجوان نظر آرہا ہے، یہ نوجوان اب منوں مٹی تلے دفن ہے، اور اس کے ساتھ اس کے خواب، اس کے خاندان کی خواہشیں اور خوشیاں بھی اس مٹی تلے دفن ہو گئی ہیں۔ اس نوجوان کا نام عدنان عبدالقادر ہے اور اس کا تعلق بنوں سے تھا
عدنان سال 2010 میں ایک پُرسکون اور امید بھری زندگی گزار رہے تھے۔
وہ انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں فائنل ایئر کے طالب علم تھے اور ان کی شادی صرف دو ماہ پہلے ہوئی تھی۔
ان کی والدہ بیوہ تھیں، جن کے لیے عدنان اور اس کی ڈگری کل کائنات اور سب سے بڑی دولت تھی۔
12 مارچ 2010 کو عدنان حسب معمول یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے کمرے میں مطالعے کے دوران موسیقی سے محظوظ ہو رہے تھے۔
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ معمولی سی بات اتنی بڑی مصیبت بن جائے گی کہ اس کی جان لے لے گی۔
ہاسٹل میں موجود اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ طلبہ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور معمولی تکرار کے بعد انہوں نے عدنان پر اپنے کمرے میں بدترین تشدد کیا۔
عدنان اگلے ایک ہفتے تک ہسپتال میں موت سے لڑت رہا اور آخرکار 19 مارچ 2010 کوزندگی کی بازی ہار گئے۔ اس وقت ہم بھی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس تھے اور خیبر پختونخوا
کے تمام تعلیمی اداروں کا ماحول کافی سوگوار تھا۔
کچھ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق، اس واقعے کے تقریباً ایک مہینے بعد عدنان کی والدہ بھی صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور وفات پا گئیں۔
یوں ایک معمولی سی بات نے ایک پورے خاندان کی زندگی اجاڑ دی اور کسی کی ساری خوشیاں مٹا دیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جو ملزمان مبینہ طور پر اس قتل میں ملوث تھے اور تلاشی کے دوران ان کے کمروں سے غیر اخلاقی فلمیں بھی برآمد ہوئی تھیں۔
عدنان کے قاتلوں کو سزا کب ملی، یہ صرف پشاور ہائی کورٹ کے ریکارڈ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی سزا نہیں ہوئی تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان میں انصاف کب ملتا ہے۔
اب اس واقعے کو ملاکنڈ یونیورسٹی کے رقص والے واقعے کے تناظر میں دیکھیں۔
ان دونوں واقعات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔
عدنان کا تعلق فکری طور پر پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سےتھا، اور اسے جمعیت کے سرکردہ طلبہ نے نشانہ بنایا۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کے رقص والے واقعے میں بھی پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلبہ پیش پیش ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے جمعیت کے طلبہ ہیں
آج، ملاکنڈ یونیورسٹی میں استاد کے ثقافتی رقص پر بھی اسی پرانی سیاست کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف رقص یا موسیقی کا نہیں، بلکہ وہی سیاسی اور نظریاتی جنگ ہے،
جو کبھی کبھی نوجوانوں کی زندگی اور خوشیوں کو بھی چھین لیتی ہے۔
عدنان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یونیورسٹیاں علم اور سوچ اور بحث ومباحثوں کی جگہیں ہونی چاہئیں،
نظریاتی لڑائیوں اور تشدد کے میدان نہیں۔

12/06/2025

ده دی رسټورانټ خوراک ډیر مزيدار وو خو‌ ده‌‌ نوم يي سه بل شان دی نو

12/05/2025

چی کرنل یہ ڈی پی او ټنګ ټکور او اتنړ کې واي یاره ډیر زنده دل او خوش بخته دی ، بیا فحاشي او احتجاج نه يي ، په ملاګنډ ډويژن کښی آرمي والا سومره ده ټنګ‌ ټکور پروګرامونو کړی ده ښځو نر ده‌ پاره خو مجال شته که یو مسلمان دهغو خلاف پوسټ هم ګری وي

12/04/2025

ملاکنډ پوهنتون او پښتانه

12/03/2025

قام په تعویزونو اخته دی

12/02/2025

نن صبا کينيډا حالوت خرؤب دی

انٹرنیشنل بے عزتی ، یہ سارے پاکستانی طائف پولیس نے بھیڑ بکریاں چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کئےہیں
11/29/2025

انٹرنیشنل بے عزتی ، یہ سارے پاکستانی طائف پولیس نے بھیڑ بکریاں چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کئےہیں

Address

Montreal, QC

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muhammad Imran posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share