
09/12/2025
گیارہ ستمبر 2008 میری زندگی کا سب سے کٹھن دن تھا۔ اسی دن میں نے اپنے والد کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ یہ رمضان المبارک کا دسواں روزہ اور افطار کا وقت تھا۔ والد صاحب دل کے دورے کے بعد سیدو شریف اسپتال میں داخل تھے۔ طبیعت بہتر تھی، اگلی صبح ہمیں گھر جانا تھا، مگر اچانک ایک اور شدید دورہ پڑا اور لمحوں میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یہ وہ وقت تھا جب سوات پر طالبان کا جزوی قبضہ تھا، فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں معمول تھیں۔ شام کے وقت کرفیو لگ جاتا، موبائل فون بھی اکثر کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔سیدو شریف اور مینگورہ شہر میں مکمل سناٹا اور ہو کا عالم تھا ،اور ہر دس پندرہ منٹ بعد مارٹر گولے اور توپوں کی آوازیں اس سناٹے کو توڑ دیتی تھی، مجھے ایدھی ایمبولینس بلانے کے لیے اندھیرے میں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے سڑک پر آنا پڑا، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں کوئی فوجی کرفیو توڑنے پر گولی نہ مار دے۔ پھر اسپتال سے اپنے گاؤں (دیر) تک ہر چیک پوسٹ پر والد کی میت دکھا کر آگے بڑھنے کی اجازت لینی پڑی۔ یہ سفر اور وہ رات میری زندگی کا سب سے طویل اور اذیت ناک وقت تھا، جو آج بھی دل کو رُلا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ میرے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمارے وطن کو ہمیشہ امن سے نوازے۔ آمین۔