Maktoob Hafiz Mubeen

Maktoob Hafiz Mubeen Maktoob Hafiz Mubeen

03/19/2025

اسلام میں عالمگیریت کا تصور اور موجودہ دور کے ریاستی نظامات

قرآن کی آیات کا مفہوم ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین میں بھیجا

تمام تر انبیاء کسی ایک قوم یا خطے کی طرف بھیجے گئے تاکہ اللہ پہ ایمان لائیں اور انبیاء کے بیان کردہ اطوار پہ زندگی گزاریں

نبی پاک بارے قرآن نے بیان فرمایا کہ انہیں تمام تر جہانوں کے لئے بھیجا گیا

لہذا تمام تر انبیاء کا بنیادی مقصد اپنی قوم کی تربیت پہ رہا تاکہ معاشرہ اللہ کے بیان کردہ احکامات پہ چلے

یہاں یہ حقیقت بہت اہم ہے کہ موجودہ دور کا ریاستی نظام پچھلے تقریبا 500 سالوں میں تشکیل پایا ہے جس میں قومیت پرستی کا تصور مذہب سے بالا تر ہے

پھر اس ریاستی نظام میں بھی سیاسی نظام سے پہلے بادشاہ ہی ریاست سمجھا جاتا تھا

یعنی بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی ریاست سے بغاوت تھی

موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام نے بادشاہ کو ریاست سے مزید علیحدہ کر دیا

یعنی آپ بادشاہ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ریاست کے مجرم نہیں ٹھہرائے جا سکتے

جیسا کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بادشاہتیں ہیں لیکن سیاسی حکومتیں بھی موجود ہیں اور آپ بادشاہ سے اختلاف کر سکتے ہیں

جبکہ اسلام کا تصور عالمگیریت کا ہے

یعنی اس کائنات میں کوئی بھی نظام اللہ کا متعین کردہ ہو گا

سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ تمام تر کائنات اللہ کی تخلیق کردہ یے اور اس کائنات میں ہماری دنیا بھی شامل ہے

اب اگر ایک شخص یا گروہ یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو وہ بالواسطہ اسلام کی اس جڑ پہ حملہ آور ہوتے ہیں کہ اس کائنات کا مالک اللہ رب العزت ہے

اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر اس دنیا میں ایک ریاست بنائی جائے جس کی بنیاد اسلام پہ ہو تو بالواسطہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس ریاست میں ہی اللہ کا قانون نافذ ہو گا

اور دنیا کی باقی ماندہ ریاستیں اللہ کے قانون سے مبرہ ہو گیں

لہذا اگر کوئی بھی شخص یا گروہ اگر اسلام کو بنیاد بنا کر ریاست کی تشکیل دیتا ہے تو صرف اور صرف شخصی مفاد کے لئے ہو گی اور اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

اسی بنیاد پہ مولانا مودودی نے پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی کہ بابا جی صرف اپنی ذاتی اور سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسلام کا سیاسی استعمال کر رہے تھے

مزید یہ کہ اسی بنیاد پہ اس وقت کے چوٹی کے ادارے دارالعلوم دیوبند نے باقاعدہ فتوے جاری کئے کہ بابا جی کا اسلامی ریاست کا مطالبہ اسلام کے مطابق جائز نہیں

اسی بنیاد پہ طالبان افغانستان کا اسلامی ریاست کا نعرہ بھی صرف اور صرف ذاتی مفادات کی جنگ تھا

بعد کے حالات نے اس حقیقت پہ مہر لگا دی کہ طالبان صرف اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے

جب حامد کرزئی کی حکومت میں افغانستان انڈیا سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا تھا تو یہی تعلقات ناجائز اور حرام ٹھہرے

اور اب جبکہ طالبان انڈیا سے امداد کے نام پہ بھیک لے رہے ہیں تو یہی امداد جائز ٹھہری

لہذا اسلام نے 1400 سال پہلے قرآن میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان کیا

مفہوم:

اور اگر ہم انہیں زمین میں اختیار دیں تو یہ اللہ کا نظام قائم کرتے ہیں

یہاں بھی قرآن میں اختیار کا لفظ استعمال ہوا نہ کہ حکومت کا

شاید ہی پورے قرآن یا احادیث میں کہیں اسلامی ریاست کے قیام کا ذکر ہو

اسلام میں زیادہ تر فرض عبادات اجتماعی نوعیت کی ہیں اور نفلی عبادات کو خلوت میں ادا کرنے کو پسند کیا گیا ہے تا کہ انسان کا اللہ سے انفرادی تعلق مضبوط ہو جس سے تقوی کا حصول ممکن ہوتا ہے

جبکہ انبیاء کی پوری زندگی تربیت پہ مشتمل رہی ہے تاکہ انفرادی طور پہ عوام کی اصلاح ہو جس سے معاشرے میں اجتماعی بہتری آئے گی

اور نبی پاک کی مبارک زندگی میں بھی صحابہ کرام کی تربیت کی گئی نہ کہ ریاست کے حصول بارے جدوجہد

پھر موجودہ دور کا ریاستی نظام جو کہ اب ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گیا اسکا وجود ہی اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا

لہذا موجودہ یا آنے والے دور میں اگر کوئی بھی شخص اسلام کے نام پہ ریاست بنانے کا دعویدار ہو گا تو اسکا مقصد ذاتی مفاد اور اقتدار ہو گا نہ کہ اسلام کے اصولوں پہ ریاست کا نفاذ

یہی وہ حقیقت ہے جو پاکستان بننے کے فوری بعد سامنے آئی جب لیاقت علی خان صاحب کے بابا جی سے اختلافات شدت اختیار کر گئے

بابا جی تو جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن بعد میں یہی اختلافات اقتدار کی جنگ میں بدل گئے

لیاقت علی خان صاحب کے پاس اگر تلہ سازش کیس ایک سنہری موقع تھا جس میں ملوث فوجیوں کو پھانسی لگا کر ہمیشہ کے لئے پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنایا جا سکتا تھا

لیکن انہوں نے فوج کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنا زیادہ ضروری سمجھا

لہذا اسی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے

شیخ مجیب اور بھٹو دونوں سیکولر تھے لیکن ذاتی مفادات کی خاطر فوج کو استعمال کیا اور دونوں اسی فوج کے ہاتھوں مارے گئے

بھٹو نے آئی ایس آئی اپنے مخالفین کو رگڑنے کے لئے بنائی اور اسی فوج کے ہاتھوں پھانسی ہوئی

یہی کام بونگے خان نے کیا اور باجوے کے کندھوں پہ سوار ہو کر حکومت بنائی پھر سیاسی مفادات کی خاطر مذہبی چورن بیچا اور اب جیل میں چپیڑیں کھا رہا ہے

یہی کام طالبان افغانستان نے کیا اور مخالفین کے خلاف خود کش دھماکوں کو عین اسلامی اور حلال قرار دے کر استعمال کیا اور آج انکی قیادت انہی خود کش دھماکوں میں ماری جا رہی ہے

اور آپس کے اختلافات میں طالبان کے مختلف دھڑوں کا علیحدہ ہونا اور خانہ جنگی سے قریب تر ہونا اس حقیقت سے قریب تر نظر آ رہا ہے کہ اسلامی نام پہ بنی ریاست اب اقتدار کی جنگ میں مزید لاشیں گرتے دیکھے گی

تاریخ کسی کو نہیں بھولتی اور اصل زر بمع سود لوٹاتی ہے

میں اس حقیقت کو پھر دھراتا ہوں کہ موجودہ یا آنے والے دور میں اگر کوئی بھی شخص یا گروہ اسلام کے نام پہ ریاست بنانے کا دعویدار ہو گا تو اسکا مقصد صرف اور صرف ذاتی مفادات اور اقتدار کا حصول ہو گا نہ کہ اسلامی ریاست کا قیام

حافظ مبین اشرف
مکتوب نیاگرا فالز
اونٹاریو، کینیڈا
23 فروری 2025

03/17/2025

پاکستان کی تباہی کے تین ستون: فوج، مولوی اور عدلیہ – اور ان کا ممکنہ انجام

پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا، اور قیام کے فوراً بعد مذہبی حلقوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ جب ملک اسلام کے نام پر بنا ہے تو یہاں شریعت کا نفاذ ناگزیر ہے۔

تاہم ایک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ قیادت جس کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھی خود اسلام کی روح سے زیادہ سیاست کے تقاضوں کے مطابق کام کر رہی تھی

مذہب کا نام عوام کو جذباتی طور پر احمق بنانے کے لیے ضرور لیا گیا، لیکن عملی طور پر اس کے نفاذ کی نیت نہیں تھی

اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو قیام پاکستان کے بعد آنے والی تمام حکومتوں کے طرزِ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا حقیقی ارادہ کبھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ بابا جی کا ابتدائی خطاب بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

بعد ازاں، فوج نے ریاست کے تمام اہم اداروں پر اپنی شیطانی گرفت مضبوط کر لی، اور اپنے اقتدار کو "اسلامی جواز" دینے کے لیے چندے پہ پلنے والے ملا حضرات کے ساتھ ایک غیر رسمی اتحاد تشکیل دیا، جسے آپ "ملا-ملٹری الائنس" کہ سکتے ہیں

اس اتحاد کو قانونی تحفظ دینے کے لیے عدلیہ نے بھی ایک شرمناک کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں ملک میں طاقت کے یہ تین ستون – فوج، مولوی اور عدلیہ – ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت میں جُت گئے۔

سادہ الفاظ میں پاکستان کی تباہی و بربادی ان تین ستونوں کے ہاتھوں انجام پائی

یہ گٹھ جوڑ سب سے زیادہ جنرل ضیاء کے دور میں مستحکم ہوا، جو مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں کامیاب رہا

تاہم، تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ طاقت کے یہ کھیل زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے، اور بالآخر وہ ایک عبرتناک انجام سے دوچار ہوا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوا

موجودہ صورتحال اور ممکنہ منظرنامہ
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ "شیطانی اتحاد ثلاثہ" اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکا ہے۔ مذہبی طبقہ، جو برسوں تک فوج کی تھپکی پہ اسلامی چورن بیچتا رہا، اب خود اس کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے

جو بھی ملا فوج کے خلاف تنقید کر رہا ہے، اسے خود کش دھماکوں کے نام پہ قتل کرا دیا جاتا ہے

اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ملا صاحبان اپنی جان بچانے کے لیے، ممکنہ طور پر اس نظام کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا علم بلند کر دیں گے

اس تمام تر صورتحال کا ایک اور اہم پہلو پاکستان کی معاشی بدحالی ہے

اگر معیشت مزید زوال پذیر ہوئی جس کا قوی امکان موجود ہے، تو عوام میں موجود غصہ کسی عوامی بغاوت میں تبدیل ہو سکتا ہے

تاہم،تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ پسماندہ ممالک میں عوامی تحریکیں صرف اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب انہیں بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو

بین الاقوامی منظرنامہ اور پاکستان کا مستقبل

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ امریکہ اس خطے میں کیا حکمتِ عملی اپناتا ہے

اگر امریکہ جنگوں سے کنارہ کشی کی اپنی پالیسی پر قائم رہا تو "ڈالر جہاد" خود ہی دم توڑ دے گا، اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گی

یعنی جب ڈالر ہی نہیں ہو گا تو ایمان اتحاد تنظیم کا نعرہ لگانے والی فوج بھی باقی نہیں رہے گی

سادہ الفاظ میں جب سو من تیل ہی نہیں ہو گا تو رادھا کیسے ناچے گی؟

آنے والے دن اس نظام کے لیے شاید آخری ثابت ہوں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظام تباہ ہو جاتا ہے تو کیا پاکستان ایک بہتر سمت میں آگے بڑھ سکے گا؟

یہ وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کی قسمت کیا رخ اختیار کرتی ہے مگر دعا یہی ہے کہ ملک کسی نہ کسی طرح اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے

اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو

حافظ مبین اشرف
مکتوب پکرنگ
اونٹاریو، کینیڈا
۱۶ مارچ، ۲۰۲۵

03/03/2025
02/23/2025

ٹرمپ، کینیڈا اور یورپ ۔ جھینگا لالا اور شوکا لالا میں سے کسی ایک کا انتخاب

جھینگا لالا اور شوکا لالا دو ایسی اصطلاحات ہیں جن کا مطلب آپ کو کوئی لونڈا لپاڑا یا گلی کی نکڑ پہ کھڑا اوباش اپنی حرکات سے سمجھا سکتا ہے

اور یا پھر اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کی ذہنی سوجھ بوجھ آپ کو جس طرف لے جائے بس وہی اسکا مطلب ہو گا

ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ کی دہائیوں پرانی حکمت عملیوں کو جڑ سے ہی تبدیل کر دیا ہے

ٹرمپ کے اٹھائے گئے اقدامات کا اثر دنیا کے کئی ممالک کے لئے انتہائی غیر متوقع اور اسکے اثرات بہت گہرے ہوں گے

خاص طور پہ یورپ کو ٹرمپ نے تقریبا یتیم کر کے رکھ دیا ہے

اور کینیڈا کو ہڑپ کرنے کی دھمکیوں نے امریکہ اور کینیڈا کے دہائیوں پرانے انتہائی دوستانہ تعلقات کو بدترین خطرات سے دوچار کر دیا ہے

یورپ اس وقت انتہائی پیچیدہ صورتحال سے گزر رہا ہے

اسکی وجہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے اختتام پہ روس ٹوٹ گیا تو اسکے بعد نیٹو اتحاد کی ضرورت نہیں تھی

لیکن یورپی ممالک امریکی آشیرباد اور جنگی لابی کے ایما پہ نیٹو کے رکن بنے رہے اور روس سے بلاوجہ دشمنی بڑھاتے رہے

اب ٹرمپ نے چین کو الگ تھلگ کرنے کی خاطر اس 80 سال پرانی حکمت عملی کو ایک مہینے ہی میں ختم کر دیا ہے

اس حکمت عملی کے تحت یورپ کی حفاظت نیٹو کے ذمے تھی جس میں امریکہ کا بہت بڑا کردار تھا

پھر نیٹو کے تقریبا دو تہائی اخراجات بھی امریکہ ہی برداشت کرتا تھا

اب یورپ کے پاس کیا انتخاب بچتے ہیں؟

یا تو روس کے آگے لیٹ جائیں

اور یا پھر اپنے خرچے پہ یورپ میں جنگیں جاری رکھیں لیکن امریکہ کوئی خرچہ نہیں کرے گا

اسکے ساتھ ساتھ کینیڈا اور یورپ پہ امریکی ٹیرف نے معاشی معاملات کو مزید ادھیڑ کر رکھ دیا ہے

اب کینیڈا اور یورپ اگر اس معاملے میں خود کفیل ہونا چاہیں تو انہیں شاید کئی ہزار ارب ڈالر کا بجٹ اپنے دفاع پہ لگانا پڑے گا

اور اس بجٹ کے لئے رقم کہاں سے آئے گی؟

یہ وہ سوال ہے جس نے کینیڈا، یورپ اور موجودہ دور کے تقریبا ہر فساد کی ماں برطانیہ کو چکرا کر رکھ دیا ہے

اب اگر یہ ممالک ٹیکس میں اضافہ کریں تو تعلیم یافتہ طبقہ بھاگنے پہ اور کاروباری طبقہ ان ممالک سے اپنا سرمایہ نکالنے پہ مجبور ہو جائے گا

یعنی کہ شاید تاریخی طور پہ برین ڈرین اور کیپٹل آوٹ فلو ان ممالک کی معاشیات پہ کاری ضرب لگائے گا

اور اگر ٹیکس میں اضافہ نہ کریں تو پھر فلاحی مملکت کا تصور ختم کرنا ہو گا

اسکے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے بجٹ پہ بڑی کٹوتی کرنا ہو گی

اور یہ صورت عوام کے لئے قابل قبول نہ ہو گی

اور ممکنہ طور پہ عوام سڑکوں پہ نکل آئے گی

یعنی دونوں صورتوں میں برے پھنسے والا معاملہ

آسان الفاظ میں ایک طرف جھینگا لالا ہوتا نظر آ رہا ہے اور دوسری جانب شوکا لالا

بالکل یہی صورتحال کینیڈا کو درپیش ہے

اب اگر ٹرمپ کی بات مان لیں تو اپنی خود مختاری ہوا ہو جائے گی

اور اگر نہ مانیں تو عوام کا غصہ ابل پڑے گا

دوسری جانب جرمنی کے الیکشن اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والے ہیں

جرمنی میں امید ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے جیتنے کے کافی امکانات ہیں

اور یہ جماعت روس کی حامی اور یوکرین جنگ کی سخت مخالف سمجھی جاتی یے

لہذا اگر یہ جماعت جیت جاتی ہے تو یورپ کی سالمیت بذات خود خطرے سے دوچار ہو جائے گی

میچ انتہائی دلچسپ صورتحال میں داخل ہو چکا ہے

اور آنے والے چند مہینوں میں واضح ہو جائے گا کہ کینیڈا اور یورپ جھینگا لالا اور شوکا لالا میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں

یا ستم ظریفی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جھینگا لالا کروانے کے بعد شوکا لالا بھی کروا لیں !

نتیجہ کچھ بھی نکلے، ٹرمپ اس دور میں کینیڈا اور یورپ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ضرور ثابت ہوا ہے

زرا سوچئے کہ پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا تو نہیں ہوا؟

77 سال سے اپنے مفادات کی بجائے کرائے کے ٹٹو کی طرح اس ملک کو چلایا گیا؟

یورپ اور کینیڈا کی آبادی کم تھی اور وسائل زیادہ لہذا وہ تو اس حکمت عملی پہ چالاکی سے کھیل گئے

لیکن پاکستان کا کیا ہوا؟

جھینگا لالا بھی اور شوکا لالا بھی

بہرحال موجودہ دور کی سب سے تلخ ترین حقیقت سب کے سامنے ہے

اپنے ملک کو دیکھو، اپنی عوام کو دیکھو ورنہ جھینگا لالا اور شوکا لالا دونوں کے لئے تیار رہو

اور آخر میں پھر اس بات کو بار بار سمجھ کر دھرائیں کہ ٹرمپ کینیڈا اور یورپ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ضرور ثابت ہوا ہے

حافظ مبین اشرف
مکتوب برلنگٹن
اونٹاریو، کینیڈا
23 فروری 2025

02/22/2025

یورپ جانے کے چکر میں المناک ہلاکتیں اور مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشگوئی

پچھلے کئی مہینوں سے بارہا خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستانی یورپ جاتے ہوئے کشتی ڈوبنے سے جاں بحق ہو گئے

حتی کہ کمر عمر بچے بھی ان المناک حادثات میں شامل ہیں

اسی بارے میں مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشگوئی تھی جوآج 77 سال گزر جانے کے بعد سچ ثابت ہو رہی ہے

مولانا ابو الکلام آزاد نے پاکستان کے بارے میں کئی پیشگوئیاں کیں اور ان میں تقریبا تمام ہی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئیں

انہوں نے فرمایا تھا کہ جناح اس وقت کو یاد کرو جب پاکستان کا نوجوان اس ملک کے حالات سے مایوس ہو کر تم سے سوال کرے گا کہ تم نے یہ کیا کر دیا؟

آج پاکستان ان حالات پہ پہنچ چکا ہے کہ ہر شخص پاکستان سے نکلنے کو تیار ہے

اور ان ملکوں میں جانا چاہتا یے جہاں اسے روزگار ملے

اور حقیقت یہ ہے کہ خوشحال ممالک سیکولر ہیں اور وہاں زیادہ تر نظامات دین اسلام کی ضد ہیں

کھانے پینے میں حلال حرام کا مسلہ، بچوں کی تعلیم میں مسائل وغیرہ

حتی کہ امارات جیسے ملک میں بھی قانون بن چکا ہے کہ نوجوان لڑکا لڑکی اکٹھے رہیں، ناجائز بچے پیدا کریں حکومت کو کوئی لینا دینا نہیں

اور سعودیہ کے روشن خیال ہونے کا سفر تو سب کے سامنے ہے

غرض کہ روزگار کے علاوہ تقریبا ہر نظام دین کی جڑ سے ضد ہے

لیکن روزگار کی پریشانی سب پہ بھاری یے

یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسکے بارے نبی پاک کی حدیث کا مفہوم یے کہ فقر کفر تک لے جاتا یے

اسی حقیقت کو مولانا ابو الکلام آزاد نے دہائیوں پہلے سمجھا اور بابا جی کے گوش گزار کیا کہ مسلہ معاش کا ہے نہ کہ ریاست کا

مولانا ابو الکلام آزاد شاید ان چند مذہبی شخصیات میں شامل تھے جو چندے کی کمائی پہ پلنے سے پاک تھے

لہذا ان کے بیان کردہ معاملات روز مرہ زندگی کے حقائق سے قریب تر تھے اور مادی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کردہ تھے

اسکی بنیادی وجہ انکی پیدائش اور زندگی کے ابتدائی ادوار پہ مشتمل تجربات تھے

مولانا ابو الکلام آزاد مکہ میں پیدا ہوئے اور عربوں کی اسلام سے غداری کو اپنی نظر سے دیکھا

انہوں نے دیکھا کہ کسی طرح عربوں نے سلطنت عثمانیہ سے غداری کی اور برطانوی راج سے مل کر سلطنت عثمانیہ کو توڑا اور سعودیہ، قطر، امارات وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی

پھر عربوں کی بدترین قوم پرستی اور بدترین عصبیت کا مشاہدہ بھی کیا

قرآن میں بھی عربوں کی بدترین عصبیت بارے سورت حجرات میں بیان کیا گیا ہے لیکن عرب نبی پاک کے مبارک دور کے فوری بعد اس غلاظت میں گھٹنوں گھٹنوں دفن ہو گئے اور خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا

یہ وہ تلخ حقائق تھے جن کی بنیاد پہ مولانا ابو الکلام آزاد ایک سچے قوم پرست بن کر ہندوستان لوٹے اور جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو آخر تک ڈٹ کر اسکی مخالفت کی

بعد کے دور نے ثابت کر دیا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریبا ہر بات سچی ثابت ہوئی اور پاکستان جو کہ اسلام کے نام پہ بنا آج اس میں کوئی بھی مسلمان نہیں بچا بلکہ ہر فرقے کی نظر میں دوسرا کافر اور جہنمی ٹھہرا

میں اپنی اس بات پہ قائم ہوں کہ اگر آج بابا جی اور گاندھی کو زندہ کیا جائے تو بابا جی گاندھی کی جوتی 1 ہزار بار اپنے سر پہ مار کر پاکستان بنانے سے توبہ کریں گے کہ جس پاکستان میں انکی بہن کی عزت پہ بالکل اسی طرح تہمت لگائی گئی جس طرح بشری بی بی کے حیض پہ تماشا لگایا گیا

جبکہ اس مسلے پہ قرآن کا حکم موجود تھا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی مفتی یا دینی شخصیت کی جرات نہ ہوئی کہ اٹھ کر کہتا کہ قرآن کا تماشا نہ لگاو

اب یہی کام بونگے خان نے بھی کرنے کی کوشش کی کہ جب حکومت ملی تو بجائے عوامی اور معاشی مسائل حل کرنے کے اس نے بھی مذہبی چورن بیچنا شروع کر دیا

لہذا اسکے ساتھ بھی وہی ہوا جو بابا جی کے ساتھ ہوا

بابا جی کی بہن کی عزت پہ تہمت لگی اور بونگے کی بیوی پہ

یہ اللہ کا انتقام ہے جو اللہ ہر صورت لے گا

جو بھی شخص اپنے سیاسی مفادات کے لئے اسلام کا نام استعمال کرے گا اللہ اسے اس دنیا میں خوار کرے گا

اور اس قوم پہ معاشی مسائل مسلط کردے گا

بابا جی پاکستان بنانے میں کامیاب ہو تو گئے لیکن رج کہ خوار ہوئے

انکی تصویر تو نوٹوں پہ لگ گئی لیکن کروڑوں مسلمانوں کی زندگی برباد ہو گئی

یہی مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشگوئی تھی جو آزادی کے 77 سال بعد سچ ثابت ہوئی

حافظ مبین اشرف
مکتوب بوسٹن
ریاستہائے متحدہ امریکہ
15 جنوری 2025

12/06/2024

خبردار:

اس ویڈیو میں دل دہلا دینے والے مناظر عکسبند ہیں

لہذا اپنی ذمہ داری پہ دیکھیں

اور اپنا احتجاج مہذب ترین طریقے سے ریکارڈ کرانے کا بہترین طریقہ فوج کے کاروبار کا مکمل بائیکاٹ ہے

سب سے پہلے اوورسیز پاکستانیوں کے نام کہ وہ ڈی ایچ اے وغیرہ میں سرمایہ کاری مکمل ترک کر دیں

پھر پاکستان میں رہنے والی عوام کے لئے ‏فوجی اداروں کے بائیکاٹ کیلئے سب سے مؤثر ٹارگٹ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ کننزیومر فوڈ پراڈکٹس (فوجی فوڈز) - یہ پراڈکٹس ہر گلی محلے کی دکان میں دستیاب ہیں اور کروڑوں لوگ لاعلمی میں انہیں خریدتے رہتے ہیں
2۔ عسکری بنک - یہ مالی طور پر فوجی اداروں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
3۔ پٹرول پمپس - ریونیو اور کیش فلو کے اعتبار سے یہ بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں
4۔ فرٹیلائزرز (کھاد وغیرہ) - کھپت کے اعتبار سے یہ بزنس بھی فوجی اداروں کیلئے دودھ دینے والی گائے کی حیثیت رکھتا ہے
5۔ مقامی ریٹیل بزنسز - ان میں سی ایس ڈی شاپس سے لے کر بینکوئٹ ہالز تک، سب آجاتے ہیں لیکن یہ ہر شہر میں نہیں ہوتے، البتہ بڑے بڑے تمام شہروں میں پائے جاتے ہیں۔
آپ کی بائیکاٹ مہم کا ٹارگٹ اوپر بیان کی گئی پانچ کیٹیگریز ہونے چاہئیں۔
میں نے دانستہ طور پر فوجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا کیونکہ جب تک شہریوں کے پاس متبادل انتظامات نہ ہوں، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا بائیکاٹ مت کیا جائے۔
امید ہے کہ اس پوسٹ سے آپ کو اپنا ٹارگٹ پہچاننے میں مدد ملے گی!!!

12/04/2024

یہ کلپ قانونِ قدرت کو احسن طریقے سے بیان کرتا ہے
دونوں اللہ کی مخلوق ہیں
لیکن ایک کی فطرت میں دوسرے جاندار کو زندہ چیر پھاڑ کر کھا جانا لکھا ہے
دونوں کی تخلیق اللہ نے کی
لیکن ایک کو طاقتور، غالب یا خونخوار بنایا
جبکہ دوسرے کو اسکی خوراک بنا دیا
یہ سبق آموز کلپ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ماسوائے انبیاء کے، انسانی تاریخ کی قسمت میں اللہ نے طاقتور، ظالم یا خونخوار کو اس دنیا میں غالب کیا ہے
چاہے وہ حیوان ہو یا انسان
لہذا قانونِ قدرت میں احتجاج یا بائیکاٹ کرنا اسی ظالم، طاقتور یا غالب کو مزید تقویت دینے کا باعث ہے
طاقتور بنو، غالب بنو اور دنیا پہ حکومت کرو
ورنہ فلسطینیوں کی طرح کٹتے رہو
بس کٹتے رہو

قانون قدرت یا فطرت پہ دعا غالب نہیں آ سکتی

لہذا صرف دعا کرنے سے دن نہیں بدلیں گے

قانون قدرت پہ عمل کرنا ہو گا

11/20/2024

جب مفتی کی زبان نائی کا استرا بن جائے تو قوم کی گردن اسکا شکار ہوتی ہے

پاکستانیوں ذرا سیدھے سیدھے ہو جاوچھتر مارنے سے پہلے ہمارے کتے پہلے ائیر فورس کے جاج میں ہی بٹھاتے ہیں کچھ یاد آیا؟تے بس ...
11/07/2024

پاکستانیوں

ذرا سیدھے سیدھے ہو جاو

چھتر مارنے سے پہلے ہمارے کتے پہلے ائیر فورس کے جاج میں ہی بٹھاتے ہیں

کچھ یاد آیا؟

تے بس فیر تیار ہو جاو

پاپا کی پلیٹلیٹس گرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے

جب ذلت و رسوائی مقدر ہو تو انسان دیوار پر لکھا نوشتۂ تقدیر نہیں پڑھ پاتا
11/07/2024

جب ذلت و رسوائی مقدر ہو تو انسان دیوار پر لکھا نوشتۂ تقدیر نہیں پڑھ پاتا

Address

214, 5 Lynvalley Crescent, Scarborough
Toronto, ON
M1R2V2

Telephone

+16472475050

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Maktoob Hafiz Mubeen posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Maktoob Hafiz Mubeen:

Share