03/19/2025
اسلام میں عالمگیریت کا تصور اور موجودہ دور کے ریاستی نظامات
قرآن کی آیات کا مفہوم ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین میں بھیجا
تمام تر انبیاء کسی ایک قوم یا خطے کی طرف بھیجے گئے تاکہ اللہ پہ ایمان لائیں اور انبیاء کے بیان کردہ اطوار پہ زندگی گزاریں
نبی پاک بارے قرآن نے بیان فرمایا کہ انہیں تمام تر جہانوں کے لئے بھیجا گیا
لہذا تمام تر انبیاء کا بنیادی مقصد اپنی قوم کی تربیت پہ رہا تاکہ معاشرہ اللہ کے بیان کردہ احکامات پہ چلے
یہاں یہ حقیقت بہت اہم ہے کہ موجودہ دور کا ریاستی نظام پچھلے تقریبا 500 سالوں میں تشکیل پایا ہے جس میں قومیت پرستی کا تصور مذہب سے بالا تر ہے
پھر اس ریاستی نظام میں بھی سیاسی نظام سے پہلے بادشاہ ہی ریاست سمجھا جاتا تھا
یعنی بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی ریاست سے بغاوت تھی
موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام نے بادشاہ کو ریاست سے مزید علیحدہ کر دیا
یعنی آپ بادشاہ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ریاست کے مجرم نہیں ٹھہرائے جا سکتے
جیسا کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بادشاہتیں ہیں لیکن سیاسی حکومتیں بھی موجود ہیں اور آپ بادشاہ سے اختلاف کر سکتے ہیں
جبکہ اسلام کا تصور عالمگیریت کا ہے
یعنی اس کائنات میں کوئی بھی نظام اللہ کا متعین کردہ ہو گا
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ تمام تر کائنات اللہ کی تخلیق کردہ یے اور اس کائنات میں ہماری دنیا بھی شامل ہے
اب اگر ایک شخص یا گروہ یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو وہ بالواسطہ اسلام کی اس جڑ پہ حملہ آور ہوتے ہیں کہ اس کائنات کا مالک اللہ رب العزت ہے
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر اس دنیا میں ایک ریاست بنائی جائے جس کی بنیاد اسلام پہ ہو تو بالواسطہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس ریاست میں ہی اللہ کا قانون نافذ ہو گا
اور دنیا کی باقی ماندہ ریاستیں اللہ کے قانون سے مبرہ ہو گیں
لہذا اگر کوئی بھی شخص یا گروہ اگر اسلام کو بنیاد بنا کر ریاست کی تشکیل دیتا ہے تو صرف اور صرف شخصی مفاد کے لئے ہو گی اور اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں
اسی بنیاد پہ مولانا مودودی نے پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی کہ بابا جی صرف اپنی ذاتی اور سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسلام کا سیاسی استعمال کر رہے تھے
مزید یہ کہ اسی بنیاد پہ اس وقت کے چوٹی کے ادارے دارالعلوم دیوبند نے باقاعدہ فتوے جاری کئے کہ بابا جی کا اسلامی ریاست کا مطالبہ اسلام کے مطابق جائز نہیں
اسی بنیاد پہ طالبان افغانستان کا اسلامی ریاست کا نعرہ بھی صرف اور صرف ذاتی مفادات کی جنگ تھا
بعد کے حالات نے اس حقیقت پہ مہر لگا دی کہ طالبان صرف اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے
جب حامد کرزئی کی حکومت میں افغانستان انڈیا سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا تھا تو یہی تعلقات ناجائز اور حرام ٹھہرے
اور اب جبکہ طالبان انڈیا سے امداد کے نام پہ بھیک لے رہے ہیں تو یہی امداد جائز ٹھہری
لہذا اسلام نے 1400 سال پہلے قرآن میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان کیا
مفہوم:
اور اگر ہم انہیں زمین میں اختیار دیں تو یہ اللہ کا نظام قائم کرتے ہیں
یہاں بھی قرآن میں اختیار کا لفظ استعمال ہوا نہ کہ حکومت کا
شاید ہی پورے قرآن یا احادیث میں کہیں اسلامی ریاست کے قیام کا ذکر ہو
اسلام میں زیادہ تر فرض عبادات اجتماعی نوعیت کی ہیں اور نفلی عبادات کو خلوت میں ادا کرنے کو پسند کیا گیا ہے تا کہ انسان کا اللہ سے انفرادی تعلق مضبوط ہو جس سے تقوی کا حصول ممکن ہوتا ہے
جبکہ انبیاء کی پوری زندگی تربیت پہ مشتمل رہی ہے تاکہ انفرادی طور پہ عوام کی اصلاح ہو جس سے معاشرے میں اجتماعی بہتری آئے گی
اور نبی پاک کی مبارک زندگی میں بھی صحابہ کرام کی تربیت کی گئی نہ کہ ریاست کے حصول بارے جدوجہد
پھر موجودہ دور کا ریاستی نظام جو کہ اب ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گیا اسکا وجود ہی اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا
لہذا موجودہ یا آنے والے دور میں اگر کوئی بھی شخص اسلام کے نام پہ ریاست بنانے کا دعویدار ہو گا تو اسکا مقصد ذاتی مفاد اور اقتدار ہو گا نہ کہ اسلام کے اصولوں پہ ریاست کا نفاذ
یہی وہ حقیقت ہے جو پاکستان بننے کے فوری بعد سامنے آئی جب لیاقت علی خان صاحب کے بابا جی سے اختلافات شدت اختیار کر گئے
بابا جی تو جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن بعد میں یہی اختلافات اقتدار کی جنگ میں بدل گئے
لیاقت علی خان صاحب کے پاس اگر تلہ سازش کیس ایک سنہری موقع تھا جس میں ملوث فوجیوں کو پھانسی لگا کر ہمیشہ کے لئے پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنایا جا سکتا تھا
لیکن انہوں نے فوج کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنا زیادہ ضروری سمجھا
لہذا اسی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے
شیخ مجیب اور بھٹو دونوں سیکولر تھے لیکن ذاتی مفادات کی خاطر فوج کو استعمال کیا اور دونوں اسی فوج کے ہاتھوں مارے گئے
بھٹو نے آئی ایس آئی اپنے مخالفین کو رگڑنے کے لئے بنائی اور اسی فوج کے ہاتھوں پھانسی ہوئی
یہی کام بونگے خان نے کیا اور باجوے کے کندھوں پہ سوار ہو کر حکومت بنائی پھر سیاسی مفادات کی خاطر مذہبی چورن بیچا اور اب جیل میں چپیڑیں کھا رہا ہے
یہی کام طالبان افغانستان نے کیا اور مخالفین کے خلاف خود کش دھماکوں کو عین اسلامی اور حلال قرار دے کر استعمال کیا اور آج انکی قیادت انہی خود کش دھماکوں میں ماری جا رہی ہے
اور آپس کے اختلافات میں طالبان کے مختلف دھڑوں کا علیحدہ ہونا اور خانہ جنگی سے قریب تر ہونا اس حقیقت سے قریب تر نظر آ رہا ہے کہ اسلامی نام پہ بنی ریاست اب اقتدار کی جنگ میں مزید لاشیں گرتے دیکھے گی
تاریخ کسی کو نہیں بھولتی اور اصل زر بمع سود لوٹاتی ہے
میں اس حقیقت کو پھر دھراتا ہوں کہ موجودہ یا آنے والے دور میں اگر کوئی بھی شخص یا گروہ اسلام کے نام پہ ریاست بنانے کا دعویدار ہو گا تو اسکا مقصد صرف اور صرف ذاتی مفادات اور اقتدار کا حصول ہو گا نہ کہ اسلامی ریاست کا قیام
حافظ مبین اشرف
مکتوب نیاگرا فالز
اونٹاریو، کینیڈا
23 فروری 2025