09/24/2025
“ٹرمپ کا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر تنقیدی ردِعمل”
ماخذ : اے پی
ترجمہ وتدوین : ذوھیر عباس
قومی آواز : نیویارک — عالمی فورم پر ایک نیا سیاسی تنازع پھوٹ پڑا ہے، جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے حامی ممالک پر کڑی نکتہ چینی کی، اور اعلان کیا کہ فلسطینی ریاست کی تسلیمیت دراصل “حماس کے ظلم و ستم کا انعام” ہے۔
یہ خبریں آپ قومی آواز کینیڈا کی اردو سروس پر ملاحظہ فرما رہے ہیں
ٹرمپ نے کہا کہ کچھ حلیف ممالک یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست تسلیم کر کے امن کی راہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
“یہ ان جیسے اقدامات ہیں جو جنگ کو فروغ دینے کا پیغام دیتے ہیں … ان انعامات سے حماس دہشت گرد مزید خطرناک ہوں گے۔”
یہ دلیل دراصل اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو کیے جانے والے حملے کی یاداشت سے جڑی ہے، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور کئی دیگر اغوا کیے گئے تھے۔
👇جغرافیائی اور تاریخی موسٹ
پرتگال، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے گزشتہ روز فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
فرانس نے بھی اس تحریک میں آواز شامل کی، جب کہ دیگر یورپی ممالک جیسے بیلجیم، لکزیمبرگ، مالٹا اور موناكو نے اس تسلیمیت کی تصدیق کی ہے۔
تاہم ٹرمپ کا مؤقف رہا ہے کہ یہ اقدامات امن کی بجائے حماس کی طاقت کو سطحی تسلیم سے بڑھاوا دیں گے۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی اس فیصلے کو “اصولی” قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ تسلیمیت دہشت گردی کی توجیہہ نہیں، بلکہ ایک مساوی اور منصفانہ برداشت کی کوشش ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ فلسطینی اتھارٹی کو جنوری 2026 میں انتخابات کا انعقاد کرنا ہوگا، اور حماس کو حکومتی کردار سے باہر رکھا جائے گا۔
👇ٹرمپ بمقابلہ کینیڈا–امریکہ تعلقات
ٹرمپ نے وہی موقف دہرایا جو ان کی پالیسی کا جزوِ لاینفک ہے — کہ امریکی امداد، یونیورسس اور بین الاقوامی اداروں کی شمولیت پر مزید نظر ثانی کی جائے گی۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی کارکردگی کو “خالی نعرے” قرار دیا، اور کہا کہ عالمی ادارہ جنگوں کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔
یہی نہیں، ٹرمپ نے فلسطینی صدر محمود عباس کے ویزا منسوخ کرنے کی کارروائی کو بھی قانونی شکل دی، جس کی بدولت عباس نے جمعہ کو اقوامِ متحدہ میں براہِ راست خطاب نہیں کیا بلکہ ویڈیو لنک کے ذریعے حصہ لیا۔
یہ اقدامات بلاشبہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ امریکہ اس تناظر میں اپنا مؤقف سختی سے سامنے لا رہا ہے۔
👇عالمی ردّعمل اور کشمکش
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے ترمب کے نزدیک بیٹھے ہوئے کہا کہ ریاستِ فلسطین کی تسلیمیت کا مطلب یہ نہیں کہ حملے بھولے گئے ہیں، بلکہ وہ ایک سیاسی حل کا حصہ ہے۔
لیکن ٹرمپ سختی کے لہجے پر قائم رہے اور کہا کہ “خالی الفاظ سے جنگ ختم نہیں ہوتی، کام کرنا پڑے گا”۔
کینیڈا نے اس ضمن میں مزید قدم اٹھایا ہے: اس نے اسرائیل اور فلسطین کو ایک ہی ٹریول advisory (سفری انتباہ) میں شامل کیا ہے، مزید یہ کہ اس نے “Israel and Palestine” کو دستاویزی اعتبار سے دو ریاستوں کی حد بندی کے زمرے میں پیش کیا ہے۔
یہ حکمتِ عملی دراصل بین الاقوامی دباؤ اور تسلیمیت کے اثرات کا آئینہ ہے۔
👇نتائج کا منظر نامہ اور ممکنہ سمت
اگرچہ یہ تسلیمیت فی الحال زیادہ تر علامتی ہے، مگر اس کا سیاسی و اخلاقی وزن کم نہیں۔
– اس نے فلسطینی ریاست کی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط کیا ہے (اب 157 ممالک نے اسے تسلیم کیا ہے)
– اس اقدام نے دو ریاستی حل کے امکان کو دوبارہ اجاگر کیا، اور یہ پیغام دیا کہ عالمی برادری اس سمت میں ہٹ سکتی ہے۔
– مگر اسرائیل اور بعض مغربی ممالک اسے انعام بر دہشتگردی قرار دے رہے ہیں، جس سے سفارتی تناؤ یقینی ہے۔
– اگرچہ تسلیمیت فوری امن نہیں لائے گی، مگر سیاسی گفتگو کا دائرہ وسیع کرنے کا دروازہ کھولتی ہے۔
– امریکہ کی اتحادی پالیسیوں میں ہم آہنگی کمزور پڑ سکتی ہے، خاص طور پر جب ٹرمپ ان ممالک کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
– فلسطینی علاقوں میں حکومت تیار کرنے، استحکام لانے، اور بنیادی انسانی خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری بڑھے گی۔
👇 ایک متوازن جائزہ
یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کی جنگ نے انسانی بحران کو سنگین شکل دی ہے، اور عالمی تجزیہ نگار اسے ایک “ڈپلومیٹک ولولہ” قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کا مؤقف “یادداشتِ ظلم” اور “انعامِ دہشتگردی” کے تناظر میں جڑا ہے، جبکہ کینیڈا اور دیگر ممالک کا موقف امن، انصاف اور متوازن پالیسی کی اندھیرا کو چیرنے کی کوشش ہے۔
یہ کشمکش مستقبل میں صرف خطے کو نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے تعلقات کو بھی متاثر کرے گی۔
خلاصہ 👇
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کی تسلیمیت کو حماس کے جرائم کا انعام قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ اقدام جنگ کو فروغ دے گا۔ دوسری جانب کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور فرانس نے متحدہ طور پر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ دو ریاستی حل کو آگے لے جائے گا۔
یہ خبریں آپ قومی آواز کینیڈا کی اردو سروس پر ملاحظہ فرما رہے ہیں