Atif Razaq

Atif Razaq Digital content creator from Canada 🇨🇦
Watch, Listen and Learn!!! YOUTUBE: https://youtube.com/?si=5qK3xF13Ir65MLZb
(2)

“ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس”یہ پریس کانفرنس سیکیورٹی مسائل پر تھی مگر اس میں سیاسی رنگ اتنا غالب تھا کہ یہ فوج ...
10/10/2025

“ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس”

یہ پریس کانفرنس سیکیورٹی مسائل پر تھی مگر اس میں سیاسی رنگ اتنا غالب تھا کہ یہ فوج کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتی ہے۔ ڈی جی صاحب کے سیاسی اشارے نہ صرف متنازعہ بلکہ صوبوں کے درمیان تقسیم کو بڑھانے والے لگے

ڈی جی صاحب کا یہ بیان کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی بالکل نہیں ہے انتہائی سطحی اور غلط ہے۔ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیاں، کراچی میں ٹارگٹ کلنگز اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی رپورٹس کے مطابق 2025 میں سندھ میں 15% اور پنجاب میں 20% دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ڈی جی صاحب کا یہ بیان صوبائی تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ فوج کو چاہیے کہ پورے ملک کی سیکیورٹی کو ایک یونٹ کی طرح دیکھے نہ کہ صوبوں کو الگ الگ ٹارگٹ کرے

سندھ اور پنجاب کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتیں جبکہ KP کا بارڈر طویل پہاڑی علاقہ ہے جو دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو آسان بناتا ہے۔ ڈی جی صاحب نے سرحد پار دہشت گردی کا ذکر تو کیا مگر KP کی جغرافیائی مشکلات پر تبصرہ نہیں کیا۔ ان کا فوکس صرف “گڈ گورننس” پر تھا۔ KP کی 70% سرحد افغانستان سے ملتی ہے جہاں افغان طالبان اور TTP کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ ڈی جی صاحب سرحدی فینسنگ اور انٹیلی جنس کی ناکامی پر خاموش رہے۔ یہ یک طرفہ بیان KP کو “ناکام” قرار دے کر صوبائی احساس محرومی بڑھاتا ہے

دہشت گرد ا فغانستان سے آتے ہیں اور سرحد پر روکنا فوج اور فرنٹیئر کور کی ذمہ داری ہے نہ کہ صوبائی حکومت کی۔ ڈی جی صاحب نے افغان حکومت سے مطالبہ تو کیا مگر پاکستان کی سیکیورٹی کمزوریوں پر سوال نہیں اٹھایا۔ جیسے ڈرونز، سیٹلائٹ نگرانی اور بی آر اے (Border Rangers Agency) کی کمزوریاں۔ تنقید یہ ہے کہ فوج سرحد کی حفاظت کی بجائے اندرونی سیاست میں ملوث ہو رہی ہے جبکہ اصل مسئلہ سرحدی کنٹرول ہے

ڈی جی صاحب کا PTI کی KP حکومت کو براہ راست نشانہ بنانا (نام لیے بغیر) اور سندھ/پنجاب کی “کامیابی” کا موازنہ صوبوں کے درمیان تقسیم ڈالنے والا ہے۔ فوج کا آئین کے تحت کام دہشت گردی روکنا ہے نہ کہ گورننس کا جائزہ لینا یا عوامی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانا

بلوچستان میں PTI کی حکومت نہیں پھر بھی BLA اور دیگر گروہوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں – 2025 میں 200 سے زائد حملے ہوئے جیسے کوئٹہ بم دھماکے وغیرہ۔ ڈی جی صاحب نے بلوچستان کا ذکر تک نہیں کیا جو ان کے بیانیے کی خامی ہے۔ بلوچستان فوج کی “کالونی” کہلایا جاتا ہے پھر وہاں دہشت گردی کیوں؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ صرف “گورننس” نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام، وسائل کی لوٹ اور علاقائی تنازعات ہیں

یہ پریس کانفرنس فوج کی قربانیوں اور آپریشنز کی تفصیلات کے لیے اچھی تھی مگر سیاسی تنقید نے اسے متنازعہ بنا دیا۔ ڈی جی صاحب کا انداز جارحانہ تھا جو عوام اور فوج کے درمیان خلیج بڑھاتا ہے

یہ وقت تحریک انصاف یا عمران خان کو بدنام کرنے کا نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف متحد ہونے کا ہے۔ فوج کو چاہیے کہ NAP کو پورے ملک میں نافذ کرے، صوبائی تعصب چھوڑے اور سیاست سے دور رہے۔ ورنہ ایسے بیانات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بجائے سیاسی جنگ کو ہوا دیتے رہیں گے

(عاطف رزاق)

افغانستان سے محاذ آرائی: پاکستان کے لیے نقصان دہافغانستان سے کسی بھی قسم کی محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ دونوں م...
10/10/2025

افغانستان سے محاذ آرائی: پاکستان کے لیے نقصان دہ

افغانستان سے کسی بھی قسم کی محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں اور مشترکہ ثقافتی و قبائلی روابط کی وجہ سے تنازعات کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے جو ملکی سلامتی، معیشت اور سیاست کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں

ماضی کے واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسی محاذ آرائی نہ صرف جانی و مالی نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ طویل مدتی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے

ان تنازعات نے پاکستان کی ریاست کو کمزور کیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بغاوت بڑھی جس سے فوجی وسائل ضائع ہوئے۔ تجارت رک گئی اور سیاسی اعتبار سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا

1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے امریکی مدد سے مجاہدین کی حمایت کی۔ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے اور سرحد عبور کرنے والے مجاہدین کی تربیت پاکستان میں ہوئی۔ افغانستان نے اسے اپنی سرزمین پر مداخلت قرار دیا جس سے سرحدی جھڑپیں بڑھیں

پاکستان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ پیدا ہوا—تقریباً 30–40 لاکھ مہاجرین کے بوجھ نے پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں مضبوط کیں کیونکہ مجاہدین کی باقیات سے TTP جیسی تنظیموں نے جنم لیا۔ معاشی طور پر مہاجرین کی میزبانی پر اربوں روپے خرچ ہوئے جبکہ سیاسی طور پر پاکستان کو “دہشت گردوں کی پناہ گاہ” کا لیبل لگا۔ امریکی رپورٹس کے مطابق 2001–2023 تک پاکستان میں 94,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں سے بہت سے افغان تنازعہ کی وجہ سے تھے

‏1990s میں پاکستان نے افغان طالبان کی مالی اور عسکری مدد کی جو 1996 میں کابل پر قبضہ کر گئے۔ 2001 میں امریکی حملے کے بعد بھی پاکستان پر طالبان رہنماؤں (جیسے ملا عمر) کی پناہ گاہ کے الزامات لگے۔ 2011 میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت نے تناؤ بڑھایا۔ افغان صدر حامد کرزئی اور اشرف غنی نے پاکستان کو “غیر اعلانیہ جنگ” کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ 2017 کے کابل بم دھماکے جیسے واقعات میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) پر الزام لگا

2025 میں دار العلوم حقانیہ میں خودکش حملہ ہوا جس میں 6 ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔ سرحد بند ہونے سے لاکھوں روپے کا روزانہ نقصان اور 2023 سے 9 لاکھ افغانوں کی واپسی نے انسانی بحران پیدا کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ محاذ آرائی سے پاکستان کو کبھی فائدہ نہیں ہوا بلکہ یہ دہشت گردی، معاشی گراوٹ اور سیاسی دباؤ کا باعث بنی۔ پاکستان کے تحفظات جائز ہیں لیکن دھمکیوں سے خطے میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے

پاکستان جو پہلے ہی معاشی مسائل سے دوچار ہے ایک نیا محاذ نہیں کھول سکتا۔ تجارت بڑھانے اور سفارت کاری سے استحکام ممکن ہے۔ دونوں ممالک کو سرحدی تنازعات حل کرنے اور مشترکہ سلامتی کے لیے کام کرنا چاہیے ورنہ مستقبل بھی ماضی کی طرح تباہ کن ہوگا

(عاطف رزاق)

🚨 موروثی سیاست بمقابلہ محنت و میرٹمریم نواز اور سہیل آفریدی کا موازنہ پاکستانی سیاست کے دو الگ چہروں کو عیاں کرتا ہے ایک...
10/09/2025

🚨 موروثی سیاست بمقابلہ محنت و میرٹ

مریم نواز اور سہیل آفریدی کا موازنہ پاکستانی سیاست کے دو الگ چہروں کو عیاں کرتا ہے ایک خاندانی اقتدار کی علامت دوسرا محنت اور میرٹ کا نمونہ

مریم نواز کا سیاسی عروج 2017 میں ہوا لیکن یہ PML-N کی خاندانی سیاست کا تسلسل ہے جہاں عہدے عموماً رشتہ داروں کو ملتے ہیں اور عام کارکن کنارے رہ جاتا ہے

2024 میں وہ پنجاب کی وزیراعلیٰ بنیں مگر ان پر مینڈیٹ “چوری” کا الزام ہے۔ پاناما پیپرز اور ایون فیلڈ کیس میں لندن فلیٹس کی غیر قانونی خریداری پر انہیں 2018 میں 7 سال قید کی سزا ہوئی۔ شریف ٹرسٹ سمیت دیگر مقدمات ان کے خاندان کی کرپشن کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کی ساکھ پر یہ الزامات بھاری پڑتے ہیں اور عوام میں انہیں اکثر اشرافیہ کی نمائندہ سمجھا جاتا ہے جو اقتدار کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہے

دوسری جانب، سہیل آفریدی ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہیں۔ خیبر سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ سہیل نے پشاور یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری لی اور زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں قدم رکھا۔ PTI کے Insaf Students Federation کے صدر رہنے کے بعد انہوں نے 2024 کے الیکشن میں PK-70 سے آزاد حیثیت میں 31 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ اب عمران خان نے انہیں وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے

سہیل سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، تعلیم اور صحت جیسے مسائل پر بات کرتے ہیں اور مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی نبض سمجھتے ہیں۔ ان کی ترقی خاندانی اثر کے بغیر محض محنت اور قابلیت کی بنیاد پر ہوئی

مریم کی سیاست پرانے نظام کی پیداوار ہے جہاں اقتدار چند خاندانوں تک محدود ہے۔ کرپشن کے الزامات ان کی ساکھ پر سیاہ دھبہ ہیں اور عوام انہیں اشرافیہ کا حصہ سمجھتی ہے جبکہ سہیل آفریدی نئی سوچ اور صاف ساکھ کے ساتھ ایک امید کی کرن ہیں

پاکستانی سیاست کو خاندانی جاگیروں سے نکل کر میرٹ کی طرف جانا ہوگا اور سہیل جیسے لوگ اس تبدیلی کی علامت ہیں۔ جب تک اقتدار چند خاندانوں کے ہاتھوں میں رہے گا تبدیلی ناممکن ہے

(عاطف رزاق)

قومی وسائل برائے فروخت ۔۔۔ یہاں سب کچھ بِکتا ہے1970 کی دہائی میں تیل کی دریافت کے بعد پاکستانی مزدوروں کو بڑی تعداد میں ...
10/07/2025

قومی وسائل برائے فروخت ۔۔۔ یہاں سب کچھ بِکتا ہے

1970 کی دہائی میں تیل کی دریافت کے بعد پاکستانی
مزدوروں کو بڑی تعداد میں خلیجی ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات بلایا گیا

2025 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان سعودی عرب بھیجے جانے والے کارکنوں کی تعداد کو دوگنا کرنا چاہتا ہے۔ ہدف سالانہ 10 لاکھ کارکن بھیجنے کا ہے جو سعودی عرب کے “وژن 2030” اور 2034 فیفا ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے ہے

لیکن نوجوانوں کی یہ بڑے پیمانے پر ہجرت پاکستان کی ترقی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ 2022 میں 10 لاکھ پاکستانی بیرون ملک گئے جن میں سے نصف سعودی عرب۔ یہ “برین ڈرین” انجینئرز، ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز کو ملک میں کم کر رہا ہے جس سے پاکستان کی معیشت اور انفراسٹرکچر متاثر ہو رہا ہے

سعودی عرب کا “کفالہ سسٹم” مزدوروں کے استحصال کا باعث ہے جیسے پاسپورٹ ضبط، کم تنخواہ، کام کے طویل اوقات اور تشدد۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2025 رپورٹ کے مطابق 77% نجی شعبے کے کارکن اس سے متاثر ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اسے “غلامی نما حالات” کہتی ہے

پاکستانی نوجوان ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں لیکن موجودہ حکمرانوں کی پالیسیاں اس اثاثے کو اندرونی ترقی کے بجائے بیرونی ممالک کی “خدمت” میں جھونک رہی ہیں

یہ پالیسی پاکستانی نوجوانوں کو “برآمد کی اشیاء” بنا رہی ہے جس سے ریمٹینسز تو بڑھتی ہیں لیکن مقامی معیشت، روزگار اور صنعتی ترقی نظر انداز ہو رہی ہے

ملک کے اندر تربیتی پروگرامز، روزگار کے مواقع اور انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی بجائے ریمٹینسز پر انحصار کرنا قلیل مدتی فائدہ تو دیتا ہے لیکن طویل مدتی طور پر پاکستان کو مزدوروں کی “کالونی” بنا رہا ہے

حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو اندرونی طور پر مستحکم کرنے کے لیے تعلیم، ہنر اور مقامی صنعتوں پر توجہ دیں نہ کہ انہیں دوسرے ممالک کے ہاتھ “بیچ” دیں

(عاطف رزاق)

10/07/2025

سعودی عرب نے 2025 میں پاکستانی شہریوں کے لیے “آزاد ویزا” کا نظام متعارف کرایا ہے جو ای-ویزا کی شکل میں دستیاب ہے۔ یہ ویزا کام، کاروبار اور وزٹ کے لیے آسان اور سستا آپشن ہے اور آن لائن اپلائی کیا جا سکتا ہے

“پی سی بی کی پراسرار خاموشی”عمران خان کی 73ویں سالگرہ پر دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اور اداروں نے انہیں زبردست خراج تحسین پ...
10/05/2025

“پی سی بی کی پراسرار خاموشی”

عمران خان کی 73ویں سالگرہ پر دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اور اداروں نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا لیکن اس پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی خاموشی شرمناک ہے

1992 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے عظیم کپتان جنہوں نے پاکستان کرکٹ کو عالمی سطح پر شناخت دی کا نام تک نہ لیا گیا

ویسڈن جیسے عالمی پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا پر عمران کو “پاکستان کا سب سے عظیم کرکٹر” کہا گیا مگر پی سی بی عامر حنیف جیسے کھلاڑیوں کی سالگرہ منانے میں مصروف رہا اور عمران خان کا نام لینے سے کتراتا رہا

عمران خان پاکستان کی قومی شان ہیں اور پی سی بی کی یہ چھوٹی حرکت اور سیاسی بغض عمران کی عظمت کو کم نہیں کر سکتی

یہ شرمناک رویہ ظاہر کرتا ہے کہ کرکٹ اب کھیل نہیں بلکہ محسن نقوی جیسے شرمناک کرداروں کے ہاتھوں سیاسی ایجنڈوں کی کٹھ پتلی بن چکی ہے

(عاطف رزاق )

پاکستان کی سیاست میں منافقت ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ...
10/01/2025

پاکستان کی سیاست میں منافقت

ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کر رہے ہوں اور کہیں “عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی شروع سے ہی ہمارے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے “امن پلان” کی حمایت کر رہے ہیں”

اب سوچیں، اس وقت پورا پاکستان کیسا ہوتا؟ سڑکوں پر لوگ نکل آتے۔ دھرنے، مارچ، جلاؤ گھیراؤ سب کچھ ہو جاتا۔ مذہبی جماعتیں تو فوراً پی ٹی آئی کو “اسرائیلی ایجنٹ” قرار دے چکی ہوتیں۔ انہیں “یہودیوں کی جماعت” کہہ کر بدنام کیا جاتا

سعد رضوی صاحب اپنے حامیوں کے ساتھ فیض آباد پہنچ جاتے اور ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر علماء سب ایک آواز میں عمران خان کو غدار ٹھہراتے۔ فلسطین کی حمایت میں کانفرنسیں، مارچ اور احتجاج کا اعلان ہو جاتا۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ImranKhanZionist ٹرینڈ کرتا اور ملک میں آگ لگ جاتی

یہ خیال پاکستان کی سیاسی حقیقت کو بہت خوبصورت طریقے سے عیاں کر دیتا ہے

اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ 29 ستمبر 2025 کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس ہوئی جہاں ٹرمپ اور نیتن یاہو نے مل کر غزہ کے لیے ایک “امن پلان” کا اعلان کیا۔ اس پلان میں اسرائیل کی فتح کو تسلیم کیا گیا اور فلسطینیوں کو محدود حقوق دینے کی بات کی گئی

ٹرمپ نے صاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر “شروع سے ہی ہمارے ساتھ ہیں”۔ انہوں نے پاکستان کی طرف سے اس پلان کی مکمل حمایت کا شکریہ ادا کیا اور نیتن یاہو نے بھی اس موقع پر اپنی “فتح” کا اعلان کر دیا یعنی غزہ پر اسرائیلی قبضے کو ایک کامیابی قرار دیا

یہ پریس کانفرنس ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا پر براہ راست نشر ہوئی۔ ٹرمپ نے شہباز شریف اور آرمی چیف کی تعریف کی کہا کہ ان کی حمایت سے یہ پلان ممکن ہوا

لیکن ملک میں کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی دھرنا نہیں، کوئی احتجاج نہیں۔ مذہبی جماعتیں خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو

یہاں اسرائیل کی حمایت کا معاملہ ہے، فلسطین کے بہن بھائیوں کا خون بہہ رہا ہے پھر بھی کوئی حرکت نہیں۔ نہ تو کسی نے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کیا نہ ہی شہباز شریف یا عاصم منیر کو “اسرائیلی ایجنٹ” کہا۔ نہ کوئی فتویٰ، نہ کوئی بیان

یہ خاموشی کیوں؟ کیونکہ یہ سیاست نہیں منافقت ہے

(عاطف رزاق)

ٹرمپ پلان: شہباز شریف کی حمایتشہباز شریف نے فلسطین کے بارے میں پاکستان کی دہائیوں پرانی پالیسی کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے ٹ...
09/30/2025

ٹرمپ پلان: شہباز شریف کی حمایت

شہباز شریف نے فلسطین کے بارے میں پاکستان کی دہائیوں پرانی پالیسی کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے ٹرمپ پلان کی حمایت کی۔ یہ فیصلہ بغیر کسی قومی بحث یا عوام کی رائے لیے کیا گیا جس سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں

پاکستانی عوام اور دنیا بھر کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر اس فیصلے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں

�ٹرمپ پلان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو انتہا پسندی سے پاک کیا جائے گا اور یہ دہشت گردی سے آزاد علاقہ بنے گا لیکن اسرائیل کے بارے میں ایسی کوئی بات کیوں نہیں؟ اسرائیل نے بارہا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالا۔ کیا اسرائیل کو “انتہا پسند” نہیں سمجھا جاتا؟

�پلان میں غزہ کے لیے امریکی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کا ذکر ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی باتیں کرنے والے اب غزہ کے لیے ایک ایسی حکومت کیوں چاہتے ہیں جو عملاً نوآبادیاتی کنٹرول میں ہو؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟

�پلان کے مطابق حماس کا غزہ میں کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جس کے دور میں پانچ ممالک پر حملے ہوئے اور 66,000 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں 20,000 بچے شامل ہیں اسے اقتدار میں رہنے کی اجازت کیوں؟

�پلان کہتا ہے کہ غزہ کی ترقی کے بعد “شاید” فلسطینی ریاست کے قیام کی شرائط بن سکیں۔ یعنی دو ریاستی حل دہائیوں تک یا شاید کبھی نہ ہو۔ اس غیر یقینی اور دھوکے کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے؟

�ٹرمپ پلان میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو روکنے یا خالی کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ بستیاں عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اس اہم معاملے پر خاموشی کیوں؟

شہباز شریف کا ٹرمپ پلان کی حمایت کا فیصلہ پاکستانی عوام اور فلسطین کے حامیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ سوالات صرف شہباز شریف کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہیں جو فلسطین کے معاملے پر انصاف اور امن کی بات کرتا ہے۔ پاکستانی قوم کو حق ہے کہ وہ ان سوالات کے جواب مانگے کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان کی طویل عرصے سے جاری فلسطین کی حمایت کی پالیسی کے منافی ہے

(عاطف رزاق)

ٹرمپ کا “امن پلان”ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025 کو غزہ کے لیے اپنا 20 نکاتی نام نہاد “امن پلان” پیش کیا جو ابراہیم معاہدوں کی تو...
09/30/2025

ٹرمپ کا “امن پلان”

ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025 کو غزہ کے لیے اپنا 20 نکاتی نام نہاد “امن پلان” پیش کیا جو ابراہیم معاہدوں کی توسیع ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو مزید تقویت دینے کی ایک مذموم سازش ہے

یہ پلان فلسطینیوں کے بنیادی حقوق چھین کر اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے کی کوشش ہے جہاں حماس کو غیر مسلح کرکے اقتدار سے ہٹانے کی بات کی گئی ہے جبکہ فلسطینی عوام کی رائے اور قربانیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے

یہ پلان حقیقت میں فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنے اور ان کی سرزمین کو اسرائیلی قبضے کے لیے تیار کرنے کی سازش ہے۔ فلسطینیوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے ان کے بچے بھوک اور بموں کی زد میں مر رہے ہیں اور ٹرمپ کا یہ پلان ان کی جدوجہد خاموش کرنے کی کوشش ہے

ابراہیم معاہدوں نے اسرائیل کو عرب ممالک سے تسلیم کروا کر فلسطینیوں کو تنہا کرنے کی بنیاد رکھی اور اب پاکستان، شام اور سعودی عرب جیسے ممالک کو اس دلدل میں گھسیٹنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ پلان حماس کو دہشت گرد قرار دے کر ختم کرنے اور اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کو چھپانے کی ایک چال ہے جہاں ہزاروں معصوم فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے مگر دنیا کی آنکھیں بند ہیں

اس پلان میں ٹونی بلئیر جیسے جنگی مجرم کو شامل کیا گیا ہے جو “بورڈ آف پیس” کا حصہ ہو گا۔ ٹونی بلئیر جو عراق کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور لاکھوں مسلمانوں کی موت کا سبب بنا اب فلسطینیوں کو غزہ سے بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ کیسی امن کی بات ہے جہاں ایک جنگی مجرم کو فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جا رہا ہے؟ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی سرزمین چھیننے کی کھلی سازش ہے

ٹرمپ کے مطابق پاکستان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہے جو قائد اعظم کے ان الفاظ کی کھلی توہین ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ ہماری قومی غیرت کا سوال ہے اور فلسطینیوں کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے

مسلمان ممالک کو اس شیطانی پلان کو فوری مسترد کر کے فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ متحد ہو فلسطینیوں کے درد کو اپنا درد سمجھے اور ان کی چیخوں پر خاموش نہ رہے۔ اگر ہم اب نہ بولیں گے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور کل ہمارا بھی یہی انجام ہوگا

(عاطف رزاق)

چین نے اگست 2025 میں ’کے‘ ویزا متعارف کرایا جو یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا تاکہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی کے شع...
09/29/2025

چین نے اگست 2025 میں ’کے‘ ویزا متعارف کرایا جو یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا تاکہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں بہترین صلاحیت کے حامل افراد کو بلایا جا سکے

ویزا کی درخواست کا عمل آسان ہے اور اس کیلئے چینی کمپنی سے دعوت نامے کی ضرورت نہی ہے

اہل افراد میں نامور یونیورسٹیوں سے گریجویٹس، محققین اور پیشہ ور شامل ہیں اور یہ ویزا نئے گریجویٹس اور کاروباری افراد کے لیے نوکری تلاش کرنے کی سہولت دیتا ہے

امریکہ کی سخت ویزا پالیسیوں کے بعد چین اور تائیوان ٹیک پروفیشنلز کے لیے ترجیحی منزلیں بن سکتے ہیں

ماہرین کے مطابق یہ چین کے لیے عالمی ٹیلنٹ کو راغب کرنے کا اہم موقع ہے

کھیلوں سے لے کر دیگر شعبوں میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھانا ہے۔ جب اقتدار زبردستی ہتھیایا جا...
09/29/2025

کھیلوں سے لے کر دیگر شعبوں میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھانا ہے۔ جب اقتدار زبردستی ہتھیایا جاتا ہے اور نالائقوں کو کرسیاں سونپ دی جاتی ہیں تو اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ کھیلوں میں ناکامی، اداروں کی تباہی اور ہر شعبے میں بدانتظامی

کھلاڑیوں پر تنقید کرنا آسان ہے لیکن جب تک یہ نظام درست نہیں ہوگا کھلاڑیوں سے شاندار کارکردگی کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے

ہمارے کھیلوں کے اداروں میں کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کا راج ہے۔ اوپر سے نیچے تک بدعنوانی اور ناقص منصوبہ بندی نے ہر چیز کو تباہ کر دیا ہے اور یہ صرف کھیلوں تک محدود نہیں ہمارے تعلیمی ادارے، صحت کا نظام اور دیگر سرکاری شعبے بھی اسی تباہی کا شکار ہیں

سب سے پہلے اس بوسیدہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور تنقید صرف کھلاڑیوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ ہمیں ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا جو نااہل ہونے کے باوجود عہدوں پر براجمان ہیں۔ ہمیں شفافیت، میرٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو فروغ دینا ہوگا

جب تک اداروں میں اہل لوگوں کو ذمہ داریاں نہیں سونپی جائیں گی نہ کھیلوں میں بہتری آئے گی اور نہ ہی ملک کے دیگر شعبوں میں ترقی ممکن ہوگی

(عاطف رزاق)

سٹاربکس جو دنیا کا مشہور کافی برانڈ ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ اور کینیڈا میں 124 سٹورز بند کر رہا ہے۔ اس کی وجہ ک...
09/26/2025

سٹاربکس جو دنیا کا مشہور کافی برانڈ ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ اور کینیڈا میں 124 سٹورز بند کر رہا ہے۔ اس کی وجہ کاروبار میں مندی اور پیسے بچانے کی کوشش ہے

کمپنی کے پاس ان دونوں ممالک میں کل 18,300 سٹورز ہیں۔ اس فیصلے سے ہزاروں ملازمین کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سٹاربکس کے سٹورز بند ہونے کی وجہ عالمی بائیکاٹ ہے جو اسرائیل-فلسطین تنازعے کی وجہ سے شروع ہوا۔ لیکن کمپنی کہتی ہے کہ یہ فیصلہ صرف کاروباری وجوہات کی بنا پر ہے

اس بائیکاٹ سے سٹاربکس کو 11 سے 12 بلین ڈالر کا نقصان ہوا

Address

Winnipeg, MB
R3T5L2

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Atif Razaq posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Atif Razaq:

Share