
10/10/2025
“ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس”
یہ پریس کانفرنس سیکیورٹی مسائل پر تھی مگر اس میں سیاسی رنگ اتنا غالب تھا کہ یہ فوج کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتی ہے۔ ڈی جی صاحب کے سیاسی اشارے نہ صرف متنازعہ بلکہ صوبوں کے درمیان تقسیم کو بڑھانے والے لگے
ڈی جی صاحب کا یہ بیان کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی بالکل نہیں ہے انتہائی سطحی اور غلط ہے۔ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیاں، کراچی میں ٹارگٹ کلنگز اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی رپورٹس کے مطابق 2025 میں سندھ میں 15% اور پنجاب میں 20% دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ڈی جی صاحب کا یہ بیان صوبائی تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ فوج کو چاہیے کہ پورے ملک کی سیکیورٹی کو ایک یونٹ کی طرح دیکھے نہ کہ صوبوں کو الگ الگ ٹارگٹ کرے
سندھ اور پنجاب کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتیں جبکہ KP کا بارڈر طویل پہاڑی علاقہ ہے جو دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو آسان بناتا ہے۔ ڈی جی صاحب نے سرحد پار دہشت گردی کا ذکر تو کیا مگر KP کی جغرافیائی مشکلات پر تبصرہ نہیں کیا۔ ان کا فوکس صرف “گڈ گورننس” پر تھا۔ KP کی 70% سرحد افغانستان سے ملتی ہے جہاں افغان طالبان اور TTP کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ ڈی جی صاحب سرحدی فینسنگ اور انٹیلی جنس کی ناکامی پر خاموش رہے۔ یہ یک طرفہ بیان KP کو “ناکام” قرار دے کر صوبائی احساس محرومی بڑھاتا ہے
دہشت گرد ا فغانستان سے آتے ہیں اور سرحد پر روکنا فوج اور فرنٹیئر کور کی ذمہ داری ہے نہ کہ صوبائی حکومت کی۔ ڈی جی صاحب نے افغان حکومت سے مطالبہ تو کیا مگر پاکستان کی سیکیورٹی کمزوریوں پر سوال نہیں اٹھایا۔ جیسے ڈرونز، سیٹلائٹ نگرانی اور بی آر اے (Border Rangers Agency) کی کمزوریاں۔ تنقید یہ ہے کہ فوج سرحد کی حفاظت کی بجائے اندرونی سیاست میں ملوث ہو رہی ہے جبکہ اصل مسئلہ سرحدی کنٹرول ہے
ڈی جی صاحب کا PTI کی KP حکومت کو براہ راست نشانہ بنانا (نام لیے بغیر) اور سندھ/پنجاب کی “کامیابی” کا موازنہ صوبوں کے درمیان تقسیم ڈالنے والا ہے۔ فوج کا آئین کے تحت کام دہشت گردی روکنا ہے نہ کہ گورننس کا جائزہ لینا یا عوامی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانا
بلوچستان میں PTI کی حکومت نہیں پھر بھی BLA اور دیگر گروہوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں – 2025 میں 200 سے زائد حملے ہوئے جیسے کوئٹہ بم دھماکے وغیرہ۔ ڈی جی صاحب نے بلوچستان کا ذکر تک نہیں کیا جو ان کے بیانیے کی خامی ہے۔ بلوچستان فوج کی “کالونی” کہلایا جاتا ہے پھر وہاں دہشت گردی کیوں؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ صرف “گورننس” نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام، وسائل کی لوٹ اور علاقائی تنازعات ہیں
یہ پریس کانفرنس فوج کی قربانیوں اور آپریشنز کی تفصیلات کے لیے اچھی تھی مگر سیاسی تنقید نے اسے متنازعہ بنا دیا۔ ڈی جی صاحب کا انداز جارحانہ تھا جو عوام اور فوج کے درمیان خلیج بڑھاتا ہے
یہ وقت تحریک انصاف یا عمران خان کو بدنام کرنے کا نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف متحد ہونے کا ہے۔ فوج کو چاہیے کہ NAP کو پورے ملک میں نافذ کرے، صوبائی تعصب چھوڑے اور سیاست سے دور رہے۔ ورنہ ایسے بیانات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بجائے سیاسی جنگ کو ہوا دیتے رہیں گے
(عاطف رزاق)