20/09/2025
جدید ذہن سے مکالمہ: مولانا وحید الدین خان اور اردو ادب
یوسف صدیقی
مولانا وحید الدین خان برصغیر کی اُن شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف دین کی تفہیم کو آسان اور عام فہم بنایا بلکہ اردو زبان کو ایک نئی فکری جہت عطا کی۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب کو محض جذباتی یا روایتی اظہار کی سطح سے بلند کر کے ایک ایسی فکری زبان بنا دیا جو جدید ذہن سے مکالمہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
مولانا کی نثر کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور روانی ہے۔ وہ پیچیدہ دینی اور فلسفیانہ مباحث کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری کو مشکل کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے جملے مختصر، بلیغ اور واضح ہوتے ہیں۔ یہی اسلوب ان کی تحریروں کو نہ صرف عام قارئین کے لیے قابلِ فہم بناتا ہے بلکہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے لیے بھی پرکشش بنا دیتا ہے۔ ان کی نثر میں فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ ادبی حسن بھی موجود ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے فکر اور ادب دونوں نے مل کر ایک حسین امتزاج پیدا کر دیا ہو۔
ان کی مشہور کتاب تعبیر کی غلطی ان کے فکری اسلوب کا درخشاں نمونہ ہے۔ اس کتاب میں وہ واضح کرتے ہیں کہ دینی متون کی تعبیر میں سب سے بڑی لغزش یہ ہے کہ لوگ اپنے ذاتی مفروضات کو دین پر مسلط کر دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ دین کے پیغام کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بجائے، اپنے مفروضات کی روشنی میں اس کی تعبیر کرتے ہیں، اور یہی خرابی فکر و عمل کو گمراہ کرتی ہے۔”
یہ اقتباس اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا فکر کو صرف بیان نہیں کرتے بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ان کی دوسری معروف کتاب تعبیر قرآن دراصل ان کی علمی بصیرت اور عصری شعور کا عملی مظہر ہے۔ اس میں انہوں نے قرآن مجید کی وضاحت اس انداز میں کی ہے کہ جدید ذہن رکھنے والا قاری اسے اپنے سوالات اور فکری اُلجھنوں کے جوابات کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ ان کی تحریر قاری کو یہ احساس دلاتی ہے کہ قرآن محض ایک ماضی کی یادگار نہیں بلکہ آج کے انسان کے لیے زندہ حقیقت ہے، جو ہر دور میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
مولانا کی تحریروں میں ہمیشہ ایک خاص توازن ملتا ہے۔ وہ دلیل کو جذبات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو جذباتی ابال میں نہیں بہاتے بلکہ منطقی استدلال کے ذریعے قائل کرتے ہیں۔ ان کا ایک جملہ اس روش کو واضح کرتا ہے:
“اصل حکمت یہ ہے کہ انسان موجودہ دنیا میں حقیقت کو دریافت کرے اور اس دریافت کے نتیجے میں آخرت کی تیاری کرے۔”
یہ جملہ صرف ایک نصیحت نہیں بلکہ ایک مکمل فکری فلسفہ ہے، جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کے حوالے سے حقیقت کی تلاش کی دعوت دیتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان نے اپنے ماہنامہ الرسالہ کے ذریعے نصف صدی تک اردو ادب کو فکر و بصیرت سے مالا مال کیا۔ یہ رسالہ صرف ایک مجلہ نہیں تھا بلکہ ایک فکری تحریک تھا جس میں وہ وقت کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی نثر کا یہ اعجاز ہے کہ وہ جدید فلسفہ، سائنس اور تہذیبی چیلنجز جیسے مشکل ترین مباحث کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ایک عام تعلیم یافتہ شخص بھی ان کو سمجھ لیتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان کی خدمات کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو ایک فکری زبان بنایا۔ ان سے پہلے اردو زیادہ تر جذباتی یا شعری اظہار کا وسیلہ سمجھی جاتی تھی، لیکن مولانا نے اسے علمی اور فکری مکالمے کا آلہ بنا دیا۔ ان کی تحریروں نے یہ ثابت کیا کہ اردو محض شاعری یا قصہ گوئی کی زبان نہیں بلکہ فلسفہ، مذہب اور فکر کی زبان بھی بن سکتی ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ مولانا وحید الدین خان نے اردو ادب کو جدید ذہن سے مکالمہ کرنے کا ایک نیا اسلوب عطا کیا۔ انہوں نے پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کر کے اردو کو ایسا وقار بخشا جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکتی ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات محض ایک شخص کی تحریری میراث نہیں بلکہ اردو کے سنہری ورثے کا حصہ ہیں۔ ان کی نثر آج بھی یہ پیغام دیتی ہے کہ فکر جب وضاحت اور سادگی کے ساتھ بیان ہو تو وہ ادب کا حصہ بن جاتی ہے اور ادب جب حقیقت سے جڑ جائے تو آنے والی صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔
ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی…