22/01/2025
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نور اللہ مرقدہ کا ایک بڑا کارنامہ دیوبندیت؛ بالخصوص دارالعلوم سے خرافات کا انسداد ہے، مفتی صاحب کے شیخ الحدیث بننے سے قبل دارالعلوم میں بھی دیگر مدارس کی طرح ختم بخاری کی تقریب بیاہ شادی کی طرح منعقد کی جاتی تھی، مفتی صاحب نے ہی اس پر قدغن لگایا اور دارالعلوم کو میلے ٹھیلے کی جگہ بننے سے روکا۔
زندگی کے آخری سال تک آپ کا معمول رہا کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک کسی بھی دن بخاری شریف کا آخری درس پڑھا کر دعا کرا دیا کرتے تھے، بسا اوقات دارالعلوم کے بھی بہت سے طلبہ کو دعا کا علم نہیں ہو پاتا تھا۔
کوئی بخاری کے اختتام پر نکاح پڑھانے کی درخواست کرتا تو صاف انکار فرماتے تھے اور یہ آپ کا معمول رہا کہ آپ نے صرف ایک مرتبہ ختم بخاری پر نکاح پڑھایا، وسیم بھائی دورۂ حدیث کے ترجمان تھے، آپ نے ان کا نکاح پڑھایا اور فرمایا کہ کوئی اس نکاح کو دلیل نہ بنائے، آئندہ کوئی نکاح نہیں پڑھاؤں گا۔ اس (وسیم) کا نکاح بھی اس لیے پڑھا رہا ہوں کہ اس نے پورے سال تم طلبہ کی سمع خراشی کی ہے (ترجمان کے بار بار اعلان کرنے اور محنتی ہونے کی طرف اشارہ تھا)۔ اور دارالعلوم کے در و دیوار گواہ ہیں کہ نہ اس سے قبل کسی کا نکاح پڑھایا نہ بعد میں؛ جب کہ بخاری ہر سال مکمل ہوتی رہی۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ رہی کہ وسیم بھائی کے قریبی دوستوں کو بھی تکمیل بخاری کی تاریخ کا علم نہ تھا۔
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ طلبہ نے اندازہ لگا لیا کہ پرسوں بخاری ختم ہوگی اور اپنے رشتے داروں کو مدعو کر لیا، مفتی صاحب نے درس گاہ میں عوام کی غیر معمولی تعداد دیکھی، لمبی تقریر کی اور فرمایا کہ آج کتاب مکمل نہیں ہو سکے گی، عوام اپنے گھروں کو گئی، ترجمان کو مفتی صاحب نے گھر بلایا اور فرمایا کہ رات میں درس ہوگا، اور پھر گیارہ بجے کے قریب بخاری شریف مکمل کرائی اور دعا کرا دی۔ اس طرح مفتی صاحب دارالعلوم کو میلے ٹھیلے کی جگہ بننے سے بچاتے رہے، یہاں تک کہ اکثر طلبہ کا مزاج بن گیا کہ ختم بخاری “ایسے” ہوتی ہے۔
ہمارے سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب میں مفتی صاحب کو لینے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت الاستاذ سر پر دستار باندھے تیار بیٹھے ہیں، مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ بھئی ترجمان! آج میں نے بخاری مکمل کرانے کے لیے پگڑی باندھ لی ہے، مکمل کرا کے ہی پگڑی کھولوں گا، یہ فرمایا اور گاڑی میں بیٹھ کر درس گاہ تشریف لے آئے، ساڑھے بارہ بج گئے؛ لیکن درس جاری رہا تو طلبہ نے مجھے اشارے کرنا شروع کیا کہ وقت ہو چکا ہے اطلاع کر دو، میں نے اشارے سے بتا دیا کہ کتاب مکمل ہوگی اور درس جاری رہے گا، موبائل کا زمانہ ہے، دورۂ حدیث کے گروپ میں خبر عام ہو گئی کہ مفتی صاحب دعا کرانے والے ہیں، بازاروں اور کمروں کی رونق جن طلبہ سے قائم رہتی ہے انھوں نے دارالحدیث کی جانب اڑان بھری، دو طلبہ نے یہ جرأت کی کہ سامنے کی جانب درمیان میں گھسنے لگے اور ان کی کچھ آواز مسند پر جلوہ افروز شیخ تک پہنچی تو شیخ نے اپنے نرالے انداز میں مائک اتار کر پھینک دیا، کتاب بند کی اور فرمایا کہ کتاب مکمل نہیں ہوگی، بعد میں مجھے کہہ دیا کہ اعلان کر دو مغرب بعد درس ہوگا، اور پھر رات میں بخاری شریف کا اختتام ہوا، دعا ہوئی، جس میں دارالعلوم کے بہت سے طلبہ شریک ہوئے اور بہت سے نہیں ہوئۓ؛ کیوں کہ ان کو علم ہی نہیں ہوا کہ بخاری کی دعا ہے!
یہ ہیں وہ طریقے جن سے اپنے ادارے کو خرافات سے بچایا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں موجودہ حالت کی طرف: اس وقت شیخ الحدیث کے عہدے پر مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی (اطال اللہ بقائہ) جلوہ افروز ہیں اور مفتی صاحب بزرگوں کی یادگار ہیں، نمونۂ اسلاف ہیں؛ لیکن ہیں بہ ہر حال انسان، اور انسان اونچے درجے کے، کبھی کبھی اونچے درجے کا شخص نچلوں کی خرافات کو نہیں دیکھ پاتا اور اس کی بنیادی وجہ یا تو کثرت مصروفیت ہوتی ہے یا پھر نالائق شاگرد صحیح صورت حال سے واقف نہیں کراتے اور اصل بات پردے میں رکھتے ہیں؛ ورنہ کیا مجال کہ مہتمم صاحب تک اصل صورت حال پہنچے اور وہ ایکشن نہ لیں۔ ایک واقعہ بہ طور تمثیل پیش کرتا ہوں:
جس سال میں دورۂ حدیث شریف میں تھا ، اس سال مغرب کے بعد بہت سے طلبہ مہتمم صاحب کے ساتھ ہی درس گاہ تک جاتے تھے، میں ترجمان تھا تو میرا ساتھ ہونا واجبی تھا، ہر دن کی طرح میں دائیں جانب تھا، طلبہ کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی، مہتمم صاحب نے اپنے ایک فاضل دوست کا قول نقل کیا جنھوں نے دارالعلوم کی کسی مخصوص ترقی کو مہتمم صاحب کے دس سالہ اہتمام سے منسوب کر کے مبارک باد دی تھی(ترقی والی بات یاد نہیں رہی)۔ مہتمم صاحب کی بات سن کر طلبہ اپنے عمومی مزاج کے مانند ماشاءاللہ سبحان اللہ کہنے لگے؛ مگر مجھے یہ بات کھٹکی کہ ہو نہ ہو کچھ گڑبڑ ہوئی ہے، درس گاہ پہنچتے ہی میں نے کاپی قلم اٹھایا اور جتنی دیر میں عبارت پڑھی گئی ٹھیک اتنی دیر میں ہجری اور عیسوی سن کے مطابق ساری تفصیل قلم بند کی اور واپسی میں جب مہتمم صاحب مہمان خانے کی لفٹ میں جانے لگے تو میں نے با ادب وہ پرچی پیش کی اور جلدی جلدی ساری بات زبانی طور پر بھی دہرا دی، مہتمم صاحب نے بہت غور سے بات سنی اور فرمایا کہ میں یہ پرچہ رکھ سکتا ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! خوش قسمتی ہے میری، اگلے دن جب مہتمم صاحب تشریف لائے تو علی الاعلان اپنے بیان کر دہ واقعے سے رجوع کیا اور سب کو بتایا کہ میرے دس سالہ اہتمام پر اس بات کو منطبق کرنا ٹھیک نہیں، کوئی اس کو آگے بیان نہ کرے، اور توجہ دلانے پر میرا بھرپور شکریہ ادا کیا، جو واقعی “بڑوں” کا کام ہے۔
اس لیے موجودہ وقت نکاح خوانی کے نام پر ختم بخاری میں جو ہو رہا ہے اس پر طرح طرح کی تاویل کرنے کے بہ جائے مہتمم صاحب سے صاف اور سیدھی سی بات عرض کی جائے تو بہ آسانی کام بن سکتا ہے۔ وہ ادارے کی خیرخواہی پر مشتمل ہر مشورے پر کان دھرتے اور عمل کرتے ہیں۔
✍️:۔ کلیم احمد نانوتوی