AB vlogs

AB vlogs Vlogging about China 🇨🇳

رجب بٹ کے خلاف فتوہ آگیا ہے۔کیا اسکو اب بھی فالو کرو گے؟
10/07/2025

رجب بٹ کے خلاف فتوہ آگیا ہے۔کیا اسکو اب بھی فالو کرو گے؟

آج پاکپتن کا بہشتی دروازہ کھولا گیا،یہ پانچ دن عشاء اور فجر کے درمیان کھلا رہے گا۔‏روزانہ اس دروازے سے ڈیڑھ لاکھ لوگ گزر...
02/07/2025

آج پاکپتن کا بہشتی دروازہ کھولا گیا،یہ پانچ دن عشاء اور فجر کے درمیان کھلا رہے گا۔

‏روزانہ اس دروازے سے ڈیڑھ لاکھ لوگ گزریں گے جن کا یہ ماننا ہے کہ جو شخص ایک بار اس دروازے سے گزرا اس کے سبھی گناہ معاف ہونگے،یہ جنتی دروازہ ہے ۔

‏عالم اسلام میں گناہ بخشوانے کی یہ خصوصی سہولت و رعایت پاکستانیوں کے ہاتھ اور حصے میں آئی ہے ۔

‏مسجد الحرام کے 243 دروازے،مسجد نبوی شریف کے 110 دروازے ،قبلہ اوّل بیت المقدس کے 11 دروازے مسلمانوں کے تینوں مقدسات کے مجموعی 364 دروازوں میں سے کسی دروازے کے حصے میں یہ “سعادت “ نہ آئی کہ بندہ صرف نیچے سے گزرے اور گناہوں سے دھل جائے۔

‏میں مگر سوچ رہا ہوں تیرہویں صدی سے پہلے اس خطے کے لوگ گناہ بخشوانے کے لئے کیا کرتے ہونگے ؟

‏جنت کے اس دروازے پر بھیڑ کی وجہ سے 2021 میں 27 افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 2010 میں ایک خودکش بمبار کو بھی باب جنت سے گزر کر چھ افراد کو ہمراہ لیکر بذعم خود جنت جانے کا “شرف” حاصل ہوا تھا ۔

‏یہ جنت کا واحد دروازہ ہے جس پر پنجاب پولیس تعینات ہے۔

‏تحریر: فردوس جمال

🚨 URGENT TRAVEL ALERT: New Airport Policy on Power Banks 🚨 Attention travelers! A new policy is in effect requiring all ...
01/07/2025

🚨 URGENT TRAVEL ALERT: New Airport Policy on Power Banks 🚨 Attention travelers! A new policy is in effect requiring all power banks to have CCC (China Compulsory Certification) for safe travel. Non-compliant devices are being confiscated at airport security checkpoints. 📸 Pictured: A massive pile of seized power banks dumped at the airport. To avoid losing your devices, ensure your power bank meets CCC standards before heading to the airport. Stay informed, check your gear, and travel with confidence! ✈️⚡️

ایسا کوئی لنک جس میں غلط قسم کا مواد ہو کسی بھی صورت کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔ آپ کسی گروپ میں موجود ہیں وہاں ایسا کوئی ...
27/06/2025

ایسا کوئی لنک جس میں غلط قسم کا مواد ہو کسی بھی صورت کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔ آپ کسی گروپ میں موجود ہیں وہاں ایسا کوئی مواد شیئر ہوتا ہے۔ کوئی آپ کو کہے کہ یہ لنک یا مواد ایڈمن کو شیئر کرو یا کسی اور کے ساتھ تاکہ وہ اس کا نوٹس لے، کبھی بھی ایسا نہ کریں۔ اس سے آپ یہ مواد شیئر کرنے کے مجرم بن سکتے ہیں۔ کوئی لڑکی آپ سے رابطے میں آتی ہے۔ آپ کی اس سے بہت اچھی دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ کسی بھی طرح اس طرح کے مواد پر بات کرتی یا اسے کسی بہانے شیئر کرنے/رپورٹ کی صلاح دیتی ہے تو محتاط رہیں۔ یہ ایک ٹریپ ہے۔ آپ کو "توہین مذہب و رسالت" کا مجرم بنایا جا رہا ہے۔
اپنے بچوں کو آگاہی دیں کہ کوئی بھی ایسا گروپ جس میں غلط قسم کی ایکٹیوٹی ہو، کا حصہ نہ بنیں۔ آپ کی اپنے بچوں سے دوستانہ ماحول میں چند منٹ کی اس موضوع پر بات آپ کو مستقبل کے کسی بڑے نقصان اور مصیبت سے بچا سکتی ہے۔ اپنے بچوں سے وقتا فوقتا بات کرتے رہیں۔ انہیں آن لائن سپیس میں ہونے والے جرائم سے متعلق آگاہی دیں۔
کریڈٹ:طاہر چودھری۔

For six years, Dr. Pratik Joshi lived alone in London. During that time, he prepared all the visa documents and legal re...
12/06/2025

For six years, Dr. Pratik Joshi lived alone in London. During that time, he prepared all the visa documents and legal requirements so his wife and children could join him in UK.

That day had finally come.

His wife Komi resigned from her hospital job in India. The kids said goodbye to their school friends. Today, they boarded Air India flight 171 a one way ticket to new beginnings. Pratik took a selfie of them smiling in their seats and sent it to the family group chat. The message read: “Next stop: home.”

But the flight never reached London.

It crashed.

No one survived.

Life is cruel like that. Beautiful, then brutal. So don’t wait. Say what matters. Do what you love. Because tomorrow is never promised.

05/06/2025

ٹرمپ نے "خطرناک غیر ملکی عناصر" کو روکنے کے لیے کئی ممالک سے امریکہ آمد پر پابندی لگا دی

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر (Executive Order 14161) جاری کیا ہے جس کے تحت تقریباً 20 ممالک سے امریکہ میں سفر پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پابندیاں ان ممالک پر لگائی گئی ہیں جنہیں دہشتگردی، ویزا کا غلط استعمال، اور سیکیورٹی معلومات کے تبادلے میں ناکامی کی بنیاد پر "ہائی رسک" قرار دیا گیا ہے۔

12 ممالک جیسے کہ افغانستان، ایران، صومالیہ، لیبیا، اور یمن پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان ممالک کو "انتہائی خطرناک" قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہاں دہشتگردی کا خطرہ زیادہ ہے، حکومتیں کمزور یا دشمن ہیں، اور ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد قیام کرنے والوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ مزید 7 ممالک جیسے وینزویلا، کیوبا، اور لاؤس پر جزوی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

بدھ کی شب ایک ویڈیو پیغام میں ٹرمپ نے کہا:
"حال ہی میں کولوراڈو کے شہر بولڈر میں ہونے والے دہشتگرد حملے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بغیر صحیح جانچ پڑتال کے آنے والے غیر ملکیوں اور ویزا ختم ہونے کے باوجود قیام کرنے والوں سے ہمارا ملک کس قدر خطرے میں ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو نہیں چاہتے۔"

انہوں نے مزید کہا:
"اکیسویں صدی میں ہم نے ایک کے بعد ایک دہشتگرد حملہ دیکھا ہے جو ویزا اوور اسٹیئرز نے کیا، خاص طور پر ان ممالک سے جہاں کا ماحول خطرناک ہے۔ بائیڈن کی اوپن ڈور پالیسیز کی وجہ سے آج ملک میں لاکھوں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔"

ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پہلی مدتِ صدارت میں لائی گئی سفری پابندیاں "انتہائی کامیاب" رہیں اور امریکہ کو بڑے دہشتگرد حملوں سے بچانے میں "کلیدی کردار" ادا کیا۔

مثال کے طور پر، افغانستان میں اسٹوڈنٹ ویزا کی اووراسٹیئر ریٹ 29.3% ہے اور یہ ملک طالبان کے کنٹرول میں ہے، جو ایک عالمی دہشتگرد تنظیم کے طور پر نامزد ہے۔ ایران کو اب بھی دہشتگردی کا حمایتی ملک سمجھا جاتا ہے اور وہ امریکی حکام کے ساتھ تعاون سے انکاری ہے۔ لیبیا، صومالیہ اور یمن میں مستحکم حکومتیں موجود نہیں جو محفوظ دستاویزات جاری کر سکیں۔

"ہم ایسے کسی بھی ملک سے کھلی امیگریشن کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں کے شہریوں کی مؤثر جانچ پڑتال اور اسکریننگ ممکن نہ ہو،" ٹرمپ نے کہا۔

آخر میں انہوں نے اعلان کیا:
"اسی لیے آج میں ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر رہا ہوں جس کے تحت یمن، صومالیہ، ہیٹی، لیبیا اور دیگر کئی ممالک سے سفر پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اور امریکہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم ہر قدم اٹھائیں گے۔"

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور 28 مئی 1998 کے ایٹمی تجربات: پاکستان کی عظیم کامیابی اور سیاسی جماعتوں کی ناانصافی28 مئی 1998 کا...
28/05/2025

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور 28 مئی 1998 کے ایٹمی تجربات: پاکستان کی عظیم کامیابی اور سیاسی جماعتوں کی ناانصافی

28 مئی 1998 کا دن پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا، جب پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے دنیا بھر میں اپنی دفاعی صلاحیت کو ناقابل تسخیر بنایا۔ یہ تاریخی لمحہ نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور دفاعی قوت کا مظہر تھا بلکہ ایک ایسی کامیابی تھی جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کروایا۔ اس عظیم کارنامے کے پیچھے ایک نام نمایاں ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنہیں پاکستان کے جوہری پروگرام کا بانی اور "محسن پاکستان" کے لقب سے نوازا گیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اس کامیابی کا کریڈٹ لینے کی دوڑ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ یہ مضمون ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی اس ناانصافی پر تنقید کرتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جو یکم اپریل 1936 کو بھوپال، بھارت میں پیدا ہوئے، ایک ماہر دھات کاری اور جوہری سائنسدان تھے۔ 1952 میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی اور بعد میں جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیم سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ 1972 میں انہوں نے بیلجیم کی کیتھولک یونیورسٹی آف لیوین سے دھات کاری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب 1974 میں بھارت نے اپنا پہلا جوہری تجربہ "سمائلنگ بدھا" کیا۔ اس واقعے نے ڈاکٹر خان کو پاکستان کے جوہری پروگرام میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔

1974 میں ڈاکٹر خان نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ انہوں نے یورینیم افزودگی کے لیے گیس سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر مبنی پروگرام کی تجویز دی، جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے زیادہ موثر تھی۔ 1975 میں وہ ہالینڈ سے پاکستان واپس آئے اور یورینکو (Urenco) سے حاصل کردہ سینٹری فیوج کے ڈیزائن کی کاپیاں اور سپلائرز کی فہرست ساتھ لائے۔ 1976 میں انہوں نے کاہوٹہ میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز (ای آر ایل) کی بنیاد رکھی، جسے بعد میں خان ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کا نام دیا گیا۔ ان کی قیادت میں 1978 تک پاکستان نے یورینیم کی افزودگی شروع کردی، اور 1980 کی دہائی کے وسط تک پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی مقدار میں ہائیلی اینرچڈ یورینیم (HEU) موجود تھا۔

28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے چاغی-I کے نام سے اپنے پہلے جوہری تجربات کیے، تو یہ ڈاکٹر خان کی سربراہی میں تیار کردہ HEU پر مبنی تھے۔ انہوں نے نہ صرف سینٹری فیوج ٹیکنالوجی متعارف کروائی بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا، جس میں یورپ کے مختلف ممالک سے پرزہ جات کی خریداری شامل تھی۔ ان کی تکنیکی مہارت اور لگن نے پاکستان کو اس قابل بنایا کہ وہ بھارت کے جوہری تجربات (پوکھران-II) کے صرف 17 دن بعد اپنے تجربات کرکے دنیا کو حیران کردے۔ ڈاکٹر خان کی اس کامیابی نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا اور قوم کو فخر کا ایک نیا موقع فراہم کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز دونوں ہی 28 مئی 1998 کے جوہری تجربات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ پی پی پی کا دعویٰ ہے کہ جوہری پروگرام کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی، جنہوں نے 1972 میں اس پروگرام کا آغاز کیا اور ڈاکٹر خان کو پاکستان بلایا۔ دوسری طرف، پی ایم ایل این کا کہنا ہے کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کیا، جنہوں نے امریکی دباؤ کے باوجود یہ تجربات کروائے۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے ادوار میں اہم کردار ادا کیا، لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ان کے بیانات میں یا تو مکمل طور پر غائب ہوتا ہے یا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے۔

یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس عظیم سائنسدان کی خدمات کو نظرانداز کرتی ہیں۔ ڈاکٹر خان کے بغیر پاکستان کا جوہری پروگرام اس مقام تک نہ پہنچ سکتا جہاں وہ آج ہے۔ انہوں نے نہ صرف تکنیکی مہارت فراہم کی بلکہ اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی سال وقف کیے۔ ان کی محنت، لگن اور حب الوطنی نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنایا، لیکن سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سیاست کے لیے ان کی قربانیوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔


پی پی پی اور پی ایم ایل این کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو نظر انداز کرنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ قومی تاریخ کے ساتھ بددیانتی بھی ہے۔ جب 2004 میں ڈاکٹر خان پر جوہری ٹیکنالوجی کی غیرقانونی منتقلی کے الزامات لگے، تو انہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے قومی ٹیلی ویژن پر معافی مانگی اور اپنی حرکتوں کی ذمہ داری قبول کی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے ایک بڑے نیٹ ورک کو اکیلے چلانا ممکن نہیں تھا۔ اس کے باوجود، سیاسی جماعتوں نے انہیں قربانی کا بکرا بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ان کی عزت نفس کو مجروح کیا۔

پی پی پی، جو ذوالفقار علی بھٹو کے جوہری پروگرام کے آغاز کا کریڈٹ لیتی ہے، نے ڈاکٹر خان کی خدمات کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ کنجوسی کی۔ اسی طرح، پی ایم ایل این، جو نواز شریف کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتی ہے، ڈاکٹر خان کی تکنیکی شراکت کو کم تر کرتی ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے سیاسی بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے اس قومی ہیرو کو پس منظر میں دھکیل دیتی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ڈاکٹر خان کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ پاکستانی قوم کے ساتھ بھی دھوکہ ہے، جو انہیں اپنا محسن مانتی ہے۔

مزید برآں، جب 2004 میں ڈاکٹر خان کو گھر میں نظر بند کیا گیا، تو نہ پی پی پی نے اور نہ ہی پی ایم ایل این نے ان کے دفاع میں کوئی مضبوط آواز اٹھائی۔ اس وقت پاکستانی عوام نے احتجاج کیا اور ڈاکٹر خان کے حق میں مظاہرے کیے، لیکن سیاسی جماعتوں نے خاموشی اختیار کی۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ان جماعتوں کے لیے قومی ہیروز کی قدر سے زیادہ سیاسی فائدہ اہم ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات 10 اکتوبر 2021 کو ہوئی، لیکن ان کی خدمات پاکستانی قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انہوں نے پاکستان کو ایک ایسی طاقت دی جو اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتی ہے۔ ان کی بدولت پاکستان آج عالمی سطح پر ایک جوہری طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے نام سے منسوب متعدد اسکول، یونیورسٹیاں اور ہسپتال اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی عوام انہیں کتنی عزت دیتی ہے۔

28 مئی 1998 کے جوہری تجربات پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم سنگ میل ہیں، اور اس کامیابی کے پیچھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کلیدی کردار ناقابل فراموش ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل این کا یہ رویہ کہ وہ اس کامیابی کا کریڈٹ اپنے نام کرتی ہیں اور ڈاکٹر خان کا ذکر گریز کرتی ہیں، نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ قومی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔ پاکستانی قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عظیم ہیرو کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرے کہ وہ ڈاکٹر خان کی میراث کو وہ عزت دیں جو اس کا حق ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ صرف پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی تھے بلکہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی حب الوطنی سے قوم کو فخر سے سر بلند کیا۔ انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔

27/05/2025

لبيك اللهم لبيك !!
لیبیا سے تعلق رکھنے والا "عامر" اس سال حج کی نیت سے عازم سفر ہوا تو ایئرپورٹ پرنام میں (القذافی) ہونے کے سبب سیکورٹی کلیئرنس ملی اور جہاز عامر کے بغیر ہی پرواز کر گیا،فنی خرابی کے سبب کچھ ہی دیر میں جہاز کو واپس اسی ایئرپورٹ پرلینڈنگ کرنا پڑی، عامر نے کوشش کی کہ وہ بھی حج بیت اللہ کے لیے جہاز میں سوار ہو مگر پائلٹ نے جہاز کے دروازے کھولنے سے انکار کر دیا اور ٹیکنیکل کلیرنس کے بعد جہاز ایک بار پھر پرواز کر گیا !!
لیکن ایک بار پھر فنی خرابی کے سبب واپس لینڈنگ کرنا پڑا،عامر نے اس بار پھر سفر کی کوشش کی مگر پھر انکار ہوااور جہاز پرواز کر گیالیکن تیسری بار پھر فنی خرابی کے باعث جہاز کو واپس لوٹنا پڑااس بار پائلٹ نے کہا کہ جب تک "عامر" جہاز میں سوار نہیں ہوتا وہ جہاز نہیں اڑائیں گےاس بار عامر کو سیکورٹی کلیئرنس کے بعد جہاز کے مسافروں میں شامل کیا گیا اور جہاز بخیر وعافیت سعودیہ کے ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا!!
زیارت بیت اللہ الحرام کے لیے قبولیت اصل ہےکچھ لوگ زمین پہ غیر معروف ہیں لیکن عرش پہ معروف و محبوب ہیں!!!

19/05/2025

ہر گھر سے چاہت فتح علی خاں نکلے گا😂

گوگی ڈان کے بارے برطانیہ کی نیوز ایجنسی کی طرف سے شائع کی جانے والی خبر کا اُردو ترجمہ۔'زہریلا' باپ کمرے میں بیٹھا TikTo...
16/05/2025

گوگی ڈان کے بارے برطانیہ کی نیوز ایجنسی کی طرف سے شائع کی جانے والی خبر کا اُردو ترجمہ۔

'زہریلا' باپ کمرے میں بیٹھا TikTok دیکھتا رہا – پھر بیٹے کی بیوی مردہ پائی گئی

نذیم بیگم، 53 سالہ سابق سیکیورٹی گارڈ، نے اپنے بیٹے کی بیوی کو گھر کے کام کاج کے مطالبے پر گلا دبا کر قتل کر دیا جبکہ وہ خود کمرے میں بیٹھا سوشل میڈیا پر وقت گزار رہا تھا۔

مانچسٹر کراؤن کورٹ کے جیوری نے نذیم بیگم کو قتل کا مجرم قرار دے دیا ہے، اور اب اسے عمر قید کی سزا کا سامنا ہے۔ نذیم بیگم ذیابیطس کی وجہ سے پاؤں کی انگلی کو نقصان پہنچنے کے بعد تقریباً ایک سال سے کام سے رخصت پر تھا۔ وہ زیادہ تر وقت گھر پر اپنے کمرے میں TikTok دیکھتے گزارتا اور Mashal Ilyas سے گھر کے تمام کام کروانے کی توقع رکھتا۔

مشال کی شادی نذیم کے بیٹے گلریز سے ارینج میرج کے تحت ہوئی تھی اور وہ ملتان، پاکستان سے مانچسٹر آ کر اس کے گھر میں رہنے لگی تھی۔ وہ گلریز کے بھائی دانش، اس کی بیوی، دو بچوں، دو بہنوں اور والدین کے ساتھ گھر شیئر کر رہی تھی۔

اپنے خاندان اور دوستوں کو بھیجے گئے پیغامات میں مشال نے گھر کے حالات پر تشویش ظاہر کی۔ نذیم بیگم خاص طور پر اس بات پر ناراض تھا کہ وہ صرف اپنے شوہر کے لیے صفائی کرتی تھی۔ اس کا مطالبہ تھا کہ وہ پورے خاندان کے لیے کھانا پکائے اور صفائی کرے۔

مشال نے اسے "آمرانہ مزاج" کا شخص قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ روایتی گھریلو کردار کی توقع کرتا ہے۔ پاکستان میں وہ ایک نسبتاً آزاد خیال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونا اس کے لیے مشکل تھا۔

اس نے بتایا کہ اس کے نذیم سے اکثر جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور وہ اسے "زہریلا" (toxic) شخص سمجھتی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر نذیم اسے مارے تو گھر والے شاید کچھ نہ کہیں۔ ایک موقع پر جب اس نے اپنی دوست کو گھر بلانے کی اجازت مانگی تو نذیم نے فوراً انکار کر دیا۔

ایک دن جب گلریز گھر واپس آیا تو مشال رو رہی تھی۔ گلریز نے اپنے والد سے جھگڑا کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے دوبارہ اس کی بیوی سے ایسا سلوک کیا تو وہ گھر چھوڑ دیں گے۔ بعد میں وہ باپ بیٹے صلح کر لیتے، مگر نذیم مشال کو اگلے دن تک نظرانداز کرتا رہا — جب اس نے اسے قتل کر دیا۔

مشال کے فون پر موت کے بعد ایک نوٹ ملا جس میں لکھا تھا:
"ہر وقت کے کاموں سے تنگ آ چکی ہوں۔ کوئی عزت نہیں۔ مجھ سے بات نہیں کرتے۔ میں بھی زیادہ بات نہیں کرتی۔ منفی توانائیاں ہر طرف ہیں۔"

قتل کا دن:
9 اکتوبر کو صبح 7:30 بجے مشال نے نذیم اور اس کی بیوی کو ناشتہ دیا۔ نذیم نے TikTok پر ویڈیوز دیکھتے ہوئے ناشتہ کیا اور پھر کمرے میں چلا گیا۔

گلریز نے مشال کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر کام پر چلا گیا۔ اس نے اپنی بیوی کو "گڈ مارننگ" کا پیغام بھیجا جس کا جواب اسے "عجیب" سا لگا۔

عدالت میں نذیم نے کہا: "زیادہ وقت TikTok دیکھنے یا سونے میں گزارتا ہوں۔" اس نے دعویٰ کیا کہ وہ صرف ناشتے پر مشال سے ملا اور باقی وقت اسے دیکھا یا سنا نہیں۔

صبح 10:15 پر مشال نے اپنی والدہ سے فون پر بات کی، اور پھر کہا کہ اسے واشنگ مشین دیکھنی ہے۔ اس نے فون بیڈ پر رکھا اور چلی گئی۔

نذیم نے عدالت میں کہا کہ وہ 10:30 پر جاگا اور باتھ روم گیا، جہاں اسے مشال فرش پر بے ہوش ملی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے مدد کے لیے پکارا اور اپنے بیٹے دانش کو فون کیا کیونکہ اسے ایمبولینس کا نمبر نہیں آتا تھا۔ اس نے کہا کہ شاید کوئی گھر میں گھس آیا اور مشال پر حملہ کیا۔

ایمرجنسی سروسز پہنچی لیکن مشال موقع پر ہی دم توڑ چکی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں گردن، چہرے، بازو پر چوٹ کے نشانات، ایک ناخن ٹوٹا ہوا اور دماغ پر خون پایا گیا۔ موت کی وجہ گردن پر دباؤ اور سانس کی نالی کا بند ہونا قرار دیا گیا۔

ڈی این اے کا سراغ:
مشال نے اپنی جان بچانے کے لیے حملہ آور کو گردن پر خراش ماری تھی۔ اس کے ناخنوں سے نذیم کا ڈی این اے ملا اور اس کی گردن پر خراش کا نشان بھی تھا۔ گرفتاری کے وقت معلوم ہوا کہ اس نے اپنے فون کا پاس کوڈ تبدیل کر دیا تھا۔

اس کے فون سے معلوم ہوا کہ اس دن صبح 6:49 سے 7:25، پھر 7:45 سے 9:45 تک وہ TikTok دیکھتا رہا۔ اس کے فون میں "strangulation restraints" (گلا دبانے کے طریقوں) کی تصویر بھی ملی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسی تصویر فون میں کیوں ہے تو اس نے کہا: "پتہ نہیں۔"

عدالت میں اس نے کہا کہ مشال "بہت عزت دار" لڑکی تھی، لیکن مشال کے فون پر نوٹ میں وہ اسے "کنٹرول کرنے والا" قرار دیتی ہے۔ اس نے لکھا:
"اسے سب کچھ پرفیکٹ چاہیے ہوتا ہے – اگر کوئی چیز غلط ہو تو وہ بادشاہ کی طرح سزا دیتا ہے۔"

نذیم بیگم کو جلد عمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔

Source:

Nadeem Begum, 53, strangled his daughter-in-law to death after making demands that she do chores around the house while he lazed about scrolling on social media

28/02/2025

USA & Ukraine Presidents Dialogue! Interesting!

04/10/2024

‏دولت ایک جھٹکے میں
اور خوبصورتی ایک بیماری میں اور عزت ایک غلطی سے فنا ہو جاتی ہے
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں غرور و تکبر سے بچائے آمین

Address

Shanghai

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AB vlogs posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share