Urdu Adab Page

Urdu Adab Page This Page is Urdu Adab page For Poetry ,Urdu Posts,Urdu Interests for Interesting People,Like and Share to promote Urdu..

04/12/2025
منیر نیازی صاحب کو ایک نوجوان نے اپنی غزل سُنائی تو اُنہوں نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اُس غزل کو اُردو شاعری میں ایک بہ...
07/10/2025

منیر نیازی صاحب کو ایک نوجوان نے اپنی غزل سُنائی تو اُنہوں نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اُس غزل کو اُردو شاعری میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا۔

شامتِ اعمال کہ اگلے روز اُس لڑکے نے وہی غزل حلقۂ اربابِ ذوق کے تنقیدی اجلاس میں پیش کر دی۔ اجلاس کے شرکاء نے اُس کی غزل کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور اُسے شاعری کا ایک بدنما داغ قرار دیا۔

وہ لڑکا منہ بسورے منیر نیازی صاحب کے پاس آیا اور بولا:-

" سر آپ نے تو کہا تھا کہ یہ بہت اچھی غزل ھے مگر حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں تو اسے شاعری کا ایک بدنما داغ قرار دیا گیا"

منیر نیازی مُسکرا کے بولے :-

" پُتر - - - جے ماں کدی پیار نال چن کہہ دیوے تے مقابلہ حُسن وچ حصہ لین نئیں ٹُر جائی دا ۔۔

18/09/2025
نیل آرمسٹرانگ کا انتقال 25 اگست 2012 کو سنسناٹی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی۔ نیل آرمسٹرانگ لکھتے ہیں کہ جب ہم ...
26/08/2025

نیل آرمسٹرانگ کا انتقال 25 اگست 2012 کو سنسناٹی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی۔ نیل آرمسٹرانگ لکھتے ہیں کہ جب ہم خلائی جہاز پر سوار ہونے کے لئے نکلے تھے تو میں نے سب کو دیکھ کر اعتماد سے انگوٹھا دکھایا۔ ہم خود اتنے پراعتماد نہیں تھے۔ تھوڑا نروس اور تھوڑا جوش، یہ ملی جلی سی کیفیت تھی۔ راکٹ میں بلند ہوتے وقت بہت شور ہوتا ہے اور اس قدر جھٹکے جیسے کسی ٹرین میں بیٹھے ہوں جو خراب ٹریک پر چل رہی ہے۔ اس مشن کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ تھیں اور بہت سے لوگوں کی بڑی محنت لگی تھی۔ آپ کو یہ سب چھوڑ کر صرف ایک چیز پر فوکس کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کاک پٹ میں آپ خود کوئی غلطی نہ کریں۔ آپ کے ہاتھ میں بس یہی کچھ ہے۔ میری اپنی زندگی نے اور شوق نے مجھے اس مشن کے لئے تیار کیا تھا۔ بچپن سے ہی اڑنے کا اور جہازوں کا شوق رہا تھا۔ مجھے پائلٹ کا لائسنس سولہ سال کی عمر میں مل گیا تھا۔ اس وقت مجھے گاڑی ڈرائیو کرنا نہیں آتی تھی۔ اکیس سال کی عمر میں میں کوریا کی جنگ میں لڑاکا طیارے اڑا کر مشن پر جایا کرتا تھا۔ جنگ کے بعد ٹیسٹ پائلٹ بن گیا جس کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربے کرنے کے لئے دئے جاتے تھے۔ ایکس 15 جہاز کو چار ہزار میل فی گھٹنہ کی رفتار سے انتہائی بلندی پر چلانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب 1962 میں مجھے اپنی تین سالہ بیٹی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کی موت دماغ کے کینسر سے ہوئی تھی۔ آپ بچے کی موت کو نہیں بھلا سکتے۔ اس کا نشان آپ پر زندگی بھر کے لئے رہ جاتا ہے لیکن اس کا مقابلہ کرنے کا طریقہ زندگی کو مصروف طریقے سے گزارنا ہے۔ یہی وہ سال تھا جب مجھے خلابازی کے لئے چُن لیا گیا۔

خلابازی کی تربیت کے دوران ایک حادثہ 1966 میں ہوا جب ہمارا کیپسول کچھ دیر کے لئے بے قابو ہو کر گھومنا شروع ہو گیا۔ پھر 1968 میں لینڈنگ کی ڈیوائس کے تجربے میں یہ ایک خرابی سے کریش ہو گئی۔ اس سے جب میں نے ایجیکٹ کیا تو یہ زمین سے صرف سو فٹ دور تھی۔ میں بمشکل اس کی آگ کی لیپٹ میں آنے سے بچا۔ باہر نکل کر میں آفس میں جا کر کام کرنے لگا۔ جب کسی نے کہا کہ "تم مرتے مرتے بچے ہو اور واپس کام کرنا شروع ہو گئے ہو؟" تو میرا جواب تھا کہ "مرا تو نہیں، زندگی چلتی رہتی ہے۔ بہت کام کرنے کو پڑا ہے”۔

پہلے مشن کے کمانڈر کے طور پر میرا انتخاب ہو گیا۔ چار روز تک سفر کر کے ہم چاند تک جا پہنچے۔ مائیکل کولنز کمانڈ ماڈیول میں رہے۔ بز آلڈرن اور میں لونر ماڈیول میں سوار ہو گئے۔ لینڈنگ کے دوران کچھ غیرمتوقع ہو گیا تھا۔ گائیڈنگ سسٹم ہمیں ایک گڑھے کی طرف لے کر جا رہا تھا جہاں بڑے پتھر تھے۔ میرے خیال میں یہ اترنے کی مناسب جگہ نہیں تھی۔ میں نے خود کنٹرول سنبھال لیا کہ بہتر جگہ پر اتر سکیں۔ اس سے اضافی ایندھن استعمال ہونے لگا۔ ایک ارب لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ زمینی عملے کو لینڈنگ کے فلائٹ پلان کا علم تھا اور یہ لینڈر اس کو فالو نہیں کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر لوگ کچھ لوگ اب سانس روک کر دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ہم نے اس کو چاند پر اتار لیا اور یہ الفاظ "عقاب اتر چکا ہے" سن کر بہت سے لوگ جن کے پسینے چھوٹ رہے تھے، ان کی جان میں جان آئی۔ پھر میں نے سیڑھی سے اترنا شروع کیا۔ یہ قدم رکھتے ہوئے میرے ذہن میں وہ چار لاکھ افراد تھے جنہوں نے اس مشن کے لئے کام کیا تھا اور بہت سے دوسرے بھی، جن کا حصہ بالواسطہ تھا۔ میرے الفاظ "یہ انسانیت کے لئے بڑا قدم ہے"، ان سب کے لئے تھے کیونکہ یہ قدم مجھ اکیلے کا نہیں تھا۔

چاند ایک بڑا دلچسپ احساس ہے۔ افق بہت پاس لگتا ہے۔ دھوپ اور مٹی مختلف ہیں۔ ہمیں کرنے کے لئے کئی تجربات دئے گئے تھے۔ ہم نے وہ سب کئے۔ بہت زیادہ وقت نہیں گزارا۔ پھر واپسی ہوئی۔ واپس زمین پر انٹری اس سفر کا سب سے مشکل حصہ تھا۔ جب زمین پر پہنچے تو ہم سپرسٹار بن چکے تھے۔ نیویارک میں چالیس لاکھ لوگوں نے ہمارا استقبال کیا۔ پھر ہم دنیا کے ٹور پر نکلے۔ چاند پر پہنچ جانے کی کامیابی ہم خلابازوں کی نہیں، انسانوں کی کامیابی تھی۔ ہم اس میں دنیا بھر کے انسانوں کے نمائندہ تھے۔ کانگو میں لوگوں کے ہجوم سے لے برطانیہ کی ملکہ تک سب ہم کو دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ میں اس سب کے لئے تیار نہیں تھا۔ یہ اچھا تو لگتا تھا لیکن میرے لئے ایک بوجھ تھا۔ مجھے یہ سب پسند نہیں تھا۔

میں اپنی شہرت صرف کسی ایک واقعے کی وجہ سے نہیں چاہتا تھا بلکہ اپنے روز کے کام کی وجہ سے۔ اور اس شہرت کا میں مستحق نہیں تھا۔ اگر میں پہلا شخص تھا جس نے چاند پر قدم رکھا تو اس میں میرا کمال نہیں تھا، حالات کا تھا۔ یہ میرا اکیلے کا کارنامہ تو کبھی نہیں رہا تھا۔ بس شہرت مجھے مل گئی۔ اس کے بعد میں نے اپنا خلابازی کا کیرئیر ختم کر دیا اور سنسناٹی میں یونیورسٹی میں انجینرنگ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ مجھے ایک چیز کا افسوس رہا تھا۔ اپنے کیرئیر کی وجہ سے اپنی فیملی کو وقت نہیں دے سکا تھا۔ اپنے بڑھتے بیٹوں کے ساتھ کم وقت گزار سکا۔ مجھے علم تھا کہ اپالو پروگرام کی اپنی زندگی زیادہ لمبی نہیں اور اس کو چند سال کے بعد چھوڑ دینے کا ہی پلان تھا، لیکن خلائی پروگرام سے میری توقعات زیادہ تھیں۔ میرا خیال تھا کہ ہم اس سے کہیں زیادہ کر پائیں گے جتنا ہم نے کیا۔ میری رائے یہ ہے کہ جب آپ کا مقابلہ ختم ہو جائے تو پھر آپ زیادہ نہیں کر پاتے۔ وہ جذبہ اور حوصلہ ماند پڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

First Man: The Life of Neil A. Armstrong by James R. Hansen

02/08/2025

تمہاری چپ اور ہمارا لہجہ
کبھی ملیں گے تو بات ہوگی
ہماری انکھیں تمہارا چہرہ
کبھی ملیں گے تو بات ہوگی
کہیں گے تم سے کہ دل کی باتیں
چھپا کے رکھنا بڑا گناہ ہے ،
تم سے مل کر تمہیں نہ ملنا
قسم خدا کی بڑی سزا ہے
تمہارے چہرے کے قفل نظروں سے
کھل نہ پائیں تو کیا کریں ہم
کہ روکے رکھنی ہیں دل میں انکھیں
وہیں سے اب تمکو دیکھنا ہے
تمہارے جلووں پہ سر کا جھکنا
کبھی ملیں گے تو بات ہو گی
محبتیں جب تم لکھا کرو گے
ہمارا ناموں میں نام ہو گا
کبھی جو دھڑکے گا دل تمہارا
ہمارے دل کا سلام ہو گا
کبھی جو تاروں سے دوستی ہو
تو جگنوؤں سے بھی ملتے آنا
ہمارے لفظوں سے بات بنکر
ملو گے جب تم کلام ہو گا
اداس لمحوں میں ہنس کے کہنا
کبھی ملیں گےتو بات ہو گی
تمہاری چپ اور ہمارا لہجہ
کبھی ملیں گے تو بات ہو گی
خلیل الرحمن قمر

وہ دیر سے گھر واپس آنے لگابیوی نے نرمی سے پوچھاکیوں دیر ہو جاتی ہےتو غصے میں بولازندگی کا دباؤ ہےتھک جاتا ہوںمجھے تھوڑی ...
27/07/2025

وہ دیر سے گھر واپس آنے لگا
بیوی نے نرمی سے پوچھا
کیوں دیر ہو جاتی ہے
تو غصے میں بولا
زندگی کا دباؤ ہے
تھک جاتا ہوں
مجھے تھوڑی سی "جگہ" چاہیے

بیوی خاموش ہو گئی
بس دل ہی دل میں سوچنے لگی
جگہ؟
یہ جگہ ہوتی کیا ہے؟

وہ اپنے دن کے بارے میں سوچنے لگی
جو بچوں کی فرمائشوں سے شروع ہوتا
اور ان کے سونے پر ختم
کبھی آرام سے ایک کپ چائے بھی نہیں پیتی تھی
مگر بحث نہیں کی
اس نے فیصلہ کیا
کہ اسے وہی "جگہ" دے گی
جو اس نے مانگی ہے

مگر جو بات وہ شوہر سوچ بھی نہیں سکتا تھا
وہ یہ تھی
کہ یہ جگہ
یہ خاموشی
اس کی بیوی کو دن بہ دن
اکیلا رہنا سکھا دے گی
اسے اس کی غیر موجودگی کی عادت پڑ جائے گی
وہ اپنے دن خود مکمل کرنے لگے گی
اور رفتہ رفتہ
اسے اس کی ضرورت محسوس ہونا بند ہو جائے گی

شوہر کو اندازہ بھی نہیں تھا
کہ وہ اپنی بیوی کے دل سے
اپنی اہمیت
اپنی جگہ
خود ہی مٹا رہا ہے

کچھ ہفتے گزرے
ایک دن وہ جلدی گھر آیا
سوچا
آج اس کی بیوی حسبِ عادت
اپنے دن بھر کی باتیں کرے گی
مسکرائے گی
منصوبے سنائے گی

مگر وہ خاموش تھی
جیسے وہ گھر میں موجود ہی نہ ہو
اس نے بچوں کی دیکھ بھال کی
انہیں نہلایا
سلایا
اور خود بھی ان کے ساتھ سو گئی

اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا
پھر اگلے دن بھی

آخر کار اس نے پوچھا
تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں
بیوی نے کپڑے تہہ کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا
میں بات نہ کرنے کا دکھاوا نہیں کر رہی
بس سچ یہ ہے
جب تم مجھ سے دور تھے
میں نے بہت بار چاہا کہ کوئی مجھے سنے
مگر تم موجود نہیں تھے
پھر میں نے سیکھ لیا
کہ خود سے بات کرنا
خود ہی حل نکالنا
کافی ہے

پھر اس نے تھوڑا توقف کیا
اور آہستہ سے کہا
اب سچ کہوں
تو کچھ بات کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی

وہ واپس مڑ گئی
اور الماری میں کپڑے رکھنے لگی

بچے بھی دروازے کی طرف دوڑ کر نہیں آتے تھے
وہ سونے کے عادی ہو چکے تھے
اس کے آنے سے پہلے
پہلے کئی دن تک اس کے لیے روتے رہے
پوچھتے رہے
مگر پھر چپ ہو گئے
پھر سوال کرنا چھوڑ دیا

لوگ جان بوجھ کر سرد نہیں ہوتے
سرد مہری ایک دیوار ہوتی ہے
جو آہستہ آہستہ بنائی جاتی ہے
ایک اینٹ
ایک لمحہ
ایک نظرانداز کرنے سے

اور جب وہ دیوار کھڑی ہو جائے
تو چاہے آواز لگاؤ
چاہے ہاتھ بڑھاؤ
دوسری طرف دل تک کچھ نہیں پہنچتا

پیارے شوہر
تمہارا گھر میں ہونا
محض ایک اختیار نہیں
یہ تمہارا فرض ہے
تمہاری تھکن اپنی جگہ
مگر اپنے بیوی بچوں کو بوجھ نہ سمجھو
انہیں نظرانداز نہ کرو
کیونکہ تم جتنے ضروری ہو ان کے لیے
اتنی ہی ان میں طاقت ہے
کہ وہ تمہارے بغیر جینا سیکھ لیں

اور اگر وہ تمہاری غیر موجودگی کے عادی ہو گئے
تو پھر تمہاری موجودگی بھی بےاثر ہو جائے گی

لیکن ہم تو مولویوں کو سنتے ہیں، بجائے کہ ہم اسلام کو پڑیں اور سمجھے۔
21/07/2025

لیکن ہم تو مولویوں کو سنتے ہیں، بجائے کہ ہم اسلام کو پڑیں اور سمجھے۔

21/07/2025

ہم (سماج) اگر شیتل کی چیخ کو نہیں سن سکتے
تو اوروں سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری تکلیف کو سمجھے ...

21/07/2025

If Bad Luck had a face!

‏ایک کو نکاح نہ کرنے کی سزا ملی،... دوسری کو نکاح کرنے کی۔قتل کا جواز؟ صرف یہ کہ اُس نے اپنی مرضی کی۔ جھنگ: زرعی یونیورس...
20/07/2025

‏ایک کو نکاح نہ کرنے کی سزا ملی،...
دوسری کو نکاح کرنے کی۔قتل کا جواز؟ صرف یہ کہ اُس نے اپنی مرضی کی۔ جھنگ: زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی 19 سالہ طالبہ کنزہ گھر لوٹ رہی تھی، بس میں سوار، والدین سے رابطے میں، لیکن پھر اچانک لاپتہ۔کچھ ہی دیر بعد اُس کی لاش سڑک کنارے ملی۔ بیگ ساتھ تھا، رکشے کے ٹائروں کے نشان بھی موجود۔تحقیقات میں انکشاف ہوا: رشتے دار طیب ادریس نے اغوا کیا، زیادتی کی، زہر دے کر قتل کر دیا — صرف اس لیے کہ کنزہ کے والدین نے رشتہ قبول نہیں کیا تھا۔
بلوچستان: ایک اور بیٹی صرف اس لیے ماری گئی کہ اُس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا۔یعنی فیصلہ خود کرے تو "گناہ"
فیصلہ نہ مانے تو "سزا"اور ہر صورت میں قاتل کو جواز مل جاتا ہے۔یہ معاشرہ عزت کے نام پر درندہ ہو چکا ہے
یہ غیرت نہیں، یہ کھلی وحشت ہے۔

Adresse

Landstrasse 19
Diemelstadt
34474

Telefon

+491742187128

Webseite

Benachrichtigungen

Lassen Sie sich von uns eine E-Mail senden und seien Sie der erste der Neuigkeiten und Aktionen von Urdu Adab Page erfährt. Ihre E-Mail-Adresse wird nicht für andere Zwecke verwendet und Sie können sich jederzeit abmelden.

Service Kontaktieren

Nachricht an Urdu Adab Page senden:

Teilen

Kategorie