Umair Afzal Speaks

  • Home
  • Umair Afzal Speaks

Umair Afzal Speaks Living in Germany, Content Creator, Student, Android Developer, University Lecturer

13/08/2025

29/07/2025

22/07/2025

20/07/2025

مرد ذات کیلئے سواری نامی شے ہمیشہ کشش کی حامل رہی ہے۔ اب چاہے وہ گھڑ سواری ہو،اونٹ کی سواری ہو یا مزید جس کا میں نام نہیں لے سکتا مگر جو اس وقت آپ کے ذہن میں آ رہا ہے ، یقینا وہ بھی۔

پاکستان میں گاڑی نہ چلانے کا خمیازہ ادھر میری انشورنس کمپنی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک تو میں نے گاڑی اس زمانے کی خریدی جب گاڑی کے تصور کو ہی بطور گاڑی پیش کیا جاتا تھا۔
اس پر مزید یہ کہ میں ہر رات غلطی سے کوئی نہ کوئی لائٹ آن چھوڑ کر اس کی بیٹری ختم کر دیتا ہوں۔
انشورنس والا بجلی کی تاریں پکڑے میر گاڑی کے آگے پیچھے گھومتا رہتا ہے۔

لطف انگیز بات یہ ہے کہ پاکستا ن میں جتنے پیسوں سے صرف رکشہ نظر آنے جیسی چیز خریدی جا سکتی ہے۔ ادھر میں نے اتنے میں گاڑی خرید لی۔
اور اس گاڑی کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی، کہ یہ چلتی بھی ہے۔
مزید بتاتا چلوں کہ اس میں Ac ہے، ہیٹر ہے اور تو اور گاڑی کی سیٹوں کے اندر ہیٹر ہے۔ یعنی سردیوں میں اگر دل ٹھنڈا ہو بھی جائے تو کمر گرم
رہتی ہے۔

شیشے اوپر نیچے کرنے کے لیے بھی بٹن - مكمل پروٹوکول، جسے دیکھ کر دل کرتا ہے کہ خود کو وی آئی
پی سمجھ لیں۔
خیر، آپ سب دعا گو رہیں کہ یہ گاڑی میرے لیے بہتری، آسانی اور سکون کا باعث بنے۔ اور میری انشورنس کمپنی کے لیے صبر کا۔
شکریہ۔

عمیر افضل۔

21/06/2025

11/04/2025

Eid Milan party in Pakistan Embassy.

پردیس میں عید: یادوں کے سائےعید کا چاند نکلا تو آنکھوں میں چمک کم اور نمی زیادہ تھی۔ یہ پردیس کی عید تھی، جہاں گلیاں اجن...
30/03/2025

پردیس میں عید: یادوں کے سائے

عید کا چاند نکلا تو آنکھوں میں چمک کم اور نمی زیادہ تھی۔ یہ پردیس کی عید تھی، جہاں گلیاں اجنبی تھیں، آنگن سنسان تھا، اور ماں کی چوکھٹ پر بیٹھ کر چائے پینے کا لطف خواب سا لگ رہا تھا۔

صبح ہوئی تو مسجد تو تھی، نمازی بھی تھے، مگر وہ گرم جوشی نہ تھی جو گلی کے نکڑ پر ملنے والے پرانے دوستوں کے گلے ملنے میں محسوس ہوتی تھی۔ کوئی ماں کی پیاری خوشبو میں بسی عید کی شیر خورمہ نہیں، کوئی ابو کی دعاؤں بھری آنکھیں نہیں۔ موبائل کی اسکرین پر گھر والوں کے ہنستے چہرے دیکھ کر دل میں عجب سی ٹھیس اٹھی—یہ کیسی عید تھی، جس میں سب کچھ تھا، مگر وہ اپنائیت نہیں؟

لیکن پردیس میں عید صرف یادوں کا بوجھ نہیں، قربانی کی کہانی بھی ہے۔ اپنوں کے لیے دور رہ کر سہولتیں پیدا کرنے کی کوشش، تنہائی میں خود کو مضبوط رکھنے کا حوصلہ۔ شاید یہی قربانی عید کی اصل روح ہے—اپنوں کی خوشی کے لیے اپنے جذبات قربان کر دینا۔

20/12/2024

Kushian.

09/12/2024

Life without Limits.

14/11/2024

The city in the water.

میرے عزیز دوست،تمہارا یوں خطوط کا جواب نہ دینا میرے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں کہ زندگی کے جھمیلوں س...
02/11/2024

میرے عزیز دوست،
تمہارا یوں خطوط کا جواب نہ دینا میرے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں کہ زندگی کے جھمیلوں سے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

میں اپنے متعلق بتاتا چلوں کہ زندگی میں پہلے سے زیادہ آسانیاں ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں وقت میں برکت نہیں، کب دن سے شام ہوتی ہے معلوم ہی نہیں پڑتا۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہاں زندگی میں پاکستان کی نسبت رکاوٹیں نہیں ہیں، اس لیے لگتا ہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ جیسے وہاں بجلی اور گیس کا چلے جانا اور پھر اس کا انتظار، اور بھی ایسا بہت کچھ۔ آپ کو مجبورا وقت پر دھیان دینا پڑتا ہے۔

اگر انسان جذباتی نہ ہو تو یہاں زندگی زیادہ لطف انگیز ہے۔ یوں جانو کہ زندگی محسوس ہونے کا احساس ادھر ہی ہوتا ہے۔ یہاں سائیکل والا بھی سڑک کا اتنا ہی مالک ہے جتنا کہ گاڑی والا۔

گزشتہ خط میں میں نے ذکر کیا تھا کہ مجھے پیانو سننا اب اچھا لگتا ہے۔ مگر آج پیانو بجا کر احساس ہوا کہ ضروری نہیں ہر بجنے والی چیز کو بجایا ہی جائے۔

کبھی سرد رات میں گزری ہوئی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے سب خوبصورت ہی نظر آتا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اب بھی شاید سب ویسا ہی ہوگا، اور میرا دل کہتا ہے کہ پل بھر میں پاکستان پہنچ جاؤں۔ جبکہ حقیقت میں مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے آخری دنوں میں سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ وہ سب خوبصورت لمحات فقط ایک یاد بن چکے ہیں۔

میرا تو ایسا تجربہ نہیں، مگر لوگ کہتے ہیں کہ پردیسی جب واپس آتے ہیں تو وہ اپنے گھر میں بھی مہمان ہوتے ہیں، اور وہ خوبصورت گھر صرف انسان کی یادداشت میں زندہ رہ جاتا ہے۔

میرا بیٹا پیدا ہوا، اور اب اس نے چلنا بھی شروع کردیا ہے، اور یہ قیمتی لمحات جینے کے لیے میں وہاں موجود نہیں ہوں۔ ممکن ہے اس پچھتاوے کا زنگ ہمیشہ میری ذات پر جما رہے۔ مگر خدا سے دعا گو ہوں کہ وہ مجھے جلد اپنے بیٹے سے ملوائے تاکہ اپنی بانہوں میں اس کی قربت کا لمس محسوس کر سکوں۔

میں نے ہمیشہ ایسی بے بسی کی زندگی سے نفرت کی تھی، مگر اب مشیت ایزدی ہے کہ وہی جینی پڑ رہی ہے۔

اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے اٹلی جا رہا ہوں۔ جہاز میں کافی وقت مل گیا تو سوچا تمہیں خط لکھ دوں۔ اپنا بہت سا خیال رکھنا۔

تمہارا دوست،
عمیر افضل

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے.
10/04/2024

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے.

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umair Afzal Speaks posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share