History in Urdu

History in Urdu "Delving deep into Ottoman,Mughal, Abbasid, Wars, Mongol & Caliphate eras. Explore Muslim legacies 🕌

12/12/2025

سلطنتِ عثمانیہ کا سرکاری مذہب و فقہی نظام!
عثمانی سلطنت (1299ء–1924ء) کا سرکاری فقہی مذہب فقہِ حنفی تھا،
جبکہ عقیدے کے اعتبار سے ریاست نے مذہبِ ماتُریدی کو اختیار کر رکھا تھا۔
یہی دونوں مذہبی بنیادیں سلطنت کے قیام سے لے کر اس کے سقوط تک برقرار رہیں۔
تاریخی پس منظر:
عثمانیوں کا تعلق ترک قبائل سے تھا، اور ترک دنیا میں صدیوں سے فقہِ حنفی اور عقیدۂ ماتریدیہ کو قبولِ عام حاصل تھا، خصوصاً ماوراء النہر، خراسان اور وسطیٰ ایشیا میں اسی تسلسل کو عثمانیوں نے ریاستی سطح پر آگے بڑھایا۔ عثمانی علما، قاضی، مفتی، اور خاص طور پر شیخ الاسلام کا منصب ہمیشہ حنفی فقہ کے مطابق فیصلے کرتا تھا، اور یہی فقہ عدالتی نظام (قضاء) کی بنیاد تھی۔
غیر حنفی اکثریتی علاقوں میں عثمانی پالیسی:
عثمانی سلطنت جب شمالی افریقہ تک پھیلی اور تونس، الجزائر اور لیبیا جیسے علاقوں پر اس کا اقتدار قائم ہوا(تقریباً 16ویں صدی عیسوی / 10ویں صدی ہجری)، تو وہاں کی اکثریت فقہِ مالکی کی پیروکار تھی۔ ان علاقوں میں عثمانی حکمرانوں کو “بایات” (Beys / Beyliks) کہا جاتا تھا۔ یہ بایات اور ان کا درباری و انتظامی طبقہ فقہِ حنفی ہی کی تقلید کرتا تھا، کیونکہ وہ ریاستِ عثمانیہ کے نمائندے تھے اور ریاستی نظم حنفی فقہ کے مطابق چلتا تھا۔ لیکن قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عثمانیوں نے عوام (رعایا) کو اپنے فقہی مسلک یعنی مالکی پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی۔ نہ کسی کو حنفی بننے پر مجبور کیا گیا، نہ مقامی دینی روایت کو ختم کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عثمانی دور کواسلامی تاریخ کی فقہی رواداری کی روشن مثال کہا جاتا ہے۔
علما کی ظاہری شناخت: عمامے اور طاقیہ:
عثمانی دور میں فقہی مسلک صرف علمی نہیں بلکہ ظاہری شناخت کے ذریعے بھی پہچانا جاتا تھا۔ حنفی فقیہ اور مالکی فقیہ۔ دونوں کے عمامے (پگڑیاں) اور سر پر پہننے والی ٹوپیاں (طاقیہ) ایک دوسرے سے مختلف ہوتیں، تاکہ عدالت، درسگاہ اور مسجد میں ہر عالم کی فقہی وابستگی فوراً پہچانی جا سکے۔ اسی دور میں جامع زیتونہ، تونس(جو تیسری صدی ہجری / بمطابق 9ویں صدی عیسوی سے اسلامی دنیا کا عظیم علمی مرکز رہا ہے) میں اس فقہی تنوع کی عملی مثالیں موجود تھیں۔
جامع زیتونہ میں:
مالکی علما کی طاقیہ اور لباس الگ تھا۔ حنفی علما کی طاقیہ اور عمامہ الگ تھے۔ دونوں ایک ہی مسجد میں درس دیتے، فتویٰ لکھتے اور علمی مناظرے کرتےیہ فرق اختلاف نہیں بلکہ نظم کی علامت تھا۔
عثمانی مذہبی ریاست کا متوازن ماڈل:
عثمانی سلطنت نے ریاستی سطح پر ایک فقہ (حنفی) اختیارکیا۔ عوام کے مسالک کا احترام کیا۔ دینی اختلاف کو فساد نہیں بننے دیااور فقہ کو نظم و قانون کا ذریعہ بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ:
عثمانی سلطنت چھ صدیوں تک مختلف نسلوں، زبانوں اور فقہی مسالک کو ایک ہی اسلامی نظم کے تحت جوڑے رکھنے میں کامیاب رہی۔

تحریر: محمد سہیل

سلجوقیوں کی تاریخ، کیسے خانہ بدوشی سے اناطولیہ تک کا سفر، اور خالفتِ عباسییہ کی بحالی تک کی تاریخ۔
11/12/2025

سلجوقیوں کی تاریخ، کیسے خانہ بدوشی سے اناطولیہ تک کا سفر، اور خالفتِ عباسییہ کی بحالی تک کی تاریخ۔

سلجوق کون تھے؟ کیسے انہوں نے بغداد کی عباسی خلافت کو بچایا اور اناطولیہ کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دئے!
تاریخ کی جستجو رکھنے والے میرے عزیز دوستو،سلجوق ترک دراصل اوغوز (غُز) قبائل کی شاخ تھے، جن کا اصل وطن وسطیٰ ایشیاء (ماوراء النہر) تھا۔
ان کا تعلق قبیلہ قِنق سے تھا، جو طاقت اور جنگی مہارت کے اعتبار سے غز قبائل میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔
ان کے جد امجد "دُقاق بن سلجوق" ایک معروف ترک سردار تھے، جو بیغو نامی حکمران کے لشکر میں اہم فوجی منصب رکھتے تھے۔ دقاق کا بیٹا سلجوق بن دقاق نہ صرف بہادر تھا بلکہ قیادت کی صلاحیتوں سے بھی مالا مال تھا۔ اس کی بڑھتی طاقت سے خوف زدہ ہو کر بادشاہ کی بیوی نے اسے قتل کروانے کی کوشش کی، جس پر سلجوق اپنے خاندان و قبیلے کے ساتھ ہجرت کرکے اسلامی سرزمین میں داخل ہوا۔ وہ جَند (موجودہ قزاقستان کے قریب) آباد ہوا اور پختہ تحقیق کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس سے سلجوقیوں کی اسلامی تاریخ کا آغاز ہوا۔
سلجوقوں کی ابتدا:
سلجوق کے بعد اس کی اولاد بڑھی، یہاں تک کہ اس کے پڑپوتے طُغرل بیگ نے اسلامی دنیا میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ سن 429ھ / بمطابق 1037ء میں اس نے خراسان پر قبضہ کر کے سلجوق سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس وقت بغداد میں خلافت عباسیہ کمزور ہو چکی تھی، اور بویہی شیعہ سرداروں کے قبضے میں تھی جو خلیفہ کو محض نام کا سربراہ سمجھتے تھے۔ خلیفة المسلمین القائم بامر اللہ نے سلجوقی سلطان طُغرل بیگ سے مدد طلب کی۔ طغرل بیگ نے 447ھ / بمطابق 1055ء میں بغداد فتح کیا، بویہیوں کے تسلط کا خاتمہ کیا، خلیفہ کو عزت اور آزادی واپس دلائی، اور خطبہ جمعہ میں اپنا نام پڑھوانے کا حق حاصل کیا۔ یوں سلجوق سلطنت خلافتِ عباسیہ کی محافظ بن گئی۔
سلجوقیوں کی سلطنت کہاں تک پھیلی؟
سلطنت سلجوقیہ اپنی وسعت اور طاقت کے لحاظ سے قرونِ وسطیٰ کی اہم ترین اسلامی قوت بن گئی۔ اس کی سرحدیں خراسان و ایران،عراق،شام، اناطولیہ (ترکی) تک پھیل گئیں۔ اس طرح سلجوق بازنطینی (رومی) طاقت کے سامنے اسلامی ڈھال بن کر کھڑے ہوئے۔

سلجوقوں کی ملاذکُرد کی تاریخی فتح (1071ء)
سلجوقوں کی فوج منظم، تربیت یافتہ اور پیشہ ور تھی۔ سلطان الپ ارسلان نے 26 اگست 1071ء کو مشہور جنگ ملاذکرد میں بازنطینی سلطنت کو بدترین شکست دی۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے اناطولیہ کے دروازے ترکوں کے لیے کھول دیے
اور بعد میں وہی اناطولیہ عثمانی سلطنت کی بنیاد بنا۔
سلجوق اپنے فوجی کارناموں کے ساتھ علمی و دینی ترقی کے بھی علمبردار تھے۔
وزیر نظام الملک طوسی نے اسلامی تاریخ کے عظیم ترین ادارے نظامیہ مدارس قائم کیے، جن سے امام غزالیؒ، فخر الدین رازیؒ جیسے ممتاز علماء پیدا ہوئے۔
یوں سلجوق صرف سپاہی نہیں، عالم پرور حکمران تھے۔
اس دور میں ایران اور عراق میں شیعہ اور باطنی اثرات بڑھ رہے تھے۔
سلجوقوں نے اہلِ سنت کے عقائد کو فروغ دیا اور خلافتِ عباسیہ کی مرکزیت بحال کی۔
👑 مشہور سلاطینِ سلجوقیہ:
سلطان طغرل بیگ، آپ نےآلِ بویہ کا خاتمہ کیا اور بغداد کی عباسی خلافت کو بحال کیا۔
سلطان الپ ارسلان، آپ نے ملازگرد کی جنگ میں رومیوں کو شکست دیتے ہوئے اناطولیہ کے دروازے تُرکوں کے لئے کھول دئے تھے۔
سلطان ملک شاہ، کا دور سلجوقیوں کا عروج و استحکام کا دور تھا۔ ملک شاہ کے بعد انتشار پیدا ہوا، اور سلطنت کئی حصوں میں بٹ گئی:سلاجقہ روم (ترکی)،سلاجقہ شام، سلاجقہ عراق و ایران۔
بالآخر 13ویں صدی میں منگول حملوں کے نتیجے میں ان کی طاقت ختم ہو گئی۔
سلجوقوں کی میراث:
اگرچہ سلجوق سلطنت زوال پذیر ہو گئی مگر اس نےعثمانی سلطنت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اناطولیہ میں ترکوں کی طاقت کو برقرار رکھا۔ علمی مراکز، مدرسے، مجاہدین اور علماء تیار کیے۔ اسلام کو مشرقِ وسطیٰ اور ترکی میں مضبوط بنیاد دی۔
تحریر:محمد سہیل

11/12/2025

سلطان محمد فاتح کے بیٹے جمشید کی یورپ میں دردناک موت کی غم ناک داستان!
جب سلطان محمد الفاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا، یورپ کی تاریخ بدل گئی۔ اسی فاتح سلطان کے گھر 1459ء میں ایک اور شہزادہ پیدا ہوا، جس کا نام جمشید تھا اور بعد میں وہ جِم سلطان کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ وہ فطری ذہانت، شجاعت، اور مذہبی مزاج رکھتا تھا۔ عربی اور فارسی میں شعر کہتا، فقہ اور تاریخ پڑھتا، اور والد کی طرح اسلامی قانون کے نفاذ کا خواہش مند تھا۔
لیکن تاریخ نے اس کے لیے ایک دردناک باب لکھ رکھا تھا…

تخت کی جنگ (1481ء)
1481ء میں سلطان محمد الفاتح کا انتقال ہوا۔ اقتدار کے لیے بڑے بھائی بایزید اور جِم سلطان کے درمیان جنگ ہوئی۔ 1481ء کی جنگِ بنی شہر (Beyşehir) میں سلطنت ٹوٹنے سے تو بچ گئی، مگر جِم سلطان شکست کھا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر جنگ طول پکڑتی تو یورپی صلیبی طاقتیں عثمانیوں پر حملہ کر دیتیں۔ جِم سلطان یہ سمجھ نہ سکا، اور اپنے بھائی کو دشمن سمجھ بیٹھا، جبکہ اصل دشمن یورپ تاک میں تھا۔ جِم ہار کر مصر کی طرف نکل گیا۔
مصر میں چند ماہ قیام کے بعد اس نے فریضۂ حج (1482ء) ادا کیا۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب اور صلیبی دنیا عثمانیوں سے لرزہ بر اندام تھی۔ حج سے واپس آکر اس نے حلب سے اناطولیہ واپسی کی، شاید وہ اپنا حق دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا…
لیکن دروازے بند ہو چکے تھے، لوگ ڈر چکے تھے، اور وقت گزر چکا تھا۔
اسے اپنی غلطی سمجھ آئی… مگر دیر ہو گئی تھی۔
دوسری تباہ کن غلطی، جزیرہ روڈوس:
وہ مصر واپس جانا چاہتا تھا، جس کے لئے اس نےبحری راستہ اختیار کیا۔ یہ اس کی زندگی کی دوسری بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ رودوس کے فرانسیسی صلیبی نائٹس نے اسے قید کر لیا۔ ان کے لیے وہ سونے کی مناسبت سے بھی قیمتی قیدی تھا۔ ایک عثمانی شہزادہ جو یورپ کی سیاست الٹ سکتا تھا۔ یوں اس کی آزادی یورپی مارکیٹ میں نیلام ہونے لگی۔
6سال کی قید، پھر فروخت (1482–1489ء)
جِم سلطان کو6 سال تک مختلف قلعوں میں بدل بدل کر قید رکھا گیا۔ اسے حاصل کرنے کے لیے چار طاقتیں فرانس، مَجر،وینس (البندقیہ)،مصر لڑ رہی تھیں۔ آخرکار 1489ء میں اسے پوپ کو بیچ دیا گیا۔
روم میں اس کا استقبال بادشاہوں جیسا ہوا۔ اسے قصر سان آنجِلو میں رکھا گیا، لیکن قید برقرار رہی۔ پورا یورپ اسے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا تھا۔
جب اسے پوپ کے سامنے جھکنے کا کہا گیا، تو اس نے کہا:
“میں صرف خدا کے سامنے جھکتا ہوں، اور اپنے باپ سلطان محمد الفاتح کے سامنے۔”
یہ الفاظ روم میں ایسے گونجے کہ دشمن بھی اس کی عظمت کے قائل ہو گئے۔
1495ء تک وہ روم میں چھ برس مزید قید رہا۔ وہ غریبوں کو صدقہ دیتا، انہیں کھانا کھلاتا، اور عربی و ترکی میں شعربھی لکھتا۔ پوپ نے اسے دھمکی اور لالچ دونوں دیے کہ مسیحیت قبول کر لے۔
اس نے جواب دیا:
“اگر تم مجھے پوری دنیا دے دو، تب بھی میں اپنا دین نہیں بدل سکتا۔
رحمت اور سخاوت، یہ ہمارے اسلام کی تعلیم ہے، نہ کہ تمہارے مذہب میں داخل ہونے کی قیمت۔”
اس جواب پر پوپ نے اسے ایمان کا ہیرو کہا۔
وفات:
فرانس کے بادشاہ شارل ہشتم (Charles VIII) نے اٹلی پر قبضہ کرنے کے لیے پوپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ جِم سلطان کو فرانس کے حوالے کر دے۔ پوپ گھبرا گیا…
اگر جِم سلطان فرانس کے ہاتھ لگ جاتا، تو عثمانی خلافت کے خلاف صلیبی اتحاد قائم ہو جاتا۔ چنانچہ خفیہ طور پر اسے زہر دے دیا گیا۔ وہ 1495ء میں ناپولی (Naples) میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔
جِم سلطان کی موت پر 3 دن تک خلافتِ عثمانیہ میں سوگ رہا۔ نمازِ غائب، قرآن خوانی، صدقات، تعزیت کے جلسے منعقد کیے گئے۔ چار سال بعد اس کی میت بُرصہ منتقل کی گئی اور اسے اپنے آبا کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
رحم اللہ الأمير جِم سلطان۔
تحریر:محمد سہیل

10/12/2025

قسطنطنیہ کی اہمیت کیا تھی؟ وہ شہر جسے فتح کرنے پر نبی ﷺ نے بشارت دی تھی!
وہ شہر… جسے سلطان محمد الفاتح نے فتح کیا۔ وہ شہر جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے صدیوں پہلے فرمایا تھا:
«لتفتحن القسطنطينية فلنعم الأمير أميرها ولنعم الجيش ذلك الجيش»
”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، بہترین ہوگا وہ امیر جو اس کا فاتح ہوگا، اور بہترین ہوگی وہ فوج جو اس کا لشکر ہوگا۔”
(روایہ: مسند امام احمد)
یہ بشارت اس بات کی علامت تھی کہ اسلامی امت ایک دن مشرقی روم کے قلب تک پہنچے گی،اورمسلمان اس بشارت کے حصول کی خواہش میں تقریباً 1000 سال تک اپنے خون سے تاریخ لکھتے رہے، یہاں تک کہ 857ھ / 1453ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے نوجوان سلطان محمد الفاتح نے اسے فتح کرکے اس اعزاز کا تاج پہنا۔
قسطنطنیہ کی غیر معمولی اہمیت
1) عالمی تجارت کا مرکز
قسطنطنیہ براعظم ایشیا اور یورپ کو ملانے والا مرکزی پل تھا۔ یہاں سے گزرنے والی شاہراہیں ریشم اور مصالحہ جات کی بین الاقوامی تجارت کا حصہ تھیں۔ جو اسے دنیا کی معاشی شہ رگ بناتی تھیں۔
2) سب سے محفوظ بحری بندرگاہ:
شہر میں مضیق القرن الذہبی (Golden Horn) واقع تھا، جو اس وقت دنیا کی وسیع ترین اور محفوظ ترین بندرگاہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ بحری جہازوں کے لیے قدرتی قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
3) دنیا پر حکومت کی کنجی
عظیم یورپی جرنیل نپولین بوناپارٹ (م 1821ء) نے قسطنطنیہ کے بارے میں لکھا:
“اگر پوری دنیا ایک مملکت ہوتی تو اس کا دارالحکومت قسطنطنیہ ہوتا۔”
یہ جملہ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ قسطنطنیہ کا مالک پوری دنیا کی سیاست پر قبضہ کر لیتا ہے۔
نپولین مزید کہتا ہے:
“میں نے روس کے ساتھ مل کر کئی بار عثمانی سلطنت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی،
مگر ہر مرتبہ قسطنطنیہ راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا۔
روس اسے اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا تھا اور میں اسے ہر صورت روکنا چاہتا تھا۔”
یہ بات واضح کرتی ہے کہ قسطنطنیہ صرف ایک شہر نہیں تھا، بلکہ عالمی طاقت کا مرکز تھا۔
فتحِ قسطنطنیہ:
سب سے پہلے حضرت معاویہؓ کے دور میں صحابہ کرامؓ نے اس شہر پر حملہ کیا۔
اسی مہم میں عظیم صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ (میزبانِ رسول ﷺ) شریک ہوئے۔
وہیں بیمار ہوئے اور فرمایا:
“مجھے شہر کی فصیل کے قریب دفن کرنا، تاکہ میں فتح کی امید میں پڑا رہوں۔”
آج ان کا مزار استانبول کے علاقے ایوب سلطان میں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ بنو امیہ، بنو عباس اور سلجوقیوں کے حملے سلیمان بن عبدالملک، ہارون الرشید اور سلجوقی سلاطین نے بھی محاصرہ کیا،لیکن شہر مضبوط قلعوں اور بازنطینی بیڑوں کی وجہ سے فتح نہ ہوسکا۔
بالآخر 19 سالہ سلطان محمد فاتح نے 48 دن کے تاریخی محاصرے کے بعد
1453ء میں قسطنطنیہ فتح کرکے اس بشارت کو پورا کر دیا۔ یہ فتح صرف ایک شہر کی فتح نہیں تھی، بلکہ یہ مشرقی روم کے خاتمے،اسلامی اقتدار کے قیام
تجارت، سیاست اور عسکری دباؤ کی عالمی تبدیلی اور خلافتِ عثمانیہ کے عالمگیر دور کی شروعات کا اعلان تھا۔
فتحِ قسطنطنیہ:
قسطنطنیہ کی فتح نے ثابت کردیا کہ اسلامی امت وقت کی مضبوط ترین تہذیب، عسکری قوت اور عالمی پیشوا بن سکتی ہے، اور یہ شہر آج بھی اس بشارتِ نبوی ﷺ کی یاد دلاتا ہے، جو ایک مسلمان، ایک فوج اور ایک نوجوان سلطان نے پورا کیا۔

تحریر:محمد سہیل

10/12/2025

معرکہ ہاجوفا (Haçova / Hajova) مشرق و مغرب، حق و باطل، اور اسلام و صلیب کے درمیان لڑی جانے والی تاریخ کی عظیم ترین فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک ہے۔
اس معرکے کی قیادت خلافتِ عثمانیہ کے سلطان محمد ثالث (حکومت: 1595–1603ء) نے کی تھی، اور اس کا انجام صلیبی اتحاد کی تباہ کن شکست کی صورت میں ہوا، جس کی سربراہی آرشیدوق ماکسیمیلیان سوم کر رہا تھا، جو جرمنی کے شہنشاہ کا بھائی تھا۔
پس منظر:
سلطان سلیمان قانونی (وفات: 974ھ / 1566ء) کے انتقال کے بعدعثمانی سلطنت سیاسی اور عسکری کمزوری کے دور میں داخل ہوئی۔ یہ لمحہ دیکھ کر یورپ کی صلیبی طاقتیں، جو برسوں بکھری ہوئی تھیں، پھر متحد ہو گئیں۔
ایک مشترکہ صلیبی اتحاد منظم ہوا جس میں شامل تھے:
سلطنتِ رومانی مقدس (Holy Roman Empire)، جرمنی، اٹلی، بوهیمیا (آج کا چیک)۔ اردال / ترانسیلوانیا (رومانیا)،ہنگری، یوکرائن پولینڈ + لتھوانیا کا اتحاد اوراسپین شامل تھے۔

ابتدائی جھڑپ:
پہلی لڑائی صفر 1004ھ / اکتوبر 1596ء میں لڑی گئی،
جس میں:1100 عثمانی شہید ہوئے اور42 توپیں دشمن کے ہاتھ لگیں، یہ خبر یورپ کے لیے خوشی اور عثمانیوں کے لیے دکھ کی خبر تھی، لیکن تاریخ کا پانسہ ابھی الٹنا تھا۔
فیصلہ کن دن، 4 ربیع الاول 1004ھ / 26 اکتوبر 1596ء
چار دن بعد اصل معرکہ برپا ہوا۔
مشہور عثمانی مؤرخ یلماز اوزتونا لکھتے ہیں:
"جرمن فوج نے شدید حملہ کیا اور صفوں کو توڑتے ہوئے سلطان محمد ثالث کے شاہی خیمے کے قریب پہنچ گئی۔ تب سلطان گھوڑے سے اترے، خیمے میں داخل ہوئے، اور نماز میں کھڑے ہو کر اللہ سے فتح کی دعا کرنے لگے۔"
یہ منظر ایک سلطان کا نہیں، اللہ کے سپاہی کا تھا۔ سلطان دعا میں مشغول تھے، میدان جنگ میں روحانیت نے ہمت بدل دی۔ چند ہی ساعتوں میں، وہ فوج جسے ناقابلِ شکست سمجھا جا رہا تھا، ٹوٹ گئی۔
ترکوں نے عیسائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، جس کے بعد 50,000 فوجی میدان میں مارے گئے،20,000 بھاگتے ہوئے دلدلوں میں ڈوب گئے
اور انکی کل 70,000 ہلاکتیں ہوئیں۔ اسکے علاوہ100 توپیں عثمانیوں کے قبضے میں آئیں۔ جنگ کے بعد لاشوں کے ڈھیر پہاڑ کی طرح جمع ہوگئے
جو زندہ بچے وہ جان بچا کر بھاگتے رہے،اور عثمانی گھڑسوار انہیں آخری دم تک پیچھا کرتے رہے۔

حوالہ جات: معرکہ ہاجوفا، محمود ابو الفضل
تاریخ الدولة العثمانية، یلماز اوزتونا

تحریر:محمد سہیل

09/12/2025

سلطنتِ عثمانیہ کی اصل طاقت ینی چری فوج، جس کی وجہ سے تُرکوں نے یورپ کے قلب میں 600سال تک اپنی طاقت کا سکہ جمائے رکھا۔

فاتح سلطان کے بارے میں چند معلومات، جو آپ نہیں جانتے!
09/12/2025

فاتح سلطان کے بارے میں چند معلومات، جو آپ نہیں جانتے!

سلطان محمد الفاتح جس نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا!
سلطان محمد ثانی، المعروف محمد الفاتح (ہجری 835ھ – 886ھ / 1432ء 1481ء) نے صرف قسطنطنیہ کی تاریخی فتح حاصل نہیں کی اور نہ ہی صرف بشارتِ نبوی ﷺ کا وارث بنے، بلکہ اس کے بعد اُس نے یورپ کے دل میں اسلامی پرچم بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
فتحِ قسطنطنیہ (1453ء) کے بعد، سلطان نے مشرق و مغرب دونوں سمت یورپ کی زمین ہلا کر رکھ دی تھی۔
ان کی فتوحات میں البانیہ،مقدونیا،الجبل الأسود (مونٹی نیگرو) کرویشیا،صربیا،سلووینیا
سلوواکیہ،یونان روس کے بعض علاقےاور یہی نہیں، سلطان نے جزیرہ روڈس کا محاصرہ بھی کیا، پھر جنوبی اٹلی (اوٹرانٹو) کو فتح کر لیا، اور اُس کا اگلا نشانہ پورا اٹلی اور روم (ویٹیکن) تھا۔
روم کی فتح،وہ خواب جو موت نے روک دیا:
سلطان محمد فاتح کی خواہش تھی کہ جس شہر کی بشارت نبی ﷺ نے دی تھی (قسطنطنیہ) اور جس شہر کو صلیبی دنیا کا مرکز سمجھا جاتا ہے (روم) دونوں اس کی زندگی میں اس کے ہاتھوں فتح ہوں۔ وہ روم پر حملے کے لیے باقاعدہ تیاری کر چکا تھا، لیکن 1481ء میں صرف 53 سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے جوار میں بلا لیا۔ قبل اس کے کہ سلطان اس خواب کو مکمل کر سکیں۔ انکی وفات کے ساتھ ہی روم بچ گیا۔ یورپ نے سکھ کا سانس لیا۔
راتوں کا تہجد گزار، آنکھوں کا اشکبار فاتح
بے شمار بادشاہ راتوں کو شراب پیتے ہیں، لیکن محمد الفاتح رات کو اللہ کے سامنے روتا تھا۔ وہ تہجد گزار، گریہ کرنے والا، اور خوفِ خدا سے لرزنے والا سلطان تھا۔ اس کی فتوحات قوتِ بازو سے زیادہ قوتِ ایمان کے باعث تھیں۔

اللہ اس عظیم مجاہد سلطان پر رحمتیں نازل فرمائے، اوربہترین اجر عطا فرمائے۔
تاریخ کی جُستجو رکھنے والے میرے عزیز دوستو، یہ ہیں ہمارے آباء و اجداد جنہیں اللہ نے اسلام کی بدولت عزت دی، جب انہوں نے دین پر عمل کیا تو اللہ نے ان کو غالب کر دیا، اور ان کا ذکر دنیا بھر میں ہمیشہ کے لیے بلند کر دیا۔

تحریر:محمد سہیل

08/12/2025

How Trebizond Became Part of the Ottoman Empire

08/12/2025

عثمانی سلطان فاتح کے ہاتھوں، بنو جاندار قبیلے کے فتح ہونے کی مکمل تاریخ!

06/12/2025

قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کی دسری بڑی فتح"اماسرا"، اناطولیہ میں جینوا کی آخری کالونی۔

05/12/2025

Sultan Mahmud I Part 02 - Nader Shah’s Invasion of Ottoman Lands

اسلامی تاریخ کا انوکھا واقعہ،جب خانہ کعبہ کا طواف تیر کر کیا گیا۔
05/12/2025

اسلامی تاریخ کا انوکھا واقعہ،جب خانہ کعبہ کا طواف تیر کر کیا گیا۔

1941ء جب مکہ مکرمہ بارشوں میں ڈوب گیا اور طواف… تیر کر کیا گیا!
سنہ 1941ء میں مکہ مکرمہ پر ایسی شدید اور مسلسل بارشیں نازل ہوئیں کہ پورا شہر ایک بڑے سیلاب میں بدل گیا۔ بارش پورے ایک ہفتے تک بلا وقفہ، دن رات برستی رہی۔ یہاں تک کہ مسجدِ حرام کا پورا صحن پانی سے بھر گیا۔ صحنِ مطاف میں پانی کی گہرائی ڈیڑھ میٹر سے بھی زیادہ ہو گئی، اور کہا جاتا ہے کہ پانی کی سطح حجرِ اسود کے قریب تک پہنچ گئی تھی۔ انہی غیر معمولی حالات میں ایک تاریخی منظر سامنے آیا، ایک نادر تصویر جس میں بحرین کے نوجوان علی العوضی کو کعبہ کے گرد تیر کر طواف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ منظر آج بھی حرم کے تاریخی واقعات میں ناقابلِ فراموش حیثیت رکھتا ہے۔
علی العوضی اور تیر کر طواف کی داستان:
روایت کے مطابق، بارش کے آخری دن، علی العوضی اپنے بھائی، اپنے استاد اور چند ساتھیوں کے ساتھ مسجدِ حرام پہنچے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ صحنِ کعبہ پانی سے بھر چکا ہےاور مطاف میں قدم رکھنا بھی ممکن نہیں رہا، تو علی العوضی کے ذہن میں ایک حیرت انگیز خیال آیا:
"کیوں نہ طواف… تیر کر کیا جائے!"
چنانچہ انہوں نے اپنے بھائی اور ایک دوست کے ساتھ پانی میں اتر کر کعبہ کے گرد تیرتے ہوئے طواف مکمل کیا۔ یہ وہ جراتمندانہ اور ایمان سے لبریز لمحہ تھا
جس نے اس منظر کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
ایسا طواف… تاریخ میں شاید ہی دوبارہ ہو
یہ واقعہ اس بات کی گواہی ہے کہ ایمان، محبت اور اخلاص کس طرح انسان کو
کسی بھی صورتحال میں عبادت کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
یہ منظر…
طواف تیرتے ہوئے، کعبہ پانی سے گھرا ہوا،ایک ایسا واقعہ ہے جو شاید دوبارہ کبھی نہ دہرایا جائے، مگر اگر اللہ نے چاہا تو ہی ایسا دوبارہ ممکن ہوگا۔

تحریر:محمد سہیل

Dirección

Rua Carreira 41
Miño
15630

Notificaciones

Sé el primero en enterarse y déjanos enviarle un correo electrónico cuando History in Urdu publique noticias y promociones. Su dirección de correo electrónico no se utilizará para ningún otro fin, y puede darse de baja en cualquier momento.

Contacto La Empresa

Enviar un mensaje a History in Urdu:

Compartir