13/04/2025
کہتے ہیں بہت پرانے زمانے میں، جب ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا — وہ عادل تو تھا، مگر اپنی تعریف سن کر غرور کا تاج کچھ زیادہ اونچا ہو جاتا تھا۔
ایک دن اُس کے دربار میں آیا ایک عجیب و غریب شخص —
چہرے پر نور، ہاتھ میں لکڑی کی ایک تختی، اور آنکھوں میں علم کی چمک۔
نام تھا بوذرجمہر — دانا، فلسفی، اور حکمت کا خزانہ۔
"بادشاہ سلامت!" وہ بولا، "میں آپ کے لیے ایک ایسا کھیل لایا ہوں جو نہ تلوار مانگتا ہے، نہ خون… صرف عقل!"
بادشاہ نے دلچسپی سے پوچھا، "نام کیا ہے اس کا؟"
"شطرنج!"
بساط بچھائی گئی۔ بادشاہ، وزیر، پیادے، گھوڑے، ہاتھی سب اپنی جگہ۔
بادشاہ نے کھیلا… ہارا… سیکھا… جیتا… اور آخرکار، دل ہار بیٹھا!
"واہ! اے دانا، تو نے تو دل جیت لیا! مانگ، جو مانگے تیرا انعام۔ خزانے تیرے قدموں میں ڈال دوں گا!"
بوذرجمہر مسکرایا۔ کہنے لگا:
"بس یہ چاہتا ہوں، حضور… کہ شطرنج کی پہلی خانے پر ایک دانہ گیہوں، دوسرے پر دو، تیسرے پر چار… اور ہر اگلے خانے پر پچھلے سے دُگنا۔"
بادشاہ ہنسا:
"بس؟ اتنی سی بات؟ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!"
لیکن جب شاہی حسابداروں نے گنتی شروع کی…
تو ایک دن… دو دن… تین دن… اور پھر:
64 واں خانہ: 2^63 = 9,223,372,036,854,775,808 دانے!
کل ملا کر:
18,446,744,073,709,551,615 دانے!
اتنی گندم تو پوری سلطنت میں نہ تھی۔
بادشاہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے، چہرے پر شرمندگی… اور پھر غصہ۔
"یہ دانا نہیں، فریب کار ہے! یہ تو میرے غرور سے کھیل گیا!"
بادشاہ نے حکم دیا:
"اس کے علم کا سر قلم کر دو!"
اور یوں…
وہ شخص جو تاریخ میں زندہ رہ سکتا تھا، صرف اس لیے مار دیا گیا… کہ اُس نے سچ دکھا دیا — اور سچ اکثر طاقتور کو اچھا نہیں لگتا۔
📜 سبق؟
غرور بادشاہوں کو اندھا کر دیتا ہے،
اور علم ہمیشہ قربانی مانگتا ہے۔
❤️ اگر آپ کو یہ داستان پسند آئی ہو:
🔔 لائک کریں
📢 شیئر کریں
👑 فالو کریں تاکہ ہم آپ کو اور بھی تاریخی کہانیاں سنائیں — سبق آموز، دلچسپ اور دل کو چھو لینے والی!
تب تک یاد رکھو… کہ شطرنج میں بادشاہ سب سے اہم ہوتا ہے، مگر مرنے والا سب سے پہلے وزیر ہوتا ہے! ♟️