
13/03/2025
دعا زہرا کیس
$1,15,921.80 امریکی ڈالرز کا صرف ایک دھندہ؟
دعا زہرا کیس میں روایتی دھونس دھمکیوں کے بعد اجرتی قاتلوں کو رقم دینے کے اعلانات اگرچہ شعیہ شدت پسندوں کی جانب سے تھے مگر چند ایک سنی بدکردار صحافی یوٹیوبرز بھی ریکی اور ذاتی معلومات دینے میں مصروف رہے تو یوں کہہ لیجیے کہ میری زندگی کا خاتمہ مذہبی جنونیت اور سنی مفاد پرستوں کا مشترکہ محاذ تھا۔ وجہ جرم دعا ظہیر کیس میں شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات کو عیاں کرنا رہا تھا
خیر، یقینا آپ اس شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات سے متعلق ثبوت مانگنا چاہیں گے۔ اس تحریر میں اس پورے اسکینڈل کے صرف ایک کردار کو آپ کے سامنے رکھنے رہا ہوں۔ یوں کہیں، یہ دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔ جو پوری دیگ کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے کافی ہوگا۔
یہ کہانی ملتان سے امریکی ریاست پینسلونیا میں سکونت اختیار کرنے والے متشدد شعیہ ذہن رکھنے والے ڈاکٹر شجاعت کی ہے۔ جیسے مہدی فیملی اپنا سب سے بڑا محسن تصور کرتی رہی۔ خیر ڈاکٹر صاحب کی کیس میں انٹری اور مبینہ 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز کی رقم جمع کرنے کی کہانی اکشے کمار کی مووی تیس مارخاں سے ملتی جلتی سی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ پپ جی سے ہونے والی دوستی عشق میں بدلی، لڑکی نے ماں کو حقیقت بتائی مگر سماجی طور پر مڈل کلاس، لوئر کلاس کے فرق اور شعیہ سنی کی تفریق کے باعث والدین نے سختی کے ساتھ انکار کردیا نتیجتا لڑکی نے انتہائی اقدام اٹھا لیا۔
پھر ظفر عباس کی مدد سے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہانی ہی بدل دی گئی اور ایک ایسا خوف ناک بیانیہ پیش کیا گیا کہ ہر ماں، باپ اور بھائی کو اپنی کم عمر بہن بیٹی کی فکر ہونے لگا اور سوشل میڈیا پر لوگ اسی خوف کے باعث اس بیانیہ سے جڑ گئے۔
حالانکہ اصل وجہ ایک ہی وقت میں دو سنی لڑکوں یعنی ظہیر اور شاہ رخ کے ساتھ دو شعیہ لڑکیوں دعا اور نمرہ کا الگ الگ بھاگنا تھا۔ اور یوں یہ نوبل کاز شروع ہوا جس کا ظاہری مقصد اغوا شدہ لڑکیوں کی بازیابی مگر پس پردہ شعیہ لڑکیوں کو سنی لڑکوں سے شادیاں کرنے سے باز رکھنا تھا پھر مذہبی شدت پسند شہلا ر کا کردار آپ سبھی کے سامنے تھا جس نے شیلٹر ہوم جا کر نمرہ کے منہ پر تھپیڑ برسے اور نمرہ نے یہ کہانی سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کو بتا دی ( شہلا اور ججوں کے غلیظ کردار کی کہانی پھر سہی)۔
"نوبل کاز" شروع ہوتے ہی عدالتی نظام پر وسائل پوری قوت سے لگانے کے لیے اووسیز پاکستانیوں سے رجوع کیا گیا اور یوں پینسلونیا سے ڈاکٹر شجاعت کی انٹری ہوئی جنہیں یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک منظم گروہ شعیہ لڑکیوں کو اغوا کر رہا ہے اور پھر آل رسول یعنی سید گھرانے کی دعا کا اغوا وہ بھی کمتر ڈرائیور کے بیٹے کے ہاتھوں ظلم عظیم ہے۔
پھر کیا تھا شدت پسند رجحات کے باعث ڈاکٹر شجاعت نے کمر کستے ہوئے فنڈز مہم کا آغاز کیا۔ بقول ڈاکٹر شجاعت کے، وہ ایک خطیر رقم لے کر امریکہ ( کچھ مزید شدت پسندوں ساتھیوں کے ہمراہ) کراچی آیا۔ مہدی کے گھر کا مہمان بنا، ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور یوں ڈاکٹر صاحب مہدی فیملی کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔
ڈاکٹر شجاعت پہلے سے پرجوش ہو کر امریکہ پلٹا، نوبل کاز کے حصول کے لیے دن رات کرتے ہوئے نہ صرف لائیو ٹرانسمیشن کی بلکہ فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ لائیو ٹرانسمیشن میں اعلان کیا کہ اقرار الحسن سمیت بڑے پاکستانی یوٹیوبرز اگر دعا کو ریسکیو کرنے کا بیڑا اٹھائیں تو تمام مالی اخراجات اس کی جانب سے ہوں گے اور پھر یکدم اقرار اور بعض بڑے اینکرز کی اس کیس میں انٹری ہوئی۔
بقول ڈاکٹر شجاعت کے، مہدی فیملی ممبرز نے اسے بتایا کہ عدالتی نظام پر بھاری اخراجات آرہے ہیں جن کا بندوبست کرنا لازم ہے ورنہ یہ منظم گینگ ہماری مزید بچیوں کو اغوا کرلے گا۔ ڈاکٹر صاحب مزید جذباتی ہوئے دن رات ایک کیا۔ لوگوں کو "نوبل کاز" سے آگاہی دیتے ہوئے فنڈز جمع کیا ( ذرائع کے مطابق 25 ہزار امریکی ڈالرز ذاتی) کل ملا کر 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز رقم مہدی کے سگے بھائیوں اور کزن جن میں سید زین، عاصم عرف طاہر، عزادار و دیگر کے اکاوئنٹس، ویسٹرن یونین، ایکسوم و دیگر ذریعے سے منتقل ہوئی۔(ایک سے زائد اکاونٹس اور ذرائع استعمال کرنے کا مقصد قانونی پیچیدگیوں سے بچنا تھا)۔
وقت گزرتا گیا اور کچھ عرصے بعد ہم نے جب یہ انکشاف کیا کہ مہدی کا اپنا سگا بھائی عاصم عرف طاہر راولپنڈی کی درجن بھر ایف آئی آرز میں اشتہاری ہے جس پر کاروبار کی غرض سے امیر لوگوں کو گھیرنے اور کروڑوں روپے فراڈ کا الزام ہے تو امریکہ میں بیٹھے ڈاکٹر کو اپنی رقم کا خیال آیا لیکن تب تک پیسے ہضم ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اخراجات کی رسیدیں مانگی تو پہلے ٹال مٹول اور پھر صاف انکار کردیا گیا کہ آپ نے ہمیں کوئی پائی پیسہ نہیں دیا اور وہ امریکی ڈاکٹر جو مہدی کی پوری فیملی کو امریکہ لے جانے کی کوشیشوں میں تھا اس نے مہدی فیملی پر دولت لوٹنے کے لیے اپنی بچیاں استعمال کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کر دے۔
ڈاکٹر شجاعت نے نوبل کاز میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والی شہلا ر سمیت تمام دروازے کھٹکٹائے مگر مایوسی ہوئی تب ڈاکٹر کے پاس دوبارہ پاکستان آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
ذیل میں، میرے الزامات نہیں بلکہ ڈاکٹر شجاعت کی جانب سے لاہور کی عدالت میں مہدی فیملی کے خلاف دائر مقدمہ کی تصدیق شدہ عدالتی دستاویزات ہیں۔ جیسے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی دولت تو گئی مگر ساتھ ہی انہیں امریکی اسپتال ایڈمنسٹریشن کی وارننگ، شٹ اپ کال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ڈاکٹر کی کہانی تو ختم۔ نہیں جناب،،،،ابھی بہت کچھ باقی ہے۔۔۔۔۔
ایک اور کردار کی کہانی اگلی تحریر میں۔
بلال احمد کی وال سے منقول