33newshd 33 news France a web tv in France
Providing Entertainment, Information, News and Cultural Programs.
(2)

04/06/2025
دعا زہرا کیس$1,15,921.80 امریکی ڈالرز کا صرف ایک دھندہ؟دعا زہرا کیس میں روایتی دھونس دھمکیوں کے بعد اجرتی قاتلوں کو رقم ...
13/03/2025

دعا زہرا کیس
$1,15,921.80 امریکی ڈالرز کا صرف ایک دھندہ؟

دعا زہرا کیس میں روایتی دھونس دھمکیوں کے بعد اجرتی قاتلوں کو رقم دینے کے اعلانات اگرچہ شعیہ شدت پسندوں کی جانب سے تھے مگر چند ایک سنی بدکردار صحافی یوٹیوبرز بھی ریکی اور ذاتی معلومات دینے میں مصروف رہے تو یوں کہہ لیجیے کہ میری زندگی کا خاتمہ مذہبی جنونیت اور سنی مفاد پرستوں کا مشترکہ محاذ تھا۔ وجہ جرم دعا ظہیر کیس میں شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات کو عیاں کرنا رہا تھا

خیر، یقینا آپ اس شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات سے متعلق ثبوت مانگنا چاہیں گے۔ اس تحریر میں اس پورے اسکینڈل کے صرف ایک کردار کو آپ کے سامنے رکھنے رہا ہوں۔ یوں کہیں، یہ دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔ جو پوری دیگ کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

یہ کہانی ملتان سے امریکی ریاست پینسلونیا میں سکونت اختیار کرنے والے متشدد شعیہ ذہن رکھنے والے ڈاکٹر شجاعت کی ہے۔ جیسے مہدی فیملی اپنا سب سے بڑا محسن تصور کرتی رہی۔ خیر ڈاکٹر صاحب کی کیس میں انٹری اور مبینہ 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز کی رقم جمع کرنے کی کہانی اکشے کمار کی مووی تیس مارخاں سے ملتی جلتی سی ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ پپ جی سے ہونے والی دوستی عشق میں بدلی، لڑکی نے ماں کو حقیقت بتائی مگر سماجی طور پر مڈل کلاس، لوئر کلاس کے فرق اور شعیہ سنی کی تفریق کے باعث والدین نے سختی کے ساتھ انکار کردیا نتیجتا لڑکی نے انتہائی اقدام اٹھا لیا۔

پھر ظفر عباس کی مدد سے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہانی ہی بدل دی گئی اور ایک ایسا خوف ناک بیانیہ پیش کیا گیا کہ ہر ماں، باپ اور بھائی کو اپنی کم عمر بہن بیٹی کی فکر ہونے لگا اور سوشل میڈیا پر لوگ اسی خوف کے باعث اس بیانیہ سے جڑ گئے۔

حالانکہ اصل وجہ ایک ہی وقت میں دو سنی لڑکوں یعنی ظہیر اور شاہ رخ کے ساتھ دو شعیہ لڑکیوں دعا اور نمرہ کا الگ الگ بھاگنا تھا۔ اور یوں یہ نوبل کاز شروع ہوا جس کا ظاہری مقصد اغوا شدہ لڑکیوں کی بازیابی مگر پس پردہ شعیہ لڑکیوں کو سنی لڑکوں سے شادیاں کرنے سے باز رکھنا تھا پھر مذہبی شدت پسند شہلا ر کا کردار آپ سبھی کے سامنے تھا جس نے شیلٹر ہوم جا کر نمرہ کے منہ پر تھپیڑ برسے اور نمرہ نے یہ کہانی سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کو بتا دی ( شہلا اور ججوں کے غلیظ کردار کی کہانی پھر سہی)۔

"نوبل کاز" شروع ہوتے ہی عدالتی نظام پر وسائل پوری قوت سے لگانے کے لیے اووسیز پاکستانیوں سے رجوع کیا گیا اور یوں پینسلونیا سے ڈاکٹر شجاعت کی انٹری ہوئی جنہیں یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک منظم گروہ شعیہ لڑکیوں کو اغوا کر رہا ہے اور پھر آل رسول یعنی سید گھرانے کی دعا کا اغوا وہ بھی کمتر ڈرائیور کے بیٹے کے ہاتھوں ظلم عظیم ہے۔

پھر کیا تھا شدت پسند رجحات کے باعث ڈاکٹر شجاعت نے کمر کستے ہوئے فنڈز مہم کا آغاز کیا۔ بقول ڈاکٹر شجاعت کے، وہ ایک خطیر رقم لے کر امریکہ ( کچھ مزید شدت پسندوں ساتھیوں کے ہمراہ) کراچی آیا۔ مہدی کے گھر کا مہمان بنا، ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور یوں ڈاکٹر صاحب مہدی فیملی کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔

ڈاکٹر شجاعت پہلے سے پرجوش ہو کر امریکہ پلٹا، نوبل کاز کے حصول کے لیے دن رات کرتے ہوئے نہ صرف لائیو ٹرانسمیشن کی بلکہ فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ لائیو ٹرانسمیشن میں اعلان کیا کہ اقرار الحسن سمیت بڑے پاکستانی یوٹیوبرز اگر دعا کو ریسکیو کرنے کا بیڑا اٹھائیں تو تمام مالی اخراجات اس کی جانب سے ہوں گے اور پھر یکدم اقرار اور بعض بڑے اینکرز کی اس کیس میں انٹری ہوئی۔

بقول ڈاکٹر شجاعت کے، مہدی فیملی ممبرز نے اسے بتایا کہ عدالتی نظام پر بھاری اخراجات آرہے ہیں جن کا بندوبست کرنا لازم ہے ورنہ یہ منظم گینگ ہماری مزید بچیوں کو اغوا کرلے گا۔ ڈاکٹر صاحب مزید جذباتی ہوئے دن رات ایک کیا۔ لوگوں کو "نوبل کاز" سے آگاہی دیتے ہوئے فنڈز جمع کیا ( ذرائع کے مطابق 25 ہزار امریکی ڈالرز ذاتی) کل ملا کر 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز رقم مہدی کے سگے بھائیوں اور کزن جن میں سید زین، عاصم عرف طاہر، عزادار و دیگر کے اکاوئنٹس، ویسٹرن یونین، ایکسوم و دیگر ذریعے سے منتقل ہوئی۔(ایک سے زائد اکاونٹس اور ذرائع استعمال کرنے کا مقصد قانونی پیچیدگیوں سے بچنا تھا)۔

وقت گزرتا گیا اور کچھ عرصے بعد ہم نے جب یہ انکشاف کیا کہ مہدی کا اپنا سگا بھائی عاصم عرف طاہر راولپنڈی کی درجن بھر ایف آئی آرز میں اشتہاری ہے جس پر کاروبار کی غرض سے امیر لوگوں کو گھیرنے اور کروڑوں روپے فراڈ کا الزام ہے تو امریکہ میں بیٹھے ڈاکٹر کو اپنی رقم کا خیال آیا لیکن تب تک پیسے ہضم ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اخراجات کی رسیدیں مانگی تو پہلے ٹال مٹول اور پھر صاف انکار کردیا گیا کہ آپ نے ہمیں کوئی پائی پیسہ نہیں دیا اور وہ امریکی ڈاکٹر جو مہدی کی پوری فیملی کو امریکہ لے جانے کی کوشیشوں میں تھا اس نے مہدی فیملی پر دولت لوٹنے کے لیے اپنی بچیاں استعمال کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کر دے۔

ڈاکٹر شجاعت نے نوبل کاز میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والی شہلا ر سمیت تمام دروازے کھٹکٹائے مگر مایوسی ہوئی تب ڈاکٹر کے پاس دوبارہ پاکستان آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

ذیل میں، میرے الزامات نہیں بلکہ ڈاکٹر شجاعت کی جانب سے لاہور کی عدالت میں مہدی فیملی کے خلاف دائر مقدمہ کی تصدیق شدہ عدالتی دستاویزات ہیں۔ جیسے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی دولت تو گئی مگر ساتھ ہی انہیں امریکی اسپتال ایڈمنسٹریشن کی وارننگ، شٹ اپ کال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ڈاکٹر کی کہانی تو ختم۔ نہیں جناب،،،،ابھی بہت کچھ باقی ہے۔۔۔۔۔

ایک اور کردار کی کہانی اگلی تحریر میں۔

بلال احمد کی وال سے منقول

یہ انسان نما  #بھیڑیوں کا وہ خاندان ہے جس نے اس چھوٹی لڑکی منتہیٰ نعیم کی پلیٹ سے ایک  #نوالہ لینے کی پاداش پر اپنی عظمی...
04/02/2025

یہ انسان نما #بھیڑیوں کا وہ خاندان ہے جس نے اس چھوٹی لڑکی منتہیٰ نعیم کی پلیٹ سے ایک #نوالہ لینے کی پاداش پر اپنی عظمی نامی ملازمہ کو آٹھ ماہ تک جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اور جب یہ بچی خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے مر رہی تھی تو اس کی بے ہوشی کو مکر قرار دے کر اس بچی کو
بجلی کے جھٹکے دیتے رہے
ان آٹھ ماہ میں جب بھی اس بچی کے گھر والے اس بچی کو ملنے آتے تو ان سے یہی کہا جاتا کہ بچی دوسرے شہر میں حالانک وہ اس بچی کو دروازے کے #پیچھے دیکھ بھی لیتے مگر یہ اپنے زخموں کی وجہ سے ناقابل شناخت ہو چکی تھی
تمآم لوگ اس بچی کے لئے آواز اٹھائیں

سور کیوں پیدا کیا گیاہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہےیورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انت...
30/01/2025

سور کیوں پیدا کیا گیا
ہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے

یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے۔
کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔
اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تاکہ پیسے بھی کمائے جا سکیں۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کامیاب رہا۔
شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔
چونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔ 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔
اس کے بعد وہ سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان *حقائق کو پہچان لیا اور PIG FAT لکھنے کے بجائےانہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا
P
1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے...؟تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔
اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔!
آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیااستعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے۔ اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں،

ان مصنوعات میں
دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں
کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات شامل ہیں چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔
سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے۔
لہذا تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہو تو پھر اس سے یقینی طور پر بچیں،کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔
E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E905

ڈاکٹر ایم امجد خان
میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ

👈براہ کرم اس وقت تک شیئر کرتے رہیں جب تک کہ وہ بلائنس آف مسملز ورلڈ وائڈ پر نہ آجائیں

یاد رھے کہ شیئرنگ صدقة جاريه میں گردانی جا سکتی ھے

Adresse

47 Boulevard De La Muette Garges Les Gonesse
Garges-lès-Gonesse
95140

Téléphone

+33757842733

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque 33newshd publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Contacter L'entreprise

Envoyer un message à 33newshd:

Partager