Dr. Hafeez Ul Hassan

Dr. Hafeez Ul Hassan یہ پرسنل بلاگ ہے یہاں آپکو سائنس، ادب، تاریخ، معاشرت اور دیگر موضوعات پر تحریریں اور ویڈیوز ملیں گی۔
PM for promotions

22/08/2025

خان نو پھائی لگے تے پانوے جیل چوں نس جاوے، سانوں کی!!

22/08/2025

ا

غنی خان
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړی معنا
پروت يم سر مې اېښې د خپل يار په زنګانه

خوب وينم چې پورته په هوا لکه د باز شومه
کيناستم په بام د محمود سترګې د اياز شومه
پورته د خاموش زړګى نه خوږ د مينې ساز شومه
خرڅه مې په حورو کړه د ډمو زمانه

خوب وينم چې ناست يم د جيندى په يخه غاړه
شا مې سويلو کښې لکه سره شمع ولاړه
سرې شونډې مسکئ شوې راته ئې وې چې ژاړا ژاړه
څکه دې د زړه وينې دا شراب دی مستانه
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړى معنا

خوب وينم چې باغ دې د ګلونو او ماښام دې
سرې سترګې ساقى د ساقى سرو ګوټو کښې جام دې
لاس په ستار پروت ليونې مست لکه خيام دې
اړئ پرې نرئ نرئ د مينې افسانه
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړى معنا

خوب وينم چې سپينه سپوږمئ پاس په خندا راغله
ماله محبوبه په شرم شرم خندا راغله
شونډو کښې شراب او په کوکئ کښې قضا راغله
سُر خمار ئې راکه پيمانه په پيمانه
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړى معنا

خوب وينم چې پټ شوم په نسيم کښې بهر لاړمه
خوا له د جانان لکه د مينې نظر لاړمه
سترګو د دلدار له لکه خوب د صحرا لاړمه
يو شړڼګ کښې مې لوټ کړه د عمرونو خزانه
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړى معنا

خوب وينم چې زه لکه لولکه په سيل اووتم
پورته د نرګس نه شوم په خوا د رامبېل اووتم
تاؤ د سپينې غاړې د ليلا په امېل اووتم
پټ مې ورته ووې سلامونه جانانه
خوب وينم عالمه که ئې څوک راکړى معنا

خوب وينم چې پورته لکه چغه د منصور شومه
يا يو موټې خاؤره وم يا لوې درياب د نور شومه
خو بانګ د سحر اوشو زه راویښ شوم په رکوع شومه
خوب يوړه خوبونه را ژوندئ شوه زمانه
وې پريوزه ليوانيه تيراوه دې جيلخانه

اردو ترجمہ..

میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے
لیٹا ہوں، سر رکھا ہے میں نے اپنے یار کی ران پر

میں خواب دیکھتا ہوں کہ جیسے باز کی طرح فضاؤں میں اُڑ گیا ہوں
بیٹھا ہوں محمود کی چھت پر اور عیّاز کی آنکھیں بن گیا ہوں
خاموش دل سے اُٹھا ہوں اور محبت کا نغمہ بن گیا ہوں
حُوروں کے بدلے میں نے دنیائے ریاکاری بیچ دی

میں خواب دیکھتا ہوں کہ معشوقہ کی ٹھنڈی باہوں میں بیٹھا ہوں
میری پیٹھ کے پیچھے جیسے سُرخ شمع جل رہی ہے
سرخ لبوں نے مسکرا کر کہا: روتے کیوں ہو؟
یہ تمہارے دل کا خون ہے، جو مستانہ شراب بن گیا ہے
میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے

میں خواب دیکھتا ہوں کہ باغ کھلا ہے، شام کا وقت ہے
شرابی آنکھوں والا ساقی، نازک اُنگلیوں میں جام لیے کھڑا ہے
لیٹا ہوا ہوں ستار پر، دیوانہ، مست جیسے خیام ہوں
اور اس پر بجاتا ہوں محبت کی نازک داستان
میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے

میں خواب دیکھتا ہوں کہ سفید چاندنی مسکراتی ہوئی نکل آئی ہے
میری محبوبہ بھی شرمیلی ہنسی ہنسی
اُس کے ہونٹوں پر شراب ہے، آنکھوں میں قضا ہے
اس نے سرور بھری نغمگی دی، پیمانہ پہ پیمانہ
میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے

میں خواب دیکھتا ہوں کہ نسیم میں چھپ کر باہر نکل گیا ہوں
محبوب کی آنکھوں کی طرح گیا ہوں، جیسے محبت کی نگاہ
معشوق کی آنکھوں کی مانند گیا ہوں، جیسے ریگستان کا خواب
ایک ہی لمحے میں میں نے عمروں کا خزانہ لوٹ لیا
میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے

میں خواب دیکھتا ہوں کہ لولک کی طرح ہوا میں جھوم گیا ہوں
نرگس کے اوپر سے گزرتے ہوئے، رامبیل کے قریب جا پہنچا ہوں
محبوبہ کی سفید گردن پر پڑے ہار میں جا اُلجھا ہوں
آہستہ سے اسے کہا: سلام، اے جاناں!
میں خواب دیکھتا ہوں، اے عالم! اگر کوئی اس کی تعبیر بتائے

میں خواب دیکھتا ہوں کہ منصور کی صدا کی مانند بلند ہوا ہوں
یا ایک مُٹھی خاک تھا، یا نور کا عظیم سمندر بن گیا ہوں
مگر جب بانگِ سحر ہوئی تو جاگ اُٹھا، اور رکوع میں جھک گیا
خواب نے سب خواب اُڑا دیے، مگر میری زندگی جاگ اُٹھی
کہا گیا: اے دیوانے! پھر سو جا، یہ قید خانہ گزار لے

زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن قابلِ مشاہدہ کائنات کی 20 کھرب کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں میں اربوں ستا...
21/08/2025

زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

قابلِ مشاہدہ کائنات کی 20 کھرب کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جنکے گرد اربوں سیارے گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہماری زمین ہے۔ کائنات کی عمر 13.8 ارب سال ہے۔ قابلِ مشاہدہ کائنات کا قطر 93 ارب نوری برس یے۔ اس قدر وسیع و قدیم کائنات میں محض زمین پر زندگی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ کائنات بے حد وسیع ہے لہٰذا اسکے کھرب ہا کھرب زمین جیسے سیاروں پر زندگی ڈھونڈنا سمندر میں سوئی تلاش کرنے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے تاہم حضرتِ انساں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اس جستجو میں مگن ہے۔ اور ممکن ہے کہ ہم کسی سادہ صورت میں زندگی کو اپنے نظامِ شمسی یا کسی اور ستارے کے نظام میں ڈھونڈ لیں۔ وہ جو اس جستجو میں ہیں ان سے کہیں بہتر ہیں جو نہ ہی اس جستجو میں ہیں اور نہ ہی اس جستجو کو کسی طور مثبت گردانتے ہیں کہ انکا یہ کھوکھلا اور بودا سا دعویٰ ہے کہ تمام کائنات کا علم ودیعت ہو چکا جبکہ حال یہ کہ وہ جدید دنیا کے بنیادی علم سے بھی محروم ہیں۔

کائنات کے اس وسیع و قدیم پھیلاؤ میں جن چند ساعتوں کو ایک شعلہ سا انسان بھڑکا ہے اس شعلے سے زندگی کی نوید سنائی دیتی ہے اور کائنات کے بے کراں سمندر میں جب انسان زندگی کی تلاش کرتا ہے تو دراصل زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!

اگر آپ 60 اور 70 کی دہائی کے پاپ گانوں کے دلدادہ رہے ہیں تو یقیناً آپ نے برطانوی مشہور بینڈ بیٹلز کا نام سنا ہوگا۔ اس بی...
21/08/2025

اگر آپ 60 اور 70 کی دہائی کے پاپ گانوں کے دلدادہ رہے ہیں تو یقیناً آپ نے برطانوی مشہور بینڈ بیٹلز کا نام سنا ہوگا۔ اس بینڈ کی دھوم اس وقت ہر جگہ تھی۔ اس کے چار ممبران تھے: جان لینن، پال میک کارٹنی، رنگو اسٹار، اور جارج ہیرسن۔ جان لینن بینڈ کے اہم گانے لکھنے والے اور ووکلسٹ تھے، پال میک کارٹنی بیس گٹار اور ووکل کے ساتھ سب سے زیادہ گانے لکھنے والے ممبر، رنگو اسٹار ڈرمز اور بعض گانوں کے ووکل کے لیے جانے جاتے تھے، اور جارج ہیرسن لیڈ گٹارسٹ، جن کی موسیقی میں گہری روحانیت اور کلاسیکی ہندوستانی سازوں کا اثر نمایاں تھا۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک ہی شکل کے کئی انسان بستے ہیں، کیونکہ انسانی نقوش ایک پیٹرن پر کچھ حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ باقی دیکھنے اور پہچاننے کی صلاحیت پر ہے۔

چند روز قبل جب جارج ہیرسن کی تصویر نظر آئی، تو یوں لگا کہ "ان صاحب سے تو میں مل چکا ہوں"۔ مگر جن صاحب میں جرمنی کے شہر بون میں ملا، وہ گاتے تو موڈ میں ہیں مگر شاعری کمال کرتے ہیں، اور پاکستانی سیاست، فلسفہ اور تاریخ پر بھی دلچسپ بحث کرتے ہیں۔ پیٹ پالنے کو یہ صحافت کرتے ہیں اور روح پالنے کو شاعری۔جی ہاں، میں بات کر رہا ہوں عاطف توقیر کی۔

اب کیا معلوم، جارج ہیرسن اور عاطف توقیر صاحب کے لکڑ دادے آپس میں کزن یا بھائی ہوں :)

ڈاکٹر حفیظ الحسن

مریخ پر طویل بادل!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن زیرِ نظر تصویر میں لمبی سفید لیکر دراصل مریخ کی فضا میں 1800 کلومیٹر طویل اور...
20/08/2025

مریخ پر طویل بادل!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

زیرِ نظر تصویر میں لمبی سفید لیکر دراصل مریخ کی فضا میں 1800 کلومیٹر طویل اور 120 کلومیٹر چوڑا ایک بادل یے۔ ۔یہ غالباً نظامِ شمسی کے کسی بھی سیارے پر سب سے طویل اور مسلسل بادل ہے۔ اسے سائنسدانوں نے Arsia Mons Elongated Cloud کا نام دیا ہے۔ جسکا مخفف AMEC بنتا یے۔

مگر مریخ پر بادل؟ سننے میں یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟ کیونکہ مریخ پر زمین کی طرح آزاد حالت میں اور بڑی مقدار میں پانی نہیں ہے۔ یقیناً مریخ کے قطبین پر پانی جمی حالت میں موجود ہے ایسے ہی مریخ کی مٹی میں بھی پانی دیگر کیمیائی مرکبات کے ساتھ موجود ہے مگر مریخ کی فضا میں پانی کی بخارات محض 1 فیصد ہیں اور مریخ کی فضا زمین کی فضا کے مقابلے میں قریب سو گنا لطیف ہے۔ جسکا مطلب یہ ہوا کہ اس قدر باریک فضا میں محض 1 فیصد بخارات چہ حیثیت؟

تو مریخ پر بادل اور وہ بھی اتنا بڑا اور طویل؟ کیسے؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین پر بادل کیسے بنتے ہیں۔ زمین کی اوپری سطح جسے کرسٹ کہتے ہیں، اس پر سمندر 70 فیصد رقبے پر پھیلے ہیں۔ سمندروں میں پانی ہے اور سمندروں پر جب سورج کی روشنی پڑتی یے تو بخارات ہوا میں اُڑتے ہیں۔ ہوا ان بخارات کو زمین کی گرم سطح سے اوپر فضا میں دھکیلتی ہے۔ سطح سمندر سے چند کلومیٹر اوپر بنتے ہیں جہاں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ کرہ فضائی کے اس حصے کو ٹراپوسفئیر کہتے ہیں اور کم و بیش 99 فیصد بادل فضا کے اس حصے میں بنتے اور پائے جاتے ہیں۔ پانی کے بخارات اس قدر کم درجہ حرارت پر بادلوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ بادل سطح سمندر سے زمین کے مختلف حصوں ہر مختلف اونچائی پر پائے جاتے ہیں۔ یہ اونچائی 2 سے 7 کلومیٹر کے درمیان ہوتی یے۔

مگر مریخ پر بادل؟ مریخ پر بادل بننا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ اسکی فضا میں پانی کے بخارات بہرحال موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کاربن ڈائی آکسائڈ بھی۔ یہاں بادل پانی کے بخارات کے بھی بنتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے جمنے سے بھی، مریخ کی فضا کے درمیانے حصے میں جو مریخ کی سطح سے 30 سے 80 کلومیٹر اوپر ہے۔
اور یہ بادل تب ہی بنتے ہیں جب فضا کے اس حصے میں مقامی درجہ حرارت فضا کے باقی حصے سے کم ہو اور یوں بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ اکٹھی ہو کر جمنے لگے۔

زیرِ نظر تصویر میں موجود بادل کیسے بنا؟

اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے 2022 میں سپین اور فرانس کے سائنسدانوں نے اس بادل کی تصاویر اور مریخ کی فضا سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ایک ماڈل تیار کیا۔ اس ماڈل میں مریخ کی فضا میں موجود پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایک خاص رفتار سے ان بادلوں کے پاس بڑے آتش فشاں Arsia Mons کے قریب سے گزارا گیا۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا کہ اس آتش فشاں سے ٹکرانے والی ہوا اوپر کو اُٹھتی ہے جس سے مقامی طور پر آتش فشاں کے قریب ہوا کا درجہ، باقی ہوا کے مقابلے 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔۔اور اس غیر معمولی درجہ حرارت میں بدلاؤ سے ہوا میں موجود پانی کے بخارات غیر معمولی حالات میں بادلوں کی صورت اختیار کرنے لگتے ہیں جسکا نتیجہ ایک طویل اور بڑے بادل کی صورت سامنے آتا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ بادل مریخ پر مریخ کے جنوبی کرے پر موسمِ بہار میں بنتا ہیں جو جولائی کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اور ہر 80 روز کے بعد دن کے کسی مخصوص حصے میں کچھ گھنٹوں کے لیے اس موسم میں بنتے رہتے ہیں۔

مریخ کی فضا میں بادلوں کا بننا اور اسکے بننے کے عمل کو سمجھنا سائنسدانوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ اس سے نہ مریخ کی فضا کے متعلق وہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں بلکہ مریخ کے موسموں کے حوالے سے بھی اُنہیں بہتر رہنمائی مل سکتی ہے جس سے علم و تحقیق کے نئے در کھل سکتے ہیں اور مستقبل میں ہم ان معلومات کے ذریعے مریخ کے علاوہ زمین اور نظامِ شمسی میں موسموں کے تغیر کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مستقبل میں انسانوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جب وہ مریخ پر ممکنا طور بستیاں بسانے جائیں گے اور وہاں خوراک کے لئے کھیتی باڑی کریں گے۔

جاتے جاتے اس بادل کی تصویر یورپین سپیس ایجنسی کے سپیس کرافٹ مارس ایکسپریس پر موجود کیمرا سے کی گئی ہے۔ یہ سپیس کرافٹ دسمبر 2003 سے مریخ کے مدار میں رہ کر مریخ کی فضا کا تفصیلی جائزہ اور تصاویر لے رہا ہے۔

خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔

19/08/2025

سنائیں مزہ آ رہا ہے فوجستان میں؟ ؛)

لیبارٹری کا نیا پٹواری: کمپیوٹرتحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن کبھی کبھی لگتا ہے کہ سائنس دان بھی ہمارے محلے کے پٹواریوں جیسے ہی...
18/08/2025

لیبارٹری کا نیا پٹواری: کمپیوٹر

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

کبھی کبھی لگتا ہے کہ سائنس دان بھی ہمارے محلے کے پٹواریوں جیسے ہیں۔ پٹواری بس یہ طے کرتا ہے کہ کھیت کا کون سا کونہ کس کا ہے اور دیوار کس کی طرف جھک رہی ہے۔ اور یہ بیچارے سائنس دان ذرے کا رقبہ ماپتے ہیں: کہ الیکٹران کس گلی میں ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے اور پروٹان کا تھانہ کہاں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پٹواری کو دو سو روپے اور "چائے پانی" دے کر سیدھا کیا جا سکتا ہے، سائنس دان کو صرف "ڈیٹا" سے خوش کیا جا سکتا ہے۔

پہلے کیمیادان سفید کوٹ پہن کر ایسے خوش ہوتے جیسے محلے کے ڈاکٹر صاحب نئی گاڑی لے کر آئیں۔ لیموں اور بیکنگ سوڈے سے بلبلے نکال کر سمجھتے تھے کہ بس نیوٹن کی روح بھی خوشی سے تالیاں بجا رہی ہوگی۔ اب وہ دن گئے۔ اب ان کے ہاتھ میں ایک نیا کھلونا ہے: "آرٹیفیشل انٹیلیجنس"۔ وہی ذہانت جس کے بارے میں ماں اکثر کہتی ہیں: "بیٹا تمہارے اندر ہے تو سہی، بس پڑھائی میں لگاتے نہیں۔"

یہ کمپیوٹر اب صرف شطرنج جیتنے یا شاعری کے قافیے ڈھونڈنے پر قناعت نہیں کرتے۔ ان کی "نوکری" اب دوا سازی اور مالیکیول سازی میں بھی لگ گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اینٹی بایوٹک "ہیلیسن" دریافت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبان حیران کہ بھئی یہ ترکیب تو ہمیں دماغ میں کیوں نہ آئی؟ کمپیوٹر نے آرام سے نکال دی، جیسے کسی کلینک کے باہر پچاس مریض لائن میں لگے ہوں اور کمپیوٹر سیدھا وہ نسخہ پکڑا دے جو سب پر کارگر ہو جائے۔

پھر بیٹری کے لیے نئی قسم کا محلول چاہیے تھا۔ سائنس دان پریشان، کیونکہ بجلی کے بل دیکھ کر تو پہلے ہی عوام کا بلڈ پریشر ہائی تھا۔ اے آئی نے کروڑوں فارمولے چھان مارے اور چند ایسے نکالے جو لیبارٹری میں سچ مچ چل گئے۔ یوں لگا جیسے کمپیوٹر اب مشورہ دینے والے سسر کی طرح ہے: سو حل بتائے گا، لیکن آخر میں آپ کو وہی کرنا پڑے گا جو واقعی قابلِ عمل ہو۔

یہ خبریں پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ کل کو یہ کمپیوٹر محلے کے ڈاکٹر کی جگہ بیٹھے گا، مریض آئے گا، اور وہ کہے گا: "صاحب دوا یہ لیجیے، باقی سب بکواس ہیں۔" یا بجلی کا بل خود جا کر جمع کروا آئے گا، ساتھ پڑوسن کو بھی فوراً جواب دے آئے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فی الحال یہ مشینیں صرف بیماری، توانائی اور نئی دوائیوں کے جنگل میں ہمیں ایک چھوٹی سی پگڈنڈی دکھا رہی ہیں۔

اب منظر یہ ہے کہ ایک طرف سفید کوٹ والے سائنس دان ہیں جو ایسے لگتے ہیں جیسے شادی میں سالن کے دیگ پر پہرا دے رہے ہوں۔ اور دوسری طرف کمپیوٹر ہے جو کان میں سرگوشی کرتا ہے: "صاحب، یہ والا مالیکیول آزمائیے۔" یوں انسان کی عقل اور مشین کی ذہانت مل کر وہ کام کر رہے ہیں جن پر کبھی صرف سائنس فکشن کے ڈائجسٹ میں ہنسی آتی تھی۔

بس دعا یہی ہے کہ یہ کمپیوٹر ہماری طرح ضدی نہ نکلیں۔ ورنہ جس دن ان کا موڈ بگڑا، دوا بنانے کے بجائے خود دوا کھا بیٹھیں گے اور پھر سائنس دان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے مریض ڈاکٹر سے دوائی لے کر بازار کے حکیم کے پاس جا بیٹھتا ہے۔

16/08/2025

اتنی پیکنگ تو افزودہ یورینییم کی نہیں ہوتی جتنی یہ پاکستانی رانجھا گوشت کی کرتے ہیں۔

ہمیں ستارے سفید کیوں نظر آتے ہیں؟ تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن یہ سوال اس قدر سادہ مگر دلچسپ ہے کہ اسکا جواب جاننے کے دوران ہ...
16/08/2025

ہمیں ستارے سفید کیوں نظر آتے ہیں؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

یہ سوال اس قدر سادہ مگر دلچسپ ہے کہ اسکا جواب جاننے کے دوران ہم نہ صرف کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اُٹھا سکتے ہیں بلکہ انسان کے بھی کئی رازوں سے۔ یہ سوال کائنات کے ایک مظہر کو انسان کی ایک حِس(دیکھنے کی) سے جوڑتا ہے۔

اس سوال کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
ستاروں کی ماہیت، سفید رنگ کیا ہے اور انسانوں کے دیکھنے کا عمل۔
سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں ستاروں کی۔ ستارے دراصل روشنی کا منبع ہیں جو کائنات کے بے کراں وجود میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ یہ ہر طرف روشنی بکھیرتے ہیں۔ روشنی دراصل توانائی کی ایک صورت ہے۔ روشنی کا بنیادی ذرہ فوٹان ہے جو توانائی کا بنیادی ذرہ ہے۔ کائنات میں تمام مادہ اور توانائی بنیادی ذرات سے ملکر بنتے ہیں۔ یہ بنیادی ذرات ایٹموں سے نکلتے ہیں۔ روشنی کے ذرات بھی دراصل ایٹموں سے نکلتے ہیں۔ فوٹان دراصل کائنات کی ایک بنیادی قوت جو برق اور مقناطیسیت کے ملاپ کا نام ہے، کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایٹموں میں الیکٹرانز کے درمیان برقناطیسی قوت کے تبادلے کے نتیجے میں فوٹانز کا ظہور ہوتا ہے یا یوں سمجھیں کہ فوٹان الیکٹرمیگنٹیک قوت کی لہروں پر بہتے توانائی کے ذرے ہیں۔ مگر ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ بس یہ جان لیجئے کہ فوٹان یا روشنی کا ایٹموں سے گہرا تعلق ہے۔
اب آتے ہیں ستاروں کی طرف۔۔

ستارے دراصل ایٹموں سے بنتے ہیں ویسے ہی جیسے کائنات میں ہر مادی شے ایٹموں سے بنتی ہے۔ ستاروں کے بننے کا عمل لاکھوں سے کروڑوں سالوں کا ہے۔ یہ ایک سُست عمل ہے۔ کائنات میں بکھری ہائیڈروجن گیس جب کائنات کی ایک اور بنیادی قوت گریویٹی کے زیرِ اثر ایک جگہ اکٹھی ہونے لگتی ہے تو ستارا بننا شروع ہوتا ہے۔ ایک ستارہ تب بنتا ہے جب کھرب ہا کھرب ٹن ہائیڈروجن ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہے۔ پھر اس قدر گیس کے دباؤ سے ہائیڈروجن کا درجہ حرارت شدید ہونے لگتا ہے اور ہائیڈروجن کے ایٹموں میں کوانٹم ٹنلنگ جیسے پیچیدہ عمل کی بدولت فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
کوانٹم ٹنلنگ کیا ہے اور اسکا فیوژن کے عمل میں اور ستارے کے وجود میں کیا عمل دخل ہے، اس پر بحث پھر کبھی۔ تاہم ستارے کی پیدائش ہائیڈروجن کے ایٹموں کے درمیان فیوژن کے عمل سے ہوتی ہے جہاں دو ہائڈروجن کے ایٹم ملکر ایک ہیلیئم کا قدرے بھاری ایٹم بناتے ہیں اور اس عمل کے دوران ان ہائیڈروجن کے ایٹموں کا کچھ ماس توانائی میں تبدیل ہوتا ہے جو تابکاری اور روشنی کی صورت کائنات میں بکھرتا ہے۔

ستارے کس طرح کی اور کس رنگ کی روشنی بکھیرتے ہیں؟ یہ اس پر منحصر کے ستارہ کتنا بڑا ہے، اپنی عمر کے کس حصے میں ہے؟ اس میں کس قدر ہائیڈروجن ہیلیئم میں تبدیل ہو چکی، کس قدر ہیلیئم دیگر بھاری عناصر کے ایٹموں میں۔ وغیرہ وغیرہ ۔

کسی ستارے سے آنے والے روشنی کے رنگوں کو جب ایک مخصوص سائنسی آلات جسے سپیکٹرومیٹر کہا جاتا ہے، سے ماپا جاتا ہے تو یہ روشنی ہمیں ستارے کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہے۔ کیونکہ یہ روشنی ستارے میں موجود ان کھرب ہا کھرب ایٹموں سے آتی ہے جن سے ستارہ بنتا ہے۔ ایٹموں کی کہانی روشنی بتاتی ہے، اور ایٹموں کی کہانی سے ہمیں ستارے کی مکمل کہانی معلوم ہوتی ہے۔
سو اس بنیادی نکتے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ تمام ستارے سفید رنگ کی روشنی نہیں بکھیرتے کیونکہ ستاروں کی روشنی کا تعلق ان میں موجود مختلف عناصر کی تعداد اور انکے درمیان ہونے والے فیوژن کے عمل پر منحصر ہوتی ہے۔
ستارے سے نکلنے والی روشنی کا رنگ یہ بتاتا ہے کہ ستارے کا درجہ حرارت کتنا ہے۔ ویسے ہی جیسے گرم لوہا اگر کم گرم ہو تو سرخ رنگ کی روشنی بکھیرتا ہے اور زیادہ گرم ہو تو بالکل سفید ہو سا ہو جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک ستارہ نارنجی رنگ کا بھی ہو سکتا یے اور دودھیا نیلا بھی جو اس پر منحصر کہ ستارہ کس قسم کا ہے، اور اپنی عمر کے کس انجام پر ہے۔
حوادث ِ زمانہ کے تمام اثار کسی ستارے کی روشنی میں
پنہاں ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں رنگوں کی دنیا میں۔ رنگ دراصل ہمارے دماغ کی کوڈنگ کا ایک مظہر ہے۔ رنگوں کو نام کس نے دیے؟ سفید سفید کیوں ہے؟ کالا کالا کیوں کہلاتا ہے؟ ہرا ہرا کیوں ہے؟ پیلا پیلا کیوں کہلاتا ہے؟ کیا شے ہے جو انہیں یہ نام دیتی یے؟ وہ متفقہ رائے جو انسانوں نے مختلف طرح کی روشنی کے حصوں کو دی۔ رنگ دراصل روشنی کے مختلف حصے ہیں۔ مختلف توانائی اور ویویلینتھ کی حامل روشنی کے نام رنگ ہیں جو انسان نے اسے دیے ہیں۔
سفید رنگ تمام رنگوں کا ملاپ ہے۔۔جس میں سات رنگ موجود ہیں۔ جس روشنی کی تفریق انسانی آنکھ مختلف رنگوں میں نہ کر سکے وہ ہمیں سفید نظر آئیے گی کیونکہ ہمارا دماغ اسے سمجھ نہیں پائےگا۔ یہ سفید رنگ ہے۔

مگر ہم جو زمین کے باسی ہیں، ہمیں رات کے آسمان میں ستارے سفید کیوں نظر آتے ہیں۔۔اسکی وجہ ہے ہماری آنکھ۔
ہماری انکھ دراصل روشنی کو ماپنے کا ایک قدرتی آلہ ہے۔ آنکھ میں موجود مخصوص خلیات روشنی کے لیے حساس ہوتے ہیں۔ جب روشنی ان سے ٹکراتی ہے تو ان خلیوں میں سے برقی لہریں نکلتی ہیں جو آنکھ کے پیچھے موجود بصری نس یعنی آپیٹکل نرو سے ہوتی دماغ کے مخصوص حصے میں جاتی ہے۔ اور پھر ہمارا دماغ اسکا تصور بناتا ہے جو ہمیں سامنے دکھائی دیتا ہے۔

آنکھ میں روشنی کے لیے حساس دو طرح کے خلیے ہوتے ہیں۔ انہیں کونز اور راڈز کہتے ہیں کیونکہ ان میں ایک کون کیطرح اور دوسرے راڈ کی طرح ہوتے ہیں۔
ان میں "کون" کی شکل کے خلیے روشنی کے لیے کم حساس جبکہ روشنی کے رنگوں کی تفریق کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں جبکہ اسکے برعکس "راڈ" کی صورت کے خلیے روشنی کے لیے زیادہ حساس جبکہ رنگوں کے لیے کم حساس ہوتے ہیں۔
اب رات کو جب آپ اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو نوری سالوں کی مسافت پر ٹمٹماتے ستاروں کی مدہم روشنی اس تاریک آسمان میں بہت کم ہوتی ہے اور کم روشنی پر آنکھ میں موجود راڈز نامی انہیں دیکھنے میں مدد دیتے ہیں کیونکہ یہ روشنی کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں توہم چونکہ یہ خلیے رنگوں کی تفریق کم روشنی میں نہیں کر پاتے لہذا آپکو ستارے سفید نظر آتے ہیں۔
البتہ اپ ان ستاروں کو طاقتور دوربینوں کے ذریعے دیکھیں تو آپکو مختلف ستارے مختلف رنگ کے نظر آ سکتے ہیں۔

خوش رہیں ، سائنس سیکھتے رہیں۔

#ڈاکٹرحفیظ الحسن

شمالی علاقہ جات کی سیر کیجیے ، قبل اسکے کہ زبردستی آپکو شمالی علاقہ جات کی سیر کرائی جائے۔
16/08/2025

شمالی علاقہ جات کی سیر کیجیے ، قبل اسکے کہ زبردستی آپکو شمالی علاقہ جات کی سیر کرائی جائے۔

16/08/2025

✅ Dr.Hafeez Ul Hassan marked himself safe from Pakistan.

Adresse

Paris, Île-de-France
Paris
75001

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Dr. Hafeez Ul Hassan publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Souligner

Partager