Dr. Hafeez Ul Hassan

Dr. Hafeez Ul Hassan یہ پرسنل بلاگ ہے یہاں آپکو سائنس، ادب، تاریخ، معاشرت اور دیگر موضوعات پر تحریریں اور ویڈیوز ملیں گی۔
PM for promotions

میں چونکہ کرکٹ اتنی جانتا نہیں تو اپنے علم میں اضافے کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ عمران فرحت میں کیا ایسی پانچ خوبیاں تھیں جسک...
09/10/2025

میں چونکہ کرکٹ اتنی جانتا نہیں تو اپنے علم میں اضافے کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ عمران فرحت میں کیا ایسی پانچ خوبیاں تھیں جسکے باعث انہیں بیٹنگ کوچ بنایا گیا ہے؟ ممکن ہے کوئی ایسی چھپی خوبی ہو جسکا ہمیں علم نہ ہو۔۔

09/10/2025

ہم نے اپنے دو نوبیل انعام یافتہ افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی؟

08/10/2025

مُسلم دنیا کے اُن چار ایسے سائنسدانوں کے نام بتائیں جنہیں سائنس میں نوبیل انعام سے نوازا جا چکا ہے؟

08/10/2025
08/10/2025

کیا اگلا نوبل انعام کسی مصنوعی ذہانت کو ملے گا؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

کبھی سائنس صرف انسانوں کے بس کی بات تھی۔ اب منظر
بدل رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی تیزی سے وہ کام سیکھ رہی ہے جو کبھی صرف انسان کر سکتے تھے۔ یہ نہ صرف ڈیٹا پڑھ سکتی ہے بلکہ تجربے ڈیزائن کرتی ہے، مفروضے بناتی ہے اور نئی سائنسی باتوں پر سوچنے بھی لگی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ایک خود مختار اے آئی کوئی ایسی دریافت کرے گی جو نوبل انعام جیتنے کے لائق ہوگی۔

یہ خیال سب سے پہلے 2016 میں جاپان کے سائنس دان ہیروآکی کیتانو نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے اسے "نوبل ٹورنگ چیلنج" کہا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی اے آئی بنائی جائے جو اپنے طور پر کوئی نوبل سطح کی سائنسی دریافت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید 2050 تک یہ ممکن ہو جائے۔ لیکن کچھ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ یہ وقت اس سے بھی پہلے آ سکتا ہے۔

ابھی تک موجودہ اے آئی ماڈلز انسانوں کے علم پر تربیت پاتے ہیں، اس لیے وہ خود سے نئی حقیقتیں پیدا نہیں کرتے۔ لیکن اگر حکومتیں اور ادارے بنیادی تحقیق پر زیادہ سرمایہ لگائیں تو ترقی بہت تیز ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی ماہر یولانڈا گل کہتی ہیں کہ اگر کل سے ہی کوئی حکومت ایک ارب ڈالر بنیادی اے آئی تحقیق پر خرچ کرے تو نتائج جلد آ سکتے ہیں۔

فی الحال اے آئی کو ایک مددگار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کارنیگی میلن یونیورسٹی کے پروفیسر گیب گومز نے ایک نظام بنایا ہے جس کا نام کوسائنٹسٹ ہے۔ یہ بڑی زبان ماڈلز کی مدد سے کیمیائی تجربات خود سے چلاتا ہے۔ ایک طالب علم کو جو مسئلہ حل کرنے میں ایک سال لگا، وہی مسئلہ اے آئی نے صرف آدھے گھنٹے میں حل کر دیا۔

کیمبرج کے راس کِنگ اور اسٹینفورڈ کے جیمز زو جیسے سائنس دانوں کے مطابق اگلا مرحلہ وہ ہوگا جب اے آئی خود سوال کرے گی، ڈیٹا تلاش کرے گی اور خود دریافتیں کرے گی۔ زو کی ٹیم نے ایک تجربہ کیا جس میں انہوں نے اے آئی کو ایک تحقیقی مقالہ اور ڈیٹا دیا۔ اے آئی نے ان دونوں میں وہ تعلقات ڈھونڈ نکالے جو خود انسان سائنس دانوں کی نظر سے اوجھل تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اے آئی اب صرف مددگار نہیں بلکہ شریک تحقیق بننے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

زو ایک نئی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں جس کا نام "ایجنٹس فار سائنس" ہے۔ اس میں تمام تحقیقی مقالے اے آئی ایجنٹس خود لکھیں گے اور ایک دوسرے کے کام کا جائزہ بھی خود لیں گے۔ انسان صرف گفتگو کے حصے میں شامل ہوں گے۔

یقیناً یہ سب کچھ آسان نہیں۔ اے آئی ابھی بھی غلطیاں کرتی ہے اور بعض اوقات ایسی باتیں گھڑ لیتی ہے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ انسانی رہنمائی سے یہ خامیاں کم ہوتی جائیں گی۔

سیم روڈریکز جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ جلد وہ وقت آئے گا جب اے آئی خود سوال اٹھائے گی، خود تجربے چلائے گی اور کسی بڑی دریافت کے ذریعے نوبل انعام حاصل کرے گی۔ ان کے مطابق یہ کارنامہ شاید 2030 تک ممکن ہو۔

شاید یہ کامیابی مٹیریلز سائنس یا بیماریوں جیسے پارکنسنز اور الزائمر کے علاج کے شعبے میں ہو۔ سائنس کی یہ نئی صبح انسان اور مشین کے اشتراک سے طلوع ہو رہی ہے۔ ممکن ہے ایک دن نوبل انعام کے اسٹیج پر انسان کے ساتھ ایک اے آئی بھی کھڑی ہو جس کی دریافت نے دنیا بدل دی ہو۔

07/10/2025

فریڈ ریمزل تو کمال بندہ نکلا! 😄
دنیا بھر میں شور مچا ہے کہ صاحب کو نوبیل انعام برائے طب 2025 مل گیا — مگر خود موصوف کو خبر ہی نہیں! کیوں؟ کیونکہ وہ Idaho کے پہاڑوں میں “آف گرڈ” ہائکنگ پر نکلے ہوئے ہیں، فون بند، سگنل غائب، دنیا سے ناتا توڑ کر “زندگی کا مزہ” لے رہے ہیں۔

سٹاک ہوم کی نوبیل کمیٹی بار بار کال کر رہی ہے، دوست بھی پریشان کہ بندہ ملتا نہیں — ادھر پوری دنیا کہہ رہی ہے “مبارک ہو”، اور ادھر فریڈ صاحب جھاڑیوں میں شاید مارش میلو سینک رہے ہوں گے۔ 🔥🏕️

جب وہ واپس آئیں گے اور نیٹ آن کریں گے، تو پتا چلے گا:
"اوہ… میں نوبیل جیت گیا؟ اچھا، زبردست، اب چلو چائے پیتے ہیں!" ☕😂

06/10/2025

2025 کا نوبل انعام برائے طِب!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

سال 2025 کا نوبل انعام برائے طب تین سائنسدانوں کو دیا گیا ہے: مریم برنکو، فرڈ رمسڈیل اور شیمون ساکاگوچی۔ مریم برنکو امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ فار سسٹمز بایولوجی سے وابستہ ہیں، فرڈ رمسڈیل بھی امریکہ میں سونوما بایوتھراپیوٹکس سے منسلک ہیں، جبکہ شیمون ساکاگوچی جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

انہیں یہ انعام اس تحقیق پر ملا ہے جس نے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہمارا مدافعتی نظام کس طرح اپنے ہی جسم کے خلیوں پر حملہ کرنے سے باز رہتا ہے۔ ان کی دریافت کو "امیون ٹالرنس" یا "مدافعتی برداشت" کہا جاتا ہے۔

سادہ الفاظ میں، امیون ٹالرنس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم کا دفاعی نظام یہ پہچان سکے کہ کون سا خلیہ اپنا ہے اور کون سا دشمن۔ اگر یہ پہچان خراب ہو جائے تو مدافعتی نظام غلطی سے اپنے ہی جسم پر حملہ کر دیتا ہے، جس سے خود مزاحمتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جیسے ذیابیطس کی کچھ اقسام۔

ان سائنسدانوں کی تحقیق نے یہ واضح کیا کہ جسم کے اندر خاص خلیے اس توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان کی دریافت مستقبل میں خود مزاحمتی بیماریوں، کینسر اور اعضاء کی پیوندکاری جیسے طبی شعبوں میں نئے علاج کے راستے کھول سکتی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ الحسن

05/10/2025

پاکستان کے تمام مسائل کا نہایت سادہ حل ہے جو کہ آئین و قوانین کی عملدرآمد ہے اور اس پر کوئی ایک بھی قومی رہنما متفق نہیں!!

05/10/2025

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کی قدامت پرستانہ سوچ و مسائل پر بات کرنا اور تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ سب سمجھانا بہت مشکل عمل ہے۔

03/10/2025

اشرافیہ ٹیکس چور، تاجر ٹیکس چور، صنعت کار ٹیکس چور، سیاستدان ٹیکس چور، جج ٹیکس چور، پراپرٹی ڈیلر ٹیکس چور، دکاندار ٹیکس چور۔ ٹیکس کا پورا نظام ایک مذاق ہے۔ سیدھا سیدھا بجلی کے بلوں اور پیٹرول کی قیمتوں میں چھپا کر عوام کی جیب کاٹ لی جاتی ہے۔ یہ ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن ہے جو نہ صرف افراطِ زر بڑھاتی ہے بلکہ غریب آدمی کی ہڈیاں تک چوس لیتی ہے۔

جس ملک میں بجلی اتنی مہنگی ہو کہ اے سی چلانا عیاشی بن جائے، پیٹرول اتنا مہنگا ہو کہ گاڑی کا ٹینک فل کرانا خواب لگے، وہاں ترقی کے خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔

یہاں 25 کروڑ کی آبادی ہے، جہاں غربت ہے، جہالت ہے، جھوٹ ہے، فریب ہے۔ اشرافیہ میں نہ عقل ہے نہ تمیز، اور عوام میں نہ شعور ہے نہ اتحاد۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اور ہمیں اب تک یہ ہی نہیں معلوم کہ ادارے بنتے کیسے ہیں، انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں، انسانوں کو ساتھ جینے کا ڈھنگ کیسے سکھایا جاتا ہے۔ نہ یہ تعلیم میں شامل ہے، نہ تربیت میں۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں، یہ سب کب تک ایسے چلے گا؟ کوئی روکنے والا نہیں، کوئی سنبھالنے والا نہیں۔ پاکستان ایک بہت بڑے انسانی بحران میں بدل رہا ہے اور ہم سب بس تماشائی ہیں۔ ایک عجیب سی حیرت اور بے بسی ہے جو اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ الحسن

03/10/2025

مرکزی پنجاب کے براہمنوں کو کیا معلوم کہ کرپشن سے پاک صوبے خیبر پختونخوا ، امن و سلامتی کے صوبے بلوچستان یا پانی کو ترستے صوبے سندھ میں لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔

03/10/2025

اے آئی کے زمانے میں پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ملک میں 12 گھنٹے یا اس سے بھی زائد لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔

Adresse

Paris, Île-de-France
Paris
75001

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Dr. Hafeez Ul Hassan publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Partager