Dr. Hafeez Ul Hassan

Dr. Hafeez Ul Hassan یہ پرسنل بلاگ ہے یہاں آپکو سائنس، ادب، تاریخ، معاشرت اور دیگر موضوعات پر تحریریں اور ویڈیوز ملیں گی۔
PM for promotions

یہ کنول کی جڑ ہے جسے اردو اور ہندی میں بھے، کمل ککڑی یا ندرو کہا جاتا ہے۔ یہ جڑ عموماً دریاؤں، جھیلوں یا دلدلی پانیوں می...
24/07/2025

یہ کنول کی جڑ ہے جسے اردو اور ہندی میں بھے، کمل ککڑی یا ندرو کہا جاتا ہے۔ یہ جڑ عموماً دریاؤں، جھیلوں یا دلدلی پانیوں میں پائی جاتی ہے، خاص طور پر پاکستان کے اُن علاقوں میں جہاں دریا بہتے ہیں، وہاں یہ سبزی عام ملتی ہے۔

کنول کا پھول بدھ مت میں ایک مقدس نشان سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح کچھ مذاہب میں انسان کا آغاز حضرت آدم سے جڑا ہوا ہے، ویسے ہی بدھ مت کے عقائد میں کنول سے جنم لینے کی تمثیل ملتی ہے—گویا روحانی پاکیزگی اور فطری حسن کا استعارہ۔

جہاں تک بات ہے بھے کی، تو یہ نہایت لذیذ اور غذائیت بخش سبزی ہے۔ اسے قیمے، سالن یا تلے ہوئے کھانوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ بھے کی ساخت نرم مگر کرکری ہوتی ہے، جو کھانے میں ایک منفرد مزہ بھر دیتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی بھے کی سبزی چکھی ہے؟ اگر نہیں، تو اگلی بار جب بازار جائیں تو ایک بار ضرور آزما کر دیکھیے، یہ قدرتی ذائقہ آپ کو حیران کر دے گا۔

22/07/2025

کیا پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے لیے فیملیز کو مکمل سہولیات میسر ہیں؟ کیا یہاں موجود سہولیات ، سیکورٹی اور حفاظت کا نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے؟
بالخصوص یہاں کے مقامی ہوٹلز کا معیار ، یہاں کھانے کے ریستوران، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لیے یہاں کتنی سہولیات ہیں؟ فیملز کے ساتھ کیا یہاں ایک اوسط تنخواہ دار طبقہ ویسی ہی سہولیات حاصل کر سکتا ہے جو دیگر ممالک میں ایک عام فیملی کو مناسب قیمت پر میسر ہیں؟
اگر نہیں، تو کیوں نہیں اور اس قدر جدید دنیا و سہولیات ہونے کے باوجود اب تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟

گلے میں لٹکا تعویذ یہ بتاتا ہے کہ کتنی منتوں سے ملا ہے۔۔
22/07/2025

گلے میں لٹکا تعویذ یہ بتاتا ہے کہ کتنی منتوں سے ملا ہے۔۔

چین کے شہر چینگڈو کی ایک گلی میں حجام گاہک کی زلفیں تراشتے ہوئے۔۔۔
22/07/2025

چین کے شہر چینگڈو کی ایک گلی میں حجام گاہک کی زلفیں تراشتے ہوئے۔۔۔

میں ان دنوں تبت میں ہوں۔ یہاں ہر طرف مندروں، بدھ مت کے جھنڈوں، سنتوں، راہبوں اور مراقبے میں گم چہروں کی ایک دنیا بسی ہوئ...
22/07/2025

میں ان دنوں تبت میں ہوں۔ یہاں ہر طرف مندروں، بدھ مت کے جھنڈوں، سنتوں، راہبوں اور مراقبے میں گم چہروں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں پر بادلوں سے لپٹے ہوئے یہ مندر اور ان میں بیٹھے سر منڈوائے زعفرانی لباسوں میں ملبوس راہب ایک خاص طرح کی خاموش روحانیت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کچھ لمحے کے لیے انسان دنیا کی تمام ہنگامہ خیزی سے کٹ کر ایک ایسے سکوت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں صرف سانس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لیکن چونکہ میری دلچسپی سائنسی مشاہدات، ثقافتی نفسیات اور انسانی فطرت کے پیچیدہ رویّوں میں بھی ہے اس لیے یہ سارا منظر میرے لیے صرف روحانیت یا تقدس کا تجربہ نہیں بلکہ ایک سوال بن کر ابھرتا ہے کہ آخر کیوں پہاڑی علاقوں کے لوگ اتنے زیادہ روحانی ہوتے ہیں.

تبت جیسے علاقوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آکسیجن کی سطح نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اونچائی جوں جوں بڑھتی ہے جسم اور دماغ پر دباؤ بھی بڑھتا ہے۔ کم آکسیجن کی وجہ سے انسان کو چکر آنا، سر درد، بدن سے باہر نکلنے کا احساس یا بعض اوقات روشنیوں اور آوازوں کا وہم ہونا عام بات ہے۔ یہ وہی کیفیات ہیں جنہیں اکثر لوگ روحانی تجربات کا نام دیتے ہیں۔ بدھ مت کے کئی راہب اور یوگی بلند پہاڑوں میں جا کر تنہائی اختیار کرتے ہیں اور مہینوں وہاں مراقبہ کرتے ہیں۔ اس دوران جو کیفیات وہ محسوس کرتے ہیں وہ درحقیقت جسمانی اور اعصابی تبدیلیوں کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر چونکہ ان کے پاس اس کی سائنسی تشریح موجود نہیں ہوتی یا وہ اس کے متلاشی نہیں ہوتے تو وہ ان تجربات کو مافوق الفطرت یا الہامی مان لیتے ہیں.

اس میں شک نہیں کہ تنہائی، خاموشی اور قدرت کی وسعت انسان کو داخلی طور پر متوجہ کرتی ہے۔ پہاڑوں کا سکوت انسان کے اندر کے شور کو دباتا ہے اور اسے خود سے مکالمہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے میں اگر ذہن خالی ہو یا سوالات سے لبریز ہو تو کچھ نہ کچھ منظر ابھرتا ضرور ہے چاہے وہ خواب کی صورت میں ہو یا خیال کی صورت میں۔ صوفی، یوگی، سادھو یا بدھ راہب سب اسی کیفیت میں کسی نہ کسی مقام پر پہنچتے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ حقیقت ان پر منکشف ہوئی۔ لیکن شاید وہ دراصل آکسیجن کی کمی، بھوک، نیند کی کمی، اور مسلسل خاموشی کے اثر میں دماغ کے کسی گہرے کونے سے وہ تصویریں دیکھ رہے ہوتے ہیں جنہیں ہم بیداری کی حالت میں نظر انداز کر دیتے ہیں.

میں ان تمام مندرجوں اور روحانی چہروں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ انسان جب قدرت کے قریب ہوتا ہے تو خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے اور شاید یہی احساس اسے خدا کے تصور کے قریب لے جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی میری سائنسی فہم مجھے یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ انسانی دماغ بھی ایک کیمیاوی بھٹی ہے جہاں شعور اور تخیل کی آمیزش سے وہ کچھ بن سکتا ہے جسے ہم وحی، کشف، یا الہام کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان راہبوں کو واقعی کچھ دکھائی دیتا ہو مگر وہ شے صرف انہی کو دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ ایک مخصوص فزیالوجیکل حالت میں ہوتے ہیں جسے ہم altered state of consciousness کہہ سکتے ہیں.

یوں تبت میں موجود ہر مندر میرے لیے دو چہروں والا آئینہ ہے۔ ایک طرف وہ صدیوں پرانی روحانی روایت ہے جو انسان کو باطن کی گہرائی میں لے جاتی ہے اور دوسری طرف وہ سادہ مگر اہم سائنسی حقیقت کہ اونچائی پر دماغ کچھ اور طرح سے کام کرتا ہے۔ میں نہ تو ان راہبوں کے تجربات کو جھٹلا سکتا ہوں اور نہ ہی انہیں مکمل طور پر مقدس مان سکتا ہوں۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ پہاڑوں میں کچھ ہے جو انسان کو خود سے ملاتا ہے اور شاید یہ ملنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے چاہے وہ سانسوں کی کمی سے ہو یا سوالوں کی زیادتی سے.

تبت کی ایک مقامی بس میں سفر جہاں  پیلے ڈبے پڑے ہیں(شمع گھی کے :)؟) ۔  میں نے ان میں دو مسافروں کو تھوکتے اور گند پھینکتے...
22/07/2025

تبت کی ایک مقامی بس میں سفر جہاں پیلے ڈبے پڑے ہیں(شمع گھی کے :)؟) ۔ میں نے ان میں دو مسافروں کو تھوکتے اور گند پھینکتے دیکھا ہے۔

چین بیک وقت تضاد اور تنوع کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرف شنگھائی ہے جہاں ٹیسلا چلاتے ٹیکسی ڈرائیور آپ کو حیران کر دیتے ہیں، اور دوسری طرف قزل سو جیسے علاقے ہیں جہاں وقت جیسے سست روی سے چلتا ہے۔

یہاں ہر رنگ کا انسان ملتا ہے، خوبرو بھی، خستہ حال بھی؛ مہذب بھی، ان پڑھ بھی؛ امیر بھی، مفلس بھی۔ چین ایک ملک نہیں بلکہ کئی تہذیبوں، زبانوں اور قوموں کا امتزاج ہے۔ یہ بیک وقت ماضی کی پرچھائی بھی ہے اور مستقبل کی جھلک بھی۔

22/07/2025

میں ان دنوں سیاحت کی غرض سے چین کے پہاڑی علاقے تبت میں ہوں۔ یہاں کے بادل، پہاڑ، ہوائیں اور جھیلیں تو خیر قدرت کی صناعی کا کمال ہیں ہی، لیکن جو چیز واقعی حیران کن ہے وہ انسان کی تنظیم، حفاظت اور نظم و ضبط سے وابستہ ہے۔ یہاں کسی بھی شہر میں داخلے کے وقت ہوٹل میں چیک ان کے دوران مکمل معلومات کا اندراج ہوتا ہے۔ آپ کہاں سے آئے ہیں، کب آئے ہیں، کہاں ٹھہرے ہیں اور کب تک رہیں گے، سب کچھ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ یوں مقامی انتظامیہ کو ہر لمحے یہ علم ہوتا ہے کہ شہر میں کتنے سیاح موجود ہیں، ان میں سے کتنے غیر ملکی ہیں اور کون کس مقام پر قیام پذیر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر پہاڑوں میں خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو نہ صرف متاثرین کی شناخت آسان ہو جاتی ہے بلکہ فوری طور پر ایمرجنسی رسپانس ممکن ہو جاتا ہے۔

پہاڑی مقامات پر تعینات عملہ تربیت یافتہ ہے، ہر اہلکار کو معلوم ہے کہ خطرے کی صورت میں کیا کرنا ہے۔ کشتی کی جھیلوں میں ہر سوار کے لیے لائف جیکٹ پہننا لازم ہے اور یہ حکم صرف بورڈ پر لکھا نہیں بلکہ وہاں موجود عملہ اس پر سختی سے عمل کرواتا ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ذہن لاشعوری طور پر واپس بابوسر کی طرف لوٹتا ہے، جہاں چند روز قبل سیلابی ریلے میں کئی سیاحوں کی گاڑیاں بہہ گئیں، جانیں ضائع ہوئیں، اور متعدد افراد لاپتہ ہوئے۔ یہ حادثہ اگرچہ قدرتی آفت کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس کی شدت کو انسانی غفلت نے کئی گنا بڑھا دیا۔ نہ کوئی موسمیاتی پیشگی وارننگ، نہ سیاحوں کی رجسٹریشن، نہ سڑک پر محفوظ گزرگاہیں اور نہ کوئی تربیت یافتہ عملہ۔ جو بھی سیاح وہاں گیا، اپنی مرضی سے گیا، اور جب حادثہ ہوا تو انتظامیہ کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ کون کہاں ہے اور کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

بابوسر جیسے علاقے سالہا سال سے مشہور سیاحتی مقامات ہیں لیکن اب تک ان کے لیے کوئی مربوط ایمرجنسی نظام تشکیل نہیں دیا گیا۔ یہاں نہ موبائل سگنلز مکمل ہوتے ہیں، نہ ابتدائی طبی امداد کی سہولت میسر ہے، اور نہ ہی کوئی ایسی فہرست موجود ہوتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ کسی دن کتنے لوگ علاقے میں موجود ہیں۔ اس کے برعکس چین جیسے ممالک نے اپنے پہاڑوں کو صرف خوبصورت نظاروں کی نمائش تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی حفاظت، سکیورٹی اور نظم کو بھی قدرتی حسن کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہاں خطرہ اگر آسمان سے آتا ہے تو زمین سے جواب بھی آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو خطرہ بھی آسمانی ہوتا ہے، ردعمل بھی تقدیر کے حوالے، اور احتیاط کا تصور بس دعاؤں اور بددعاؤں کے درمیان کہیں گم۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بابوسر کا حادثہ قدرتی کم اور انتظامی زیادہ تھا۔ اگر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام ہوتا، اگر پیشگی موسمی اطلاع پر عملدرآمد کیا جاتا، اگر سڑکیں بہتر اور رکاوٹوں سے محفوظ ہوتیں، اور اگر مقامی ریسکیو ٹیمیں تربیت یافتہ ہوتیں تو شاید کئی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔ لیکن ہمارے ہاں حادثے کے بعد اخبارات میں ماتم، وزیروں کی ہمدردی، اور چند روز بعد مکمل خاموشی کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پہاڑوں کو صرف تصویروں کے لیے نہ دیکھیں بلکہ ان کے لیے ذمہ داریاں بھی قبول کریں۔ پہاڑ اگر خاموش ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے نیچے کوئی گنتی، کوئی نظم یا کوئی احتیاط نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے پہاڑوں کی سیاحت عالمی معیار پر پہنچے تو ہمیں چین و یورپ کی طرح یہاں ایک محفوظ نظام بھی لانا ہو گا۔ ورنہ بابوسر جیسے حادثے کل پھر ہوں گے، اور ہم پھر قدرت کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ سمجھتے رہیں گے۔

22/07/2025

سادھو مندر میں ماتھا ٹیکتے ہوئے، سامنے موجود مونچھوں والی باوقار ہستی کو میرے تبتی گائیڈ نے "گرو رنپوچے" کہہ کر متعارف کروایا، وہی پدم سمبھوا، جنہیں تبت میں دوسرا بدھ مانا جاتا ہے۔ جب اس نے بتایا کہ ان کا تعلق موجودہ پاکستان کے علاقے سوات سے تھا تو ایک لمحے کو جیسے وقت ٹھہر سا گیا۔ ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ مقدس سرزمین صرف عرب نہیں، ہمارے ہاں بھی بڑے بڑے روحانی ہیرے گزرے ہیں, کوئی پنجاب کے گرو نانک تو کوئی سوات کے گرو رنپوچے۔ پدم سمبھوا آٹھویں صدی میں تبت پہنچے، جہاں انہوں نے نہ صرف بودھی دھرم کو فروغ دیا بلکہ تنترک بدھ مت (وجریانہ) کی بنیاد رکھ کر تبت کی روحانی تاریخ ہی بدل دی۔ بدروحوں کو زیر کرنا ہو یا اندرونی روشنی کی طرف سفر، گرو رنپوچے کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں اور ان کا اثر صرف مذہب تک محدود نہیں بلکہ تبتی فن، ثقافت اور روزمرہ زندگی میں جھلکتا ہے۔ یہ سوچ کر دل میں شکر آیا کہ یہ ہستیاں اُس دور میں پیدا ہوئیں جب مذہبی زومبیاں ان کے گلے نہیں کاٹا کرتے تھے۔۔۔۔ورنہ آج کے پاکستان میں تو سر تن سے جدا کرنے والے پہلے فتویٰ دیتے اور پھر تاریخ کو مٹا دیتے۔

بابوسر پاس پر پیش آنے والا سیلابی سانحہ اگرچہ قدرتی آفت تھی، مگر اس کا تدارک جزوی طور پر ممکن تھا بشرطیکہ موسمیاتی پیشگ...
22/07/2025

بابوسر پاس پر پیش آنے والا سیلابی سانحہ اگرچہ قدرتی آفت تھی، مگر اس کا تدارک جزوی طور پر ممکن تھا بشرطیکہ موسمیاتی پیشگی وارننگ سسٹم فعال ہوتا، سیاحوں کی نقل و حرکت پر مناسب نگرانی کی جاتی، سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ موسمی شدت کو مدِنظر رکھ کر تعمیر کیا جاتا اور ریسکیو سروسز بروقت حرکت میں آتیں۔ پاکستان میں پہاڑی سیاحت کو کھلی چھوٹ، غیر تربیت یافتہ مقامی عملہ، اور ناقص انفراسٹرکچر اس طرح کے واقعات کو انسانی المیوں میں بدل دیتا ہے، یوں ہر بار قدرت کو قصوروار ٹھہرا کر نظام کی کوتاہیوں کو نظرانداز کر دینا محض خودفریبی ہے۔

کوہ ٔیالا۔نہ کوئی تعارف، نہ کوئی صدا۔ صرف موجودگی۔ جیسے کسی اور جہان سے آئی ہوئی کوئی ساکت آہٹ۔مقامی لوگ کہتے ہیں یہ پہا...
21/07/2025

کوہ ٔیالا۔

نہ کوئی تعارف، نہ کوئی صدا۔ صرف موجودگی۔ جیسے کسی اور جہان سے آئی ہوئی کوئی ساکت آہٹ۔

مقامی لوگ کہتے ہیں یہ پہاڑ صرف انہیں دکھتا ہے جو اندر سے خالی ہوں۔ جو دیکھنے کی ضد نہ کریں، بلکہ خاموشی سے انتظار کریں۔ میں جھیل کے کنارے بیٹھا رہا۔ وقت جیسے سانس لینا بھول گیا۔ بادلوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ ایک لکیر ابھری۔ جیسے کوئی پرانی یاد سطح پر آتی ہو۔ یالا کا دیدار مکمل نہ تھا، مگر وہ جتنا ظاہر ہوا، اتنا ہی کافی لگا۔

وہ صرف پہاڑ نہ تھا۔ وہ ایک سوال تھا جو مجھ سے پوچھا گیا تھا۔ اور شاید میں نے اس لمحے کوئی جواب دیا بھی، لیکن وہ زبان سے نہیں دل سے نکلا۔

واپسی پر جب میں نے پلٹ کر آخری بار جھیل کو دیکھا تو منظر وہی تھا۔ لیکن اب کچھ بدل چکا تھا۔ رنگ وہی تھے مگر ان میں ایک پردہ سا ہل رہا تھا۔ جیسے پہاڑ نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے خواب میں بلا لیا ہو۔ اور اب میں جاگ چکا ہوں۔

یالا وہ مقام ہے جہاں زمین ختم نہیں ہوتی، بلکہ آہستہ آہستہ آسمان میں تحلیل ہو جاتی ہے۔

غیرت کے نام پر قتل دراصل بے وہ غیرتی ہے جسے قبائلی معاشرے، بعض مذہبی حلقے اور کئی سیاسی گروہ اپنے اپنے انداز میں تقدس کا...
20/07/2025

غیرت کے نام پر قتل دراصل بے وہ غیرتی ہے جسے قبائلی معاشرے، بعض مذہبی حلقے اور کئی سیاسی گروہ اپنے اپنے انداز میں تقدس کا لبادہ اوڑھاتے ہیں۔ بلوچستان میں شیتل اور زرک کی داستان نئی نہیں، لیکن ہر بار اس کی تکلیف تازہ ہوتی ہے۔ جب کوئی لڑکی قرآن اٹھا کر اپنے قاتلوں کے سامنے کھڑی ہو، تو اصل بے حسی ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اس ظلم کو "رواج" کہہ کر جواز فراہم کرتے ہیں۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جہاں ریاست کمزور، وہاں قبیلہ طاقتور بن جاتا ہے۔ جہاں عدالت خاموش، وہاں جرگہ بولتا ہے۔ جہاں پولیس اندھی، وہاں بندوق بینائی دیتی ہے۔ اور جب قانون تھک کر بیٹھ جائے تو "غیرت" جیسے الفاظ درندگی کا ترجمہ بن جاتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں آئین کی رو سے ہر شہری کو اپنی مرضی سے شادی کا حق حاصل ہے، وہاں ایسی بےرحمانہ قتل کی وارداتیں صرف قانون کے مذاق کا نشان نہیں، بلکہ ریاست کی ندامت کا ماتم بھی ہیں۔ مجھے حیرت اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ قتل ہوا، بلکہ اس پر ہے کہ اس کے بعد قاتل کھلے عام گھومتے ہیں، گاؤں والے ان پر پھول نچھاور کرتے ہیں، اور عدالتوں میں صلح نامے پیش کیے جاتے ہیں۔

غیرت کا اصل مفہوم عزت کا تحفظ ہے، مگر جب عزت قتل سے مشروط ہو، تو یہ غیرت نہیں، جہالت ہے۔ جو باپ، بھائی یا قبیلہ اپنی بیٹی یا بہن کو اپنی مرضی سے جینے پر مار دے، وہ درحقیقت اپنی کمزور انا، مردانگی کے جعلی تصور اور سماجی دباؤ کا غلام ہے۔

ایک عورت کا غیرت کے نام پر بے رحمانہ قتل اس کی آزادی، خود اختیاری اور انسان ہونے کے حق پر حملہ ہے۔ اور جب تک معاشرہ اجتماعی طور پر اس ظلم کو "رواج" یا "قانون سے بالاتر فیصلہ" کہتا رہے گا، تب تک شیتل جیسے نام بدلتے رہیں گے، قبریں گنتی سے باہر ہوتی جائیں گی، اور "غیرت" کے نام پر بے غیرتی کا بازار گرم رہے گا۔

یہ وقت ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو "غیرت" کا مطلب یہ سکھانا ہو گا کہ انسانی جان کا تقدس ہی دنیا کی سب سے بڑی غیرت ہے اور ایک انسان کا قتل ہی دنیا کی سب سے بڑی بیغرتی۔

اور آخر میں ان چمن پوتیوں کے لیے جو یہ سوال کرتے ہیں کہ "اگر تمہاری بہن یا بیٹی ایسا کرے تو؟" سنو بیغرتوں کے کے سردار اور زمانہ جاہلیت میں رہنے والے ، تہذیب سے نابلد! اگر میری بہن یا بیٹی اپنی مرضی سے نکاح کرے، تو میں اسے دعائیں دوں گا، اس کے سر پر ہاتھ رکھوں گا، اس کے شوہر سے کہوں گا کہ تم نے میری بہن یا بیٹی کا دل جیتا ہے، اب اس کا خیال بھی رکھنا۔ کیونکہ میری غیرت کسی کی جان لینے سے نہیں، کسی کی خوشی بچانے سے تسکین پاتی ہے۔ جو مرد اپنی بہن یا بیٹی کو صرف اپنی ملکیت سمجھتا ہے، اسے بھائی یا باپ نہیں، مالک کہنا چاہیے۔ لیکن افسوس، تم جیسے سوال کرنے والوں کو سمجھ آ ہی نہیں سکتی کہ بیٹی یا بہن کو قتل کر دینا غیرت نہیں، جہالت ہے، بزدلی ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا جرم ہے جس کی بخشش نہ قانون میں ہے نہ کسی خدا کے ہاں۔

Adresse

Paris

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Dr. Hafeez Ul Hassan publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Partager