Sardar Usman Khan sadozai

Sardar Usman Khan sadozai 🔜🌎 P T I

‏'' ہم ایک عمر روتے ہیں، چیختے ہیں ، تڑپتے ہیں کوئی پرواہ نہیں کرتا...لیکن جب ایک لمحے کے لیے مسکرا دیتے ہیں تو یہ لوگ ت...
21/03/2024

‏'' ہم ایک عمر روتے ہیں، چیختے ہیں ، تڑپتے ہیں کوئی پرواہ نہیں کرتا...لیکن جب ایک لمحے کے لیے مسکرا دیتے ہیں تو یہ لوگ تصویر بنا کر اوپر لکھ دیتے ہیں۔

”خوشیوں کا تعلق دولت سے نہیں ہوتا “

‎*ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘*‎مسافر اکثر لوگوں سے پوچھتا رہتا ہے ” تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ...
21/03/2024

‎*ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘*

‎مسافر اکثر لوگوں سے پوچھتا رہتا ہے ” تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاﺅ کیا تم اپنے والد سے بہتر زندگی گزار رہے ہو یا نہیں؟“ ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے‘ آپ بھی کسی دن تحقیق کر لیں آپ کو ملک کے بھکاری بھی اپنے والدین سے بہتر زندگی گزارتے ملیں گے‘ ان کے والدین سارا شہر مانگ کر صرف دس بیس روپے گھر لاتے تھے جب کہ کراچی اور لاہور کے بھکاری آج کل آٹھ دس ہزار روپے روزانہ کماتے ہیں۔

‎آپ کسی روز اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ بھی کر لیں‘ آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ آپ کے گھر میں بچپن میں ایک پنکھا ہوتا تھا اور پورا خاندان ”اوئے پکھا ایدھر کرئیں“ کی آوازیں لگاتا رہتا تھا‘ سارا محلہ ایک روپے کی برف خرید کر لاتا تھا‘ لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے‘ ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا‘ بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے۔

‎لوگوں نے باہر اور گھرکے لیے جوتے اور کپڑے الگ رکھے ہوتے تھے‘ دستر خوان پر دوسرا سالن عیاشی ہوتا تھا‘ سویٹ ڈش میں صرف میٹھے چاول اور کھیر بنتی تھی‘ مرغ صرف بیماری کی حالت میں پکایا جاتا تھا جب مرغا یا مرغے کا مالک بیمار پڑ جاتا، اور بیمار بے چارے کو اس کا بھی صرف شوربہ ملتا تھا‘ پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دے رکھا ہوتا تھا‘ ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا‘ بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔

‎سائیکل خوش حالی کی علامت تھا اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا‘ گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی‘ بس اور ٹرین کے اندر داخل ہونے کے لیے باقاعدہ دھینگا مشتی ہوتی تھی‘ کھنے سیک دیے جاتے تھے اور کپڑے پھٹ جاتے تھے‘ گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لیے وقف ہوتا تھا‘ وہ آدھی رات تک ”اوئے بالے”کی آواز پر دوڑ کر ممٹی پر چڑھ جاتا تھا اور انٹینے کو آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں گھماتا رہتا تھا اور اس وقت تک گھماتا رہتا تھا جب تک نیچے سے پورا خاندان ”اوئے بس“ کی آواز نہیں لگا دیتا تھا۔

‎پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا‘ سارا بازار مسجدوں کے استنجا خانے استعمال کرتا تھا‘ نہانے کے لیے مسجد کے غسل خانے کے سامنے قطارلگتی تھی‘ نائی غسل خانے بھی چلاتے تھے‘ یہ سردیوں میں حمام کے نیچے لکڑیاں جلاتے رہتے تھے اور لوگ غسل خانوں کے اندر گرم پانی کے نیچے کھڑے رہتے تھے اور نائی جب ان سے کہتا تھا ”باﺅ جی بس کردیو پانی ختم ہو گیا جے“ تو وہ اس سے استرا یا تیل مانگ لیا کرتے تھے اور لوگ کپڑے کے ”پونے“ میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے۔

‎بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانگ رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور یہ ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ پھڑکا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں کھانا‘ کھانا نہیں ہوتا تھا روٹی ہوتا تھا‘ امیر ترین اور غریب ترین شخص بھی ڈنر یا لنچ کو روٹی ہی کہتا تھا‘ لوگ لوگوں کو کھانے کی نہیں روٹی کی دعوت دیتے تھے اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں‘ چالیس اور پچاس سال کے درمیان موجود اس ملک کا ہر شخص اس دور سے گزر کر یہاں پہنچا ہے۔

‎آپ کسی سے پوچھ لیں آپ کو ہر ادھیڑ عمر پاکستانی کی ٹانگ پر سائیکل سے گرنے کا نشان بھی ملے گا اور اس کے دماغ میں انٹینا کی یادیں بھی ہوں گی اور کوئلے کی انگیٹھی اور فرشی پنکھے کی گرم ہوا بھی‘ ہم سب نے یہاں سے زندگی شروع کی تھی‘ اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا!۔آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم لوگوں کو دیتی ہے‘ آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں زیادہ فرق نہیں ملے گا جب کہ ہم اگر صرف تیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔

‎سوال یہ ہے کہ
‎اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف سٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟ مسافر جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف ایک ہی جواب آتا ہے‘ ناشکری‘ ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شکر کی کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں‘ آپ نے انگریزی کا لفظ ڈس سیٹس فیکشن سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں ‘ یہ ایک خوف ناک نفسیاتی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ
‎تعالٰی ہمارے حال پہ رحم فرمائے اور ہمیں اپنا شکر گذار بندہ بنائے۔

تاریخ انسانی ظلم و ستم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن اگر ہم ان تمام مظالم کو یکجا کریں اور ان کا موازنہ بھارتی مقبوضہ جم...
03/02/2024

تاریخ انسانی ظلم و ستم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن اگر ہم ان تمام مظالم کو یکجا کریں اور ان کا موازنہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام پر قابض بھارتی افواج کے ریاستی جبر و تشدد کے ساتھ کریں تو دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نام لیواؤں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔
آئیے ! کشمیر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
‏1 اگست 1947 : مہاتما گاندھی کی کشمیر کے مہاراجہ سے ملاقات ہوئی جس میں کشمیرِ عوام کی امنگوں کی روشنی میں حل پر زور دیا گیا ۔
‏27 اکتوبر 1947 : بھارتی فوج نے کشمیر پر غاصبانہ حملہ کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت کے بھارتی سیاستدان جواہر لال نہرو نے قبضے کو عارضی قرار دیا۔
30 ستمبر 1947: جواہر لال نہرو نے کشمیر کے لیے حق خودارادیت کو بہترین حل قرار دیا ۔
‏2 نومبر 1947 : جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے استعمال کی گردان جاری رکھی ۔
1951 بھارت کے زیر انتظام کٹھ پتلی الیکشن کروائے گئے۔
1957 : اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کی گئی جس کے مطابق1951 الیکشن استصواب رائے کا متبادل نہیں ہو سکتے
1948- 1971 : اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے موثر حل کے حوالے سے 18 قراردادیں منظور کی گئیں۔
21 جنوری 1990 : گوکدال قتلِ عام، بھارتی فائرنگ سے 280 نہتے کشمیری شہید کر دیئے گئے۔
1 مارچ 1990 : تنگپورہ اور زکورہ میں مظاہرین پر بھارتی فوج کا حملہ؛ 33 افراد شہید، 47 زخمی ہوئے ۔
اس کے بعد سے طلوع ہونے والا ہر دن ، مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لئے ظلم و بربریت کی ایک نئی رات لے کر طلوع ہوتا چلا گیا۔ بھارت کی جانب سے تاریخ انسانی کا بدترین قتل عام کرنے کے بعد حالیہ کئی مہینوں پر محیط مکمل لاک ڈاؤن ، بھارتی قابض افواج اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے عسکری ونگ آر ایس ایس کے دہشت گرد قاتلوں کے ہاتھوں مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی پوری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
کشمیر ، پاکستان کی آزادی کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا گیا ہے اور بھارتی قبضے کے پہلے دن سے آج تک ، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر ، سلگتے ہوئے چناروں کی لہو رنگ وادی کے رہنے والے مسلمان بھارتی قابض افواج کے ظلم کا ہر زخم اپنے وجود پر سہنے کے بعد ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں۔
کشمیر بنے گا پاکستان
پاکستان سے رشتہ کیا ؟ لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ
5 فروری کو پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔ تاکہ پوری دنیا کے سامنے نہتے کشمیری مسلمانوں کا مقدمہ پوری شدت کے ساتھ پیش کیا جائے اور اقوام عالم کی توجہ لہو رنگ وادی کشمیر میں جاری مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کی جانب مبذول کرائی جائے ۔
یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے

اپنی پروفائلز اور اپنی ہر تحریر، ہر ٹویٹ میں کشمیر کے مظلوموں کا درد اور رستے ہوئے زخموں کا عکس دنیا کو دکھائیں۔
#

15/01/2024

ایک نشان سنبھالا نہیں جا رہا تھا 😂

اب 850 نشانات کیسے سنبھالیں گے
👊😂🖐️😎

15/01/2024
پی ٹی آئی کابہترین فیصلہ۔۔سپریم کورٹ سےالیکشن کمیشن کیخلاف لیول پلینگ فیلڈتوہین عدالت درخواست واپس لےلی۔“ہم آپکی عدالت م...
15/01/2024

پی ٹی آئی کابہترین فیصلہ۔۔
سپریم کورٹ سےالیکشن کمیشن کیخلاف لیول پلینگ فیلڈتوہین عدالت درخواست واپس لےلی۔
“ہم آپکی عدالت میں لیول پلیئنگ فیلڈکیلئے آئےلیکن آپ نےہم سےبلّا چھین کرہم سے”پلینگ فیلڈ" ہی چھین لی،آپ نے13جنوری کی رات 11:30پر ایسافیصلہ سنایا جس سےPTIکاشیرازہ بکھر گیا،230نشستیں چھن گئیں،اب ہم آپ سےکیا توقع کریں”لطیف کھوسہ کا چیف جسٹس سےمکالمہ۔۔

15/01/2024

Adresse

Paris
93330

Téléphone

+33758565276

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Sardar Usman Khan sadozai publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Souligner

Partager