Science with Dr.Hafeez

Science with Dr.Hafeez یہاں آپکو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے متعلق دلچسپ تحریریں اور ویڈیوز آسان اُردو میں ملیں گی
PM for promotions
(1)

یہاں آپکو جدید سائنس، ادب اور تاریخ بغیر ملاوٹ کے ملے گی

پائی ڈے!! تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن آج دنیا بھر میں پائی ڈے منایا جا رہا ہے۔ یہ پنجابی والا پائی(بھائی) نہیں نہ ہی پیسے وا...
14/03/2025

پائی ڈے!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

آج دنیا بھر میں پائی ڈے منایا جا رہا ہے۔ یہ پنجابی والا پائی(بھائی) نہیں نہ ہی پیسے والا پائی ہے بلکہ ریاضی والا پائی (pi) ہے۔ جسے یونانی سیمبل π سے ظاہر کیا جاتا یے۔ مگر کیوں؟

اس سے پہلے ہم اپنے درشکوں کو بتانا چاہیں گے کہ اے وڈے پائی جی کون ہیگے؟

پائی (π) کیا ہے؟

پائی دراصل تناسب ہے ایک دائرے کے قطر اور اسکے گھیر کا۔ انگریزی میڈیم کے بچوں کے لیے:

سو برگرز: قطر از ڈائمیٹر اینڈ گھیر اِز سرکمرفرنس۔ آئی ہوپ یو گِٹ اِٹ۔۔

قطر دراصل ایک دائرے کے مرکزی نقطے سے گزرتی لکیر ہے جو دائرے کے دونوں اطراف کو جوڑتی یے۔ جبکہ گھیر یا سرکمفرنس دائرے کے گھیرکی مکمل لمبائی ہے یعنی اگر دائرے کو کھول کر سیدھی لکیر بنا دیا جائے تو اس لکیر کی لمبائی جو ہو گی وہ گھیر یا سرکمفرنس ہو گی۔

وضاحت کے لیے نیچے پہلی تصویر دیکھیں۔
پائی= گھیر/قطر

یہ ہر دائرے کے لیے ایک ہی نمبر ہو گا۔ چاہے وہ دائرے کائنات جتنے بڑے قطر کا ہو یا ایک نقطے جتنا چھوٹا۔
کسی بھی سائز کا دائرہ ہو،پائی اسکے سرکمفرنس اور قطر کا تناسب
ہو گا۔ اور اسکی ویلیو ہو گی تقریباً 3.14 ہو گی۔

تاہم دلچسپ بات یہ کہ پائی ایک ایسا نمبر ہے جسے ریاضی کی زبان میں اِرریشنل یا غیر متناسب نمبر کہتے ہیں۔ یعنی اسے ہم کسی دو عدد کے تناسب کے طور پر نہیں لکھ سکتے۔ مثال کے طور پر 8 ریشنل نمبر ہے کیونکہ ہم اسے 16/2 کے تناسب کے طور پر لکھ سکتے ہیں یا 27 ریشنل نمبر ہے کیونکہ اسے ہم 27/1 کے تناسب سے ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی 4.5 بھی ریشنل نمبر ہے جسے ہم 45/10 کے تناسب سے لکھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔کہنے کا مقصد یہ کہ پائی کو ہم دو مخصوص نمبروں کے تناسب کے طور پر مکمل طور پر ظاہر نہیں کر سکتے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟
اسکی وجہ یہ کہ اوپر ہم نے کہا کہ پائی کی ویلیو تقریباً 3.14 ہے مگر یہ مکمل سچ نہیں۔۔دراصل پائی کی ویلیو 3.14 کے بعد لامحدود نمبر ہیں جو ریپیٹ نہیں ہوتے یعنی ایک نمبر بار بار ایک ہی پیٹرن میں نہیں آتا۔ گویا ہم یہ پیشنگوئی نہیں کر سکتے کہ پائی کے اعشاریہ کے بعد ایک سواں ہندسہ اور ایک ہزاروں ہندسہ ایک ہونگے یا مختلف، جب تک کہ ہم اسے کیلکولیٹ نہ کر لیں کیونکہ یہ سب مخلط ہے یعنی رینڈم ہیں۔

اب تک ریاضی دان پائی کے اعشاریہ کے آگے تقریباً 620 کھرب ہندسے معلوم کر چکے ہیں.یعنی میں پائی کے 3.14 کے بعد 620 کھرب نمبر یہاں اس پوسٹ میں نہیں لکھ سکتا نہ ہی میرا ننھا سا فون اس قدر وسیع ویلیو کو اپنی میموری میں سیو کر سکتا ہے۔ اسکے لیے بڑے بڑے سپرکمپیوٹرز چاہئیں اور کئی پیٹا بائیٹ کی بڑی بڑی ہارڈڈسکس۔
یہ کارنامہ 2021 میں سوئٹرز لینڈ کے سائنسدان کر چکے جنہوں نے سُپر کمپیوٹرز پر 108 دن تک پائی کے 620 کھرب سے زائد ہندسے معلوم کیے۔

اب تک پائی کے اعشاریہ کے بعد کے 70 ہزار ڈیجیٹ یاد رکھنے والے انسان کا تعلق بھارت سے ہے جنہوں نے 2015 میں 10 گھنٹے لگا کر یہ ڈیجیٹ بولے۔ انکا نام رجویر مینا ہے۔
پتہ نہیں کیا کھاتا ہے یہ، ہمیں تو یہ یاد نہیں رہتا کہ کل کیا کھایا تھا۔

پائی کے دریافت اور اسکے استعمال کے حوالے سے تاریخ میں پہلے شواہد بابل اور نینوا کی تہذیبوں کے کُتب میں ملتے ہیں جو آج سے تقریباً 4 ہزار سال پرانے ہیں۔ ان تہذیبوں نے پائی کی ویلیو 3.125 معلوم کی تھی، جو موجودہ ویلیو کے قریب ہے۔

اسحاق نیوٹن معذرت آئزک نیوٹن نے پائی کے اعشاریہ کے بعد 16 ہندسے معلوم کیے جبکہ اسکے بعد، سترویں صدی سے لیکر کمپیوٹرز کی ایجاد تک محض چند ہزار ہندسے ہی معلوم کیے جا سکے مگر اب ہم پائی کے کھربوں ہندسے جانتے ہیں۔

ریاضی دانوں کے مطابق ہمیں
ہماری بیشتر کائنات کی معلومات جیسے کہ ستاروں کا فاصلہ معلوم کرنا، زمین اور سورج کے مدار
کا تعین، مخلتف اجرامِ فلکی کی گردشوں کو جاننا، خلائی مشنز کے لیے راستے ڈھونڈنا وغیرہ جیسے اہم کاموں کے لیے ہمیں ہائی کے محض 39 ہندسے ہی درکار ہیں۔ (ناسا کو عموماً خلائی مشنز کے لیے محض 16 ہندسے درکار ہیں)۔

کائنات کا مکمل گھیراؤ ہائڈروجن کے ایٹم کے سائز کی ایکوریسی سے جاننے کے لیے پائی کے محض 39 ہندسے درکار ہیں جبکہ پائی کے محض 65 ہندسے درکار ہیں، کائنات کا گھیر پلانکس لینتھ کی ایکوریسی تک جاننے کے لیے۔ پلانکس لینتھ کائنات کا ممکنہ طور پر سب سے مختصر فاصلہ ہے جو 6.2 کی طاقت منفی 34 میٹر ہے۔ پلانکس لینتھ کے قطر کا دائرہ شاید دائرہ اسلام سے کچھ بڑا ہو۔

خیر مگر ریاضی دان ہاتھ دھو کر پائی کے پیچھے کیوں پڑے ہیں اور پائی جان کے اس قدر ہندسے معلوم کرنے کی اُنہیں کیا آفت آن پڑی ہے؟ آخر اسکا فائدہ۔ کیا اس سے کسی غریب کو ایک روٹی اور مل جائے گی؟
نہیں!!
دراصل اسکا فائدہ ہے نئے سے نئے ایلگورتھمز اور سُپر کمپیوٹر بنانا جو پائی کی ویلیو کو با آسانی اور کئی کھرب ہندسوں تک کم وقت میں معلوم کر سکیں ۔ یعنی پائی کی ویلیو کے ہندسوں کو زیادہ سے زیادہ معلوم کرنا ایک طرح سے ٹیسٹ یا بینچ مارک ہے انسانوں کے کمپیوٹر ماڈلز کو پرکھنے کا، جدید کمپیوٹر بنانے کی صلاحیتوں کو جاننے کا تاکہ ان تیز تر سُپر کمپیوٹرز کی مدد سے ہم مختلف بیماریوں کی تشخیص کر سکیں، موسموں کی بہتر پیشنگوئی کر سکیں ، ڈی این اے اور کائنات کے راز معلوم کر سکیں۔

اور اب آخر میں دیویوں اور سنجون!! ہم آج کے دن کو پائی ڈے کیوں کہتے ہیں کے سوال پر آتے ہیں۔
وہ اس لیے کہ پائی کے پہلے تین ہندسے ہیں 3.14 اور آج تاریخ ہے 3/14 یعنی سال کے تیسرے مہینے مارچ کی 14 تاریخ۔۔
یہ دن منانے کا مقصد عوام میں ریاضی کے حوالے سے اگاہی اور دلچسپی پیدا کرنا ہے۔ اس دن کے منانے کا آغاز 1988 میں امریکہ میں ہوا جب سان فرانسسکو کے ایک سائنس میوزیم میں کام کرنے والے لیری شا(شاواں دی خیر ہوئے) نے اس دن کے منانے کا آغاز کیا۔ اس روز لوگ پائی کھاتے ہیں جو ایک ڈش کا نام بھی ہے، پائی کے متعلق گفتگو بھی کرتے ہیں۔ایسے ہی امریکہ میں کئی پیزا کی دکانوں پر اس حوالے سے بارعایت پیزے بھی دیے جاتے ہیں کیونکہ پیزا کا ایک حصہ بھی پائی کہلاتا ہے اور پیزا گول ہوتا ہے (مگر چوکور ڈبے میں آتا ہے جو کُھلا تضاد ہے).

آپ بھی پائی ڈے پر پائی بنائیں اور اگر زیادہ بھوک ہے تو پھجے کے پائے کھائیں۔ سُناہے پھجا اب vegan پائے بھی بناتا ہے؟

مائیورانا-1 : کوانٹم کمپیوٹرز کی دنیا میں تہلکہ!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن تحریر کا متن مبالغہ آمیز ہرگز نہیں کیونکہ ہوا ہ...
20/02/2025

مائیورانا-1 : کوانٹم کمپیوٹرز کی دنیا میں تہلکہ!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

تحریر کا متن مبالغہ آمیز ہرگز نہیں کیونکہ ہوا ہی کچھ ایسا ہے۔ مائیکروسافٹ نے 8 کیو بِٹ کی مائیو رانا -1 نامی نئی چِپ متعاراف کرا دی۔ اب مستقبل میں ہم کوانٹم کمپیوٹرز کو لیبارٹریوں سے نکال کر روزمرہ زندگی میں استعمال کرنے کے قابل ہو سکیں گے(گو کہ محدود پیمانے پر)۔

روایتی کوانٹم کمپیوٹرز بڑے ہوتے ہیں اور ان میں کیو-بٹ سُپر کنڈکٹرز سے بنایا جاتا ہے جنہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے ان کمپوٹرز کو منفی 273 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب رکھا جاتا ہے۔ مگر اسکے باوجود ان میں موجود کیو بِٹس میں ایرر یا غلطی کا امکان رہتا ہے۔ تاہم اب مائیکروسافٹ نے مادے کی ایک نئی حالت(ٹوپولاجیکل سٹیٹ جسکی 1930 میں پیشنگوئی ہوئی اور 80 کی دہائی اسکی دریافت ہوئی)، کو بروئے کار لاتے ہوئے اور نئے ڈیزائن کی بدولت انڈیم آرسنائڈ اور ایلومینیئم کے ملاپ سے 17 برس کی عرصے میں ایک ایسی چِپ بنائی ہے جو آٹھ کیو۔بِٹ کو باآسانی ہتھیلی سے بھی چھوٹی سائز کی چِپ میں سمو سکتے ہیں اور یہ کیو-بٹ روایتی اور بڑے کوانٹم کمپیوٹرز میں موجود کیو-بِٹ سے کم ایرر رکھتے ہیں اور اس میں موجود خاص قسم کے کیو-بِٹ جنہیں "ٹوپولاجیکل کیو بِٹ" کہا جاتا ہے، کو مستقبل میں ایک ہی چِپ پر لاکھوں کی تعداد میں سمویا جا سکتا ہے۔ تقابل کے طور پر آج گوگل ، آیی بی ایم اور دیگر کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کے جدید اور بڑے کوانٹم کمپیوٹرز محض چند سو کیو۔بٹس کے حامل کمپوٹرز ہیں جبکہ جدید دنیا کے کمپوٹشنل مسائل حل کرنے کے لیے ایک ایسا کوانٹم کمپیوٹر درکار ہے جو کم سے کم دس لاکھ کیو-بٹس کا حامل ہو اور جو ایک کوانٹلین کمپوٹر آپریشنز سر انجام دے سکے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں ایرر یعنی غلطی ہر ایک ہزار میں سے ایک کی ہو جبکہ روایتی اور بڑے کوانٹم کمپیوٹرز میں اس وقت ایرر ریٹ سو اور ہزار میں سے ایک ہے جو ان روایتی اور بڑے کوانٹم کمپیوٹرز کو جدید دنیا کے پیچیدہ سائنسی و علمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

تصور کیجیے ایک ایسا مستقبل جہاں اس طرح کی چِپس کے حامل کوانٹم کمپیوٹرز صدیوں کا کام محض چند سیکنڈز میں کر دیں، کائنات کے بکھرے رازوں کو کھول دیں، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نئے سے نئے ماڈل کو چند سیکنڈ میں کام۔کرنا سکھا دیں، نئی سے نئی بیماریوں کی تشخیص ، نئی سے نئی وباؤں کی پیشنگوئی، ممکنہ طور پر زلزلوں کی بروقت پیشنگوئیاں ، موسموں کے تغیر کا بروقت علم، انسانی خلیوں میں ہونے والی ایک ایک تبدیلی کا ریکارڈ، کینسر کا علاج، ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے کائناتی نقشے اور نجانے کیا کیا عام ہوتے کوانٹم کمپیوٹرز کی ان چپس سے ہم سر انجام دے سکیں۔

کیو-بٹ عام کمپیوٹر میں بنیادی بائنری بٹ جو 1 یا 0 کی حالت میں ہوتے ہیں، ان سے ہٹ کر مخصوص بِٹس ہوتے ہیں جو کوانٹم میکینکس کی دنیا کی اس خاصیت کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہیں کہ بنیادی ایٹمی ذرے بیک وقت کئی حالتوں میں ہو سکتے ہیں۔۔لہذا جو کام کروڑوں عام بِٹس کر سکتے ہیں وہی کام محض چند کیو-بِٹس سر انجام دے دیتے ہیں۔ اسکا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ محض سو کیو-بٹس کی ممکنہ اجتماعی حالتیں کائنات میں موجود تمام ایٹموں کی تعداد سے زائد ہوتی ہیں۔

لہذا مائکروسافٹ کی یہ کوانٹم چِپ جو مستقبل میں کروڑوں کیو-بٹس کی حامل ہو گی، کس قدر طاقتور کمپوٹیشنل پاور رکھے گی۔

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی اس قدر تیزی سے ہمارے ارگرد کی دنیا کو بدل رہے ہیں کہ چشمِ زدن میں آج جو ٹیکنالوجی عام استعمال میں ہے، کل متروک ہو جائے گی اور آج جو بے علم ہیں کل وہ بھی متروک ہو جائیں گے۔
اس لیے اپنی نسلوں پر رحم کیجئے اور انہیں ماضی کے قصے کہانیوں سے نکال کر جدید دنیا کا علم سکھائیے۔

بیرون ِ ممالک خاص طور پر یورپ، امریکہ میں تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل کرنے کے لیے کیریئر کونسلنگ سیشن بُک کریں۔ رابطہ...
10/02/2025

بیرون ِ ممالک خاص طور پر یورپ، امریکہ میں تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل کرنے کے لیے کیریئر کونسلنگ سیشن بُک کریں۔ رابطہ

WhatsApp:

+49 163 96 48 253

سورج گرہن کیوں ہوتا ہے؟ زمین سورج سے تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلومیٹر ہے۔ چاند زمین سے اوسط 3...
09/02/2025

سورج گرہن کیوں ہوتا ہے؟

زمین سورج سے تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلومیٹر ہے۔ چاند زمین سے اوسط 3 لاکھ 84 ہزار کلومیٹر دور ہے اور اسکا قطر ساڑھے 3 ہزار کلومیٹر ہے۔ گویا چاند سورج سے کم و بیش 400 گنا چھوٹا ہے۔ مگر اگر ہم آسمان میں دونوں کا بظاہر سائز دیکھیں تو یہ تقریباً برابر نظر آتے ہیں۔ ایسا اس لیے - مزید پڑھیں ھمارے آرٹیکل میں-

Science with Dr.Hafeez
Dr. Hafeez Ul Hassan
Dr.Hafeez Consultancy

06/02/2025

بلیک ہول کیا ہے؟ یہ کتنے اقسام کے ہیں اور کیسے بنتے ہیں؟

جانئیے اس ویڈیو میں۔

دلچسپ سائنس کی ویڈیوز کے لیے ہمارا ہیج فالو کریں

Science with Dr.Hafeez
Dr. Hafeez Ul Hassan
Dr.Hafeez Consultancy

مریخ پر پہلا مشن!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن ناسا تب سے مریخ پر مشنز بھیج رہا ہے جب سے ہم میں سے بہت سے ابھی پیدا بھی نہیں ...
04/02/2025

مریخ پر پہلا مشن!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

ناسا تب سے مریخ پر مشنز بھیج رہا ہے جب سے ہم میں سے بہت سے ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ نیچے دو تصاویر ناسا کے مریخ پر بھیجے جانے والے Viking مشنز کی ہیں۔

وائکنگ مشن میں دو لینڈرز اور انکے ساتھ دو آربیٹرز تھے یعنی چھوٹے سیٹلائٹ جو مریخ کے گرد مدار میں گھومتے تھے۔ لینڈرز کو مریخ کی سطح پر اُتارا گیا۔ پہلا مشن 20 اگست 1975 کو مریخ کی جانب بھیجا گیا جسکا نام وائیکنگ-1 تھا جبکہ دوسرا مشن وائیکنگ-2 جو اُسی سال کچھ دنوں بعد یعنی 9 ستمبر 1975 کو روانہ کیا گیا۔

وائیکنگ کے دونوں لینڈرز مریخ پر 1976 میں کچھ دن کے وقفے سے لینڈ ہوئے۔گو دونوں مشنز کو محض نوے دن تک کام کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا مگر یہ اپنی مقررہ معیاد سے مزید کئی سال تک کام کرتے رہے۔ وائیکنگ-1 نے آخری رابطہ 1982 میں زمین سے کیا جبکہ وائیکنگ-2 نے 1980 میں۔

ان دونوں مشنز کا مقصد مریخ پر کسی ممکنہ زندگی کی تلاش تھی۔اس حوالے سے ان مشنز نے مریخ پر تین مختلف طرح کے تجربات کیے۔ ان مشنز کی مدد سے سائنسدانوں کو مریخ کی مٹی اور سطح کی ساخت کا اندازہ ہوا۔ اس سے پہلے ہمیں زیادہ معلوم نہیں تھا کہ مریخ کیسا سیارہ ہے۔ ان مشنز نے ہمیں بتایا کہ مریخ ایک ٹھنڈا اور سرد سیارہ ہے۔ اسکی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، اس پر ماضی میں پانی کے سمندر اور دریا بہتے تھے۔ مگر ان مشنز کی مریخ پر لینڈنگ کی جگہوں پر زندگی کے کوئی واضح آثار نہ مل سکے۔ یہ دونوں مشنز مستقبل میں ناسا کو مریخ پر مزید مشنز بھیجنے اور ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔

دوسری تصویر مشہور ماہرِ فلکیات اور سائنس کو دلچسپ انداز میں عوام الناس تک پہنچانے میں منکہ رکھنے والے امریکی سائنسدان کارل سیگن کی ہے جو وائکنگ لینڈر کے زمین پر ٹیسٹ ہونے والے ماڈل کی ہے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ ناسا جب بھی کوئی خلائی مشن کسی سیارے پر یا چاند ہر بھیجتا ہے تو ہوبہو اّسکا ایک ماڈل زمین پر بھی رکھتا ہے تاکہ سیارے پر بھیجا جانے والے لینڈر یا روور میں اگر کوئی خرابی واقع ہو تو زمین پر موجود اُسکے جیسے ماڈل پر تجربات کر کے اس خرابی کو جانچا اور اسے دور کرنے میں مدد مل سکے۔ کارل سیگن نے اس مشن میں سائنسدانوں کو مریخ پر اُترنے کی جگہ کے حوالے سے مدد کی۔ کارل سیگن اس مشن کی پروموشن اور ایسے دوسرے مشنز جن میں نظامِ شمسی کے سیاروں کو کھوجا جائے،کے لیے عمر بھر کوشاں رہے۔

سپیس سوٹ اپالو کے!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن چاند پر جانے والے پہلے اپالو مشن کے خلابازوں کے سپیس سوٹ۔ تصویر میں بالکل دائ...
22/01/2025

سپیس سوٹ اپالو کے!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

چاند پر جانے والے پہلے اپالو مشن کے خلابازوں کے سپیس سوٹ۔ تصویر میں بالکل دائیں جانب نیل آرمسٹرانگ کا سوٹ ہے۔ ہر خلاباز کے لیے اسکی سائز اور جسامت کے مطابق سوٹ بنایا جاتا ہے۔
1969 میں یہ سپیس سوٹ امریکی کمپنی ILC industries نے بنائے۔ ان سپیس سوٹس کا ماس تقریباً 90 کلوگرام تھا۔
زمیں پر اس قدر بھاری سپیس سوٹ پہن کر چلنا محال تھا تاہم چونکہ چاند کی گریویٹی زمین کے مقابلے میں 6 گنا کم ہے اس لیے ان سپیس سوٹ کو پہن کر چاند پر چہل قدمی کرنا ،۔وہاں سائنسی آلات نصب کرنا اور وہاں سے مٹی اور پتھروں کے نمونے اکھٹے کرنا اپالو مشنز کے خلابازوں کے لیے آسان تھا۔
یہ سپیس سوٹ ایک مخصوص کپڑے کے ںنے تھے جو آگ نہیں پکڑتا تھا۔ اسے beta cloth کا نام دیا گیا جو دراصل ٹیفلان کوٹٹڈ فائبر گلاس کا بنا تھا۔ تمام چھ انسانی مشنز میں خلاباز یہ سپیس سوٹ چاند پر ہی چھوڑ آتے تاجہ اضافی وزن کے بغیر زمین پر آ سکیں۔۔(یاد رکھیں کہ جس قدر بھاری سپیس کرافٹ ہونگے اس قدر زیادہ توانائی انکیں درکار ہو گی زمین پر واپسی کے لیے اور سات ہی ساتھ کم وزن کے سپیس کرافٹ زیادہ محفوظ طریقے سے زمین پر اُتر سکتے ہیں۔

ان سپیس سوٹس میں خلاباز آسانی سے چاند پر چل سکتے تھے۔۔یہ سپیس سوٹ پیریشرائزڈ ہوتےتھے اور انہیں کئی گھنٹوں تک پہنا جا سکتا تھا۔ چونکہ سپیس سوٹ کا اُتارنا چڑھانا چاند پر مشن کے دوران ممکن نہیں تھا لہذا رفع حاجت کے کیے سپیس سوٹ کے اندر ہی خلاباز ڈائپر استعمال کرتے۔

مریخ پر طویل بادل!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن زیرِ نظر تصویر میں لمبی سفید لیکر دراصل مریخ کی فضا میں 1800 کلومیٹر طویل اور...
13/01/2025

مریخ پر طویل بادل!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

زیرِ نظر تصویر میں لمبی سفید لیکر دراصل مریخ کی فضا میں 1800 کلومیٹر طویل اور 120 کلومیٹر چوڑا ایک بادل یے۔ ۔یہ غالباً نظامِ شمسی کے کسی بھی سیارے پر سب سے طویل اور مسلسل بادل ہے۔ اسے سائنسدانوں نے Arsia Mons Elongated Cloud کا نام دیا ہے۔ جسکا مخفف AMEC بنتا یے۔

مگر مریخ پر بادل؟ سننے میں یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟ کیونکہ مریخ پر زمین کی طرح آزاد حالت میں اور بڑی مقدار میں پانی نہیں ہے۔ یقیناً مریخ کے قطبین پر پانی جمی حالت میں موجود ہے ایسے ہی مریخ کی مٹی میں بھی پانی دیگر کیمیائی مرکبات کے ساتھ موجود ہے مگر مریخ کی فضا میں پانی کی بخارات محض 1 فیصد ہیں اور مریخ کی فضا زمین کی فضا کے مقابلے میں قریب سو گنا لطیف ہے۔ جسکا مطلب یہ ہوا کہ اس قدر باریک فضا میں محض 1 فیصد بخارات چہ حیثیت؟

تو مریخ پر بادل اور وہ بھی اتنا بڑا اور طویل؟ کیسے؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین پر بادل کیسے بنتے ہیں۔ زمین کی اوپری سطح جسے کرسٹ کہتے ہیں، اس پر سمندر 70 فیصد رقبے پر پھیلے ہیں۔ سمندروں میں پانی ہے اور سمندروں پر جب سورج کی روشنی پڑتی یے تو بخارات ہوا میں اُڑتے ہیں۔ ہوا ان بخارات کو زمین کی گرم سطح سے اوپر فضا میں دھکیلتی ہے۔ سطح سمندر سے چند کلومیٹر اوپر بنتے ہیں جہاں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ کرہ فضائی کے اس حصے کو ٹراپوسفئیر کہتے ہیں اور کم و بیش 99 فیصد بادل فضا کے اس حصے میں بنتے اور پائے جاتے ہیں۔ پانی کے بخارات اس قدر کم درجہ حرارت پر بادلوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ بادل سطح سمندر سے زمین کے مختلف حصوں ہر مختلف اونچائی پر پائے جاتے ہیں۔ یہ اونچائی 2 سے 7 کلومیٹر کے درمیان ہوتی یے۔

مگر مریخ پر بادل؟ مریخ پر بادل بننا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ اسکی فضا میں پانی کے بخارات بہرحال موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کاربن ڈائی آکسائڈ بھی۔ یہاں بادل پانی کے بخارات کے بھی بنتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے جمنے سے بھی، مریخ کی فضا کے درمیانے حصے میں جو مریخ کی سطح سے 30 سے 80 کلومیٹر اوپر ہے۔
اور یہ بادل تب ہی بنتے ہیں جب فضا کے اس حصے میں مقامی درجہ حرارت فضا کے باقی حصے سے کم ہو اور یوں بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ اکٹھی ہو کر جمنے لگے۔

زیرِ نظر تصویر میں موجود بادل کیسے بنا؟

اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے 2022 میں سپین اور فرانس کے سائنسدانوں نے اس بادل کی تصاویر اور مریخ کی فضا سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ایک ماڈل تیار کیا۔ اس ماڈل میں مریخ کی فضا میں موجود پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایک خاص رفتار سے ان بادلوں کے پاس بڑے آتش فشاں Arsia Mons کے قریب سے گزارا گیا۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا کہ اس آتش فشاں سے ٹکرانے والی ہوا اوپر کو اُٹھتی ہے جس سے مقامی طور پر آتش فشاں کے قریب ہوا کا درجہ، باقی ہوا کے مقابلے 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔۔اور اس غیر معمولی درجہ حرارت میں بدلاؤ سے ہوا میں موجود پانی کے بخارات غیر معمولی حالات میں بادلوں کی صورت اختیار کرنے لگتے ہیں جسکا نتیجہ ایک طویل اور بڑے بادل کی صورت سامنے آتا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ بادل مریخ پر مریخ کے جنوبی کرے پر موسمِ بہار میں بنتا ہیں جو جولائی کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اور ہر 80 روز کے بعد دن کے کسی مخصوص حصے میں کچھ گھنٹوں کے لیے اس موسم میں بنتے رہتے ہیں۔

مریخ کی فضا میں بادلوں کا بننا اور اسکے بننے کے عمل کو سمجھنا سائنسدانوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ اس سے نہ مریخ کی فضا کے متعلق وہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں بلکہ مریخ کے موسموں کے حوالے سے بھی اُنہیں بہتر رہنمائی مل سکتی ہے جس سے علم و تحقیق کے نئے در کھل سکتے ہیں اور مستقبل میں ہم ان معلومات کے ذریعے مریخ کے علاوہ زمین اور نظامِ شمسی میں موسموں کے تغیر کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مستقبل میں انسانوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جب وہ مریخ پر ممکنا طور بستیاں بسانے جائیں گے اور وہاں خوراک کے لئے کھیتی باڑی کریں گے۔

جاتے جاتے اس بادل کی تصویر یورپین سپیس ایجنسی کے سپیس کرافٹ مارس ایکسپریس پر موجود کیمرا سے کی گئی ہے۔ یہ سپیس کرافٹ دسمبر 2003 سے مریخ کے مدار میں رہ کر مریخ کی فضا کا تفصیلی جائزہ اور تصاویر لے رہا ہے۔

خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔

کیا مستقبل موجود ہے؟تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن کائنات کی ابتداء آج سے 13.8 ارب سال پہلے بگ بینگ سے ہوتی ہے اور یہیں سے وقت ...
08/01/2025

کیا مستقبل موجود ہے؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

کائنات کی ابتداء آج سے 13.8 ارب سال پہلے بگ بینگ سے ہوتی ہے اور یہیں سے وقت کی ابتداء بھی۔
وقت اس کائنات کی ایک خاصیت ہے، اس سے الگ کچھ نہیں ۔ لہذا اگر کائنات نہیں تو وقت بھی نہیں۔ یہ بات بہت اہم اور سمجھنے کی ہے کہ وقت اس کائنات کا جُز ہے اور کائنات جے بغیر وقت کا تصور بے معنی ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ ایک گھر ہے جو اینٹوں اور سیمنٹ سے بنا ہے۔ اینٹوں کو آپ خلا سمجھیے یعنی مکاں اور سیمنٹ کو وقت یعنی زماں۔ گویا کائنات ایک ایسا گھر ہے جسکی تعمیر "مکاں" یعنی سپیس کی اینٹوں سے ہوئی ہے اور ان اینٹوں کو وقت کی سیمنٹ نے جوڑ رکھا ہے۔ اگر ان میں سے ایک شے بھی کم ہو تو گھر نہیں رہے گا۔ گویا زمان و مکاں آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات میں جہاں زماں ہو وہاں مکاں نہ ہو اور جہاں مکاں ہو وہاں زماں نہ ہو۔ گویا یہ کائنات زمان و مکاں کا ایک جال ہے جس میں مادہ اور توانائی بکھرے ہوئے ہیں۔ جہاں زمان و مکاں نہیں وہاں کائنات نہیں کیونکہ کائنات کا دوسرا مطلب ہی زمان و مکاں ہے۔

ایسے ہی جس طرح گھر کی تعمیر میں اینٹوں اور سیمنٹ کا ایک خاص تناسب ہوتا ہے ویسے ہی کائنات کی بناوٹ میں زمان و مکاں کا ایک خاص تناسب ہے اور اس تناسب کو "روشنی کی رفتار" کہتے ہیں جو اس کائنات کی ایک مستقل شے ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی۔

بگ بینگ کے بعد سے اب تک کائنات زمان و مکاں دونوں میں پھیل رہی ہے۔ محض یہ نہیں ہو رہا کہ کائنات میں مختلف کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے بلکہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ وقت بھی چل رہا ہے۔ گویا اب سے ایک لمحے بعد کا وقت یعنی مستقبل ابھی یعنی حال میں اس کائنات میں کہیں نہیں ہے اور ایک لمحے بعد وہ وقت پیدا ہو گا۔ گویا ایک لمحے کے بعد کائنات کے حجم اور عمر دونوں میں ہی اضافہ ہو گا۔ اور یہی تصور ہی دراصل آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی بنیاد ہے۔ وقت میں اضافہ!! اور وقت کے ساتھ کائنات میں اضافہ۔ایک لمحہ پہلے کی کائنات اور ایک لمحہ بعد کی کائنات سے وسیع اور قدیم ہے۔

کائنات کے اس زمان و مکان کے پھیلاؤ میں ہی مزید کائنات بن رہی ہے۔ کہاں اور کب؟ وہاں جہاں کائنات نہیں اور جہاں وقت نہیں۔

جو کائنات بن چکی اور جو وقت گزر چکا وہ اسی کائنات میں ہی موجود ہے اور جو وقت بننا ہے اور جو خلا بڑھنا ہے، وہ ابھی اس لمحے میں نہیں ہیں۔

ہم ایک شش جہتی کائنات میں رہتے ہیں جس میں اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے اور پیچھے کی سمتوں میں کائنات گزرے ہوئے وقت کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔

اگر ہم اس شش جہتی کائنات سے نکلر کر کسی اور جہت میں یعنی کسی اضافی ڈائمنشن میں جا سکیں تو ہمیں پوری کائنات زمان و مکاں کے ایک جال کی سی دکھائی دے گی جس میں ہر گزرا لمحہ موجود ہو گا۔
وہ بھی جب زمین بن رہی تھی، وہ بھی جب ڈائناسورز زمین پر گھوم رہے تھے، وہ بھی جب انسان ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا تھا اور وہ بھی جب انسان نے صنعتی انقلاب کے دور میں قدم رکھا۔
اس اضافی ڈائمنشن میں آپکو اپنا آپ بچپن میں کھیلتا ہوا بھی نظر آئے گا، آپکے جواں سال ماں باپ بھی موجود ہونگے اور آپکے پیارے بھی نظر آئیں گے جو گزر چکے۔

مگر یہ ایک تصوراتی یا سائنس فکشن کی بات ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ یہ حقیقت نہیں کیونکہ اضافی ڈائمنشنز کا کوئی ثبوت فی الوقت ہمارے پاس موجود نہیں اور جس کائنات کے سٹرکچر میں ہم موجود ہیں وہاں ماضی میں جانا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اس سے کائنات کا علت و معلول کا بنیادی اُصول جس پر یہ کائنات استوار ہے، ٹوٹ جاتا ہے۔

البتہ مستقبل میں آپ ضرور جا سکتا ہیں اور وہ آپ ہر لمحہ جا رہے ہیں، حال سے مستقبل قریب میں۔ مگر کیا آپ مستقبل بعید میں جا سکتے ہیں؟ یعنی آج سے ایک ہزار سال بعد کی دنیا میں؟ جبکہ وہ تو ابھی بنی ہی نہیں نہ ہی وہ اس کائنات کا فی الوقت کوئی حصہ ہے؟

یقیناً۔ اور ایسا کرنے کے لیے آپکو کائنات میں کسی ایسی جگہ جانا ہو گا جہاں وقت آپکی موجودہ جگہ پر ،جہاں آپ موجود ہیں، کے مقابلے میں سست روی سے بہے۔
مثال کے طور پر زمین کے مقابلے میں کسی بلیک ہول کے قریب وقت، زمین کی نسبت سست روی سے بہتا ہے۔ چنانچہ کسی بلیک ہول کے قریب رہ کر وقت، آپ پر بنسبت زمین، آہستہ ہو جائے گا اور آپ دیر سے بوڑھے ہونگے۔ لہٰذا کسی بلیک ہول کے قریب رہ کر جب آپ واپس زمین پر لوٹیں گے تو آپ زمین کے کئی ہزار سالوں کے مستقبل میں پہنچیں گے۔
ایسے ہی اگر اپ روشنی کی رفتار کے قریب کسی رفتار سے سفر کریں تو بھی وقت آپ پر زمین کے وقت کے مقابلے میں سست روی سے گزرے گا اور یوں بھی آپ جب زمین پر لوٹیں گے تو کئی سال آگے کے حالات و مستقبل میں خود کو پائیں گے۔

خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔

زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن قابلِ مشاہدہ کائنات کی 20 کھرب کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں میں اربوں ستا...
25/12/2024

زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

قابلِ مشاہدہ کائنات کی 20 کھرب کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جنکے گرد اربوں سیارے گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہماری زمین ہے۔ کائنات کی عمر 13.8 ارب سال ہے۔ قابلِ مشاہدہ کائنات کا قطر 93 ارب نوری برس یے۔ اس قدر وسیع و قدیم کائنات میں محض زمین پر زندگی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ کائنات بے حد وسیع ہے لہٰذا اسکے کھرب ہا کھرب زمین جیسے سیاروں پر زندگی ڈھونڈنا سمندر میں سوئی تلاش کرنے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے تاہم حضرتِ انساں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اس جستجو میں مگن ہے۔ اور ممکن ہے کہ ہم کسی سادہ صورت میں زندگی کو اپنے نظامِ شمسی یا کسی اور ستارے کے نظام میں ڈھونڈ لیں۔ وہ جو اس جستجو میں ہیں ان سے کہیں بہتر ہیں جو نہ ہی اس جستجو میں ہیں اور نہ ہی اس جستجو کو کسی طور مثبت گردانتے ہیں کہ انکا یہ کھوکھلا اور بودا سا دعویٰ ہے کہ تمام کائنات کا علم ودیعت ہو چکا جبکہ حال یہ کہ وہ جدید دنیا کے بنیادی علم سے بھی محروم ہیں۔

کائنات کے اس وسیع و قدیم پھیلاؤ میں جن چند ساعتوں کو ایک شعلہ سا انسان بھڑکا ہے اس شعلے سے زندگی کی نوید سنائی دیتی ہے اور کائنات کے بے کراں سمندر میں جب انسان زندگی کی تلاش کرتا ہے تو دراصل زندگی زندگی کو ڈھونڈتی ہے!!

مریخ کا شمالی قطب!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن مریخ کے جنوبی اور شمالی قطب دونوں پر برف موجود ہے۔ یہ برف پانی اور جمی ہوئی ک...
23/12/2024

مریخ کا شمالی قطب!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

مریخ کے جنوبی اور شمالی قطب دونوں پر برف موجود ہے۔ یہ برف پانی اور جمی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ کی ہے۔ زمین کی طرح مریخ پر بھی چار موسم ہیں۔ خزاں، بہار، گرمی، سردی مگر یہ موسم زمین کے مقابلے میں قریب دو گنا طویل ہوتے ہیں کیونکہ مریخ پر ایک سال 687 زمینی دنوں جتنا طویل ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ مریخ سورج کے گرد 687 دن میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
شمالی قطب پر برف تقریباً 1200 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اسکی حد موٹائی 3 کلومیٹر ہے۔ سال ہا سال اور موسموں کی تبدیلی سے مریخ کے شمالی اور جنوبی قطبین پر برف کی موٹائی میں بدلاؤ آتا رہتا ہے۔

اگر مستقبل میں انسان مریخ پر آبادیاں قائم کرتے ہیں تو مریخ کے دونوں قطبین پٹ موجود وافر مقدار میں جمی ہوئی برف سے پانی حاصل کر کے یہاں زندگی کی نشو نما کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔


Science with Dr.Hafeez
Dr. Hafeez Ul Hassan
Dr.Hafeez Consultancy

چاند پر زلزلے ماپنے کے لیے 2026 میں بھیجا جانے والا لینڈر FarSide Seismometer تکمیل کے مراحل میں۔۔اس مرحلے میں ناسا کے ج...
17/12/2024

چاند پر زلزلے ماپنے کے لیے 2026 میں بھیجا جانے والا لینڈر FarSide Seismometer تکمیل کے مراحل میں۔۔

اس مرحلے میں ناسا کے جیٹ پروپلژن لیب کے سائنسدان، فرنچ سپیس ایجنسی اور پلینٹری سائنس کے ادارے آئی پی جی پی فرانس، (جس ادارے میں میں کام کرتا رہا )کے بنائے گئے زلزلے ماپنے کے آلے، "سیزمومیٹر" پر مختلف طرح کے ٹیسٹ کرتے ہیں جن میں سب سے اہم چاند کی کمزور کششِ ثقل کی طرح کا ماحول پیدا کر کے (کیسے؟ یہ ایک راز ہے :) )، اور راکٹ پر اس لینڈر کے لوڈ ہونے کے بعد شدید نوعیت کی قوت اور دباؤ کے باعث اس میں موجود حساس پینڈولمز اور انکے سپرنگز پر سٹریس ٹیسٹ ، یہ سب شامل ہیں۔
یہ سیزمومیٹر کم سے کم ساڑھے چار برس تک چاند پر کام کرنے کے قابل ہو گا تاہم بہتر ٹیکنالوجی کی بدولت مشن کا دورانیہ مزید ایک سال بڑھانے کی اُمید کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ہماری ٹیم کو پروگرام کے پرنسپل انسیٹیگیٹر اور کوارڈینیٹر فلیپ لاگونے اور مارک پاننگ نے مشن کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا۔

1972 کے اپالو مشنز کے بعد یہ پہلا ایسا مشن ہے جس میں چاند پر باقاعدہ زلزلوں کو ماپنے کے لیے ایک سپیشل مشن اور حساس آلات بھیجے جا رہے ہیں۔ چاند پر زلزلوں کی نوعیت کو جان کر ہم چاند کی اندرونی ساخت کے علاوہ زمین اور نظامِ شمسی کے ابتدائی حالات کے متعلق بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ مشن ہمیں چاند پر آنے والے زلزلوں کی نوعیت اور مستقبل میں یہان انسانی آبادیوں کے قیام کی صورت میں بہتر اور بروقت پیشنگوئیاں کے متعلق معلومات فراہم کر سکے گا۔ جس سے مستقبل میں چاند کا انسان وہان محفوظ گھروندے بنا ہائے گا۔
اس مشن میں میرا حصہ سیزمومیٹر کے بہتر مکینکل اوسلیٹر کے ڈیزائن اور مشن کی ضروریات کو انجنیرنگ کی خصوصیات میں بدلنا تھا جو Requirement Engineering کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ مستقبل میں ایسے سیزمومیٹرز کی اپنی پیدا کردہ noise یعنی self noise جو اسکے الات میں موجود مختلف حصوں سے آ سکتی ہے جیسے کہ فرکشن، ڈیمپنگ، سٹیٹک فورس، اس سب کو کم سے کم کرنا رہا ہے، کیونکہ چاند پر زلزلے 1.5 HZ سے بھی کم فریکونسی کے بھی متوقع ہیں( یہ ہمیں اپالو مشنز میں چھوڑے جانے والے زلزلے ماپنے کے آلات سے پتہ چلا جو خلاباز وہاں خاص ترتیب میں لگا آئے تھے) جبکہ چاند کی سطح کے درجہ حرارت کے فرق سے "چٹخنے" سے 2 سے 10 Hz. کے بھی زلزلے آتے ہیں۔ لہذا کم فریکونسی کے زلزلوں کو ماپنے کے لیے ضروری ہے کہ سیزمومیٹرز میں موجود آلات خود ان زلزلوں کی فریکونسی سے بھی کم فریکونسی پر کسی طرح کا مسئلہ یا شور پیدا کریں۔ اور جو شے حساس ہوتی ہے اسی کا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ خود کے پیدا کردہ "شور" سے ہی نہ گھبرا جائے۔ یہ فلسفہ زندگی کا بھی ہے :) ۔
خیر ابھی اس سیزمومیٹرز پر بہت کام باقی ہے۔ اس حوالے سے مزید اپ ڈیٹس آپکو وقتاً فوقتاً دیتا رہوں گا۔

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی کی پوسٹ اور عام فہم زبان میں تحریروں اور ویڈیوز کے لیے ہمیں فیس بک اور یوٹیوب پر فالو کریں۔ شکریہ

Dr. Hafeez Ul Hassan
Science with Dr.Hafeez
Dr.Hafeez Consultancy

Adresse

Paris

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Science with Dr.Hafeez publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Partager