Akif Ghani Malik

Akif Ghani Malik Akif Ghani
Poet, Journalist, Enterpreneur

Columnist at UrduPoint.com
2005 to present
Studied Diploma in Homeopathic Medicine at Galien University Tutorial College London
Past: GOVT. ZAMINDAR SCIENCE COLLEGE GUJRAT and govt high school kharian
Lives in Goussainville, Ile-De-France, France
From Bidder Marjan (Kharian) · Moved to Garges-lès-Gonesse lived in Jhelum

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!Hamad Ur Rehman, Su Da
06/08/2025

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!

Hamad Ur Rehman, Su Da

تازہ کالم
04/08/2025

تازہ کالم

https://humsub.com.pk/n/8406/2025/08/04/akif-ghani-france/
03/08/2025

https://humsub.com.pk/n/8406/2025/08/04/akif-ghani-france/

کتاب فقط اوراقِ قرطاس کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی شعوری ارتقا کا وہ آئینہ ہے جس میں صدیاں جھانکتی ہیں، تہذیبیں ابھرتی اور ڈوبتی ہیں، اور زمانے اپنی خاموش

29/07/2025

منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفرؔ کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
جام جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے
میں کون اور ریختہ ہاں اس سے مدعا
جز انبساط خاطر حضرت نہیں مجھے
صحرا لکھا گیا ذرا امتثال امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

چوبیس جولائی کو روزنامہ “طاقت” میں چھپنے والا میرا کالم:-————جب گالی ہیرو بنا دیتی ہےزبان، سیاست اور معاشرت کے زوال پر ا...
27/07/2025

چوبیس جولائی کو روزنامہ “طاقت” میں چھپنے والا میرا کالم:-
————

جب گالی ہیرو بنا دیتی ہے

زبان، سیاست اور معاشرت کے زوال پر ایک ادبی و تاریخی نظر
…٭…
عاکف غنی

چند گھنٹے پہلے میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی۔ پوسٹ کا تعلق ایک مزاحیہ اشتہار سے تھا جو ایک چپس کے پیکٹ پر بنایا گیا اور جس میں اس شخص کی تصویر اور نام نمایاں تھا جو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر گالیوں کے طوفان کے ذریعے مشہور ہوا۔ اس شخص نے اپنی ویڈیو میں مریم نواز شریف اور پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو انتہائی بازاری اور ننگی زبان میں مخاطب کیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس کی زبان پر نہ صرف کسی نے گرفت کی، بلکہ اس کے نام، لہجے اور جملوں کو لے کر جیسے ایک عوامی محبت کی لہر دوڑ گئی۔
اس پوسٹ پر کسی صاحب کا ایک تبصرہ آیا، جو میرے لیے اس تحریر کا محرک بنا۔ تبصرہ کچھ یوں تھا:
''یہ زمانہ بھی آنا تھا دانشوروں کے نزدیک ہیرو وہی ٹھہرا جو سب دی کتی ماں آگئی اے جیسے الفاظ استعمال کرے۔ واہ واہ! یہ دانشمندی ہے؟ کہ گالی دینے والا ہیرو بنے؟''
یہ سوال صرف ایک فیس بک کمنٹ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا معاشرتی نوحہ تھا جو ہمارے اندر کی فکری شکست، تہذیبی زوال اور سیاسی پولرائزیشن کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے۔
گالی کی سیاست: پاکستان کی پرانی روایت
یہ پہلی بار نہیں کہ کسی شخص نے بازاری زبان بول کر شہرت کمائی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں گالی دینے والا، باغی یا سچ بولنے والا سمجھا گیا۔ بلکہ کئی بار تو عوام نے گالی کو احتجاج کا ہتھیار بنایا۔
ایوب خان:
ایوب کتا ہائے ہائے ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ عوامی غصے کا پرتشدد اظہار تھا۔ یہ نعرہ 1968 کی تحریک کے دوران دیواروں پر لکھا گیا، جلوسوں میں بلند ہوا، اور نوجوان نسل کی علامت بن گیا۔
ضیا الحق:
ضیا کے دور میں گالی کو لفظی نہیں، علامتی احتجاج کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لعنت ہو اس مارشل لا پہ جیسی آوازیں صحافت اور شاعری میں سنائی دیں۔
بھٹو:
دلچسپ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ خود بھٹو نے 1971 میں بنگالیوں کو حرامزادے کہا۔ بعد ازاں ان کے حامیوں نے جنرل نیازی کے ساتھ سور جیسے الفاظ بھی جوڑے۔ سور کے بچے جیسے جملے پارلیمانی کارروائی کا حصہ بنے۔
مشرف:
مشرف کتا ہائے ہائے اور وردی والا امریکی کتا جیسے نعرے، لال مسجد آپریشن کے بعد سڑکوں اور مسجدوں میں سنائی دینے لگے۔ گالی یہاں مزاحمت کا مترادف بن گئی۔
نواز شریف و بے نظیر:
نواز شریف کو خلائی مخلوق کا پٹھو اور چوروں کا باپ کہنے والے صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں تھے بلکہ خود ریاستی عناصر بھی طنز کی زبان میں گالی کا استعمال کرتے رہے۔
بے نظیر بھٹو کے خلاف ناچنے والی سے لے کر پست عورت تک جیسے الفاظ انہی محفلوں میں بولے گئے جہاں پارلیمانی آداب کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔
خادم حسین رضوی:
خادم رضوی نے تو باقاعدہ گالی کو بیانیہ بنا دیا تھا۔ وہ برملا کہتا تھا:اوے دلا، کنجر، سور دے پترو!
یہ الفاظ صرف مخالفین کے لیے نہیں بلکہ ریاستی اداروں، ججوں، صحافیوں تک کے لیے بولے گئے اور حیرت انگیز طور پر لوگوں نے تالیاں بجائیں، واہ واہ کی، اور موبائلوں میں محفوظ کر لیا۔
انٹرنیشنل نظیریں: کیا گالی کا کلچر صرف پاکستان میں ہے؟
نہیں! دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی سیاسی اور سماجی مکالمے میں گالیوں کا استعمال ہوا البتہ وہاں گالی صرف ردِعمل میں آتی ہے، تعلیم یافتہ فخر کے ساتھ نہیں دی جاتی۔
امریکہ:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں Son of a Bitch جیسے الفاظ خود صدر کے منہ سے نکلے۔ نینسی پیلوسی کو nasty woman کہا گیا۔ مگر ہر بار میڈیا، عدالت اور سول سوسائٹی نے سخت ردعمل دیا۔
فرانس:
فرانس میں Yellow Vest مظاہروں کے دوران صدر ایمانوئل میکرون کو co***rd (بے وقوف، کمینہ) اور sa**ud (حرامزادہ) جیسے الفاظ سے پکارا گیا۔ مگر یہاں بھی عدالت نے کئی شہریوں کو جرمانے اور سزا دی۔

برطانیہ:
برطانیہ میں سیاستدان ایک دوسرے کو bloody liar یا bastard تک کہہ جاتے ہیں، مگر پارلیمنٹ میں ایسی زبان پر پابندی ہے۔ وہاں unparliamentary language کے استعمال پر فوری معافی یا معطلی ہوتی ہے۔
گالی کا کلچر: ایک قوم کی عکاسی
جب ایک معاشرہ گالی دینے والے کو ہیرو بنانا شروع کر دے، تو یہ صرف سیاست کا زوال نہیں، زبان، تہذیب اور شعور کی بربادی ہے۔جب بچے خادم رضوی کی گالیوں کی نقل کرتے ہوں،جب یوٹیوبر گالیوں پر لاکھوں ویوز لیں،جب اشتہار میں ایک بازاری گالی دینے والے کو نوجوانوں کی آواز بنا دیا جائے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ہیرو کی تعریف میں کیا شامل کر چکے ہیں؟
نتیجہ: یہ لمح فکریہ ہے
ہر وہ سماج جو دلیل کو گالی، اور تہذیب کو دھمکی سے بدل دے، اسے دیرپا امن اور ترقی نصیب نہیں ہوتی۔ اختلاف رائے رکھنا ہر انسان کا حق ہے، مگر الفاظ کے انتخاب سے انسان کی اخلاقی قامت واضح ہوتی ہے۔
ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمیں دلیل والے ہیرو چاہئیں یا دلا، کنجر، سور کہنے والے!

21/07/2025

📖 خودی سے ماورا — ایک ایسا شعری سفر جو لفظوں کی صورت میں دل سے نکل کر روح تک پہنچتا ہے۔جناب طارق ہاشمی جیسے سنجیدہ اور باریک بین نقاد نے اس کتاب پر تبصرہ کیا، تو یہ میرے لیے ایک بڑی عزت کی بات تھی۔ اُنہوں نے غزلوں میں چھپے جذبوں، معنویت، اور اسلوب کو جس انداز میں بیان کیا، وہ کسی بھی شاعر کے لیے حوصلہ افزائی سے کم نہیں۔یہ کتاب صرف غزلوں کا مجموعہ نہیں، یہ ایک دروازہ ہے — خودی سے آگے، ذات سے باہر، اور احساس کی دنیا میں داخل ہونے کا۔ ہر شعر ایک داخلی مکالمہ ہے، ایک سوال، ایک منظر، اور کہیں نہ کہیں ایک دعا۔طارق ہاشمی کا تبصرہ دراصل میرے لفظوں پر قاری کے اعتماد کا آئینہ ہے۔ میں اُن کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔اگر آپ نے “خودی سے ماورا” نہیں پڑھی، تو یہ موقع ہے۔ اور اگر پڑھ چکے ہیں، تو دوبارہ پڑھیے — شاید اس بار کوئی نیا مفہوم کھل جائے۔ # #غزل

La France est mon deuxième pays, et aujourd’hui, c’est sa fête nationale.Je souhaite une très joyeuse fête du 14 juillet...
13/07/2025

La France est mon deuxième pays, et aujourd’hui, c’est sa fête nationale.
Je souhaite une très joyeuse fête du 14 juillet à tous mes compatriotes français.
Vive la liberté, vive la fraternité, vive la France !
فرانس میرا دوسرا وطن ہے، اور آج میرے اس وطن کا قومی دن ہے۔
میری طرف سے تمام ہم وطن فرانسیسیوں کو چودہ جولائی کا دن بہت بہت مبارک ہو۔
زندہ باد آزادی، زندہ باد بھائی چارہ، زندہ باد فرانس!

France is my second homeland, and today is its National Day.
I warmly wish all my fellow French citizens a very Happy 14th of July!
Long live liberty, long live fraternity, long live France!

28/06/2025

سانحہ سوات — ریاستی ناکامی کی دردناک مثال

سوات میں جو کچھ ہوا، وہ کسی ایک حکومت، کسی ایک ادارے یا کسی ایک فرد کی کوتاہی نہیں تھی۔ یہ پوری ریاست کی اجتماعی ناکامی تھی۔ چاہے خیبر پختونخوا کی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، چاہے سول ادارے ہوں یا عسکری قوتیں — سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں۔

جب ایک ریاست اپنے ہی لوگوں کو تحفظ نہ دے سکے، جب بار بار ایک ہی خطے میں امن کی دھجیاں اڑائی جائیں، اور مجرم دندناتے پھریں، تو ہمیں تلخ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی — یہ ایک ناکام ریاست کی علامت ہے۔

سوال یہ ہے:
کتنی بار ایک جیسے زخم کھائیں گے؟
کب ایک عام شہری کو وہ تحفظ ملے گا جو آئین کا وعدہ ہے؟
کب ریاست صرف طاقتوروں کی نہیں، کمزوروں کی بھی ہو گی؟

اب صرف مذمتی بیانات کافی نہیں۔
اب صرف خاموشی جرم ہے۔

؟

12/05/2025

Adresse

Paris
75000

Téléphone

+33780959552

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Akif Ghani Malik publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Contacter L'entreprise

Envoyer un message à Akif Ghani Malik:

Partager