18/08/2025
اگست کے پہلے ہفتے ہی آئی ایس آئی اور ملحقہ ایجنسیوں نے مشترکہ منصوبہ شروع کیا۔ خفیہ مواصلاتی انٹرسپٹ میں انکشاف ہوا کہ بھارت اور اس کی پراکسی بی ایل اے نے 11 اور 14 اگست کے دوران کوئٹہ، خضدار اور تربت میں تخریبی حملوں کا نیٹ ورک بچھا رکھا تھا۔ 8 اگست کو پسنی کے مضافات میں ریپڈرون جی17 نے بارود سے بھری ایک پک اپ کو ٹریس کیا گراؤنڈ کمانڈوز نے کارروائی میں سات دہشت گردوں کو ہلاک اور تین کو زندہ پکڑا۔ دورانِ تفتیش پتا چلا کہ یہ گاڑی آزادی ریلی کے راستے پر استعمال ہونا تھی۔ اسی شب دلبندین میں “آپریشن ٹائیگر تھورن” کے ذریعے ایک خفیہ اسلحہ ڈپو سے 312 کلوگرام RDX، 47 خودکار رائفلیں اور بھارتی ساختہ I-Com سیٹ برآمد ہوئے۔ مجموعی طور پر 4 دنوں میں 19 چھاپہ مار کارروائیوں کے نتیجے میں 27 شدت پسند مارے گئے، 49 گرفتار ہوئے اور 11 اہم فِگرز افغانستان فرار کی کوشش میں سرحدی چوکی پر دبوچ لیے گئے۔
14 اگست کی صبح فجر کے بعد ہی گوادر سے ژوب تک ہر قصبے میں سبز ہلالی پرچم لہرانا شروع ہوا۔ بلوچستان بھر میں یومِ آزادی کی تقریبات نے اس سال ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، خاص طور پر مختلف اضلاع میں عوامی شرکت اور جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ کوئٹہ میں سب سے بڑی ریلیاں منعقد ہوئیں جن میں تقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار افراد نے شرکت کی۔ یہاں ایک لاکھ اسی ہزار قومی پرچم تقسیم کیے گئے، اور رات کو اٹھارہ منٹ طویل آتش بازی نے آسمان کو سبز و سفید روشنیوں سے جگمگا دیا۔ تربت میں بھی جذبے کی کوئی کمی نہ تھی، جہاں اٹھاون ہزار چھ سو افراد جمع ہوئے، چھیالیس ہزار پرچم بانٹے گئے اور نو منٹ کی شاندار آتش بازی نے سماں باندھ دیا۔ خضدار میں بیالیس ہزار تین سو شہریوں نے ریلی میں شرکت کی، پینتیس ہزار پانچ سو پرچم تقسیم ہوئے اور سات منٹ تک آسمان رنگوں سے روشن رہا۔ گوادر کی ریلی میں سینتیس ہزار آٹھ سو لوگوں نے شرکت کی، جہاں تیس ہزار دو سو پرچم لہرائے گئے اور چھ منٹ کی آتش بازی سے ساحلی شہر جگمگا اٹھا۔ نوشکی سے لے کر دالبندین تک کے کاریڈور میں بھی عوام نے بھرپور شرکت کی، جہاں مجموعی طور پر چوبیس ہزار ایک سو افراد نے ریلیاں نکالیں، انیس ہزار تین سو پرچم تقسیم ہوئے اور پانچ منٹ کی آتش بازی سے جشن آزادی کا اختتام کیا گیا۔ یہ تمام مناظر اس بات کا اعلان تھے کہ بلوچستان کا ہر ضلع، ہر گاؤں اور ہر شہری پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
کوهِ مردار کی پہاڑیوں پر 400 ڈرونز سے “پاکستان زندہ باد” کا لیزر شو نشر کیا گیا بلوچستان کی تاریخ میں پہلا ڈرون لائٹ فیسٹیول۔ پنجگور کے مضافاتی گاؤں میں دعوت عام کا اہتمام کیا گیا مقامی انتظامیہ کے مطابق تقریباً 9,200 افراد نے اس میں حصہ لیا۔ گوادر پورٹ پر فلوٹنگ پریڈ میں 14 مچھیروں کی کشتیوں نے سبز و سفید روشنیاں سجا کر سمندر پر “78” کا ہندسہ بنایا ڈاکیارڈ ریکارڈ کا حصہ بننے والی یہ پہلی سمندری آتش بازی تھی۔بی ایل اے کے میڈیا وِنگ نے حسبِ روایت اپنی شکست چھپانے کیلئے ٹوئٹر/X پر جعلی وڈیوز جاری کیں۔ مگر آئی بی کی سائبر فورینسک لیب نے محض 17 منٹ میں جغرافیائی تضاد ثابت کیا
کلِپ میں دکھائی گئی “فائرنگ” کابل کے نواحی دشتِ برچی کا تھا، نہ کہ خضدار کا۔
دوسرا کلپ جسے بی وائی سی نے “سوشل بَلاسٹ” کہا اصل میں 2019ء کا حیدرآباد (ہند) تھا۔ انکشاف کے بعد ہیش ٹیگ بی ایل اے ٹیررسٹ شام تک “پاکستان ٹاپ ٹرینڈ” بن گیا، جس پر 4,71,000 ٹویٹس ہوئیں، 68 فیصد براہِ راست بلوچ صارفین کی تھیں۔
کوئٹہ میں سرینا چوک سے قائدآباد تک 12 کلومیٹر طویل موٹر سائیکل ریلی میں بلوچ نوجوانوں نے شرکت کی ضلعی ٹریفک پولیس کے ڈرون شمار کے مطابق 12,784 بائیکس رواں تھیں۔ ہر بائیک پر پاکستان اور بلوچستان کے پرچم جڑے تھے۔ ریلی کی قیادت یونیورسٹی آف بلوچستان کے طالب علم رہنما بادر خان اور تربت یونیورسٹی کی سحر بلوچ نے کی یہ دونوں پہلے سوشل میڈیا پر بی وائی سی کے ناقدین کے طور پر ابھرے تھے۔
شام ڈھلے جب خضدار کے مرکزی اسٹیڈیم میں 10,000 شمعیں روشن ہوئیں تو ایف سی ساؤتھ کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر نے اعلان کیا: “بلوچستان نے آج امن کی وہ شمع جلائی ہے جسے اب کوئی طوفان بجھا نہیں سکتا۔” اُنہوں نے تصدیق کی کہ 14 اگست سے قبل کی 72 گھنٹوں میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، حالانکہ انٹیل رپورٹوں کے مطابق “پندرہ سے زیادہ” ممکنہ حملے پلان تھے۔
ایک طرف بی ایل اے اور بی وائی سی کی جعلسازی بھانڈے کی طرح پھوٹی، دوسری طرف دلوں کے اندر لہراتے سبز ہلالی پرچم نے دنیا کو بتا دیا کہ بلوچ قوم پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے آپریشن کی بدولت صرف چھ دنوں میں 100+ دہشت گرد نیٹ ورک توڑ کر آزادی کے دن کو محفوظ بنایا بلوچ عوام نے لاکھوں کی تعداد میں گھروں، گلیوں اور محلّوں کو سجایا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ بلوچستان اب کسی کی پراکسی نہیں، فقط پاکستان ہے۔
پاکستان زندہ باد