12/08/2025
جانتے ہیں کہ جنوبی کوریا ،تائیوان، سنگاپور، اٹلی، اسپین، پولینڈ، جاپان، یونان، کینیڈا، جرمنی، فرانس وغیرہ کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
جی ہاں ان سب ممالک کا مشترکہ سب سے بڑا اور انتہائی سنگین مسئلہ انتہائی کم شرحِ پیدائش (Fertility Rate) ہے۔ان ممالک کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ جو موجود ہیں ان میں بوڑھوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی جگہ لینے کے لیے نوجوان(ورک فورس) موجود ہی نہیں ہیں جو کام کو سنبھال سکیں۔ اٹلی میں تو گاوٴں کے گاوٴں خالی ہو رہے ہیں۔ جاپان میں کئی سکول بند کرنے پڑ رہے ہیں۔ معیشت کو چلانے کے لیے جتنے نوجوانوں کی ضرورت ہے وہ بھی موجود نہیں۔ کسی حد تک اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے امیگریشن کا سہارا لیا جا رہا ہے لیکن دوسرے ممالک سے آنے والے نوجوان بھی وہیں رچ بس جاتے اور پھر ان کی آبادی مقامی آبادی سے بھی زیادہ ہو رہی ہے ۔
اس سنگین مسئلے پر قابو پانے کے لیے یہ حکومتیں اپنے شہریوں کو بہت سی سہولیات دے رہی ہیں جیسا کہ بچے کی پیدائش پر بہت زیادہ رقم دینا، بچے کا وظیفہ، ماں کے ساتھ ساتھ والد کو بھی کئی ماہ کی چھٹیاں دینا وغیرہ۔ لیکن یہ جن کسی بھی طرح قابو میں نہیں آرہا۔ جانتے ہیں کیوں؟
کیونکہ یہ جن اب اتنا بے قابو ہو چکا ہے کہ خود یہ قابو بھی کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ انھیں بھی معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلے انھوں نے عورت کو آزادی کا لالچ دے کر کام کے لیے گھر سے باہر نکالا۔ جب عورت نے خود کمانا شروع کیا، عورت خود مختار ہوئی، تو وہاں کے مرد نے عورت پر خرچ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور معاشرتی ذمہ داریوں سے بھی مبرا ہو گیا۔ مرد کسی بھی معاشرے ،عہد، نسل، علاقے کا ہو، اس کی جبلت میں جنسی تعلقات کی خواہش سر فہرست رہی ہے بلکہ ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ۔ اس کے لیے مذہبی اور معاشرتی طور پر جائز راستہ نکاح اور شادی کا ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ بچوں کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے تھے اور پیسہ بھی خرچ کرتے تھے۔ جو مذہبی نہیں تھے وہ پیسے خرچ کر کے عورتوں سے تعلقات قائم کرتے تھے۔ترقی یافتہ ممالک میں اب چونکہ کیریئر، کمانے کی فکر اور دوڑ کی وجہ سے خود عورت ہی شادی سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو مردوں کے لیے بغیر شادی اوراکثر تو بغیر پیسہ خرچ کیے، کئی عورتوں سے تعلقات بہت عام ہو گیا ہے۔ وہ اب شادی اور بچوں کا کیونکر سوچے۔
عورتیں اپنی تعلیم، کیرئیر میں اتنی مگن ہیں کہ بچوں کا سوچنا محال کیونکہ جو بچے پیدا کرتی ہے وہ کیرئیر میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔ پھر اگر کوئی بچے پیدا کر بھی لے تو مرد چھوڑ کر چلا جاتا کیونکہ اسے کوئی اور مل جاتی ہے۔ یوں اسے اکیلے سنگل مدر کے طور پر بچوں کو بھی پالنا پڑتا ہے اور جاب بھی کرنی پڑتی ہے۔
اب یہ جن اس لیے قابو میں نہیں آسکتا کیونکہ عورتوں کی بڑی تعداد کو تو اب قائل ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ گھر پر رہیں، معاشی فکر سے آزاد ہو کر بچوں کی دیکھ بھال کریں، گھر سنبھالیں۔ اگر کوئی عورت یہ سوچ رکھے بھی تو اب ان معاشروں میں ایسے مرد ناپید ہیں جو عورت کو گھر پر بٹھا کر کھلانے کو تیار ہوں۔ اسی وجہ سے ان معاشروں میں تولیدی شرح نمو بہت کم ہے اور مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ کل کو یہی مسائل یہاں بھی نظر آئیں گے بلکہ آنا شروع ہو چکے ہیں۔آنے والے سالوں میں بقا اسی کی جواپنی آبادی کو برقرار رکھ سکے گا یا بڑھا سکے گا کیونکہ سب اسی کے محتاج ہونگے۔
اب اس صحیح حدیث شریف کی سمجھ آٓتی ہے جو سنن النسائی، ابی داوٴد، ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے جس کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن امتوں پر فخر کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعدنان نیازی