02/12/2024
نامہ نگار پشین۔ صبوراللہ درانی
باباصحافت: خان عبدالصمد کی بے باک قلم کی جدوجہد
خان عبد الصمد خان، جو ایک بلند پایہ پشتون رہنما اور صحافی تھے آپ نے بلوچستان اور خاص طور پر پشتون خطے کی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی جو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ ان کی صحافتی خدمات میں ان کا جاری کردہ ہفت روزہ ''استقلال'' ایک نمایاں اہم قدم کی حیثیت رکھتا ہے، جو 20 نومبر 1938 کو منظرِ عام پر آیا۔ یہ اخبار محض ایک صحافتی ادارہ نہیں تھا بلکہ آزادی کی تحریک کا ایک مضبوط ہتھیار تھا جس نے انگریزی سامراج کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ''استقلال'' نے خان عبد الصمد خان کی فکری اور نظریاتی جدوجہد کو عملی جامہ پہنایا، جس میں بلوچستان کے عوام کی حالتِ زار کو اجاگر کیا اور ان کے حقوق کی آواز بلند کی۔
"استقلال'' کا آغاز برطانوی حکومتی دباو کے باوجود ہوا، اور اس اخبار نے خان عبد الصمد خان کی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس اخبار کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، اس پر پابندیاں لگائیں اور کئی بار اس کی اشاعت روک دی گئی، مگر خان عبد الصمد خان نے اپنی جدوجہد کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی تحریروں میں حق و صداقت کی راہ اپنائی۔ ''استقلال'' کے صفحات پر شائع ہونے والی تحریریں نہ صرف ایک احتجاج تھیں بلکہ ان میں عوامی حقوق کی حفاظت، آزادی اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی عملی رہنمائی بھی شامل تھی۔ اس طرح، خان عبد الصمد خان نے صحافت کو ایک تحریک میں تبدیل کر دیا جو آزادی کی جدوجہد کا اہم حصہ بن گئی۔
"استقلال'' کے پہلے شمارے میں خان عبد الصمد خان نے ایک دلیرانہ تحریر کے ذریعے آزادی، خودمختاری اور مظلوموں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ ان کی تحریر نے بلوچستان کے عوام کو ایک نئی سوچ دی اور ان میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا جذبہ پیدا کیا۔ ''استقلال'' نے پشین، قلعہ عبداللہ، گلستان اور کوئٹہ جیسے علاقوں کے عوام کے مسائل کو اجاگر کیا اور ان کی پسماندگی، غربت اور تعلیمی کمی یوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی تحریریں جو حقیقت پر مبنی اور بے خوف تھیں بلوچ یا پشتون خطے کے عوام کے لیے ایک نیا آدرش اور حوصلہ تھیں۔
خان عبد الصمد خان کی صحافتی خدمات اور ''استقلال'' کا کردار صرف ایک صحافتی مشن نہیں بلکہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ''بابا صحافت'' کا لقب دیا گیا۔ اس لقب کی حقیقت صرف ان کی صحافتی خدمات نہیں بلکہ ان کی جرات مندانہ تحریریں تھیں جو آزادی کے لیے ان کی لگن اور قوم کے حقوق کے لیے ان کی بے خوف جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ان کے قلم نے نہ صرف عوامی شعور بیدار کیا بلکہ اسے آزادی کی سمت میں ایک طاقتور ہتھیار بنا دیا۔
خان عبد الصمد خان کا یہ مشن آج بھی زندہ ہے، اور ان کی صحافتی خدمات نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے صحافتی میدان میں ایک اعلیٰ معیار قائم کیا۔ ان کی زندگی اور کام کا تجزیہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچائی اور انصاف کی راہ میں مشکلات آتی ہیں، لیکن یہ راہ ہمیشہ کامیابی کی طرف جاتی ہے۔ ''استقلال'' اور خان عبد الصمد خان کی تحریروں کی کہانی آج بھی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ سچ اور انصاف کی جدوجہد کبھی بھی آسان نہیں ہوتی، مگر اس میں کامیابی اور فتح کی امید ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
خان عبد الصمد خان نے ''استقلال'' کے ذریعے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جو نہ صرف صحافت میں بلکہ عوامی جدوجہد میں بھی ایک درخشاں مثال بن گئی۔ ان کی زندگی اور صحافت کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور ان کی طاقت کو اجاگر کیا جائے۔ ان کی تحریروں میں چھپی بے باکی اور سچائی نے نہ صرف ان کی قوم کو مضبوط کیا بلکہ وہ صحافت کی دنیا میں ایک علامت بن گئے۔جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ ''استقلال'' کا ہر شمارہ ان کے عزم، ان کی جرات اور آزادی کی جدوجہد کی علامت ہے۔