Viral in Pakistan Media

Viral in Pakistan Media We cover the most interesting topics on social media from all over the world. All reports are compiled under the banner of Timeline Multimedia UK.
(3)

ایم آر آئی مشین نے زندہ  بندہ نگل لیا !نیویورک میں اکسٹھ سالہ ایک شخص کو اس وقت  ایم آر آئی مشین نے اپنی طرف کھینچ لیا ج...
20/07/2025

ایم آر آئی مشین نے زندہ بندہ نگل لیا !

نیویورک میں اکسٹھ سالہ ایک شخص کو اس وقت ایم آر آئی مشین نے اپنی طرف کھینچ لیا جب وہ بے دھیانی میں اس کمرے میں داخل ہوا .

یہ کہانی کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک ہولناک حقیقت ہے جو نیویارک کے ایک جدید اسپتال میں پیش آئی۔ وہ اسپتال جو جدید ترین مشینری سے لیس تھا، جہاں ٹیکنالوجی کے ہر کونے میں ترقی کی چمک تھی، وہیں ایک لمحہ ایسا آیا کہ ایک انسان پوری دنیا کے سامنے مشین کی بے رحم طاقت کا شکار بن گیا۔

اکسٹھ سالہ شخص جیسے ہی ایم آر آئی روم میں داخل ہوا، اچانک ایک زوردار جھٹکا لگا، اور مشین نے اُسے پوری قوت سے اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ شخص مشین سے چمٹ گیا، چیخیں بلند ہوئیں، لیکن جب تک کوئی کچھ سمجھ پاتا، زندگی اس کے جسم سے رخصت ہو چکی تھی۔

ایم آر آئی کیا ہے؟
ایم آر آئی (Magnetic Resonance Imaging) ایک پیچیدہ مگر انتہائی اہم میڈیکل مشین ہے، جو انسانی جسم کے اندرونی نظام کی تصویریں بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ مشین طاقتور مقناطیسی میدان (Magnetic Field) اور ریڈیو ویوز (Radio Waves) کا استعمال کرتی ہے تاکہ جسم کے مختلف اعضا — دماغ، ریڑھ کی ہڈی، جوڑ، عضلات، اور دیگر بافتوں — کی تفصیلی تصاویر حاصل کی جا سکیں۔

ایم آر آئی مشین کے اندر ایک بہت بڑا مقناطیس ہوتا ہے۔ درحقیقت، یہ دنیا کے طاقتور ترین مقناطیسی آلات میں سے ایک ہے۔ جیسے ہی کوئی دھاتی شے اس کے قریب آتی ہے، مشین اُسے پوری طاقت سے کھینچ لیتی ہے — چاہے وہ جیب میں پڑا سکہ ہو، بیلٹ کی بکل، گھڑی، یا کوئی میڈیکل امپلانٹ۔

عام طور پر ایم آر آئی روم میں داخلے سے پہلے ایک تفصیلی چیک کیا جاتا ہے۔ مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اُس کے جسم میں کوئی دھات ہے؟ کیا اُس نے کوئی گھڑی، چابیاں، موبائل یا حتیٰ کہ انڈر وائر برا بھی تو نہیں پہن رکھی؟ ہر وہ شے جو دھات سے بنی ہو، اُس مشین کے لیے خطرناک بن سکتی ہے۔

لیکن نیویارک میں پیش آنے والا واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک لمحے کی غفلت، ایک انسان کی پوری زندگی کو نگل سکتی ہے۔ اُس شخص نے ممکنہ طور پر دھات سے بنی کوئی شے پہن رکھی تھی اور غیر ارادی طور پر ایم آر آئی روم میں داخل ہو گیا۔ مشین نے اُسے کسی کھلونے کی طرح اپنی طرف کھینچا اور انجام موت کی صورت میں نکلا۔

سبق جو ہم سب کو سیکھنا ہے
ہم اکثر ٹیکنالوجی کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں، لیکن یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ٹیکنالوجی جتنی مفید ہے، اتنی ہی بے رحم بھی ہو سکتی ہے اگر ہم اس کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کریں۔ اسپتالوں کو چاہیے کہ وہ ایم آر آئی جیسے حساس مقامات پر سیکیورٹی کو مزید سخت کریں۔ صرف وارننگ بورڈ کافی نہیں، وہاں ایک حفاظتی عملہ ہونا چاہیے جو ہر داخل ہونے والے شخص کو چیک کرے۔

عوام کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ کسی بھی میڈیکل پراسیس میں شامل ہونے سے پہلے مکمل معلومات حاصل کریں۔ ایم آر آئی کروانا صرف ایک تصویر بنوانا نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل سائنسی عمل ہے جو ذرا سی کوتاہی پر جان بھی لے سکتا ہے۔

آخر میں، یہ واقعہ صرف نیویارک تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک انتباہ ہے:
مشینوں پر اعتماد ضرور کریں، لیکن آنکھ بند کر کے نہیں!

اگر آسمان سے بارش قطروں کی بجائے اکٹھی آجائے تو کیا ہوگا؟سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ قطروں میں تقسیم ہونے کی بجائے اگر یک...
19/07/2025

اگر آسمان سے بارش قطروں کی بجائے اکٹھی آجائے تو کیا ہوگا؟

سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ قطروں میں تقسیم ہونے کی بجائے اگر یکجان اور ایک دم گرے تو زمین کی طرف آتے ہوئے اسکی رفتار ایک میزائل جیسی ہوگی اور ٹکراکر اتنی طاقت پیدا ہوگی جو راستے میں آنے والی ہر چیز کو مٹاڈالےگی۔ پچاس ایسے بڑے قطروں کے گرنے کا مطلب ہے کہ ایٹم بم جتنی انرجی خارج ہوگی اور زمین پر بہت بڑا گڑھا پڑ جائے گا۔ اسلئے یہ ہم انسانوں کے لئے بہت بڑی رحمت ہے کہ جب بھی بارش برستی ہے تو وہ قطروں کی صورت میں زمین پر گرتی ہے۔ اب دیکھیں قرآن میں اللہ کیا فرماتا ہے کہ "وہ ہے جس نے آسمان سے ایک اندازے سے (ناپ تول کر) پانی اتارا"۔ سبحان اللہ۔ بے شک ہمارا رب ہی ہر چیز کا خالق ہے اور اسے بہتر معلوم ہے ہمارے لئے کیا بہترین ہے۔

بلوچستان کی تاریخ کا پہلا   AI  جرگہ اور برسوں کا جھگڑا ختم ! انصاف کا نیا سورج بلوچستان کی تاریخ، روایات اور قبائلی وقا...
18/07/2025

بلوچستان کی تاریخ کا پہلا AI جرگہ اور برسوں کا جھگڑا ختم ! انصاف کا نیا سورج

بلوچستان کی تاریخ، روایات اور قبائلی وقار سے بھرپور سرزمین پر ایک انوکھا اور تاریخی واقعہ رونما ہوا — ایسا فیصلہ جس نے نہ صرف قبائلی تنازعات کی روایت کو نئی جہت دی، بلکہ مستقبل کے انصاف کے نظام کی جھلک بھی دکھا دی۔

خُزدار کے ایک مضافاتی علاقے میں دو قبائل کے درمیان زمین کا ایک پیچیدہ تنازعہ دو سال سے سلگ رہا تھا۔ درجنوں جرگے ہوئے، سرداروں نے مشورے دیے، ثالثی کی کوششیں ہوئیں، مگر نتیجہ صفر۔ فضا میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسے میں، علاقے کے چند تعلیم یافتہ اور پرجوش نوجوانوں نے ایک حیران کن قدم اٹھایا — فیصلہ جرگے یا عدالت سے نہیں، بلکہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) سے کرایا جائے!

نوجوانوں نے دنیا بھر میں مقبول AI ماڈل، ChatGPT کو تفصیلی معلومات فراہم کیں:
دونوں فریقین کے دلائل، زمین کی پرانی حد بندیاں، گوگل میپس کے نقشے، تاریخی حوالہ جات اور جرگوں کے سابقہ فیصلے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ChatGPT نے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف ایک مدلل اور غیر جانبدار فیصلہ تحریر کیا، بلکہ بلوچ روایات، قبائلی اقدار اور مقامی حساسیت کو بھی مکمل احترام دیا۔

جب یہ فیصلہ دونوں قبائل کے سامنے پیش کیا گیا تو کسی کو یقین نہیں آیا کہ برسوں پرانا تنازع محض چند لمحوں میں ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہی ہوا۔ دونوں فریقین نے فیصلہ کھلے دل سے تسلیم کیا، ایک دوسرے کو گلے لگایا اور صلح کا اعلان کر دیا۔

مزید حیرت اس وقت ہوئی جب علاقے کے روایتی سرداروں اور معتبر جرگہ نمائندوں نے نہ صرف اس فیصلے کو سراہا، بلکہ باقاعدہ طور پر اعلان کیا کہ آئندہ قبائلی تنازعات میں AI کو "جرگا معاون" کے طور پر شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے دیگر قبائلی عمائدین کو بھی مشورہ دیا کہ مصنوعی ذہانت کو سیکھیں، اسے اپنے فیصلوں میں شامل کریں، تاکہ انصاف کا عمل شفاف، تیز اور سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔

ایک معزز سردار کی بات نے سب کو خوش کر دیا:
"ہم نے ساری زندگی انصاف کے لیے جدوجہد کی، آج ٹیکنالوجی نے ہماری کوشش کو نئی روشنی دے دی ہے۔ اب جرگے بھی ڈیجیٹل ہو گئے!"

یہ واقعہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ بلوچستان میں انصاف کی ایک نئی صبح کا آغاز تھا۔ ایک ایسا دور جہاں پرانی روایات اور جدید ٹیکنالوجی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عوامی فلاح کی راہوں پر گامزن ہو رہے ہیں۔

کیا ایسا ماڈل پاکستان کے دیگر قبائلی، دیہی اور شہری علاقوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے؟
یقیناً، اگر نیت انصاف ہو اور ذریعہ سچائی — تو راستے اب صرف روایتی نہیں، ڈیجیٹل بھی ہو سکتے ہیں۔

سکول کی بیٹھک بدلنے سے تعلیمی انقلاب — کیرالہ کی حیران کن مثالکبھی آپ نے سوچا ہے کہ صرف کلاس روم میں بچوں کے بیٹھنے کی ت...
18/07/2025

سکول کی بیٹھک بدلنے سے تعلیمی انقلاب — کیرالہ کی حیران کن مثال

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ صرف کلاس روم میں بچوں کے بیٹھنے کی ترتیب بدلنے سے تعلیمی نتائج میں انقلاب لایا جا سکتا ہے؟ شاید یہ سن کر حیرت ہو، مگر بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک اسکول نے یہ کر دکھایا ہے۔

ہم میں سے بیشتر ایسے اسکولوں سے وابستہ رہے ہیں جہاں ذہین اور لائق سمجھے جانے والے بچوں کو اگلی قطاروں میں بٹھایا جاتا تھا، جبکہ نسبتاً کمزور یا شرارتی بچوں کو "بیک بینچر" بنا کر پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا جاتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے تعلیم بھی ایک مخصوص طبقے کا حق ہو اور باقی صرف حاضری پوری کرنے آئے ہوں۔

اساتذہ کی توجہ کا مرکز بھی یہی اگلی قطاریں ہوتی تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ بچے اچھے نمبر لائیں، تاکہ اسکول اور استاد کی شہرت میں اضافہ ہو۔ لیکن اس "تفریق زدہ ترتیب" میں پیچھے بیٹھنے والے بچوں کی صلاحیتیں اکثر نظر انداز ہو جاتی تھیں، اور رفتہ رفتہ وہ تعلیمی میدان سے دُور ہوتے جاتے تھے۔

کیرالہ کے اس اسکول نے اسی پرانی روایت کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بچوں کو قطاروں میں بٹھانے کی بجائے ایک نیم دائرہ (Half Circle) کی صورت میں بٹھانا شروع کیا، جس کے بیچ میں استاد کو جگہ دی گئی۔ اس ترتیب کا مقصد واضح تھا:
ہر بچہ استاد کے برابر فاصلے پر ہو، ہر بچے کو یکساں توجہ ملے، اور کوئی بھی "بیک بینچر" نہ رہے۔

اس چھوٹی سی تبدیلی نے حیران کن نتائج دیے۔ وہ بچے جو پہلے خاموش، شرمیلے یا نالائق سمجھے جاتے تھے، اب استاد کی توجہ پا کر اعتماد سے بھر گئے۔ ان کی کارکردگی میں بہتری آئی اور وہ تعلیمی مقابلے میں حصہ لینے لگے۔

یہ تجربہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیمی نظام میں صرف بڑے نصاب یا بھاری بجٹ سے ہی نہیں، بلکہ سوچ کی تبدیلی اور چھوٹے مگر مؤثر اقدامات سے بھی بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

آپ نے اسکول میں کہاں بیٹھا؟ اگلی صف میں یا پچھلی؟
اب سوچئے، اگر ہم ہر بچے کو برابر کا موقع دیں تو کیسا معاشرہ بنے گا؟
اس پیغام کو ضرور دوسروں تک پہنچائیں، کیونکہ تعلیم صرف علم نہیں، برابری کا نام بھی ہے۔

دنیا کا پہلا  بغیر  سکرین  لیپ ٹاپ 💻   ! "Spacetop G1" – ایک نیا دور، ایک نئی دنیاہم نے کمپیوٹر کا سفر ڈیسک ٹاپ سے شروع ...
16/07/2025

دنیا کا پہلا بغیر سکرین لیپ ٹاپ 💻 ! "Spacetop G1" – ایک نیا دور، ایک نئی دنیا

ہم نے کمپیوٹر کا سفر ڈیسک ٹاپ سے شروع کیا، پھر لیپ ٹاپ آیا، اور آج… Spacetop G1 ہمارے سامنے ہے — ایک ایسا انقلاب جو صرف ایک ڈیوائس نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی نئی صنف ہے۔

Sightful کمپنی کا یہ حیران کن ایجاد، روایتی لیپ ٹاپ کے اسکرین کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔ جی ہاں! نہ کوئی LED، نہ کوئی physical display۔ اس کی جگہ آپ کو دی جاتی ہیں خاص Augmented Reality (AR) عینکیں، جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک 100 انچ کی ورچوئل اسکرین تخلیق کرتی ہیں۔ یہ گویا آپ کے سر کے اوپر ایک پورا دفتر کھول دیتی ہیں — اور وہ بھی جیب میں رکھنے والی ڈیوائس کے ساتھ۔

Spacetop G1 میں Sightful کا تیار کردہ custom OS موجود ہے، جو آپ کے کام کو روایتی سسٹمز سے کہیں زیادہ ہموار، تیز اور محفوظ بناتا ہے۔ اور بات ہو رہی ہے اگر وزن کی… تو یہ جدید گیجٹ عام لیپ ٹاپ سے کہیں ہلکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ بغیر کسی بوجھ کے، کہیں بھی، کسی بھی وقت اپنا "ورچوئل دفتر" ساتھ لے جا سکتے ہیں۔

اس میں شامل پرائیویسی فیچرز اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہیں۔ جب ہر نظر اسکرین پر ہو سکتی ہے، تو Spacetop G1 آپ کو ایسا ورچوئل اسپیس دیتا ہے جسے آپ کے علاوہ کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا۔ نہ کوئی کندھے سے جھانک سکے، نہ کوئی کیمرا چوری چھپے کچھ ریکارڈ کر سکے۔

یہ صرف ایک نیا لیپ ٹاپ نہیں، یہ ایک نئی جہت ہے۔
یہ ٹیکنالوجی کا وہ قدم ہے جہاں "کمپیوٹنگ" کا مطلب اب صرف ایک مشین نہیں، بلکہ ایک تجربہ بن گیا ہے — ایسا تجربہ جو وقت، جگہ اور وسائل کی قید سے آزاد ہے۔

جیسے موبائل فون نے زمین سے انسان کو آسمان تک رسائی دی، ویسے ہی Spacetop G1 آپ کو حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے ایک ورچوئل دنیا کا مکمل کنٹرول دیتا ہے۔

اب سوال صرف یہ رہ گیا ہے:
کیا ہم اس نئی دنیا کے لیے تیار ہیں؟

آپ بھی کہیں گوبر کے کِیڑے تو نہیں؟گاؤں میں رہنے والوں نے یہ کیڑا ضرور دیکھا ہوگا جسے انگریزی میں" ڈَنگ بِیٹل "یعنی گوبر ...
15/07/2025

آپ بھی کہیں گوبر کے کِیڑے تو نہیں؟

گاؤں میں رہنے والوں نے یہ کیڑا ضرور دیکھا ہوگا جسے انگریزی میں" ڈَنگ بِیٹل "یعنی گوبر کا کیڑا کہا جاتا ہے۔ یہ صُبح ہوتے ہی گوبر کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور سارا دن جہاں بھی گوبر ملے اسکا گولا بناتا رہتا ہے۔ شام تک گولے کا سائز اچھا خاصا ہوجاتا ہے تو پھر یہ گولے کو دھکیل کر اپنے بِل تک لے کر جاتا ہے۔ لیکن وہاں پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بِل کا سوراخ چھوٹا ہے اور گولا بڑا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی جب گوبر کا گولا بِل میں نہیں جاپا تا تو پھر یہ کیڑا اسے وہیں چھوڑ کر بِل کے اندر اُتر جاتا ہے۔ یہی حال ان انسانوں کا ہے جو ساری زندگی حلال حرام کی تمیز کئے بغیر دنیا کا مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ یہ مال تو نِرا گوبر تھا اور اسے قبر میں ساتھ نہیں لےجاسکتے اور پھر حسرت کیساتھ اپنی اس کمائی کو دیکھتے ہوئے قبر میں اُترجاتے ہیں۔ کیا خیال ہے انسان کو مال بنانا چاہئے کہ اعمال؟

جب جاپان اور جرمنی سے لوگ انجینئرز بننے پاکستان آتے تھے  ! پاکستان کی صنعتی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جو اگرچہ آج ک...
14/07/2025

جب جاپان اور جرمنی سے لوگ انجینئرز بننے پاکستان آتے تھے !

پاکستان کی صنعتی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جو اگرچہ آج کتابوں میں گم ہو چکے ہیں، مگر ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ انہی میں سے ایک روشن نام محمد لطیف کا ہے، جنہوں نے مشرقی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر بٹالہ میں 1907ء میں آنکھ کھولی۔ بچپن سے ہی علم اور محنت کے دلدادہ تھے، یہاں تک کہ 1930ء میں مکینیکل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔

محض دو سال بعد، 1932ء میں اپنے شہر کے نام سے منسوب ایک ادارے — بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (BECO) — کی بنیاد رکھی۔ کاروبار جم گیا، پہیہ چل پڑا، لیکن جب 1947ء میں تقسیم کا زخم لگا، تو محمد لطیف نے اپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑ کر صرف پاکستان سے محبت کی خاطر لاہور کا رخ کیا۔ نہ مشینیں ساتھ آئیں، نہ وسائل — صرف حوصلہ، جذبہ اور ہنر ان کے پاس تھا۔

دسمبر 1947ء میں لاہور کے بادامی باغ سے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ دن رات کی محنت کے بعد تین برسوں میں BECO نے انجینئرنگ کے کئی شعبوں میں قدم جما لیے۔ فیکٹری میں آٹھ مختلف شعبے قائم ہوئے، جن میں لوہے اور اسٹیل کی تیاری، ڈیزل انجنز، الیکٹرک موٹرز، کرینیں، پاور لومز، اور یہاں تک کہ سائیکلیں بھی تیار ہوتی تھیں۔

1960ء اور 70ء کی دہائی میں BECO پاکستان کا فخر اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ادارہ بن چکا تھا۔ چین، جاپان، شام اور جرمنی جیسے ملکوں کے سربراہان اور ماہرین BECO کے دورے پر آتے، اور اپنے انجینئرز کو تربیت کے لیے یہاں بھیجتے۔ چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے تو یہاں تک کہا کہ وہ چین میں اسی طرز پر ادارے قائم کریں گے — اور کیے بھی۔

لیکن پھر وہ دن آیا جس نے پاکستان کی صنعت کو دہلا دیا۔ یکم جنوری 1972ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے معاشی اصلاحات کے نام پر BECO سمیت 31 بڑے اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ برسوں کی محنت سے بنایا گیا ادارہ ایک حکم سے چھین لیا گیا، اور محمد لطیف کو ان کے اپنے ادارے سے الگ کر دیا گیا۔

ادارے کا نام بدل کر پاکستان انجینئرنگ کمپنی (PECO) رکھ دیا گیا، اور اس کی باگ ڈور ان لوگوں کو دی گئی جنہیں صنعت و حرفت کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو ادارہ کبھی منافع میں تھا، وہ ہر سال قومی خزانے پر بوجھ بننے لگا۔ 1972ء سے 1998ء تک ادارے کو 760 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

بعد میں جنرل ضیاء الحق نے محمد لطیف کو فیکٹری واپس لینے کی پیشکش کی، لیکن وہ دل شکستہ ہو چکے تھے۔ وہ خاموشی سے پاکستان سے رخصت ہو کر جرمنی چلے گئے، جہاں انہوں نے باقی زندگی کاروبار سے دور رہ کر باغبانی میں گزار دی۔

2004ء میں 97 برس کی عمر میں وہ جرمنی ہی میں وفات پا گئے۔ وہی وطن، جس کی محبت میں انہوں نے سب کچھ قربان کیا، آخر میں ان کے دل کا زخم بن گیا۔

ایسے لوگ قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ہنرمندوں اور محبِ وطن سپوتوں کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ہم نے ایک ہیرے کو کھو دیا، اور نجانے کتنے اور قیمتی ہیرے ابھی بھی ضائع ہونے کو ہیں۔

اللّٰہ ہمیں اپنے اصل اثاثے پہچاننے اور ان کی قدر کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ  بینک خالی، خواب ادھورے — پاکستان کی معیشت کہاں جا رہی ہے؟اسٹیٹ بینک آف پاکستان...
12/07/2025

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ بینک خالی، خواب ادھورے — پاکستان کی معیشت کہاں جا رہی ہے؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ ایک ایسی حقیقت کو بے نقاب کر رہی ہے جس پر ہمیں اب آنکھیں بند نہیں رکھنی چاہئیں۔
یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد بینک اکاؤنٹس میں صرف 50,000 روپے سے بھی کم رقم موجود ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے — ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنی معاشی بدحالی، غربت اور بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق کو صاف دیکھ سکتے ہیں۔

دوسری طرف، صرف 3 فیصد بینک اکاؤنٹس میں 10 لاکھ روپے یا اس سے زائد رقم موجود ہے۔
یہ امیر اور غریب کے درمیان ایک گہری خلیج کا پتہ دیتا ہے — جہاں ایک طرف کروڑوں افراد کے لیے گھر کا راشن، تعلیم، علاج، یہاں تک کہ بجلی کا بل دینا بھی ممکن نہیں،
اور دوسری طرف چند ہاتھوں میں دولت کے انبار جمع ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا یہ ٹیکس چور مافیا ہیں جو دولت کے انبار تو لگاتے جا رہے ہیں لیکن ریاست کو ایک روپیہ دینے کو تیار نہیں؟
یا وہ حکومتیں جو برسوں سے غربت، مہنگائی اور معاشی اصلاحات کے نام پر صرف دعوے اور وعدے کرتی آئی ہیں؟

آج بھی ملک کا غریب فرد روز بروز پس رہا ہے،
اور اشرافیہ کے کاروبار، جائیدادیں، اور بینک بیلنس بڑھتے جا رہے ہیں۔
کیا یہ انصاف ہے؟
کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟

رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ میں تیزی آ رہی ہے۔
89 فیصد ریٹیل لین دین اب موبائل ایپس کے ذریعے ہو رہا ہے۔
RTGS سسٹم کے ذریعے 347 ٹریلین روپے کی بڑی ٹرانزیکشنز ہو چکی ہیں۔
یعنی پیسہ موجود ہے، نظام بھی مستحکم ہے،
تو پھر سوال یہ بنتا ہے: یہ دولت کہاں جا رہی ہے؟ اور غریب کے ہاتھ کیا آ رہا ہے؟

ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ
اگر 22 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف 3 فیصد لوگ خوشحال ہیں،
تو باقی 97 فیصد کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟
کیا ہم ایک ایسے نظام کے ساتھ جینے کے عادی ہو گئے ہیں جہاں
چند ٹیکس چوروں، کرپٹ سیاستدانوں، اور غیر فعال پالیسی سازوں کی وجہ سے ایک پوری قوم بدحال ہو چکی ہے؟

یہ وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:
"قصور کس کا ہے؟"
اگر ہم اب بھی خاموش رہے،
تو کل یہ غربت صرف ہمارے دروازے پر نہیں،
بلکہ ہمارے خوابوں، نسلوں، اور مستقبل پر دستک دے گی —
اور شاید وہ دستک، آخری ہو۔

یاد رکھیے، جب ایک قوم غربت میں ڈوب جائے اور اشرافیہ کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے… تو صرف معیشت نہیں، اقدار بھی مر جاتی ہیں۔

"تم اب بھی اپنی ماں کے ساتھ کیوں رہتے ہو؟" ✍🏼یہ سوال دنیا کے عظیم ترین فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو سے ایک انٹرویو میں پوچھا ...
11/07/2025

"تم اب بھی اپنی ماں کے ساتھ کیوں رہتے ہو؟" ✍🏼

یہ سوال دنیا کے عظیم ترین فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا۔

اس کا جواب؟
ایسا جواب جو دل کی تہہ کو چُھو جائے، ایسا سچ جو ہمیں آئینہ دکھائے۔

رونالڈو نے کہا:
"میری ماں نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر مجھے پالا۔
وہ بھوکی سوتی، صرف اس لیے کہ مجھے کھانا ملے۔
ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ ہفتے کے سات دن کام کرتی تھی، رات کو صفائی کرتی تھی…
صرف اس لیے کہ میرے لیے پہلے فٹبال شوز خرید سکے۔
تاکہ میں کھیل سکوں۔
میری کامیابی کا ہر لمحہ، ہر قدم، اُس کی محنت اور قربانی کا ثمر ہے۔"

رونالڈو رُکے نہیں…
بلکہ کہا:
"جب تک میری ماں زندہ ہے، وہ میرے ساتھ رہے گی۔
اور میں اُسے وہ سب کچھ دوں گا، جو میں دے سکتا ہوں۔
وہ میرا گھر ہے، میری طاقت، میری سب سے بڑی نعمت۔"

یہ بات کسی معمولی انسان کی نہیں…
بلکہ اُس شخص کی ہے، جس کے نام کے آگے دُنیا جھکتی ہے،
جس کے قدموں میں شہرت، دولت، اعزازات بچھے ہیں…
لیکن دل… وہ آج بھی اپنی ماں کے قدموں میں رکھتا ہے۔

یہ یاد دہانی ہے ہم سب کے لیے…
کہ زندگی میں کامیابی کا اصل پیمانہ نہ مال ہوتا ہے، نہ شہرت۔
اصل پیمانہ ہے شکرگزاری۔
اور سب سے پہلی شکرگزاری اُس ہستی کے لیے،
جس نے اپنا سب کچھ دے کر ہمیں سنوارا — ماں۔

یہ سچ ہے کہ ہر عظمت کے پیچھے ایک ماں کی خاموش دعائیں،
ایک ماں کے آنسو،
ایک ماں کی بھوک،
اور ایک ماں کی قربانی ہوتی ہے۔

جب رونالڈو جیسا شخص، جو دُنیا کی بلندیوں پر کھڑا ہے،
یہ کہتا ہے کہ "میری ماں ہی میری سب کچھ ہے"…
تو یہ ایک پیغام ہے اُن سب کے لیے
جو کامیابی کے سفر میں اپنے اصل کو، اپنی جڑ کو — ماں کو — بھول جاتے ہیں۔

کیونکہ…
کبھی کبھار ہر کامیاب انسان کے پیچھے،
ایک ماں کھڑی ہوتی ہے — چپ چاپ، دعاؤں کے سائے میں،
جو خواب خود نہ دیکھ سکی،
مگر ہمارے لیے ایک پوری دُنیا بُن گئی۔

ماں… تُو ہے تو سب کچھ ہے۔ 🤗

جنگلی خرگوش 🐇 ایک اہم  پیغام✍️ جسے نظر انداز مت کریں  !اپریل، مئی، جون اور جولائی کے مہینے جنگلی حیات کے لیے نہایت اہم ہ...
09/07/2025

جنگلی خرگوش 🐇 ایک اہم پیغام✍️ جسے نظر انداز مت کریں !

اپریل، مئی، جون اور جولائی کے مہینے جنگلی حیات کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جنگلی خرگوش ان مہینوں میں افزائش نسل کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ان مہینوں میں نر و مادہ خرگوش جوڑوں کی صورت میں گھاس، جھاڑیوں اور کھیتوں میں اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہی وہ نازک وقت ہے جب ان کے ننھے بچے آنکھ کھولتے ہیں اور دنیا کا پہلا سانس لیتے ہیں۔

مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثر افراد شکار کے شوق میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک خرگوش کو مارنے کا مطلب صرف ایک جان لینا نہیں، بلکہ ایک نسل کو ختم کرنا ہے۔

ان چار مہینوں میں شکار کرنا براہ راست نسل کشی کے مترادف ہے۔ نہ صرف خرگوش بلکہ بہت سے پرندے جیسے تیتر، بٹیر، فاختہ اور دیگر چھوٹے جانور بھی انہی مہینوں میں اپنے گھونسلوں میں بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ اگر ان دنوں میں شکار کیا جائے تو ہم صرف ایک جانور نہیں، کئی ننھی جانیں چھین لیتے ہیں — وہ بھی بغیر آواز کے، بغیر کسی جرم کے!

ہم انسان اس زمین پر صرف رہنے والے نہیں، بلکہ محافظ بھی ہیں۔ یہ زمین صرف ہماری نہیں، اس پر ہر ذی روح کا برابر حق ہے — چاہے وہ درخت ہو، پرندہ ہو یا ایک معصوم سا جنگلی خرگوش۔

جنگلی خرگوش نہایت حساس اور خوف زدہ جانور ہوتا ہے۔ یہ زمین کھود کر بل بناتے ہیں، جہاں وہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ خرگوش ایک ہی سال میں کئی مرتبہ بچے دے سکتا ہے، لیکن اگر ان کے لیے ماحول محفوظ نہ ہو تو یہ نسل جلد ختم ہو سکتی ہے۔
خرگوش فطری ماحول میں گھاس، پتے، بیج اور نرم شاخیں کھا کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا شکار کرنے سے نہ صرف ایک معصوم جان جاتی ہے بلکہ جنگلی ماحولیاتی نظام میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

خدارا! اپریل سے جولائی تک جنگلی خرگوش🐰 اور دیگر جنگلی حیات کا شکار ہرگز نہ کریں۔
نہ صرف خود رکیں، بلکہ اپنے رشتہ داروں، دوستوں، شکاری ساتھیوں اور نوجوانوں کو بھی اس پیغام سے آگاہ کریں۔ سوشل میڈیا پر، بیٹھکوں میں، یا شکار کی محفلوں میں — جہاں بھی موقع ملے، یہ بات ضرور پہنچائیں۔

اگر ہم نے آج ان بے زبانوں کی حفاظت کی، تو کل ہمارے بچے بھی فطرت کی اصل خوبصورتی دیکھ سکیں گے۔ ورنہ یہ سب صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔

یاد رکھیں:
"فطرت کا تحفظ صرف محبت نہیں، فرض بھی ہے۔"

تین سو سال سے مسلسل جلنے  والی دنیا پر دوزخ  کا مقام ! 🔥  یہ ہیلن ماؤنٹ چائنہ میں ایک کوئلے کی کان ہے جو لگ بھگ تین سو س...
08/07/2025

تین سو سال سے مسلسل جلنے والی دنیا پر دوزخ کا مقام ! 🔥

یہ ہیلن ماؤنٹ چائنہ میں ایک کوئلے کی کان ہے جو لگ بھگ تین سو سال سے مسلسل جل رہی ہے۔ اٹھارویں صدی میں کوئلہ نکالنے کے دوران مزدوروں نے سردی میں گرم رہنے کےلئے یہاں ذرا سی آگ جلائی لیکن وہ قابو سے باہر ہوگئی اور تب سے آج تک مسلسل کان سے آگ نکل رہی ہے۔ اب یہ تین کلومیٹر سے ذیادہ اور دوسو ستّر میٹر گہرائی تک پھیلی ہوئی ہے اور اسکی سطح کا درجہ حرارت پانچ سو ڈِگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے اسلئے سردیوں میں گرنے والی برف بھی فوری بُخارات بن کر اڑجاتی ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ اسے بُجھانا بھی ناممکن ہے کیونکہ کوئلے کو لگنے والی آگ اندر سے جلتی ہے یعنی پانی اس تک پہنچ ہی نہیں پاتا اگر پہنچ بھی جائے تو یہ کوئلے کیساتھ ری ایکٹ کرکے ہائیڈروجن اور کاربن مونوآکسائیڈ بناتا ہے جو اس آگ کو ایک بم بنادیتی ہے۔ یوں ایک چھوٹی سی غلطی نے سمجھو کروڑوں ڈالرز جلاڈالے جو آج تک راکھ ہورہے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی آپ کے دماغ کے اندر کیا تباہی مچارہی!تحریر: وائرل ان پاکستان میڈیا جب چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئ...
07/07/2025

چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی آپ کے دماغ کے اندر کیا تباہی مچارہی!

تحریر: وائرل ان پاکستان میڈیا

جب چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی ٹولز نے دنیا میں قدم رکھا، تو ہر طرف ایک ہی شور تھا: "یہ تو کمال ہوگیا!" طالبعلموں کے اسائنمنٹ، لکھاریوں کے مضامین، کاروباری پریزینٹیشنز، حتیٰ کہ جذباتی خطوط تک—سب کچھ چیٹ جی پی ٹی سے لکھوانا شروع ہوگیا۔

لیکن اب، پردے کے پیچھے ایک اور کہانی سامنے آ رہی ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل چیٹ بوٹس سے گفتگو کرنے والے افراد میں ایک نئی نفسیاتی بیماری جنم لے رہی ہے جسے انہوں نے "چیٹ جی پی ٹی سائیکوسس" کا نام دیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مریضوں میں سے کئی ایسے تھے جن کا ذہنی صحت سے پہلے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی سے روزانہ، گھنٹوں کی گفتگو نے ان کے دماغ کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ حقیقت سے کٹنے لگے۔ خیالات فرضی ہونے لگے، واقعات ایسے یاد آئے جو کبھی ہوئے ہی نہیں، اور وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں کھو گئے۔

مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ جن افراد میں پہلے سے ذہنی مسائل موجود تھے، ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔ وہ جو کچھ سوچتے تھے، چیٹ بوٹ اس پر تائید کرتا رہا، جیسے ان کے وہم و گمان کو حقیقت کی مہر مل گئی ہو۔ نتیجہ؟ کچھ ایسے افراد خطرناک جرائم میں بھی ملوث پائے گئے، اور ان کے پیچھے ایک ہی جملہ تھا: "چیٹ جی پی ٹی نے مجھے بتایا تھا۔"

تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ چیٹ جی پی ٹی کے مسلسل استعمال سے دماغ کی نیورل ایکٹیویٹی میں کمی آتی ہے۔ یعنی دماغ سست ہونے لگتا ہے، خود سے سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے، اور انسان آہستہ آہستہ ایک "ڈیجیٹل غلام" بننے لگتا ہے۔

اب سوال یہ ہے:
کیا یہ صرف ایک کارآمد ٹول ہے، یا ایک ایسا ہتھیار جو انسانی ذہن کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے؟
کیا یہ نوجوان نسل کو دماغی مریض بنانے کی عالمی سازش ہے؟
یا ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ذہن کا قتل کر رہے ہیں، صرف آسانی اور تفریح کے چکر میں؟

وقت آ گیا ہے کہ ہم چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز کے فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے خطرات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔ ٹیکنالوجی ہمارے کام کی محتاج ہونی چاہیے، نہ کہ ہم اس کے غلام۔

Address

Greenock

Telephone

+447475232424

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Viral in Pakistan Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Viral in Pakistan Media:

Share

Category