13/10/2025
ریاست، گولیاں اور ٹیکس کا خون — کون جواب دے؟
ریاست کا بنیادی وعدہ— اگرچہ کاغذ پر نہیں، مگر تصورًا— یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت عوام کی حفاظت اور انصاف کے لیے استعمال کرے۔ مگر آج ہم ایک گہری تناقض کا سامنا کر رہے ہیں: وہ طاقت جو اپنی بقا کے لیے عوام کا خون پی رہی ہے۔
مریدکے 2025، ڈی چوک 2024، Model Town 2014
دیگر احتجاجی واقعات — ان میں ایک بات مشترک ہے: مظاہرین پر فائرنگ، لاوارث ہلاکتیں، اور وہ وعدے جو ریاست نے انصاف اور دفاع کے نام پر کیے تھے، وہ زمین پر بے معنی نظر آتے ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی
ان واقعات نے بنیادی انسانی حقِ زندگی، حقِ احتجاج، اور حقِ آزادیِ اظہار کو پامال کیا ہے۔ جب ریاست قانون کے دائرے سے نکل کر طاقت کا استعمال کرے، تو وہ خود اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ جب شفاف تحقیقات نہیں ہوتیں، ملزمان بے عیب قرار پاتے ہیں، اور غریبوں کو “قاتلانہ ریاست” کے سامنے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے، تو وہ کونسا عہد ہے جو پورا ہوا؟
ٹیکس کا خون، گولیوں کا سرمایہ
حقائق کہتے ہیں کہ وہ گولیاں، وہ گیس، وہ پولیس آپریشنز — سب وہ وسائل سے چلائے گئے جو عوام نے ٹیکس کی صورت میں جمع کیے تھے۔ یعنی آپ کا خون، آپ کی محنت، آپ کی امید پر چلنے والے نظام نے خود آپ پر حملہ کیا۔ اگر آپ یہ کہہ دیں: “ٹیکس لو مگر عوام کو محفوظ رکھو” — یہ شرمندہ کرنا نہیں، بلکہ وہی مطالبہ ہے جو شرافت سے حقِ ریاست مانگتا ہے۔
پابندی، جوابدہی اور شفافیت کا فقدان
جب اقتدار کے مراکز سے لوگ کہتے ہیں کہ “تحقیق ہو گی” مگر پھر تحقیقات پردے کے پیچھے رہ جائیں، جب عدالتی کاروائیاں سست ہوں، اور جب ملزمان شہرت، تعلقات یا بیرونِ ملک رہائش کی پناہ لے لیں — تو یہ ریاست کی کمزوری نہیں، ریاست کی ناکامی ہے۔
اپنے قانون، اپنی زندگی
جب ایک سیاسی خاندان یا قدرے جمہوری مشہور حلقہ کار یہ دعویٰ کرتا ہو کہ اس کا پورا جہیز لندن، جدہ، بیرونِ ملک ہے، اور بس اقتدار میں آنے پر وہ دیس آتا ہے، تو وہ استدعا نہیں، شک ہے: کیا وہ اس قانون پر خود ایمان رکھتے ہیں؟ کیا وہ اس ریاست کی حفاظت کے لیے مستقل وابستگی رکھتے ہیں؟