26/11/2025
کراچی ۔سیاسی ڈائری ۔مبشر میر
سندھ میں حالیہ دنوں وکلا کی جانب سے ہونے والے مسلسل احتجاج نے صوبے کی سیاسی و عدالتی فضا کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ وکلا برادری نے مختلف مسائل پر اپنی آواز بلند کی، جن میں سب سے اہم 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج، سندھ کے پانی کے حقوق سے متعلق چھ نہری منصوبوں کی مخالفت، اور پولیس گردی کے واقعات شامل ہیں۔ یہ احتجاج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صوبے میں قانونی برادری نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ معاملات بلکہ عوامی حقوق اور وفاقی فیصلوں کے اثرات پر بھی گہری نظر رکھتی ہے۔
کراچی بار اور سندھ بھر کی وکلائی تنظیموں نے 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ان کے مطابق مجوزہ فیڈرل آئینی کورٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور کر سکتی ہے، جس سے ملک کے آئینی ڈھانچے میں عدم توازن پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور وکلا میں جھڑپیں بھی ہوئیں، جس سے صورتِ حال مزید کشیدہ ہوگئی۔
دوسری طرف، سندھ کے چھ کینال منصوبے کے خلاف وکلا کی شرکت نے اس تحریک کو نئی قوت دی۔ وکلا کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ کے پانی کے حصے، ماحولیات اور کسانوں کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ سندھ بار کونسل نے اس سلسلے میں عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کیا، جب کہ مختلف شہروں میں دھرنے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
اسی طرح کراچی میں ایک قانون کے طالب علم پر مبینہ پولیس تشدد کے خلاف بھی وکلا سڑکوں پر نکلے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنے کی روش بند کی جائے۔
مجموعی طور پر سندھ میں وکلا کے یہ احتجاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ قانونی برادری نہ صرف عدلیہ کی آزادی بلکہ صوبائی حقوق، شہری تحفظ اور آئینی توازن کے لیے بھی ایک مضبوط دباؤ گروپ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
فراحت اللہ بابر کی کتاب “Beyond the Bomb” پاکستان کی سیاسی تاریخ، ریاستی پالیسیوں اور قومی سلامتی کے بیانیے پر ایک جرات مندانہ فکری مکالمہ ہے۔ بابر اس تاثر کو چیلنج کرتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی پاکستان کی بقا کی واحد ضمانت ہے۔ ان کے نزدیک اصل سلامتی اس وقت ممکن ہے جب ریاست اپنے شہریوں کے حقوق، ادارہ جاتی شفافیت، اور آئینی عملداری کو مقدم رکھے۔
کتاب میں ایٹمی پروگرام کے گرد قائم خفیہ پن، پارلیمانی نگرانی کی کمی اور عسکری و سویلین تعلقات میں طاقت کے غیر متوازن ڈھانچے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ بابر دلیل دیتے ہیں کہ ایٹمی طاقت اگر شہری آزادیوں کو محدود کرنے یا جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے تو یہ ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے اندرونی طور پر کمزور کرتی ہے۔
“Beyond the Bomb” صرف تنقید نہیں بلکہ اصلاح کی دعوت بھی ہے۔ بابر قومی سلامتی کی نئی تعریف پیش کرتے ہیں—جہاں انسانی حقوق، آزادی اظہار، صوبائی خودمختاری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ کتاب اس نکتے کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ پائیدار امن خطے کی سیاسی بصیرت، معاشی استحکام اور عوامی فلاح سے وابستہ ہے، نہ کہ محض عسکری برتری سے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب پاکستانی پالیسی کی وضاحت میں ایک اہم فکری اضافہ ہے، جو ریاست کو آئین کی طرف واپس لانے اور سلامتی کے بیانیے کو انسانی مرکزیت کی طرف مائل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتی ہے۔سندھ حکومت نے ایک ہی ہفتے میں تعلیم، صحت، گورننس اور عوامی فلاح کے متعدد اہم فیصلوں کے ذریعے یہ تاثر مضبوط کیا ہے کہ صوبے کی ترجیحات اب انتظامی اصلاحات سے بڑھ کر سماجی ترقی کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں لیے گئے فیصلے نہ صرف صوبے کی حکمرانی کے ڈھانچے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں بلکہ تعلیم، صحت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور انصاف کے نظام کے حوالے سے بھی ایک نئی سمت کا اعلان کرتے ہیں۔
کابینہ اجلاس کے اگلے ہی دن وزیراعلیٰ نے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ایکسیلیریٹڈ ڈیجیٹل لرننگ پروگرام (ADLP) کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں 2 کروڑ 26 لاکھ اور صرف سندھ میں 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، یہ پروگرام صوبے کے لیے ایک امید بن کر سامنے آیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے دور دراز علاقوں کے بچوں کو تعلیم تک رسائی فراہم کرنا روایتی اسکول ماڈل کا متبادل نہیں بلکہ اس کی تیز رفتار تکمیل ہے۔
پائلٹ مرحلے میں 100 مائیکرو اسکولز اور 25 ڈیجیٹل کلاس رومز کے نتائج حوصلہ افزا رہے—11 ہزار سے زائد بچوں کا اندراج، روزانہ چار شفٹیں، ٹیبلٹ پر مبنی سیکھنے کے ماڈیول، اور کارکردگی میں نمایاں بہتری، خصوصاً لڑکیوں میں۔ دوسرے مرحلے میں مزید 100 اسکولوں کا آغاز سندھ حکومت کی اس حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف اسکول تعمیر نہیں کرنا چاہتی بلکہ تعلیم کے متبادل راستے بھی کھول رہی ہے ۔
سندھ کابینہ نے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال جے پی ایم سی میں 12 منزلہ ایمرجنسی ٹاور کی تعمیر کے لیے 15 ملین ڈالر گرانٹ کی منظوری دے کر صوبے کے صحت کے نظام میں ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ نئے ٹاور میں 722 بیڈز اور 17 آپریٹنگ تھیٹرز ہوں گے۔ موجودہ ایمرجنسی کے صرف 224 بیڈز اور 3 تھیٹرز کے مقابلے میں یہ اضافہ شہر کی 2 کروڑ آبادی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
پیشنٹ ایڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل اس بات کی علامت ہے کہ حکومت بڑے اسپتالوں کو صرف سرکاری بیوروکریسی کے بھروسے پر نہیں چھوڑنا چاہتی بلکہ جدید مینجمنٹ اور فنڈنگ کے ماڈلز کو تیزی سے اپنا رہی ہے۔
صوبائی کابینہ نے سندھ میں پہلی مرتبہ "حکومت کی ملکیت محفوظ پرائیویٹ کلاوڈ" کے قیام کی منظوری دی ہے۔ یہ قدم ڈیجیٹل گورننس کی جانب پیش رفت ہے اور سندھ کو ان صوبوں میں شامل کرے گا جو اپنی ای گورننس سروسز کو مکمل ڈیجیٹل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح 14 انسداد دہشتگردی عدالتوں کو نارکوٹکس عدالتوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ منشیات کے بڑھتے ہوئے مقدمات کے پیش نظر ایک عملی قدم ہے۔ دہشتگردی کے مقدمات کم اور نارکوٹکس کے مقدمات مسلسل بڑھ رہے تھے، لہٰذا عدالتوں کا یہ ری الائنمنٹ عدالتی ڈھانچے کو حقیقی ضرورتوں کے مطابق ڈھالتا ہے۔
کفایت شعاری کے لیے سرکاری گاڑیوں کی واپسی، غیر مجاز استعمال پر پابندی، اور محکمہ جاتی اصلاحات حکومت کی پالیسی سمت کو واضح کرتی ہیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کی جگہ ایک جدید "پیپلز کمیونٹی ہیلتھ سروسز کمپنی" کی منظوری بنیادی صحت کے نظام میں ایک نئی توانائی بھر سکتی ہے،
کراچی فشریز ہاربر اتھارٹی کی تشکیلِ نو، سندھ چیریٹی کمیشن، پی پی پی منصوبوں میں بھرتیاں، ایجوکیشن سٹی کے ضوابط، پریس کلب کے اراکین کے لیے رہائشی پلاٹس—یہ تمام فیصلے انتظامی، سماجی اور معاشی سطح پر صوبے کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
سندھ حکومت کے یہ فیصلے ایک طرف ڈیجیٹل مستقبل کا راستہ کھول رہے ہیں، دوسری طرف تعلیم و صحت کے بحران سے نمٹنے کی کوشش بھی ہیں۔ اگر ان فیصلوں پر عملدرآمد شفاف، تیز اور مؤثر ہوا تو سندھ نہ صرف اپنی گورننس کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ تعلیم، صحت اور انصاف کے شعبوں میں حقیقی تبدیلی بھی لا سکتا ہے۔