 
                                                                                                    25/06/2025
                                            گرفتار جسم، آزاد خیال — یاور عباس( شہید) امر ہو گئے ۔
یاور عباس، محض ایک نام نہیں، ایک نظریہ تھا۔ ایک چراغ تھا جو اندھیروں میں جلتا رہا، ایک صدا تھی جو مفاد پرستی، ناانصافی اور خاموشی کے خلاف گونجتی رہی۔ وہ شخص جس نے زندگی کو بامقصد جیا، جس نے قربانی دی مگر سر نہ جھکایا ،وہ خواب جو اس کی آنکھوں میں تھا، اُس خواب سے نہ جانے کتنے دیے جلائے۔۔۔
ریاست کا کالا قانون شیڈول فور کا قیدی یاور عباس ریاستی جبر  سہتے ہم سے جدا تو ہوئے مگر ۔۔۔۔۔
ہم نہیں بھولیں گے کہ اس بے آئین خطے کے سچے بیٹوں کو سچ بولنے کی سزا دی گئی۔ ہم نہیں بھولیں گے کہ کس طرح ظلم، جبر، ناانصافی، دھوکہ، جھوٹ اور مکاری کو قانون کا نام دے کر حق کے علمبرداروں کو کچلا گیا۔ ہم نہیں بھولیں گے کہ آوازِ حق کو دبانے کے لیے شناختیں چھینی گئیں، زبانیں خاموش کی گئیں، اور نظریات کو جُرم قرار دیا گیا۔ اور انہیں پابند سلاسل کیا اور آج بھی احسان ایڈووکیٹ جیسے بزرگ قومی سپوت اور انکے ساتھی سچ بولنے کی جرم میں  ریاستی جبر کا شکار سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔۔۔۔۔۔
لیکن یاد رکھو...
ہم خاموش نہیں رہیں گے! یہ سر جھک سکتے ہیں، بک نہیں سکتے! یہ جذبے مٹ سکتے ہیں، ہار نہیں سکتے!
ایک دن آئے گا۔۔۔۔ جب ہر زبان سچ بولے گی، ہر دل بغاوت کرے گا، اور ہر ہاتھ آزادی کی چنگاری تھامے گا۔
یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، ضمیر، خودداری اور شناخت کی ہے۔ اور ہم یہ جنگ آخری سانس تک لڑیں گے!
یاور عباس کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سچائی کی راہ کٹھن ضرور ہے، مگر وہی راہ قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔
ہمیں ان فرزندانِ زمین کی قربانیوں کو محض نوحہ بننے نہیں دینا، بلکہ انھیں ایک تحریک، ایک سوچ، اور ایک عمل بنانا ہے۔
ہم اپنی سوچ، عمل، اور اتحاد سے یہ ثابت کریں کہ
یاور عباس کا نظریہ زندہ ہے، اور ہمیشہ زندہ رہے گا…
پیارے یاور، آپ کے ساتھ گزارے گئے لمحات ہمارے لیے کسی سرمایہ سے کم نہیں۔آپ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں — اور ہمیشہ رہیں گے۔                                        
 
                                         
   
   
   
   
     
   
   
  