Umera Ahmed Official

Umera Ahmed Official Popular writer Umera Ahmed's official page to interact and stay updated with her upcoming work. Space to share ideas and thoughts.
(1)

Feedback : [email protected]
Become a Patreon: https://www.patreon.com/umeraahmed Admins:

Hasan Umar
Misbah Shafique
Aishay Khan
Umera Ahmed


Feedback : [email protected]

08/08/2025

لاؤنج خاموش تھا۔ کچھ لائٹس آن تھیں اور گلاس والز سے آنے والی ہلکی روشنی سورج کی آمد کا پیغام دینے کے باوجود رات کو ابھی اُجالا نہیں بنا پائی تھی۔
قلبِ مومن نے وہ پہلی پینٹنگ اُٹھائی تھی جس کا اخبار شکور نے خالق علی کو دکھانے کے لئے اُتارا تھا۔ اُس نے اُس پر لکھی آیت پڑھنے کی کوشش کی۔
ان الانسن لربہ لکنود
(سورة العدیت: آیت 6 )
کسی جھماکے کی طرح اُسے اپنی اور دادا کی گفتگو یاد آئی جو اس پینٹنگ کو لیتے ہوئے ہوئی تھی۔
''یہ میری برتھ ڈے کا گفٹ ہے؟''
اُس نے دادا سے پوچھا تھا وہ اُس وقت ترکی میں اپنے گھر پر ایک رات یہ پینٹنگ بنارہے تھے اور مومن رات کے پچھلے پہر اُن کے کمرے میں اُنہیں اپنی روانگی کے بارے میں انفارم کرنے آیا تھا اور اس پینٹنگ پر پہلی نظر پڑتے ہی اُسے بے اختیار ایسا لگا تھا جیسے وہ اُس کی سالگرہ کے لئے بنائی جارہی تھی۔
''تم نے کیوں دیکھ لی۔۔۔؟ میں تو تمہاری سالگرہ پر ہی دکھانا چاہتا تھا اسے تمہیں۔'' عبدالعلی کسی چھوٹے بچے کی طرح خفا ہوئے تھے۔
''مطلب کیا ہے اس آیت کا دادا؟'' اس نے جیسے عبدالعلی کو بہلایا تھا۔
''حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان ناشناس ہے۔'' انہوں نے بے ساختہ کہا تھا۔
''میں احسان ناشناس نہیں ہوں دادا۔'' مومن نے ''احسان ناشناس'' کے لفظ کا مفہوم جیسے خود ہی بوجھ لیا تھا۔
''ہم سب ہیں مومن۔۔۔ اللہ کی سب نعمتوں کا کہاں شکرا دا کرتے ہیں ہم۔'' دادا کی آواز اُس کے کانوں میں لہرائی تھی اور اُس آیت کے الفاظ کسی خزانے کی اشرفیوں کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے چمک رہے تھے۔
عبدالعلی کی نظروں میں وہ اپنے رب کے احسانوں کو نہ جاننے اور ماننے والا تھا۔
دوسری اُس کی شوبز میں آنے کے بعد دوسری سالگرہ پر دی جانے والی پینٹنگ تھی۔ وہ احسان فراموش ہورہا تھا اور عبدالعلی دیکھ پارہے تھے۔ وہ بے خبر تھا۔ شوبز کے ایک سال نے اُسے اللہ کی بجائے لوگوں کے احسانوں کو یاد رکھنا سکھانا شروع کردیا تھا۔
بوجھل دل کے ساتھ قلبِ مومن نے دوسری پینٹنگ پر چڑھا ہوا گرد و مٹی سے اٹا ہوا اخبار اُتارا تھا۔
وما توفیقی الابااللہ (سورة ہود:آیت 88)
کوئی آواز اُس کے کانوں میں لہرائی تھی۔ ''تم نے کھول لیا اپنا تحفہ؟'' عبدالعلی نے اُس سے پوچھا تھا۔
''ہاں کھول لیا۔۔۔ مگر اب مطلب کیسے سمجھوں؟'' مومن کو اپنا سوال یاد آیا تھا۔
''میری کامیابی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔'' عبدالعلی نے کہا تھا۔
''اور ناکامی؟'' مومن نے پتہ نہیں کس رو میں پوچھا تھا۔
''وہ بھی۔'' عبدالعلی نے کہا تھا۔
وہ شوبز میں اُس کی پہلی فلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد آنے والی سالگرہ کا تحفہ تھا۔ وہ اُس وقت کامیابی کے خماد اور غرور کے پہلے زینے پر بیٹھا تھا۔
تیسری پینٹنگ کی آیت کا مفہوم اُسے اُس آیت پر نظر ڈالتے ہی یاد آگیا تھا۔
''ان الحسنت یذھبن السیٔات'' (سورة ہود: آیت 114)
''بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔''
وہ پہلا موقع تھا جب مومن نے سالگرہ پر کسی آیت کی خطاطی لینے میں تامل کا اظہار کیا تھا۔
''آپ ہر بار ترکی سے اتنا بوجھ اُٹھا کر کیوں لے آتے ہیں میرے لئے؟'' اُس نے عبدالعلی سے اس پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
''اس کا کیا بوجھ ہے مومن۔۔۔ بوجھ تو اعمال کا ہوتا ہے۔''اُ ن کے جواب نے اُسے بے چین کیا تھا۔
''پھر تو آپ پرندے کے پر کی طرح ہلکے ہوں گے اور میں ۔۔۔ مجھے تو یہ یاد بھی نہیں آرہا کہ اپنے اعمال کے بوجھ کو کس چیز سے equateکروں میں۔''
''اچھے اعمال بروں کو مٹادیتے ہیں۔'' عبدالعلی نے جیسے اُس کے احساس جرم کو محسوس کرلیا تھا۔
''اچھے اعمال کیا ہوتے ہیں دادا؟'' اُس کا خیال تھا وہ اُسے نماز روزے کا کہیں گے۔
''جن کے بارے میں دل خود کہے کہ وہ اچھے ہیں۔۔۔ کسی سے پوچھنا نہ پڑے۔'' انہوں نے جواب دیا تھا۔
وہ پہلا سال تھا جب اُس نے ڈپریشن کے لئے سائیکاٹرسٹ سے سیشنز شروع کئے تھے۔ کامیابیاں مقناطیس کی طرح اُس کے وجود سے چپکی ہوئی تھیں۔ پیسہ بارش کی طرح ہر طرف سے برس رہا تھا۔ ناموری قلبِ مومن کے نام کا حصہ بن گئی تھی اور اس کے باوجود کچھ ہونا شروع ہوگیا تھا اُسے اس سال اور تب ہی وہ سالگرہ اور اُس پر وہ پینٹنگ آئی تھی تو اُس کے اعمال خراب تھے اور اُسے توبہ کی ضرورت تھی۔ اچھے اعمال کی ضرورت تھی اور وہ بہترین سائیکاٹرسٹ اور بہترین میڈیسنز ڈھونڈ رہا تھا۔
وہ ہر پینٹنگ اُسے اُس کی زندگی کے گزرتے ہوئے ماہ وسال کی داستان ایک آیت میں سنارہی تھی۔ اُس کی پچھلی زندگی کے سات سالوں کے ون لائنر۔
وکان ربک بصیرا (سورة الفرقان:آیت 20)
''اور تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے۔''
''دادا میں ہر روز اس آیت کو دیکھوں گا تو شرم سے مرجاؤں گا۔ زندہ رہنے دیں مجھے جینے دیں۔ ابھی مومن نہیں بننا میں نے۔'' اگلی پینٹنگ کی آیت نے اُسے کچھ اور یاد دلایا تھا۔
''کوئی اپنے گھر کی دیوار پر یہ کیوں لگائے گا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ '' قلبِ مومن کو اُس آیت کے ترجمے نے ہلایا تھا اور اُس کا دادا سے احتجاج جیسے فرار کی کوشش تھی۔
وہ سب کچھ دنیا کو دکھانے کے لئے کررہا تھا اور جو کچھ بڑے فخریہ انداز میں کررہا تھا اُسے اللہ سے چھپانا چاہتا تھا اور عبدالعلی جیسے اُسے یاد دہانی کے لئے وہ پینٹنگ لے آئے تھے۔ یوں جیسے اُسے خبردار کرنا چاہتے ہوں۔ اور قلبِ مومن اُن سب Paintings کو سٹور میں نہ چھپاتا تو اور کیا کرتا ۔ وہ اُن آیات کا سامنا نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی کرنا چاہتا تھا۔
اور وہ آخری پینٹنگ۔۔۔ اُن کی زندگی کی وہ آخری پینٹنگ جو انہوں نے اسے پچھلی سالگرہ پر دی تھی۔
وان اللہ مع المومنین (سورة الانفال: آیت 19 )
''اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔''
کیا اُمید تھی جو وہ اُسے اُس کی ساری زندگی کی خبر رکھنے کے بعد بھی تھما گئے تھے۔ اُس نے عبدالعلی سے کہا تھا وہ مومن نہیں ہے اور انہوں نے کہا تھا۔ تم قلبِ مومن ہو کبھی مومن بھی ہو ہی جاؤگے۔''
مومن نے اگلی پینٹنگ کے اوپر سے اخبار اُتارا تھا۔
فلا تغرنکم الحیوة الدنیا (سورة فاطر، آیت 5)
(اور تم کو دُنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے)
یہ وہ خطاطی تھی۔ جو وہ خواب میں دیکھ کر ڈر کر اُٹھتا تھا یہ جانے بغیر کہ وہ اُس کے سٹور روم میں گرد اور مٹی سے اٹی ہوئی پڑی تھی۔ بالکل اُس کی روح کی طرح۔
قلبِ مومن کی آنکھوں میں پانی اُمڈا تھا۔ گلاس والز سے باہر اب سورج کی روشنی سارے اندھیروں کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے لگی تھی۔
وہ لاؤنج میں چلتے ہوئے اھدنا الصراط المستقیم کی اُس خطاطی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا جو اُس کے لاؤنج کی دیوار پر آویزاں تھی۔
اس سب کا آغاز اس سے ہوا تھا ۔ وہ وہ پہلی خطاطی تھی جو عبدالعلی نے اُسے سالگرہ کے تحفے کے طور پر دی تھی۔ اُس پہلے سال جب وہ فلم انڈسٹری جوائن کررہا تھا۔
''یہ پہلی برتھ ڈے ہے جس پر آپ نے مجھے خطاطی Paintکرکے دی ہے۔ ورنہ ہمیشہ کچھ اور ہی گفٹ کیا کرتے تھے۔'' قلبِ مومن کو وہ خطاطی تحفے میں دیکھ کر بے حد حیرانی ہوئی تھی۔ دادانے پہلے کبھی اُسے کوئی خطاطی تحفے میں نہیں دی تھی۔
''پہلی بار فلم انڈسٹر ی میں جارہے ہو تم۔۔۔ تمہارا بھی تو پہلا سال ہے وہاں۔'' انہوں نے اُسے کہا تھا۔
''آپ کو لگتا ہے مجھے سیدھا راستہ دیکھنے کے لئے رہنمائی کی ضرورت پڑے گی؟'' مومن نے بڑے لاپرواہانہ اندا ز میں اُن سے پوچھا تھا۔
''ہمیشہ۔'' ان کا جواب بے حد مختصر تھا ۔ مومن کو وہ مختصر جواب چبھا تھا۔ اتنا بھٹکا ہوا تو نہیں ہوں میں۔'' اُس نے دادا سے کہا تھا یوں جیسے اعتراض کیا تھا۔
''مومن ہو۔۔ بھٹکتا مومن ہی ہے جس کے پاس ایمان ہے ہی نہیں اُسے کوئی کیا بھٹکائے گا۔''
اُس نرم آواز کی باز گشت نے اُسے تب خاموش کروایا تھا۔ آج رُلادیا تھا۔
اللہ رب ہے دلوں کے حال جانتا ہے پر عبدالعلی کیسے سب کچھ جان لیتے تھے اُس کے بارے میں۔۔۔ اُس کے دل تک کیسے پہنچ جاتے تھے اُس کے ماضی اور حال کو کیسے بھانپ لیتے تھے۔۔۔ اُس پینٹنگ پر دونوں ہاتھ رکھے وہ بچوں کی طرح ہچکیوں اور سسکیوں کے ساتھ رونے لگا تھا۔
وہ عبدالعلی کے اس اثاثے کو کیسے بے مول کئے ہوئے تھا وہ اُسے کیسے بیچ سکتا تھا۔۔۔ وہ تو اُس کی میراث تھی اُس کا ترکہ تھا۔ وہ خالق علی کو بیچ نہیں سکتا تھا۔ وہ مومنہ سلطان کو بھی نہیں دے سکتا تھا۔

الف از عمیرہ احمد

"Jhoot ka sara masla yeh hota hai k woh her jagah apnay pooray khandan k saath jata hai. Baray jhoot, chotay jhoot..... ...
08/08/2025

"Jhoot ka sara masla yeh hota hai k woh her jagah apnay pooray khandan k saath jata hai. Baray jhoot, chotay jhoot..... Phir unn say chotay. Iss khandan ka koi aik fard bhi miss hojaye tu poora khandaan jhoot jhoot pukarnay lagta hai."
Aks - Umera Ahmed



Order Now:
https://uabooksonline.com/product/aks/
Or
DM to Place order or Whatsapp
0340-0009252

"Jo loag doosron k dilon ko kaanton say zakhmi kartay hain un k apnay andar keekar ugay hue hotay hain. Woh chahay ya na...
08/08/2025

"Jo loag doosron k dilon ko kaanton say zakhmi kartay hain un k apnay andar keekar ugay hue hotay hain. Woh chahay ya na chahay un k wujood ko kaanta hi ban'na hota hai. Woh phool nahi ban saktay."
Haasil - Umera Ahmed

Order Now:
https://uabooksonline.com/product/haasil/
Or
DM to Place order or Whatsapp
0340-0009252

"Insaan zindagi mai kabhi na kabhi ALLAH ko apni naikiyan, apni ibaadat 'jatata' zaroor hai. Kabhi na kabhi uss say moal...
08/08/2025

"Insaan zindagi mai kabhi na kabhi ALLAH ko apni naikiyan, apni ibaadat 'jatata' zaroor hai. Kabhi na kabhi uss say moal toal k liye zaroor bethta hai. Kabhi na kabhi uss say ibaadat ka sauda karnay k liye apnay aur uss k rishtay ko purely commercial zaroor banata hai."
Darbar-e-Dil - Umera Ahmed



Order Now:
https://uabooksonline.com/product/darbar-e-dil-by-umera-ahmed/
Or
DM to Place order or Whatsapp:
0340-0009252

"ALLAH kitna taaqatwar hai, woh kiya nahi kar sakta. Woh kis qadar meharban hai, kiya nahi kar sakta. Insaan ko Insaan r...
08/08/2025

"ALLAH kitna taaqatwar hai, woh kiya nahi kar sakta. Woh kis qadar meharban hai, kiya nahi kar sakta. Insaan ko Insaan rakhna ussay aata hai. Kabhi ghazab say, kabhi ahsaan say. Woh ussay apnay daairay mai hi rakhta hai."
PireKamil(S.A.W) - Umera Ahmed

Listen to Audiobook:
https://www.youtube.com/playlist?list=PLrdEii-4ctmqzlJ_006m0VnjiURly6KPG
Order Now:
https://uabooksonline.com/product/peer-e-kamil-by-umera-ahmed/
https://uabooksonline.com/product/perfect-mentor-translation-of-pir-e-kami/
Or
DM to Place order or Whatsapp
0340-0009252

07/08/2025

''بزدلی اچھی چیز نہیں عائشہ۔'' اس نے چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد کہا تھا۔ وہ طنز نہیں تھا، مگر اس وقت عائشہ کو طنز ہی لگا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے دونوں اب فٹ پاتھ پر آگئے تھے۔ برف کی چادر پر وہ نشان جو کچھ دیر پہلے جبریل اکیلا بنارہاتھا، اب وہ دونوں ساتھ ساتھ بنارہے تھے۔
''تمہیں لگتا ہے میں بزدل ہوں اس لئے میں نے احسن سعد کے بارے میں عبداللہ کو سچ نہیں بتایا؟'' اس نے ساتھ چلتے ہوئے پہلی بار گردن موڑ کر جبریل کو دیکھا تھا۔
''بزدلی یا خوف… اس کے علاوہ تیسری وجہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔'' جبریل نے جیسے اپنی بات کی تصدیق کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔ ''تمہیں ڈر تھا کہ احسن سعد تمہیں پریشان کرے گا، تمہیں فون کرے گا اور تنگ کرے گا۔'' جبریل نے کہا تھا۔ ''مگر تم نے عبداللہ سے جھوٹ بول کر احسن سعد کو بچا کر زیادتی کی… تم نے مجھے اور عنایہ کو جھوٹا بنادیا۔'' اس کا لہجہ اب شکایتی تھا۔
''آپ لوگوں کو جھوٹا ہونے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا احسن سعد کے جھوٹا ہونے پر عبداللہ کو ہوتا۔'' عائشہ نے جواباً کہا۔
''وہ حافظ قرآن ہے تو میں بھی ہوں۔'' جبریل نے کہا۔
''آپ کو وہ اس مقام پر بٹھا کر نہیں دیکھتا جس پر احسن کو دیکھتا ہے۔'' عائشہ نے جواباً کہا۔ ''وہ نومسلم نہ ہوتا تو میں احسن کے بارے میں سب کچھ بتادیتی اسے۔ وہ مجھ سے ملنے کے بعد دوبارہ احسن کی شکل بھی نہ دیکھتا شاید… مگر وہ نومسلم ہے… میں اس سے کس منہ سے یہ کہتی کہ اتنے سالوں سے وہ جس شخص کو بہترین مسلمان اور انسان سمجھ رہا ہے، وہ ایسا نہیں ہے۔ عبداللہ نے صرف احسن کو جھوٹا نہیں ماننا تھا، میرے دین سے اس کا دل اچاٹ ہوجانا تھا۔'' وہ کہہ رہی تھی، اس مدھم آواز میں جو اس کا خاصا تھی۔
''میرے ساتھ ہوا تھا ایک بار ایسے … میں احسن سعد سے ملنے سے پہلے بہت اچھی مسلمان تھی، آنکھیں بند کرکے اسلام کی پیروی کرنے والی… جنون اور پاگل پن کی حد تک دین کے راستے پر چلنے والی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولۖ سے اندھی محبت اور عقیدت رکھنے والی لیکن پھر میری شادی احسن سعد سے ہوگئی اور میں نے اس کا اصل چہرہ دیکھ لیا اور میرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس مجھے دین سے بے زار کردیا ۔ مجھے اب دین کی بات کرنے والا ہر شخص جھوٹا اور منافق لگتا ہے۔ داڑھی ور حجاب سے مجھے خوف آتا ہے، میرا دل جیسے عبادت کے لئے بند ہوگیا ہے۔ اتنے سال میں دن رات اتنی عبادتیں اور وظیفے کرتی رہی اپنی زندگی میں بہتری کے لئے اب مجھے لگتا ہے مجھے اللہ سے کچھ مانگنا ہی نہیں چاہیے۔ میں مسلمان ہوں لیکن میرا دل آہستہ آہستہ منکر ہوتا جارہا ہے اور مجھے اس احساس سے خوف آتا ہے لیکن میں کچھ کر نہیں پارہی اور یہ سب اس لئے ہوا کیوں کہ مجھے ایک اچھے عملی مسلمان سے بہت ساری توقعات اور امیدیں تھیں اور میں نے انہیں چکنا چور ہوتے دیکھا اور میں عبداللہ کو اس تکلیف سے گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ اگر وہ احسن سعدکو اچھا انسان سمجھتے ہوئے ایک اچھا انسان بن سکتا ہے تو اسے بننے دیں۔''
وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں اور گالوں کو رگڑنے کی کوشش کررہی تھی۔
''میں کافر ہوں لیکن میں کسی کو کافر نہیں کرسکتی، بس مجھ میں اگر ایمان ہے تو صرف اتنا۔'' وہ اب ٹشو اپنی جیب سے نکال کر آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
''پسند…؟ مجھے پسند کا نہیں پتا ممی! مگر عائشہ عابدین میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے۔ میں اس سے شدید ہمدردی رکھتا تھا مگر اب ہمدردی توبہت پیچھے رہ گئی۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتا… بار بار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا اور میرا کوئی فیوچر نہیں ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ لائف پارٹنر کے طور پر مجھے جیسی لڑکی کی خواہش ہے، عائشہ اس کی متضاد ہے… مجھے بے حد مضبوط، پراعتماد، زندگی سے بھرپور کیرئیر اور نیٹڈ ہر وقت ہنستی رہنے والی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں جو بہت اچھی (تربیت) بھی رکھتی ہوں اور عائشہ میں ان سب چیزوں میں صرف دو ہوں گی… یا تین… لیکن اس کے باوجود میں عائشہ سے (علیحدہ ) نہیں رہ سکتا۔''
امریکا آنے سے پہلے اس نے امامہ کے اس سوال پر اسے اپنی بے بسی بتائی تھی۔
''اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی۔'' امامہ نے جواباً اس سے پوچھا تھا۔ ''کیا خصوصیت ہے اس میں ایسی کہ وہ تمہارے ذہن سے نہیں نکلتی؟'' اس نے جبریل سے پوچھا تھا۔
''وہ عجیب ہے ممی، وہ بس عجیب ہے۔''
اس نے جیسے امامہ کو اپنی بے بسی سمجھانے کی کوشش کی تھی اور وہ بے بسی ایک بار پھر سے در آئی تھی۔ اس کے ساتھ چلتی ہوئی اس لڑکی کی منطق صرف اس کی منطق ہوسکتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بے دین کافر کہہ رہی تھی اور وہ اس کے ظرف پر حیران تھا۔
''تم بے حد عجیب ہو۔'' وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
''ہاں میں ہوں۔'' عائشہ عابدین نے اعتراف کیا۔
''مجھے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ تم سولہ سال کی عمر میں زیادہ اچھی تھیں یا اب…؟'' بے حد غیر متوقع جملہ تھا، عائشہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
''عبداللہ نے مجھ سے کہا، تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔'' عائشہ کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس وقت وہیں اس میں سما جائے۔ ندامت کا یہ عالم تھا اس کا۔ وہ جملہ جبریل تک پہنچانے کے لئے نہیں تھا، پھر بھی پہنچ گیا۔
''میں نے اس سے کہا، میں جانتا ہوں۔'' وہ اس طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ پانی پانی اس جملے نے بھی کیا تھا اسے…وہ اس کے دل تک کب پہنچا تھا۔
''عبداللہ کا خیال ہے، ہم دونوں اچھے لائف پارٹنر ہوسکتے ہیں۔'' وہ اس جملے پر رک گئی۔ پتا نہیں کون زیادہ مہربان تھا، کہنے والا یا پہنچانے والا۔
''میں نے اس سے کہا، میں یہ بھی جانتا ہوں۔'' وہ بھی رک گیا تھا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے کے بالمقابل فٹ پاتھ پر کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے۔برف باری پھر سے ہونے لگی تھی۔
''زندگی میں ایک اسٹیج وہ تھی جب میں سوچتی تھی میری شادی اگر آپ جیسے کسی شخص سے ہوجائے تو بس پھر میں خود کو بے حد خوش قسمت مانوں گی… سب مسئلہ حل ہوجائیں گے۔'' اس نے بالآخر کہنا شروع کیا تھا۔
''آج اس اسٹیج پر میں سوچتی ہوں شادی کوئی حل نہیں ہے۔ اچھی زندگی کی گارنٹی بھی نہیں ہے… تو اب میں ایک اچھی زندگی کے لئے کسی سہارے کی تلاش میں نہیں ہوں۔ میں کیریئر پر فوکس کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی زندگی اپنے لئے جینا چاہتی ہوں… ورلڈ ٹور پر جانا چاہتی ہوں۔''
''میں تمہیں اسپانسر کرسکتا ہوں۔''وہ تم آنکھوں سے بے اختیار ہنسی، بے حد سنجیدگی سے کہا گیا وہ جملہ اسے ہنسانے کے لئے ہی تھا۔
''آپ عجیب ہیں۔''
''میں جانتا ہوں۔'' بے ساختہ کئے گئے تبصرے کا بے ساختہ ہو جواب آیا تھا۔ ''عبداللہ نے بھی مجھ سے یہ ہی کہا تھا کہ آپ دونوں ہی عجیب ہیں۔ انہیں مدرٹریسا بننے کا شوق ہے آپ کو اپنے مفروضوں پر دوسروں کی خوشیاں خراب کرنے کا ۔ ''یوکمپلیمنٹ ایچ ادر'' وہ کہہ رہا تھا۔
''راستے سے ہٹ جائیں۔'' وہ ایک راہ گیر تھا جو انہیں راستہ دینے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وہ دونوں بیک وقت راستے سے ہٹے تھے۔
''کبھی کسی اچھے موسم میں، میں تم سے ایک بار پھر پوچھوں گا کہ کیا میں تمہارے ورلڈ ٹور کو اسپانسر کرسکتا ہوں۔'' راہ گیر کے گزر جانے کے بعد جبریل نے اس سے کہا تھا۔
''مجھ جیسوں کو ڈھونڈنے کے بجائے تم اگر مجھ سے بات ہی کرلیتیں تو سولہ سال کی عمر میں بھی میں تمہیں ''نہیں۔'' نہیں کہتا۔ انتظار کرنے کو کہہ دیتا زیادہ سے زیادہ۔''
اس نے جبریل کو کہتے سنا۔ '' میں نیوروسرجن ہوں، دماغ پڑھ سکتا ہوں، دل نہیں اور میں روایتی قسم کی رومانٹک باتیں بھی نہیں کرسکتا۔'' وہ کہہ رہا تھا۔ ''تم سولہ سال کی عمر میں بھی مجھے اچھی لگی تھیں۔ آج بھی لگتی ہو۔ میںنے اپنی ماں سے بھی یہ کہا، انہوں نے مجھ سے کہا اگر اللہ نے جبریل سکندر کے دل میں اس کی محبت اتاری ہے تو پھر وہ بہت اچھی لڑکی ہوگی جس کی کوئی خوبی اللہ کو پسند ہے… میں اپنی ماں کا جملہ دہرا رہا ہوں، اسے خود پسندی مت سمجھنا۔''
آنسوؤں کا ایک ریلا آیا تھا عائشہ عابدین کی آنکھوں میں اور اس کے پتھر ہوتے دل کو گھلانے لگاتھا۔
''پتا نہیں ہم کتنے مومن، کتنے کافر ہیں لیکن جو بھی ہیں۔ اللہ ہمارے دلوں سے بے خبر نہیں ہے۔''
عائشہ عابدین نے ایک بار کہیں پڑھا تھا۔
''اچھا وقت، اچھے وقت پر آتا ہے۔'' اس کی نانی کہا کرتی تھیں۔
وہ عجیب جملے تھے… اور سالوں بعد اپنا مفہوم سمجھا رہے تھے۔
''تم میری ممی کی طرح بہت روتی ہو بات بات پر… تمہاری اور ان کی اچھی نبھے گی۔'' جبریل نے گہرا سانس لیتے ہوئے اس کی سرخ بھیگی ہوئی آنکھوں اور ناک کو دیکھتے ہوئے کہا۔
''کافی پیوگی یا اب بھی گروسری کروگی؟'' وہ اسے اب چھیڑ رہا تھا۔
''گروسری زیادہ ضروری ہے۔'' اس نے اپنی ندامت چھپاتے ہوئے آنسوئوں پر قابو پاکر کہا۔
''اگر اتنی ضروری ہوتی تو تم گروسری اسٹور کو پیچھے نہ چھوڑ آتیں۔'' عائشہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ وہ واقعی بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بہت ساری دوسری چیزوں کی طرح… آگے بہت کچھ تھا… اس نے جبریل کا نم چہرہ دیکھا، پھر نم آنکھوں سے مسکرائی۔

آبِ حیات از عمیرہ احمد

"Is generation k problems aur hain. Aap k zamanay ki tarah hamara wahid problem apnay aap ko aur apnay khandan ko ziada ...
07/08/2025

"Is generation k problems aur hain. Aap k zamanay ki tarah hamara wahid problem apnay aap ko aur apnay khandan ko ziada say ziada liberal, cultured aur aristocratic bana kar paish karna nahi hai. Hum ko manners na sikhayain, hum ko batayain hum itni taizi say badalti hui duniya mai apna wujood kesay qaim rakkhain? Apnay liye kaunsi values ka intikhab karain aur phir un values ko intact kesay rakhain? Relationships kesay banayain aur unhain barqarar kesay rakhain? Apna mental equilibrium kesay rakhain? Jab stress ho tu us say kese chutkara payain. Jab depression ho tu us say kis tarah nijat hasil karain? Apni tanhayi ka ilaj kis cheez say karain."
Amarbail - Umera Ahmed



Order Now:
https://uabooksonline.com/product/amar-bail/
https://uabooksonline.com/product/amar-bail-translation/
Or
DM to Place order or Whatsapp
0340-0009252

Address

London

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umera Ahmed Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Umera Ahmed Official:

Share

Our Story

Admins: Umera Ahmed Hasan Umar Misbah Shafique Feedback : [email protected]

This is the only Official Page of the famous author and playwright Umera Ahmed to discuss her fiction and play. Umera Ahmed is an acclaimed best selling author and a famous scriptwriter who have many famous novels and hit serials on her list. Her most famous write up is PireKamil (s.a.w) which is one of the most best selling Urdu books with more than 200,000 copies sold since its first edition.