Path TV

Path TV HD Islamic TV channel

خوارج کی بنیادی شناخت اور خصوصیات:نبی اکرم ﷺ نے جن خصوصیات کی نشاندہی فرمائی ہے، وہ درج ذیل ہیں:1. عمر اور تجربے میں کم ...
10/09/2025

خوارج کی بنیادی شناخت اور خصوصیات:

نبی اکرم ﷺ نے جن خصوصیات کی نشاندہی فرمائی ہے، وہ درج ذیل ہیں:

1. عمر اور تجربے میں کم ہونا:

· "أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ": یہ لوگ جوان اور کم عمر ہوں گے۔ ان میں عمر کا تجربہ اور زندگی کی پختگی نہیں ہوگی۔
· "سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ": ان کی عقلیں کمزور اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ناپختہ ہوگی۔ وہ معاملات کے گہرے پہلوؤں اور نتائج کو نہیں سمجھیں گے۔

2. ظاہری عبادت اور تقویٰ:

· وہ نماز، روزے، تلاوت قرآن کا بہت دکھاوا کریں گے۔
· ان کی پیشانیاں سجدوں سے نشان زدہ ہوں گی (یعنی رگڑ کھائی ہوئی)۔
· وہ لمبی داڑھیاں رکھیں گے اور سادہ لباس پہنیں گے تاکہ لوگوں پر اپنی "دینداری" کا تاثر قائم کر سکیں۔

3. قرآن کو اپنے مفہوم میں پڑھنا:

· وہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق اور صحیح تفسیر سے جدا کر کے اپنی مرضی کے معنی پڑھیں گے۔
· وہ محکم (صاف) آیات کو متشابہ (غیر واضح) آیات پر حمل کریں گے۔ مثال کے طور پر، وہ اللہ کے "استواء علی العرش" جیسی صفات کی literal تشریح کر کے دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیں گے۔

4. مسلمانوں کی تکفیر (کافر قرار دینا):

· یہ ان کی سب سے خطرناک اور بنیادی خصوصیت ہے۔
· وہ چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو کفر سمجھیں گے۔
· وہ حاکم وقت اور عام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف خروج (بغاوت) اور قتل کو جائز ٹھہرائیں گے۔
· ان کا عقیدہ ہوگا کہ "ہم حق پر ہیں اور ہمارے سوا سب گمراہ ہیں۔"

5. دین سے مروق ہونا (ایک دم نکل جانا):

· "يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ": وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔ یعنی ان کا دین سطحی ہوگا، دل میں اترے گا نہیں۔ ان کی عبادتیں ریاکاری پر مبنی ہوں گی۔

6. مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو چھوڑ دینا:

· یہ لوگ اصل دشمن (کفار) سے جہاد چھوڑ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اپنا ہدف بنائیں گے۔
· وہ دہشت گردی، بم دھماکوں، اجتماعی قتل عام جیسے actions کو "جہاد" کا نام دیں گے۔

7. ان کے ساتھ deal کرنے کا اسلامی حکم:

· نبی ﷺ کا واضح حکم ہے: "فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ" (تم جہاں کہیں بھی ان سے ملو، انہیں قتل کر دو)۔
· کیوں؟ کیونکہ وہ امت میں فساد، خونریزی اور انتشار پھیلاتے ہیں۔ ان کا وجود امت کے امن کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ان نشانیوں کا مطالعہ کیا یہ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ان فاسق اور منافق قسم کے خارجیوں کے اوپر پوری اترتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہ بت پرستوں کو چھوڑ کے مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اگر دیکھا جائے تو اج کی تاریخ میں یہ پوری دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو کہ بت پرستی کرتا اور سوائے ہندوستان کے وہی مشرک ہیں اور یہ ان کا ساتھ رکھتے ہیں ان کو چھوڑتے ہیں اور مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اگر احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تمام نشانیاں ان فاسقوں اور منافقوں کے اوپر پوری اترتی ہے

03/09/2025

A simple wave, a powerful thank you 🙏 This little one in Gaza is grateful for the hot meal you helped provide through Crescent Relief.
"Every meal counts"

www.crescentrelief.london/palappeal

Crescent Relief London
Sort Code 20-44-22
Account Number 8001 3137
Ref: Palappeal



بسا اوقات انسان جرائم تو کرتا ہے لیکن پکڑا نہیں جاتا ،  لیکن جب پکڑا جاتا ہے تو اس جرم میں کہ شائد ایسا سنگین ہوتا ہی نہ...
27/08/2025

بسا اوقات انسان جرائم تو کرتا ہے لیکن پکڑا نہیں جاتا ، لیکن جب پکڑا جاتا ہے تو اس جرم میں کہ شائد ایسا سنگین ہوتا ہی نہیں کہ جو اس کے اصل جرائم تھے ۔

مرزا صاحب کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔
چونکہ ا ن کو عادت تھی " جو منہ میں آیا کہہ دیا " وہ اگر توحید کی دعوت بھی دیتے تھے تو دوسرے گروہ کی تذلیل کر کے اور بےہودگی کے ساتھ سو ان کا مزاج اس سانچے میں ڈھل چکا تھا کہ اپنی بات کہنے سے زیادہ دوسرے کی توہین و تذلیل کرنا ۔۔۔

انہیں شوق عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی
نکلتی ہیں دعائیں ، ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر

یہی سبب ہے کہ ان کے ماننے والے بھی ان سا ہی لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے تھے ۔
اور اوپر سے اچھے فین فالونگ کا تڑکا لگ گیا تو لہجے میں بدتہذیبی کے ساتھ ساتھ غرور بھی چلا آیا ۔۔۔ ایسے جملے ان کی نوک زبان پر دھرے ہوتے کہ " بعض انبیاء بھی ایسی فین فالونگ حاصل نہ کر سکے "

پھر اصحابِ رسول کے بارے میں ان کی زبان ایسی آزاد ہوئی کہ توبہ ہی بھلی ، سیدنا ابوبکر صدیق بارے تک کہہ دیا کہ وہ آج آ جاتے تو سقیفہ بنی ساعدہ کے اپنے فیصلے پر ضرور پشیمان ہوتے ۔ سیدنا عمرو بن العاص ، سیدنا مغیرہ بن شعبہ ، سیدنا معاویہ اور سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم بارے تو انہوں نے باقاعدہ نفرت کی تخم ریزی کی ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا ایک قول بائبل میں رقم ہے کہ :
" درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔۔"
اور پنجابی میں کہتے ہیں ۔۔۔۔:
" گرو جناں دے ٹپنے چیلے جان چھڑپ۔۔۔ "
یعنی جن کے گرو چھلانگیں مارتے ہیں تو ان کے شاگرد پھر دیواریں ہی پھلانگتے ہیں ۔۔
مرزا صاحب نے اپنے لیکچرز میں اصحابِ رسول کے بارے میں ڈھکے چھپے اور کبھی کھلے الفاظ میں نامناسب الفاظ کہے لیکن ان کے " درخت سے لگے پھل " یعنی ان کے فالورز اصحابِ رسول کے حوالے سے کھلی بےہودگی کرتے ہیں ۔
یہی سبب ہؤا کہ توحید کے باب میں نہایت حساس اور متحرک گروہ اہل حدیث بھی ان کے خلاف ہو گئے ، حالانکہ انہوں نے یہ تک کہا کہ ۔۔۔۔ سنت نبوی کے عین مطابق اگر کسی کی نماز ہے تو اہل حدیث جماعت کی ہے ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ان کی سب سے زیادہ مخالفت خود اہل حدیث علماء کی طرف سے کی گئی ۔۔ تین معروف اہل حدیث علماء ، ڈاکٹر محمد زبیر ، سیف اللہ محمدی اور ابویحییٰ نور پوری نے مسلسل ان کے رد میں کام کیا ۔ پھر بعد میں بہت سے دیوبندی اور بریلوی مسلک کے علماء بھی شامل ہوئے ۔ خاص طور پر مولانا عمران کی گرفت قابلِ داد رہی ۔

مرزا صاحب کی نیت پر بات نہیں کرتے لیکن عمل ان کا یہ تھا کہ انہوں نے اصحابِ رسول کے بعض آپسی اختلاف کو مستقل اپنا موضوع بنایا اور اس کو اپنی مقبولیت کا سامان سمجھا بلکہ مشاجرات صحابہ بارے علماء کے خاموشی والی نصیحتوں کا الٹا مذاق بنایا کہ :
" جی علماء حدیثیں چھپاتے ہیں "
یہ کسی نے نہ سوچا کہ خود علماء نے ہی ہر حدیث کی کتاب کا ترجمہ کیا دیوبندی بریلوی اہل حدیث ہر مسلک کے علماء کی ترجمہ شدہ حدیث کی کتابیں موجود ہیں ، اگر چھپانے والے ہوتے تو ترجمہ ہی کیوں کرتے ؟
ہاں صرف یہ نصیحت علماء ضرور کرتے تھے کہ صحابہ کرام انسان تھے سو اس تقاضائے بشریت کے سبب ان کے اندر کچھ اختلافات ہو گئے تو ان اختلافات کو اسٹیج اور منبروں کا موضوع نہیں بنانا چاہیے اور خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور ان کے محاسن اور خوبیاں بیان کرنی چاہیے۔۔۔ اس نصیحت کو مرزا صاحب نے حدیثیں چھپانے کا نام دیا جو بذات خود جھوٹ اور کذب بیانی پر مبنی رویہ تھا ۔۔۔۔

اس منفی رویے سے جو نسل سامنے آئی وہ محض بدزبان نہ تھی بلکہ ذہنی طور پر ابنارمل بھی تھی جس کا ایک منظر آپ پوسٹ سے ملحق تصویر میں دیکھ سکتے ہیں ، یعنی صحابہ کے اختلافات پر مبنی چند روایات کو موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹوں پر لکھ دیا گیا اور اس کو اپنے فرقے کی فتح سمجھا گیا ۔۔کیا کبھی کسی روز کسی تقریر میں کسی لیکچر میں مرزا صاحب نے اس بازاری رویے سے اپنے فرقے کے نوجوانوں کو منع کیا؟۔

موصوف خود کو علمی کتابی قرار دیتے اور اسی پر اپنے فرقے کی بنیاد رکھی لیکن علم و کتاب سے دور کا تعلق تھا کیونکہ براہ راست عربی کتب پڑھنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں رکھتے لیکن چونکہ زبان خوب چلتی ہے سو چیلنج امام کعبہ کو بھی کر دیا کہ ان کو تجوید کے قواعد سکھا سکتے ہیں ۔ یعنی احمقانہ [معذرت کے ساتھ] حد تک اعتماد ۔۔۔ شائد ان کو یہ علم نہیں تھا کہ امام کعبہ کے منصب پر سعودی حکومت صرف اچھی قرات کے سبب مقرر نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے اعلیٰ تعلیم بھی ضروری ہوتی ہے ۔ شیخ سدیس بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں ۔۔
خیر یہ تو ان کا مزاج ہے کہ سیدھا شہتیر پر حملہ کرتے ہیں لیکن ان کی زبان کی تیزی سے متاثر نوجوان بھی اس غلط فہمی میں مبتلاء ہوئے کہ موصوف واقعتاً بہت بڑے عالم ہیں جب کہ وہ اس راہ کی راہرو ہی نہیں تھے محض ایک یوٹیوبر ۔۔۔

پھر ان کا ایک طریقہ واردات یہ تھا کہ فرقوں اور مناظروں کے خلاف بات کرتے لیکن بات بات پر چیلنج بھی کرتے ۔۔ان کے سادہ لوح نوجوان فالور اس چالاکی کو کبھی نہ سمجھے کہ چیلنج مناظرے کی ہی تو ایک شکل ہوتی ہے اور ان کے ۔۔ای مام۔۔۔ ہر وقت چیلنج چیلنج ہی تو کھیلتے ہیں
البتہ مرزا صاحب اتنے سیانے ضرور تھے کہ اہل حدیث کوچیلنج کرتے تو کہتے پروفیسر ساجد میر میرے سامنے بیٹھیں ۔
او بھائی ! ساجد میر صاحب تو اس فیلڈ کے آدمی ہی نہیں تھے ، لیکن سادہ لوح فالور اس چکر میں آ جاتے ، اسی طرح دیوبندی حضرات کو مخاطب کرتے تو سیدھا مفتی تقی عثمانی صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ میرے سامنے بیٹھے کون نہیں جانتا کہ مفتی صاحب نے کبھی کوئی مناظرہ نہیں کیا نہ اس طرح کی مجلس آرائی کی ہے ، یہ حربہ دراصل اپنے فالورز کے سامنے خود کو ناقابل شکست ظاہر کرنے کا تھا ورنہ جب واقعتاً ایسے علماء جہلم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے دروازہ بھی نہ کھولا ۔

اب جب پکڑے گئے تو ایسی بات پر کہ جو شائد جرم ہی نہیں تھا ۔ اور بریلوی مکتب فکر کے عالم آصف اشرف جلالی صاحب کی طرف سے جو ان کے حوالے سے توہین کا فتویٰ جاری کیا گیا ہے کم از کم میں تو اس سے اتفاق نہیں کروں گا ، یہ محض جلالی صاحب کا جلال ہے حالانکہ خود جلالی صاحب سیدہ فاطمہ کے حوالے سے توہین کے الزام میں جو سزا کاٹ کے آئے ہیں وہ عین یہی عمل تھا جو مرزا صاحب نے کیا ۔۔ توہین جلالی صاحب نے بالکل ہی نہیں کی تھی لیکن ان پر مقدمہ درج ہوا اور وہ گرفتار ہوئے اور ہم نے تب بھی لکھا تھا کہ اس معاملے میں جلالی صاحب کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ عیسائی مذہب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارے میں عقیدہ ہے کہ وہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے دعوے نبوت میں درست نہیں سمجھتے اور اس دعویٰ نبوت کو کذب جانتے ہیں۔۔۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی آنے کا منتظر بھی ہے اور نبی کی آمد کے بارے میں بائبل میں مذکور پیشین گوئیاں اپنے عقیدے کا حصّہ بنائے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔ تو کیونکر وہ پھر آپ پر ایمان نہیں لاتا ؟
اور مرزا صاحب نے جو الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارے عیسائیوں سے منسوب کیے ہیں وہ بعینہ اسی طرح معاشرے کے نزاکتوں کے سبب کہیں مرقوم نہ بھی ہوں تو اذہان میں موجود ہیں

ریاست کی مجبوری یہ بنی ہے کہ ایک چہیتے کے مقابلے میں دوسرے چہیتے آگئے ہیں۔ اقلیتیں اس وقت عالمی دباؤ کے ماحول کے سبب ہماری ریاست کے ہاتھ کا چھالا ہیں سو ان کے معاملات نازک تر ہیں ۔۔۔۔اس سبب مرزا صاحب پکڑے گئے ، وگرنہ سنگین تر الفاظ اور جملے بولے اور ملک بھر میں جلوس نکلے اور مہم چلی ، ایف آئی آر درج ہوئی لیکن تمام تر دباؤ کے باوجود مرزا صاحب کی ریاست نے مکمل حفاظت کی۔ ۔
منقول

منقول
14/08/2025

منقول

*“چودہ اگست”*
بادشاہ کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ایک غلام نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ غلام اس سے پہلے کشتی میں کبھی سوار نہیں ہوا تھا۔ چاروں طرف پانی دیکھ کر خوف اس کے رگ و پے میں سما گیا۔ اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ کبھی کہتا مجھے واپس لے چلو‘ کبھی چیختا کہ میں پانی میں ڈوب جاؤں گا‘ میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ کشتی ذرا سا ہچکولا کھاتی تو وہ ایک دلدوز چیخ مارتا اور اونچی آواز سے از سر نو رونا شروع کر دیتا۔ سب نے اسے تسلی دی مگر اسے کسی طور سکون نہ آیا۔ بادشاہ کے ساتھ ایک مردِ دانا بھی تھا۔ (ایسے ہی داناؤں کی وجہ سے حکومتیں چلتی تھیں!) اس نے جہاں پناہ سے اجازت چاہی کہ غلام کا مسئلہ حل کر دے۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ دانا شخص نے حکم دیا کہ غلام کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ غلام چند غوطے کھا چکا اور ہاتھ پاؤں مار چکا تو اسے کھینچ کر کشتی میں واپس لایا گیا۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور کشتی کے ایک کونے میں آرام اور سکون سے بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے دانا شخص سے اس علاج کی تہہ میں چھپی حکمت پوچھی تو اس نے کہا کہ بے وقوف غلام کو کشتی کی عافیت کی قدر نہیں تھی۔ غوطے کھانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سلامتی کسے کہتے ہیں!
گلستانِ سعدی کی یہ حکایت کسی نہ کسی شکل میں اکثر لوگوں نے سنی ہوئی ہو گی۔ آج 14 اگست کے دن اس کی یاد یوں آئی کہ جب سے پاکستان کی کشتی وجود میں آئی ہے‘ کوتاہ بین لوگ چیخ و پکار میں مصروف ہیں اور رونا پیٹنا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ ان مسلمانوں کی طرف نہیں دیکھتے جو بھارت کے بپھرے ہوئے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں۔ جن کی زندگیاں ہر وقت داؤ پر لگی ہیں۔ جو بکرے کا گوشت کھانے اور گھر میں رکھنے پر بھی مار دیے جاتے ہیں۔ جو گائے بیچنے کے لیے لے جا رہے ہوں تب بھی کچل دیے جاتے ہیں۔ جن کی شہریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جنہیں ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے نام بدلنا پڑتے ہیں اور جن کی بیٹیوں کے گھر بسنے میں ہزارہا ناگفتہ بہ رکاوٹیں حائل ہیں! یہ حلقے طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ تین ملکوں میں بٹے ہوئے مسلمان‘ ایک ملک میں یعنی متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو ایک بڑی طاقت ہوتے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی بیس کروڑ آبادی‘ اتنی کم بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے مگر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمان نمائندوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ساٹھ ستر کروڑ مسلمان بھی اقلیت ہی ہوتے اور ان کے ساتھ اقلیتوں جیسا سلوک ہی کیا جاتا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا ادبی اور صحافتی مقام بلند ہے۔ اس سے انکار نہیں۔ تاہم ایک بات دلچسپ ہے کہ پاکستان کے بارے میں تو انہوں نے پیشگوئیاں کیں‘ جن کی پاکستان کے ''خیر خواہوں‘‘ نے خوب خوب تشہیر کی اور ہر تھوڑے عرصہ کے بعد اس باسی کڑھی میں ابال آتا ہے۔ کاش مولانا ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بھی اپنی مستقبل شناسی کے فن کو استعمال کرتے اور بتاتے کہ ایک بی جے پی آئے گی اور اس کے بعد ادتیا ناتھ‘ مودی اور امیت شاہ جیسے سانپ پٹاریوں سے باہر نکل آئیں گے اور بھارتی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دیں گے۔ تقسیم کے بعد مولانا بھارت کے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ ہندی کے بجائے قومی زبان کا نام ہندوستانی رکھا جائے تاکہ سارے ہندوستان کے لیے قابلِ قبول ہو مگر مولانا کی کسی نے نہ سنی۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ 14 اگست ہمارے لیے ایک نئی صبح لے کر آیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایک جائے پناہ ملی۔ آج پاکستان ہے یا بنگلہ دیش‘ مسلمانوں کی اپنی صنعتیں ہیں‘ اپنی زراعت ہے۔ وزرائے خارجہ اپنے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان نوجوانوں کو ملازمت کے لیے ہندو اکثریت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ ان کے بچوں کو سکولوں میں بندے ماترم کا ترانہ نہیں گانا پڑتا۔ ان کی خواتین کو زندہ رہنے کے لیے نام نہیں بدلنا پڑتے۔ ہولی کے موقع پر انہیں مسجدوں کو نہیں ڈھانپنا پڑتا۔ آج بھارتی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ میں کتنے مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی سفیر مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی مسلمان طلبہ و طالبات سکالرشپس پر مغربی ملکوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ بھارتی افواج میں کتنے مسلمان ہیں؟ کیا یہ سب کچھ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ہے؟ نہیں! جناب! نہیں! ہر گز نہیں! کسی شعبے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے حصہ نہیں مل رہا۔ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں! ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں کرائے پر مکان نہیں ملتے۔ مسلمانوں کی اکثریت زیریں طبقے میں چلی گئی ہے۔ اکثریت بہت معمولی سطح کے روزگار سے زندہ رہ رہی ہے۔ فسادات کا خطرہ ہر وقت ان کے سر پر منڈلاتا ہے۔ اور جب بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے جاتے ہیں‘ پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔
آج کا بنگلہ دیش بھی چودہ اگست ہی کا مرہونِ منت ہے۔ یاد رہے کہ 1905ء میں بنگال کو تقسیم کیا گیا تھا۔ بنگال اور آسام کے مشرقی حصوں کو الگ کرکے ڈھاکہ کو دارالحکومت بنایا گیا تھا۔ اس پر ہندوؤں نے شورِ قیامت برپا کر دیا تھا۔ اس لیے کہ مغربی بنگال نے معاشی لحاظ سے مشرقی بنگال کو مغلوب کرکے رکھا ہوا تھا۔ مسلمان اس تقسیم سے خوش تھے۔ ان کے لیے تعلیمی‘ اقتصادی اور انتظامی مواقع زیادہ ہو گئے تھے‘ مگر ہندو غالب آ گئے۔ چھ سال بعد 1911ء میں یہ تقسیم منسوخ کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان الگ ہوا تو بھارت میں جو مسرت کی خبیث لہر اٹھی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی بنگال اور سلہٹ‘ چودہ اگست کو مشرقی پاکستان بن گئے تھے۔ بھارتی سمجھے تھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک اور 1911ء ثابت ہو گی۔ اور مشرقی پاکستان الگ ہو کر مغربی بنگال میں ضم ہو جائے گا۔ مگر بنگلہ دیش کا قیام 1947ء کے بعد بھارت کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ آج بنگلہ دیش سر اٹھا کر‘ خم ٹھونک کر بھارت کے سامنے کھڑا ہے۔ وہی مشرقی پاکستان! نام بدل کر!
پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم حقیقی جمہوریت سے ابھی تک دور ہیں۔ ہمارے اقتصادی مسائل ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو حل ہو سکتے ہیں اور ان شاء اللہ حل ہوں گے۔ مگر الحمدللہ! چودہ اگست نے ہمیں ایک کینہ پرور اکثریت کی غلامی سے بچا لیا۔ ہم ایک آزاد وطن کے شہری ہیں! آخر میں اپنے چند اشعار۔
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے؍ یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں ہم بیج کی صورت جائیں گے؍ ہمیں اپنے اندر رکھتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر؍ یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا بڑے ہوئے؍ ہمیں پاؤں پاؤں چلاتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے؍ یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں؍ یہی چھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں؍ یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے؍ یہی غرناطہ یہی سِسلی ہے جیسی بھی ہے!

*“چودہ اگست”*بادشاہ کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ایک غلام نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ غلام اس سے پہلے...
14/08/2025

*“چودہ اگست”*
بادشاہ کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ایک غلام نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ غلام اس سے پہلے کشتی میں کبھی سوار نہیں ہوا تھا۔ چاروں طرف پانی دیکھ کر خوف اس کے رگ و پے میں سما گیا۔ اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ کبھی کہتا مجھے واپس لے چلو‘ کبھی چیختا کہ میں پانی میں ڈوب جاؤں گا‘ میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ کشتی ذرا سا ہچکولا کھاتی تو وہ ایک دلدوز چیخ مارتا اور اونچی آواز سے از سر نو رونا شروع کر دیتا۔ سب نے اسے تسلی دی مگر اسے کسی طور سکون نہ آیا۔ بادشاہ کے ساتھ ایک مردِ دانا بھی تھا۔ (ایسے ہی داناؤں کی وجہ سے حکومتیں چلتی تھیں!) اس نے جہاں پناہ سے اجازت چاہی کہ غلام کا مسئلہ حل کر دے۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ دانا شخص نے حکم دیا کہ غلام کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ غلام چند غوطے کھا چکا اور ہاتھ پاؤں مار چکا تو اسے کھینچ کر کشتی میں واپس لایا گیا۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور کشتی کے ایک کونے میں آرام اور سکون سے بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے دانا شخص سے اس علاج کی تہہ میں چھپی حکمت پوچھی تو اس نے کہا کہ بے وقوف غلام کو کشتی کی عافیت کی قدر نہیں تھی۔ غوطے کھانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سلامتی کسے کہتے ہیں!
گلستانِ سعدی کی یہ حکایت کسی نہ کسی شکل میں اکثر لوگوں نے سنی ہوئی ہو گی۔ آج 14 اگست کے دن اس کی یاد یوں آئی کہ جب سے پاکستان کی کشتی وجود میں آئی ہے‘ کوتاہ بین لوگ چیخ و پکار میں مصروف ہیں اور رونا پیٹنا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ ان مسلمانوں کی طرف نہیں دیکھتے جو بھارت کے بپھرے ہوئے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں۔ جن کی زندگیاں ہر وقت داؤ پر لگی ہیں۔ جو بکرے کا گوشت کھانے اور گھر میں رکھنے پر بھی مار دیے جاتے ہیں۔ جو گائے بیچنے کے لیے لے جا رہے ہوں تب بھی کچل دیے جاتے ہیں۔ جن کی شہریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جنہیں ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے نام بدلنا پڑتے ہیں اور جن کی بیٹیوں کے گھر بسنے میں ہزارہا ناگفتہ بہ رکاوٹیں حائل ہیں! یہ حلقے طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ تین ملکوں میں بٹے ہوئے مسلمان‘ ایک ملک میں یعنی متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو ایک بڑی طاقت ہوتے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی بیس کروڑ آبادی‘ اتنی کم بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے مگر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمان نمائندوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ساٹھ ستر کروڑ مسلمان بھی اقلیت ہی ہوتے اور ان کے ساتھ اقلیتوں جیسا سلوک ہی کیا جاتا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا ادبی اور صحافتی مقام بلند ہے۔ اس سے انکار نہیں۔ تاہم ایک بات دلچسپ ہے کہ پاکستان کے بارے میں تو انہوں نے پیشگوئیاں کیں‘ جن کی پاکستان کے ''خیر خواہوں‘‘ نے خوب خوب تشہیر کی اور ہر تھوڑے عرصہ کے بعد اس باسی کڑھی میں ابال آتا ہے۔ کاش مولانا ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بھی اپنی مستقبل شناسی کے فن کو استعمال کرتے اور بتاتے کہ ایک بی جے پی آئے گی اور اس کے بعد ادتیا ناتھ‘ مودی اور امیت شاہ جیسے سانپ پٹاریوں سے باہر نکل آئیں گے اور بھارتی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دیں گے۔ تقسیم کے بعد مولانا بھارت کے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ ہندی کے بجائے قومی زبان کا نام ہندوستانی رکھا جائے تاکہ سارے ہندوستان کے لیے قابلِ قبول ہو مگر مولانا کی کسی نے نہ سنی۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ 14 اگست ہمارے لیے ایک نئی صبح لے کر آیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایک جائے پناہ ملی۔ آج پاکستان ہے یا بنگلہ دیش‘ مسلمانوں کی اپنی صنعتیں ہیں‘ اپنی زراعت ہے۔ وزرائے خارجہ اپنے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان نوجوانوں کو ملازمت کے لیے ہندو اکثریت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ ان کے بچوں کو سکولوں میں بندے ماترم کا ترانہ نہیں گانا پڑتا۔ ان کی خواتین کو زندہ رہنے کے لیے نام نہیں بدلنا پڑتے۔ ہولی کے موقع پر انہیں مسجدوں کو نہیں ڈھانپنا پڑتا۔ آج بھارتی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ میں کتنے مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی سفیر مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی مسلمان طلبہ و طالبات سکالرشپس پر مغربی ملکوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ بھارتی افواج میں کتنے مسلمان ہیں؟ کیا یہ سب کچھ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ہے؟ نہیں! جناب! نہیں! ہر گز نہیں! کسی شعبے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے حصہ نہیں مل رہا۔ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں! ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں کرائے پر مکان نہیں ملتے۔ مسلمانوں کی اکثریت زیریں طبقے میں چلی گئی ہے۔ اکثریت بہت معمولی سطح کے روزگار سے زندہ رہ رہی ہے۔ فسادات کا خطرہ ہر وقت ان کے سر پر منڈلاتا ہے۔ اور جب بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے جاتے ہیں‘ پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔
آج کا بنگلہ دیش بھی چودہ اگست ہی کا مرہونِ منت ہے۔ یاد رہے کہ 1905ء میں بنگال کو تقسیم کیا گیا تھا۔ بنگال اور آسام کے مشرقی حصوں کو الگ کرکے ڈھاکہ کو دارالحکومت بنایا گیا تھا۔ اس پر ہندوؤں نے شورِ قیامت برپا کر دیا تھا۔ اس لیے کہ مغربی بنگال نے معاشی لحاظ سے مشرقی بنگال کو مغلوب کرکے رکھا ہوا تھا۔ مسلمان اس تقسیم سے خوش تھے۔ ان کے لیے تعلیمی‘ اقتصادی اور انتظامی مواقع زیادہ ہو گئے تھے‘ مگر ہندو غالب آ گئے۔ چھ سال بعد 1911ء میں یہ تقسیم منسوخ کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان الگ ہوا تو بھارت میں جو مسرت کی خبیث لہر اٹھی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی بنگال اور سلہٹ‘ چودہ اگست کو مشرقی پاکستان بن گئے تھے۔ بھارتی سمجھے تھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک اور 1911ء ثابت ہو گی۔ اور مشرقی پاکستان الگ ہو کر مغربی بنگال میں ضم ہو جائے گا۔ مگر بنگلہ دیش کا قیام 1947ء کے بعد بھارت کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ آج بنگلہ دیش سر اٹھا کر‘ خم ٹھونک کر بھارت کے سامنے کھڑا ہے۔ وہی مشرقی پاکستان! نام بدل کر!
پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم حقیقی جمہوریت سے ابھی تک دور ہیں۔ ہمارے اقتصادی مسائل ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو حل ہو سکتے ہیں اور ان شاء اللہ حل ہوں گے۔ مگر الحمدللہ! چودہ اگست نے ہمیں ایک کینہ پرور اکثریت کی غلامی سے بچا لیا۔ ہم ایک آزاد وطن کے شہری ہیں! آخر میں اپنے چند اشعار۔
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے؍ یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں ہم بیج کی صورت جائیں گے؍ ہمیں اپنے اندر رکھتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر؍ یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا بڑے ہوئے؍ ہمیں پاؤں پاؤں چلاتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے؍ یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں؍ یہی چھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں؍ یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے؍ یہی غرناطہ یہی سِسلی ہے جیسی بھی ہے!

12/08/2025
09/08/2025

اسلام قرآنی جب کہ رافضیت تاریخی مذہب ہے!
آپ کیا کہتے ہیں؟

22/05/2025

The latest survey conducted by Gallup Pakistan has revealed a strong public support for the Pakistan Army, especially after Ope-ration Bunyan un Marsoos.

Most Pakistanis expressed satisfaction with both the political and mili-tary leadership, praising their handling of the situation.

Notably, 93% said their opinion of the arm-ed for-ces had changed positively following Opera-tion Bunyan un Marsoos.

22/05/2025

Pakistan's Special Breakfast French Toast with Fantastic Tea Goes Viral!

How Pakistan Could Stop Salt Supply to India1. Trade Restrictions:Pakistan can impose an official ban on salt exports to...
27/04/2025

How Pakistan Could Stop Salt Supply to India

1. Trade Restrictions:
Pakistan can impose an official ban on salt exports to India through a government order or Ministry of Commerce notification.

2. Customs & Border Controls:
Enforce strict customs inspections at border crossings (like Wagah, Khokhrapar) to physically prevent salt shipments from crossing into India.

3. Revoking Trade Agreements:
If salt exports are tied to any bilateral agreements, Pakistan can withdraw or amend them, citing national interests.

4. Strategic Resource Declaration:
Declare salt as a strategic resource, limiting its export citing environmental or national economic concerns (this would align with international trade laws).

5. Diplomatic Measures:
Use diplomatic channels (like reducing trade status) — for example, after 2019 Pulwama attack, Pakistan downgraded trade ties and could replicate that.



Important:
Currently, India does not heavily depend on Pakistan for salt — India is one of the largest salt producers globally (especially from Gujarat). So economically, this would have a symbolic impact more than a practical one.

Himalayan Salt Treaty with India • There is no specific “Himalayan Salt Treaty” between Pakistan and India. • However, s...
27/04/2025

Himalayan Salt Treaty with India
• There is no specific “Himalayan Salt Treaty” between Pakistan and India.
• However, salt trade (especially pink Himalayan salt) happens under normal trade agreements when relations are stable.
• After the Pulwama attack in 2019, Pakistan banned all bilateral trade with India, including Himalayan salt exports.
• Before 2019, Pakistan used to export significant amounts of Himalayan pink salt to India, where it was rebranded and even sold internationally at higher prices.
• Now, some salt still reaches India through indirect routes (like via UAE or third-party countries).



Himalayan Salt Price (2025 Estimate)
• In the international market, the average price of raw Himalayan pink salt is:
• $80 to $150 per ton (raw bulk form)
• Processed and packaged Himalayan salt (for culinary, bath, or decorative uses) can go for:
• $300 to $600 per ton — or even much higher for premium quality.

In India, after importing and packaging, it is sold at huge profits, sometimes over $1000 per ton equivalent in retail!



Quick Fun Fact:
Himalayan salt mainly comes from the Khewra Salt Mine in Pakistan — the second-largest salt mine in the world!

Let’s do a clear comparison between the Indian Air Force (IAF) and the Pakistan Air Force (PAF) based on key factors:⸻1....
27/04/2025

Let’s do a clear comparison between the Indian Air Force (IAF) and the Pakistan Air Force (PAF) based on key factors:



1. Size
• IAF: About 1,700+ aircraft, one of the largest in the world.
• PAF: About 800+ aircraft, significantly smaller but still among the largest in the region.



2. Fighter Jets
• IAF:
• Rafale (France - very advanced)
• Su-30MKI (Russia/India - backbone of IAF)
• Tejas (Indian indigenous fighter)
• Mirage-2000, MiG-29, Jaguar, etc.
• PAF:
• JF-17 Thunder (Pakistan/China co-developed)
• F-16 Fighting Falcon (USA - key asset)
• Mirage III/V, JF-17 Block III (newer versions with better avionics).



3. Air Defense Systems
• IAF:
• S-400 Triumf (Russia - among the best missile defense systems)
• Akash SAM, Spyder SAM, etc.
• PAF:
• LY-80 (China - medium-range air defense)
• Other Chinese-origin systems.



4. Technology and Modernization
• IAF:
• Investing heavily in indigenous projects like AMCA (5th-gen fighter project).
• Strong focus on electronic warfare, drones, and network-centric warfare.
• PAF:
• Focused on upgrading JF-17 to near 4.5-gen standards.
• Strengthening drone and EW capabilities through Chinese collaboration.



5. Training and Experience
• IAF:
• More exposure to joint exercises globally (with USA, France, UK, Israel, Australia).
• Battle experience: Kargil War, 1971 Indo-Pak War, Balakot strikes (2019).
• PAF:
• Highly professional with excellent pilot training.
• Successful combat actions historically (1965, 1971, 2019 dogfight).



6. Nuclear Capability (Air delivery)
• IAF: Has strategic bombers and fighters capable of delivering nuclear weapons.
• PAF: Also has nuclear delivery capability but relies more on missile systems.



7. Overall Assessment
• IAF is bigger, more modernized, and technologically ahead.
• PAF is leaner, highly efficient, and adapts quickly, focusing on quality and upgrades over quantity.



Summary:

India has an advantage in numbers, diversity, technology, and strategic reach.
Pakistan focuses on agility, pilot skill, and cost-effective modernization.

Here’s a simple and clear table comparing the Indian Air Force (IAF) and the Pakistan Air Force (PAF):

Address

London

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Path TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Path TV:

Share

Category