06/08/2025
پختون قوم برسوں سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار رہی ہے۔ یہ ایک ایسی قوم ہے جس نے ہمیشہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کی، لیکن بدقسمتی سے اس کی یہ آواز اکثر بندوقوں کی دھماکوں اور فوجی بوٹوں کی چاپ تلے دبا دی گئی۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں پختونوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نہ صرف ایک قوم کے بنیادی حقوق کی پامالی ہیں بلکہ انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ پختون سرزمین، جو خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا کے علاقوں پر مشتمل ہے، ہمیشہ سے پاکستانی ریاست کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے۔ 2000ء کی دہائی سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر پاکستانی فوج نے پختونوں کے گھروں، گلیوں اور بازاروں کو اپنی چھاؤنیوں کا حصہ بنا لیا۔ آپریشن ضربِ عضب، آپریشن خیبر، اور دیگر فوجی آپریشنز کے نام پر لاکھوں پختون اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے۔ ان کے گاؤں تباہ کر دیے گئے، ان کے بچوں کے اسکول مسمار کر دیے گئے، اور ان کی روزی روٹی چھین لی گئی۔ یہ سب کچھ "دہشت گردی کے خاتمے" کے نام پر کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اصل دہشت گرد کون ہیں؟ وہ جو اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑتے ہیں یا وہ جو اپنی طاقت کے نشے میں ایک پوری قوم کو کچل رہے ہیں؟ پاکستانی فوج کے ہاتھوں پختونوں کی جبری گمشدگیاں کوئی نیا قصہ نہیں۔ ہزاروں پختون نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا گیا، ان کے خاندانوں کو بتائے بغیر خفیہ جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ان میں سے کئی کے بارے میں آج تک کوئی خبر نہیں۔ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جیسے پلیٹ فارمز نے ان گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھائی، لیکن فوج کی طرف سے انہیں دہشت گرد قرار دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا اپنے بنیادی حقوق مانگنا جرم ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستانی فوج کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے ہر پختون کے دل میں گونج رہے ہیں۔ فوجی آپریشنز کے نام پر پختونوں کے گھر بارود کے ڈھیر بنائے گئے۔ بازار، مساجد، اور حتیٰ کہ ہسپتال بھی فوج کے نشانے پر رہے۔ واہگہ سے لے کر وزیرستان تک، پختون سرزمین پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ عام شہریوں کو "کولٹیریل ڈیمیج" کا نام دے کر ان کی جانوں کو نظر انداز کیا گیا۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک پوری قوم کو چند افراد کے جرائم کی سزا دی جائے؟ پاکستانی فوج نے پختونوں کو نہ صرف اپنے گھروں سے محروم کیا بلکہ ان کی ثقافت، زبان اور شناخت کو بھی دبانے کی کوشش کی۔ پختون تحفظ موومنٹ نے جب ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تو فوج نے اسے دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر غداری کے الزامات لگائے گئے، اور ان کی آواز کو میڈیا سے غائب کر دیا گیا۔ منظور پشتین جیسے رہنما، جو صرف اپنے لوگوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا گیا۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک پوری قوم کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی سزا دی جائے؟ پختون علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا۔ فوج کی موجودگی نے مقامی معیشت کو تباہ کر دیا۔ روزگار کے مواقع ختم ہوئے، زراعت تباہ ہوئی، اور تجارت کو فوجی چیک پوسٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ پختونوں کو اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا دیا گیا۔ فوج کی طرف سے وسائل کا استحصال اور مقامی لوگوں کو ترقی سے محروم رکھنا ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ لگتا ہے۔ پختون قوم پر پاکستانی فوج کے مظالم ناقابلِ برداشت ہیں۔ یہ وقت ہے کہ پاکستانی ریاست اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ پختونوں کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں، جبری گمشدگیاں بند کی جائیں، اور فوجی آپریشنز کے نام پر عام شہریوں پر ظلم روکا جائے۔ پختون قوم کوئی کمزور قوم نہیں؛ یہ ایک ایسی قوم ہے جو اپنی عزت اور آزادی کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ اگر پاکستانی فوج سمجھتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زور پر اس قوم کی آواز کو دبا سکتی ہے، تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ پختونوں کا غصہ اب ایک چیخ بن چکا ہے، اور یہ چیخ اب پوری دنیا سن رہی ہے۔ انصاف مانگنا کوئی جرم نہیں، اور پختون قوم اپنا حق لے کر رہے گی