
23/07/2025
آزاد ریاست جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کی یونین کونسل انوہی سرہوٹہ کے گاؤں جرائی سیداں کے مکین آج بھی سولہویں صدی میں جی رہے ہیں
آج اکیسویں صدی میں بھی پختہ سڑک جیسی بنیادی سہولت سے محروم *
آخر کیوں
کسرساوہ کے نواحی علاقے *جرائی سیداں* کے مکین آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، لیکن جرائی سیداں کے باسی *لنک روڈ* جیسی بنیادی سہولت کے لیے ترس رہے ہیں۔
تھوڑی سے بارش سے نقل و حمل بند تاجر حضرات سکول کے طالب علم دیگر ضروریات زندگی کیلئے چلنے والی ٹریفک تو ٹریفک پیدل چلنا بھی محال ہو جاتا ہے۔
*سرساوہ-سہنسہ پنڈی روڈ* سے نکلنے والی لنک روڈ جو ۲۰۰۰ میں اپنی مدد آپ اور جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے کی امداد سے کرنوٹی تا جرائ راجہ رزاق مرحوم اور موجودہ یوسی چئیرمین راجہ محمد مشتاق نواز نے ذاتی کاوش سے نکلوائ تھی جو بعد ازاں راجہ نصیر احمد کے دور حکومت میں پکی ہوئ اور کرنوٹی جرائ ندی پہ پل بھی راجہ صاحب کے ہی دور اقتدار میں لگا۔ *کرنوٹی* تک تو لنک روڈ کسی حد تک قابل استعمال ہے، لیکن اس کے بعد *جرائی سیداں* تک ایک کلومیٹر سے زائد راستہ مکمل طور پر خستہ حالی کا شکار ہے، جو ٹیچر عثمان کے بنائے جانے والے تالابوں کا منظر پیش کرتی ہے۔
مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کی مرمت کرتے رہتے ہیں، مگر یہ محض عارضی حل ہے۔
ہر بارش کے بعد ڈالی جانے والی مٹی بہہ جاتی ہے
انتخابی دنوں میں وعدے، جلسے اور دعوے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن انتخابات کے بعد علاقے کو مکمل طور پر فراموش کر دیا جاتا ہے۔
آخر ذمہ دار کون؟ وہ عوام جو ووٹ کے بدلے سڑک نہیں مانگتے؟ یا وہ رہنما جو ہر پانچ سال بعد پرانی کہانی نئے وعدوں سے دہراتے ہیں؟
گزشتہ ۲۵ سالوں میں جتنے سیاسی جلسے کیے گئے اور لیڈروں کو دعوتیں کھلائ گئ ان سب کا تخمینہ اگر لگایا جائے تو اس جیسی کئ سڑکیں مزید بھی بنائ جا سکتی تھیں لیکن ہم نے سیاسی لیڈروں کے آگے شاہدولے کے چوہوں کی طرح ناچنا اپنے لیے پسند کر رکھا ہے
*اہلِ علاقہ کا اس بار واضح موقف ہے
یکی نہیں بس روڈ پکی چاہیے
**