20/07/2025
وہ ڈیڑھ سال بعد اپنوں میں لوٹ رہی تھی ۔ چند جاننے والے جو زرک (احسان اللہ سمالانی) اور شیتل ( نور بانو ساتکزئی) کی محبت میں کی گئی شادی کا راز پا چکے تھے وہی تو عید الاضحی پہ دعوت دینے آئے تھے کہ سب گھر والے بے صبری سے ان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپنے میاں کے ساتھ عید پہ دیس لوٹی تو شیر باز ساتکزئی کی سرداری و سربراہی میں جرگا منتظر پایا جس نے اس پیار کی شادی میں انہیں قصور وار ٹھہرایا ۔ یہ انصاف ڈیگاری بلوچستان میں اس تکڑی میں تلا کہ جس کے بعد بھائی(جلال ساتکزئی) کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہ نہتی انیس مردوں کے درمیان ۔ ایک سکوت تھا کہ جس میں شیتل کی آواز بلند ہوئی کہ مجھے گولی سے مارنے کی سزا ہے میری بے حرمتی مت کرو ۔ میں نے نکاح کیا ہے زنا نہیں کیا ۔ یہ کہہ کے وہ مسکرائی اور اک شان بے نیازی سے قرآن مجید کو گواہ بنا کے آگے بڑھی ۔ نہ رحم کی التجا اور نہ جان بخشی کے لئے کوئی دلیل ۔ نہ آہ ، نہ پکار ۔ آسمان کی طرف دیکھا مگر ساری کائنات گنگ پائی اور جان گئی کہ آج اک طرف موت ہے تو دوسری طرف خاندانی روایات ۔ یہ غیرت کا کھیل تو نجانے کب سے اس علاقے میں یونہی جاری تھا اور وہ اپنا انجام جانتی تھی سو اپنی محبت جھوٹی انا کے نام وارتی چلی گئی ۔ غالباً تیسری گولی کھا کے وہ نیچے گری تو مارنے والوں کا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا ۔ گری نور بانو پہ اور گولیاں چلائی گئیں کہ جب تک وہ ساکت نہیں ہو گئی ۔ جونہی بدن کی رکی جنبش نے روح کے پرواز کر جانے کا مژدہ سنایا تو غیرت مند مردوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی کہ ایک اور محبت میں مرضی سے نکاح کرنے والی بغاوت کے جرم میں غیرت کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے ۔ سانسیں شیتل اور زرک کی نہیں رکیں بلکہ وہ تو زندہ جاوید ہو گئے مگر انسانیت کو درگور کر گئے ۔
نور بانو اور احسان اللہ کی آنکھوں میں موجود سوال شاید میں ہی پوچھنے کی جرات و جسارت کرتا ہوں کہ اے رب ذوالجلال کب تک تیری رحمت جوش میں آئے گی۔ کیونکہ وہی تو بے آسرا کا ایک سہارا ہوتی ہے ورنہ تو آدم کے دل سے تو نے رحم اور عفو درگزر کے اوصاف ہی ناپید کر دئیے ہیں۔
بلوچستان میں سردار اپنے ہمجولی سردار شیر باز ساتکزئی کی گرفتاری پہ احتجاج کرتے ہوئے مذمت کر رہے ہیں اور جبکہ عدالت نے بھی تو دو دن کا ریمانڈ دیا ہے تاکہ جب تک یہ واقعہ زبان زد عام ہے تو سنگینی کا رنگ جما لیا جائے اور جب اس سب پہ گرد بیٹھ جائے تو پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں کیونکہ یہی میرے بلوچستان کے عوام کی تقدیر ہے اور یہی قسمتوں کا لکھا ہے ۔ سو اک صبر ہے جو مشیت ایزدی کے سامنے گڑگڑا رہا ہے کہ اب بس ۔۔۔۔