30/11/2025
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم حقوق کی بات تو بہت کرتے ہیں، مگر دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر شاید ہی کبھی سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ ہم اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، عدالتوں، دفاتر اور سوشل میڈیا تک میں اپنی محرومیوں کا نوحہ سناتے ہیں، لیکن جب بات ان حقوق کی آتی ہے جو ہم نے خود دوسروں سے چھین رکھے ہیں تو اچانک ہماری زبانیں گنگ اور ضمیر خاموش ہوجاتا ہے۔
یہ رویہ کوئی آج کا پیدا شدہ نہیں۔ ہمارے گھروں، خاندانوں اور برادریوں میں یہ ظلم صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ سب سے بڑا اور واضح ظلم بیٹیوں اور بہنوں کے حقِ وراثت سے انکار ہے۔ ہمارے بڑے بوڑھے، جنہیں ہم عزت اور تقدس کی نظر سے دیکھتے ہیں، اکثر اسی روایت کے امین نکلتے ہیں۔ کہیں دادا نے اپنی بیٹیوں کو ترکہ سے محروم کیا، کہیں باپ نے اپنی بہنوں کا حصہ نہیں دیا، کہیں بھائیوں نے بہنوں کو محض “رواج” کے نام پر دھتکار دیا۔ اور افسوس یہ ہے کہ اگلی نسلیں اس ظلم کو غلط سمجھنے کے بجائے فخر سے روایت سمجھ کر دہراتی رہیں۔
نتیجہ یہ کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے گھروں میں پلے بڑھے جہاں ہماری نانیاں، دادیاں، پھوپھیاں اور خالائیں اپنے جائز حق کے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کا دکھ یہ تھا کہ انہیں اپنا وہ حصہ کبھی نہ ملا جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیا تھا۔ ان کے بیٹوں نے بھی وہی روش اختیار کی۔ پھر پوتوں اور نواسوں نے بھی اسے “رواج” کا نام دے کر اپنا لیا۔
یوں حقوق غصب کرنے کی یہ زنجیر ٹوٹنے کے بجائے مضبوط ہوتی چلی گئی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے میراث کا حصہ کسی انسان کی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ یہ حق اللہ نے خود مقرر کیا ہے، لہٰذا اسے چھین لینا یا روک لینا صرف معاشرتی زیادتی نہیں بلکہ شرعی اور اخلاقی جرم ہے۔
بیٹیوں کے حصے کو “چلو چھوڑ دو، تمہیں تو ہم نے جہیز دیا تھا” جیسے جملوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنا حقیقت میں اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ جہیز میراث کا متبادل نہیں ہوتا، اور بہنیں صرف اس لیے محروم نہیں کی جاسکتیں کہ وہ شادی شدہ ہیں یا “گھر سے رخصت ہوچکی ہیں”۔
المیہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں انصاف، قانون اور حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہمارا انصاف دم توڑ دیتا ہے۔ ہم دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں، مگر اپنے ہی خاندان میں چلنے والے ظلم کو روایت کا لبادہ اوڑھا کر چھپا دیتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ایمانداری سے اپنے ضمیر سے پوچھ سکیں کہ کیا انہوں نے اپنی بہن، پھوپھی، خالہ یا بیٹی کو پورا حق دیا ہے؟
اکثر خاندانوں میں اس سوال کا جواب خاموشی اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس نسل در نسل جاری ظلم کی زنجیر کو توڑا جائے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر پچھلی نسلوں نے غلطی کی تھی تو ہم ان کی غلطیاں دہرا کر بہتر ثابت نہیں ہوسکتے۔
اصلاح ہمیشہ وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں کوئی فرد حق کو پہچان لے، ظلم کو ظلم کہنے کی ہمت کرے اور پہلی بار انصاف کی بنیاد رکھے۔
جو لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا حق دیتے ہیں، وہ صرف ایک فرد پر احسان نہیں کرتے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے عدل کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اور جو لوگ یہ حق ادا نہیں کرتے، وہ صرف ایک گناہ ہی نہیں، ایک روایتِ ظلم کو مضبوط کرتے ہیں۔
معاشرہ اسی دن بدلے گا جب ہم یہ سمجھنے لگیں گے کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے سے پہلے دوسروں کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔
اور وہ دن واقعی انصاف کا دن ہوگا جب ہر بیٹی، ہر بہن اور ہر خاتون اپنے حصے کی مالک بن سکے گی—وہ حصہ جو اللہ نے اس کے لیے لکھا ہے، جو کسی روایت یا مردانہ انا سے کم نہیں کیا جاسکتا۔
اگر ہم یہ قدم آج اٹھائیں تو ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں ہمیں ظالم نہیں بلکہ منصف کے طور پر یاد کریں۔
مصنف کا نوٹ: " میں نے اس ظلم اور نا انصافی کو اپنے خاندان میں دیکھا ہے جو تا حال جاری ہے"
تحریر: خواجہ کبیر احمد
JKTV Jammu Kashmir TV