20/07/2025
ایران سیستان سے لے کر پڑوس کے افغان عرب امارات سے ہوتے بلوچستان سندھ تک میں پانچ کروڑ سے زیادہ بلوچ آباد ہیں.
ان میں ہی شیتل اور اسکا شوہر ثناء اللہ بھی تھے. وہ جنہوں نے موت کے سامنے نہ سر جھکایا نہ زندگی کی بھیک مانگی. بہت بہادری سے یہ فانی زندگی چھوڑ کر چلے گئے. پیچھے مارنے والے رے گئے. یا اس واقعہ پر گواہ بنتی دنیا رے گئی.
ہمارے معاشرے میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جو کسی ایک قوم کو گالی دے کر یا ان کو معتوب کر کے دل کی بھڑاس نکال لی جائے. آپ نے بلوچ غیرت و بہادری دیکھنی ہے تو شیتل کو موت کے سامنے وقار سے چلتے دیکھ لیں. یہی غیرت کہلاتی ہے. نہتے لوگوں کو مارنے والے جاہلوں کی وجہ سے پانچ کروڑ بلوچوں کی نسلی توہین نہ کریں.
ہمارا معاشرہ بڑی بڑی باتوں کا دعویدار ہے. مثلاً ہم کہتے ہیں یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے. افسوس یہاں اسلام ہماری زندگی میں نظر نہیں آتا. ہم کہتے ہیں ہم سب بہت غیرت مند ہیں لیکن ظالم کے سامنے ہر مظلوم کو ہمیشہ اپنا آپ تنہا ہی نظر آتا ہے. یہاں بیچ بازار لوٹ مار ہو رہی ہوتی ہے ظلم ہو رہا ہوتا ہے دیکھنے والے نظریں چرا کر نکل جاتے ہیں.
یہی سچ ہے. اور اسی سچائی کا تماشہ ہم سب بنے ہوئے ہیں. شیتل اور اس کے شوہر نے تو ہمیں بلوچ غیرت اور وفا دکھا دی اب ان جاہلوں کا حساب معاشرہ کب کرے گا.؟ کیونکہ معاشرے کی غیرت یہاں ہی نظر آئے گی.
ریاض علی خٹک