02/09/2025
اونٹ کٹارا
Milk Thistle
جگر کے لئے آب حیات
یرقان، لیور سروہسز، فیٹی لیور، ہیپاٹائٹس
یہ ہربل دوا ہے جو جگر کے سروسز
(liver cirrhosis)
ہیپاٹائٹس اور جگر کے دوسرے شدید سنجیدہ نوعیت کے امراض کے لئے بہت مفید ہے۔ لیور سروہسز میں جگر سکڑ کر سخت ہو جاتا ہے اور سمجھئے کہ یہ مرض کی آخری اسٹیج ہوتی ہے۔ اکثر بہت زیادہ عادی شرابیوں کو یہ مرض ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ بوٹی منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ یہ کانٹوں دار جھاڑی ہے جس کا پھل اونٹ بہت رغبت سے کھاتا ہے اس لئے اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کانٹوں دار جھاڑی نما پودا ہے جو خشک اور ریگستانی علاقوں میں بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ اس پر بہت خوبصورت جامنی رنگ کے پھول لگتے ہیں. اس کے زرد اور سفید پھول بھی ہوتے ہیں۔
یہ جڑی بوٹی سندھ سے لے کر پنجاب اور خیبرپختونخوا تک روڈ سائیڈ پر اور گندم کی فصل کے درمیان اور سائیڈوں پر بے حساب پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ اس کو بیکار جڑی بوٹی سمجھ کر اکھاڑ پھینکتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکیم و طبیب اس کو صرف قوت باہ اور طلاء وغیرہ بنانے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اونٹ کٹارا تقریباً 2000 سال سے جگر اور پِتے کی مختلف بیماریوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ اونٹ کٹارا کا موثر جز سیلی می رین
(Silymarin) اس کے بیجوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اونٹ کٹارا کی دوائیں یورپ اور امریکہ میں جگر کی مختلف بیماریوں کے علاج کیلئے بہت پاپولر ہیں۔ مِلک تھسل کے خلاصے کے کیپسول امریکہ اور یورپ سے بڑی مقدار میں درامد ہوتے ہیں جو اچھے بڑے ڈرگ سٹورز اور ڈپارٹمنٹل سٹورز پر دستیاب ہیں۔ ملک تھسل کی وجہ تسمیہ
اس کا انگریزی نام پتوں کی ایک خصوصیت سے اخذ کیا گیا ہے جن پر سفید رنگ کے چھینٹے سے پڑے ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر، ان دودھیا چھینٹوں کو مدر مریم کا دودھ کہا جاتا تھا، اور یہ سینٹ میری تھیسٹل کے نام سے بھی مشہور تھا۔
معروف طبیب جناب محمود بھٹہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”میری نظروں میں اس دور میں تین دواؤں کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ دوائیں تو کچھ اور بھی ہیں لیکن تین اہم نباتات ہیں جن میں ایک اونٹ کٹارا ہے۔ اونٹ کٹارا اس وقت پوری دنیا میں ہر شہر میں باآسانی دستیاب ہے۔ ہربل اور نیچرل دوائیں جہاں بھی دستیاب ہیں وہاں اونٹ کٹارا لازماً دستیاب ہے۔ کچھ اسلامی ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا میں شراب پینے پر تو پابندی نہیں ہے، جو لوگ اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں یا جن کا روانہ کا معمول الکوحل ہے تو ان کے جسم میں ایک علامت پیدا ہوتی ہے جسے ہم اپنی زبان میں بادی کہہ سکتے ہیں جبکہ یورپین اسے (اوک) کا نام دیتے ہیں۔ یہ جگر کا فعل خراب ہونے سے ہوتی ہے یعنی ان کا جگر نہایت ہی سست ہو جایا کرتا ہے۔ اپنا فعل سرانجام دینے سے معذور ہو جاتا ہے، بدن میں تعفن، سستی خمیر کی زیادتی، خارش، غذا کا ہضم ہونے سے انکار عام ہو جاتا ہے اور جگر سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان علامات نمٹنے کے لئے وہ ہفتہ دس روز بعد وہ ایک جوشاندہ یا چائے لازماً پیتے ہیں۔ جبکہ روسی لوگ ہر تیسرے روز اسے پینا صحت کے لیے نہایت مفید سمجھتے ہیں اور یہ چائے اونٹ کٹارا کے پھول ہوتے ہیں
ہیپاٹائٹس:
جگر ہمارے جسم کا ایک انتہائ اہم عضو ہے۔ سچ پوچھئے تو انسان کی تمام تر صحت و تندرستی کا دار و مدار جگر پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارا جگر ایک کیمیکل فیکٹری ہے، جس میں پانچ سو سے زائد کیمیکل بنتے ہیں، جو ہمارے جسم کی صحت کے ضامن ہیں۔ اگر جگر میں خرابی ہو جائے تو اس کا سب سے پہلا اثر انسان کے رنگ روپ پر پڑتا ہے۔ اچھے بھلے گورے گلابی آدمی کی جلد اور چہرہ مرجھا جاتے ہیں۔ رنگ سیاہ پڑنے لگتا ہے اور جسم کمزور ہونے لگتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق جگر کے جو امراض وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں ان کو ہیپاٹائٹس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اور ان کی اقسام میں ہیپاٹائٹس G,E,D,C,B,A شامل ہیں۔
زیادہ تر ہیپاٹائٹس C،B,A پائے جاتے ہیں
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہیپاٹائٹس A ترقی یافتہ ممالک کا مرض ہے۔ ہیپاٹائٹس B جنسی تعلقات سے پھیلتا ہے۔ اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسکے علاوہ ہیپاٹائٹس C کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور یہ بھی جگر کو ناقابل، تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس وائرس کس طرح جگر کو تباہ کرتے ہیں؟
جگر میں جب وائرس پہنچ جاتا ہے اور ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ زہریلے مرکبات خارج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ خارج شدہ زہریلے مرکبات انسانی جسم کو مختلف امراضِ جگر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جگر میں ورم پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں یہ زہریلے مادے سدوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر یہ سدے خارج نہ ہوں تو مرض پیچیدہ سے ہیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔
وائرس A کی وجہ سے مرض مختصر عرصہ کیلئے رہتا ہے اور یہ جلد ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ وائرس B اور C تمام زندگی انسانی جسم میں رہے سکتےہیں، جس سے جگر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ عام طور پر وائرس C کو ناقابلِ علاج مرض قرار دیا گیا ہے۔
امراضِ جگر میں عام طور پر مندرجہ ذیل علامات پا ئی جاتی ہیں۔
1 ۔تھکاوت کا زیادہ احساس، 2۔ یرقان، 3- سستی Lethargy,
4- جگر کے مقام پر سختی کا احساس, 5- جگر کی رنگت کا بدلنا
آنکھوں کی رنگت کا بدل جانا, 6- بھوک کم ہو جانا, 7- متلی اور قے کا رحجان
8 ۔ مقامِ جگر پر درد کا احساس, 9- جوڑوں کا درد اور معدہ کا ورم وغیرہ۔
جگر کے افعال
1 ۔ نظام ہضم میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
2 ۔ خون صالح پیدا کرنا۔
3 ۔ زہریلے مواد کو گردوں کی طرف بھیجنا
4 ۔ پِتے کی طرف صفرا کو دافع کرنا
5 ۔ تلی کی طرف سودا کے دافع کرنا
جگر کی اہمیت:
ہمارے جسم میں خون ہڈیوں کے گودے یعنی Bone marrow میں بنتا ہے مگر خون میں موجود تمام زہریلے مرکبات اور دیگر کیمیائی فضلہ اور آلودگیاں جگر میں ہی صاف ہوتی ہیں۔ یعنی صحت مند جگر خون صالح کی ضمانت ہے۔
آپ کا عام مشاہدہ ہو گا کہ ڈاکٹر حضرات مریض کا چیک اپ کرتے وقت زبان کا رنگ اور آنکھوں کی رنگت دیکھتے ہیں۔ اگر خون صالح پیدا نہیں ہو رہا ہوتا تو یہ جلد اور آنکھوں کی رنگت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً آنکھوں میں سفیدی کا آ جانا۔ آنکھوں میں سرخ ڈوروں کا غائب ہو جانا۔ آنکھوں میں زردی کا آ جانا۔ یہ تمام غلیظ خون یا خون کی کمی کی علامات ہیں اور ان کا تعلق جگر سے ہے۔
جگر کے مریض میں اوپر بیان کردہ علامات آہستہ آہستہ ظاہر ہونی شروع ہوتی ہیں۔ ان کے ظاہر ہونے میں 10 سال، 20سال، یا 30 سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔
جگر کے مرض میں مبتلا تقریباً 20٪ مریض سی روسس (Cirrhosis)کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے جگر اپنا کام سر انجام نہیں دے سکتا اور بعض حالات میں جگر کا کینسر ہو جاتاہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ کثرت سے شراب نوشی کرنے والے بالآخر جگر کے سروسز میں لازمی طور پر مبتلا ہو جاتے ہیں جس کو شرابی جگر کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔
فیٹی لیور:
فیٹی لیور موجودہ دور کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس میں جگر کے خلیات میں چربی یا کولسٹرول بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور کی آرام طلبی کی زندگی، مرغن اور چکنائی سے بھرپور کھانے، ٹن پیک فوڈ، پیدل چلنے اور ورزش سے پرہیز، ہر وقت بیٹھے رہ کر ٹی وی دیکھنا یا موبائل فون پر گھنٹوں گزارنا اور اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا فیٹی لیور کا باعث بنتا ہے۔ بلکہ اب تو سائنسدان اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ فیٹی لیور کا کوئی نہ کوئی تعلق ذیابیطس کے مرض سے بھی ہے کیونکہ ذیابیطس بھی لبلبے میں ایک خاص قسم کی چکنائی سیرامائڈ (ceramide) کے جمنے سے ہوتی ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ 80 فیصد موٹے افراد اور 70 فیصد ذیابیطس والے افراد کو فیٹی لیور کی بیماری ہوتی ہے۔ ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر کا تعلق بھی فیٹی لیور سے ہو سکتا ہے، حالانکہ فیٹی لیور ایسے نوجوانوں میں بھی پایا جا سکتا ہے جن میں ہائی بلڈ پریشر نہیں ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایلوپیتھی میڈیکل سائنس میں فیٹی لیور کا کوئی تسلی بخش علاج نہیں ہے جبکہ طب یونانی یا دیسی اور ایور ویدک میں فیٹی لیور کا شافی و کافی علاج موجود ہے۔ فیٹی لیور کی بیماری کی تشخیص جسمانی معائنہ، خون کے ٹیسٹ اور جگر کے امیجنگ اسٹڈیز جیسے کہ:
جگر کے فنکشن ٹیسٹ( LFT)
، سے کی جاسکتی ہے۔
الٹراساؤنڈ، سی ٹی یا ایم آر آئی اسکین بھی فیٹی لیور کو ظاہر کر سکتا ہے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس:
پاکستان میں آلودہ پانی، غذائی اشیاء میں ملاوٹ اور انتہائی گندے ماحول میں تیار کردہ کھانے پینے کی اشیاء، اس کے علاوہ برائلر مرغی کے گوشت میں موجود سنکھیا کی مقدار، زیر زمین پانی میں موجود سنکھیا اور دوسرے زہریلے مرکبات انسانی جگر کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو گا کہ جس کے جگر میں یہ زہریلے مرکبات جمع نہ ہوں۔ اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیماری ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیا جائے۔ کوئی ایسی غذا یا دوا جو روزانہ کی بنیاد پر جگر کو ان زہریلے مرکبات سے پاک کرتی رہے اور جگر کو فلش کرتی رہے۔ اس کے لئے اونٹ کٹارہ ایک انتہائی مفید بوٹی ہے
امراضِ جگر کا طبی علاج:
اونٹ کٹارا Milk Thistle
انسانوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اونٹ کٹارا کا موثر جز سیلی میرین (Silymarin) جگر کے مختلف امراض کیلئے انتہائی موثر دوا ہے جس میں لیور سورائیسس، کرانِک ہیپا ٹائٹس، الکحل اور کیمیائی استعمال سے متاثرہ جگر۔ حمل کے دوران بائل ڈک کی سوزش اور بائل نہ بننے کے امراض میں یہ بے حد مفید ہے۔
ایبٹ کی سلیور (Silliver):
اس دوا کی طبی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ کچھ عرصہ سے ایک بین الاقوامی فارما کمپنی ایبٹ لیبارٹریز ( abbott laboratories) نے بھی اس کے خلاصے پر مشتمل گولیاں بنانا شروع کر دی ہیں۔ پاکستان میں ایبٹ لیبارٹریز کی سیلیمیرین سلی ور (Silliver) کے نام سے دستیاب ہے جس کے استعمال سے آپ اپنے جگر کو نہ صرف صحتمند رکھ سکتے ہیں بلکہ جگر کی مہلک بیماریوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر سے مشورے کے بعد استعمال کیجئے۔ یہ دوا جگر کے زہریلے مادے جسم سے باہر نکال پھینکتی ہے اور بیمار جگر کے خلیات کی مرمت کرتی ہے۔ جگر کے کینسر میں یہ نئے خلیات پیدا کرتی ہے۔ عادی شرابی اور دیگر منشیات کا استعمال کرنے والوں کا جگر تباہ ہو جاتا ہے جس کے لے یہ دوا بہت مفید ہے۔ ذیابیطس، وائرس کا حملہ اور زہریلے مادوں کی موجودگی میں یہ انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ قدیم طبی نظریات کے مطابق اونٹ کٹارا کی دیگر خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
1 ۔ جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔
2 ۔طحال یعنی تلی اور جگر کیلئے عظیم نفع بخش ہے۔
3 ۔ بلغم اور باد کو ختم کرتا ہے
4 ۔ ہاضم ہے۔ صفراپیدا کرتاہے۔
5 ۔ بدن کوقوت دیتا ہے۔
6- ذیابیطس میں بھی مفید ہے
مقدار خوراک۔ اونٹ کٹارا کا ایکسٹریکٹ جس میں70٪ سیلی می رین ہو اس کی 100 سے 200 ملی گرام مقدار صبح دوپہر شام استعمال کروانی چاہئیے۔ بازار میں اسکی انگریزی کمپنیوں کی تیار کردہ دوائیں دستیاب ہیں۔ ایبٹ لیبارٹریز کی سلی ور (Silliver) ڈاکٹر کے مشورے سے۔
دیسی طریقہ:
تخم اونٹ کٹارہ جو پنساری کے پاس باآسانی دستیاب ہے کا سفوف۔ دو گرام صبح، دوپہر، شام
مزاج: گرم خشک درجہ دوم
استعمال: اونٹ کٹارا کے تخم، پتے اور جڑ کا چھلکا عموماً استعمال ہوتا ہے۔ تخم بھوک کی کمی کو دور کرنے کے علاوہ بدہضمی، یرقان، بھس، صفراوی مادوں اور یورک ایسڈ کو پیشاب اور اجابت کے ذریعے نکال دیتا ہے جڑ کا چھلکا ضعف باہ میں کافی استعمال کیا جاتا ہے۔ جڑ کا چھلکا بطور جوشاندہ بخار، سنگ گردہ، تقطیرالبول، مصفیٰ خون اور پیاس کم کرتا ہے۔ اس کی جڑ پان کی جڑ کے ساتھ کھانا کھانسی میں مفید ہے۔ اس کی جڑ اور سونف کو باریک پیس کر سر پر لیپ کرنا درد سر بارد میں مفید ہے۔ پِتے کے رس کو شہد کے ہمراہ دینا کھانسی اور دمہ میں مفید ہے۔
اونٹ کٹارا اور ہومیوپیتھی :Cardus marianus
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی اونٹ کٹارہ ہومیوپیتھی میں بھی امراض جگر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں اس کا نباتاتی نام
(cardus marianus) ہے اور اس کا مدر ٹنکچر استعمال کیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے دوست جناب فیصل کے بارے میں ایک پوسٹ لگائی تھی جس میں ان کو خواب میں ایک بزرگ نے جگر کے امراض کی ہومیو دوا عوام میں مفت تقسیم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ یہ وہی دوا (cardus marianus) ہے جو اونٹ کٹارا سے تیار کی جاتی ہے۔ ہومیو میں اس دوا کے مدر ٹنکچر کے دس سے پندرہ قطرے آدھا کپ پانی میں ملا کر دن میں دو سے تین بار لئے جاتے ہیں۔ کارڈیوس ماریانس (دودھ کی تھیسٹل) کیو، ہومیوپیتھک مدر ٹینچر بنیادی طور پر جگر، پورٹل سسٹم، ویریکوز وینس اور تلی اور دیگر اعضاء پر بھی کام کرتا ہے جہاں جگر بنیادی طور پر متاثر ہوتا ہے۔
ہومیو پیتھی میں یہ جگر کے امراض بشمول بڑھے ہوئے جگر، یرقان، قبض اور ہیمرج میں مددگار ہے۔ خاص طور پر جگر کی بیماری سے منسلک۔
یہ علاج جگر کے درد کو دور کرتا ہے۔ خونی بواسیر میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
ثنااللہ خان احسن
Sanaullah Khan Ahsan