15/11/2025
برطانیہ کا آخری داؤ:
مالیاتی مرکز کی یورپ سے امریکہ منتقلی
سنہ 1694 میں بینک آف انگلینڈ کے قیام کے ساتھ برطانیہ نے ایک نیا مالیاتی نظام قائم کیا جس نے رفتہ رفتہ لندن کو دنیا کی تجارت اور بینکاری کا مرکز بنا دیا۔ 1821 میں برطانیہ نے باضابطہ طور پر گولڈ اسٹینڈرڈ اپنایا۔ ایک صدی تک یہی نظام عالمی تجارت کی بنیاد رہا۔ لندن عالمی مالیاتی نظام کا دل بن گیا، پاؤنڈ اسٹرلنگ عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر ابھرا۔ لیکن 1914 میں پہلی عالمی جنگ نے یہ بنیادیں ہلا دیں۔ جنگ کے اخراجات نے خزانے خالی کر دیے، سونے کے بہاؤ کو روکنا پڑا، اور برطانیہ کو گولڈ اسٹینڈرڈ ترک کرنا پڑا۔ یورپ قرضوں اور تباہی میں ڈوب گیا، اور عالمی مالیاتی نظام بے سمت ہو گیا۔ یہ کہانی بینکرز کی ایمپائر کے دارالحکومت کو لندن سے نیویارک منتقل کرنے کی ہے جس میں برٹش سیاسی اشرافیہ نے لندن کی طاقت قائم رکھنے کی آخری کوشش 1925 میں کی تھی۔
بینک آف انگلینڈ سے شروع ہوا یہ قصہ فیڈرل ریزرو کے قیام تک پہنچتا ہے۔ چلئے اسے 1694 میں بینک آف انگلینڈ کی تشکیل سے شروع کرتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کی تشکیل کوئی سرکاری اقدام نہیں تھا بلکہ 1,268 امیر تاجروں اور بینکاروں کا ایک نجی معاہدہ تھا، جنہوں نے حکومت کو 1.2 ملین پاؤنڈ قرض دے کر یہ حق حاصل کیا کہ وہ نوٹ جاری کر سکیں۔ اس گروہ میں سر جیمز بیٹمن جیسے نام شامل تھے، مگر حقیقی طاقت سیموئل ہنری، جیمز ہوگ اور کرسچن کالن جیسے بینکاروں کے ہاتھ میں تھی۔ بینک آف انگلینڈ کے پہلے 25 ڈائریکٹرز میں سے 22 پرائیویٹ بینکرز تھے اور باقی تین مختلف ٹائیٹل لے کر بورڈ میں بیٹھے تھے مگر وہ بھی بینکرز ہی کے لوگ تھے۔ ان میں سے، سر جان ہوبلن، جو پہلا گورنر بنا، رسمی طور پر تو تاجر کہلاتا تھا مگر درحقیقت وہ لندن کا سب سے بڑا پرائیویٹ بینکر تھا جس کا خاندان ہوبلن، پارسنز اینڈ کمپنی نامی بینک چلاتا تھا۔ تھامس کیوری کو سیاست دان ظاہر کیا جاتا ہے مگر وہ دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر جیمز ہوگ کے مفادات کی نمائندگی کرتا تھا۔ اور ولیم ڈیوس، جسے بظاہر سرکاری ریگولیٹر دکھایا گیا تھا، درحقیقت سر جیمز بیٹمن جیسے بڑے سرمایہ کاروں کو سونے کی مارکیٹ کنٹرول کرنے میں مدد دیتا تھا۔ یہ تمام 25 افراد بینک کے شیئر ہولڈرز بھی تھے جنہیں کم از کم پانچ ہزار پاؤنڈ کی خطیر سرمایہ کاری کرنی پڑی تھی، جو آج کے تقریباً بارہ لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔ ان میں سے اٹھارہ ڈائریکٹرز کے خاندان 1700 تک اپنے نجی بینک قائم کر چکے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس بورڈ میں کوئی بھی سرکاری افسر شامل نہیں تھا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ ادارہ سرکاری نگرانی سے مکمل آزاد تھا۔ پروفیسر ایڈم ٹوز کے الفاظ میں، بینک آف انگلینڈ درحقیقت ایک نجی کلب تھا جسے سرکاری مراعات حاصل تھیں، اور اس کی خودمختاری کا مقصد سیاست سے علیحدگی نہیں بلکہ اشرافیہ کے سرمائے کا تحفظ تھا۔ یہی ماڈل بعد میں فیڈرل ریزرو کے قیام میں استعمال کیا گیا۔
انیسویں صدی میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے دور میں یہ طاقت چند خاندانوں تک مرتکز ہو گئی۔ روتھسچائلڈز نے یورپ بھر میں سونے کی آمد و رفت کو کنٹرول کیا، بارنگز خاندان بینک آف انگلینڈ کا قریبی ساتھی بنا، اور واربرگ اور کالن جیسے خاندانوں نے براعظموں کے درمیان تجارت اور سونے کی اسمگلنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک کارٹیل تھا جس میں یہ خاندان نجی ملاقاتیں کر کے سود کی شرحیں اور سونے کی circulation کا فیصلہ کرتے تھے۔
جب انیسویں صدی کے آخر میں امریکہ اور جرمنی کی صنعتی طاقت ابھری تو بینکر اشرافیہ نے محسوس کر لیا کہ برطانیہ کی بالادستی ختم ہو رہی ہے۔ اس موقع پر ہیمبرگ کے واربرگ خاندان نے پال واربرگ کو امریکہ بھیجا، جو وہاں جے پی مورگن اور فرینک وینڈرلپ جیسے بینکرز سے جا ملے۔ انہوں نے مل کر فیڈرل ریزرو کا ماڈل تیار کیا، جو درحقیقت بینک آف انگلینڈ اور جرمن رائشس بینک کا مرکب تھا۔ پال واربرگ، مورگن، اور یوجین روتھسچائلڈ جیسے افراد نے مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دیا جو بظاہر سرکاری تھا مگر درحقیقت پرائیویٹ بینکرز کے کنٹرول میں تھا۔
پہلی جنگ عظیم نے طاقت کی اس منتقلی کو حتمی شکل دے دی۔ جب برطانیہ نے 1914 میں گولڈ اسٹینڈرڈ چھوڑا تو لندن کی مالیاتی مرکزیت ختم ہو گئی، اور نیویارک فیڈ(FED) پہلے ہی سے ایک مکمل تیار ڈھانچے کے ساتھ اس کی جگہ لینے کو تیار تھا۔ مورگن بینک نے محض دو ماہ میں 500 ملین ڈالر کے قرضے جاری کیے، جبکہ لندن کے بینک بند ہو چکے تھے۔ پال واربرگ نے خود 1916 میں لکھا کہ "عالمی مالیات کا مرکز لندن سے نیویارک منتقل ہو چکا ہے اور یہ کبھی واپس نہیں لوٹے گا۔"
اس سارے عمل میں مورگن، واربرگ، روتھسچائلڈ اور کالن جیسے خاندانوں کا ایک گہرا نیٹ ورک کارفرما تھا، جنہوں نے ہر دور میں مالیاتی نظام کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مالیاتی طاقت کو نیویارک منتقل کرنے کا بندوبست پہلے سے کیا جا چکا تھا جہاں بینکرز نے ورلڈ وار ون شروع ہونے سے صرف ایک سال پہلے اپنا نظام قائم کر لیا تھا۔
بینکرز ہی کی مدد سے برطانیہ ورلڈ وار ون میں فاتح رہا۔ جنگ کے بعد برطانیہ کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر سے مالیاتی سپر پاور بننے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ لندن کو دوبارہ عالمی مالی مرکز بنانے کی آخری کوشش 1925 میں وزیرِ خزانہ ونسٹن چرچل نے کی۔ چرچل نے اعلان کیا کہ برطانیہ دوبارہ گولڈ اسٹینڈرڈ پر واپس جائے گا اور پاؤنڈ کو وہی پرانی قدر دی جائے گی جو جنگ سے پہلے تھی، یعنی ایک پاؤنڈ کے بدلے 4.86 ڈالر۔ یہ فیصلہ کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کی آخری کوشش تھی مگر حقیقت میں ایک فاش معاشی غلطی ثابت ہوا۔ جنگ سے کمزور ہوئی برطانوی معیشت اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ برآمدات مہنگی ہو گئیں، صنعتوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ رہی، مزدوروں کی اجرتیں کم ہوئیں اور بے روزگاری بڑھ گئی۔ ماہرِ معیشت جان مینارڈ کینز نے اس فیصلے کو “معاشی خودکشی” قرار دیا، مگر چرچل کے نزدیک مسئلہ وقار کا تھا، معیشت کا نہیں۔
کینز کی پیش گوئی درست نکلی۔ 1931 میں جب عالمی بینکنگ بحران شروع ہوا تو جرمنی کے بڑے بینک بند ہو گئے اور سرمایہ کاروں نے سونا نکالنا شروع کر دیا۔ برطانیہ کے خزانے سے سونا تیزی سے باہر جانے لگا، یہاں تک کہ حکومت کے پاس اپنی کرنسی کی ضمانت دینے کے لیے سونا باقی نہ رہا۔ ستمبر 1931 میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ پاؤنڈ اب سونے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اعلان برطانیہ کے سپر پاور اسٹیٹس کے خاتمے کا اعتراف تھا۔ برطانیہ کے بعد زیادہ تر یورپی ممالک نے بھی سونا چھوڑ دیا، اور جو چند ممالک آخر تک گولڈ اسٹینڈرڈ سے وابستہ رہے وہ مزید گہرے بحران میں پھنس گئے۔
دوسری طرف امریکی معیشت بھی 1929 کے اسٹاک مارکیٹ کریش سے تباہ ہو چکی تھی۔ بینک دیوالیہ ہو رہے تھے، لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، اور کسان زمینیں بیچنے پر مجبور تھے۔ 1933 میں صدر فرینکلن روزویلٹ نے نجی افراد کے لیے سونا رکھنے پر پابندی لگائی، سونا واپس منگوایا اور ڈالر کی قدر کم کر دی۔ اس قسم کی فیصلہ کن ریاستی مداخلت نے امریکہ کو بحران سے نکال کر عالمی مالیاتی لیڈر بننے میں مدد کی۔
برطانیہ نے اپنی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنی نوآبادیوں کو “اسٹرلنگ بلاک” میں باندھ لیا تاکہ تجارت پاؤنڈ میں جاری رہے۔ امریکہ نے اپنی کرنسی کو زیادہ flexible بنایا اور بین الاقوامی لین دین کا مرکز ڈالر بن گیا۔ اس دور میں دنیا تین زونز میں تقسیم ہو چکی تھی، ڈالر زون، اسٹرلنگ زون اور گولڈ زون، مگر ان میں سے صرف ڈالر زون ہی بچ پایا۔
سنہ 1929 کے مالیاتی بحران میں بینکرز کا کردار نہایت متنازع اور فیصلہ کن تھا۔ بحران سے پہلے کے برسوں میں وال اسٹریٹ کے بڑے بینکرز اور انویسٹمنٹ ہاؤسز نے عوام میں اسٹاک مارکیٹ کے بارے میں میڈیا پروپیگنڈہ سے ایک غیر حقیقی جوش پیدا کیا۔ شرح سود کم کر کے آسان قرضوں کا راستہ کھولا گیا۔ قیاس آرائی (speculation) کو ہوا دی گئی اور سٹاک مارکیٹ میں ایک مصنوعی بلبلہ بن گیا۔ جے پی مورگن اور دیگر بڑے بینکرز کے گروپوں نے اسٹاک کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے منظم پول آپریشنز کیے۔ مگر جیسے ہی گراوٹ کی ابتدائی علامات ظاہر ہوئیں، ان بینکرز نے خاموشی سے اپنی سرمایہ کاری نکالنا شروع کر دی، جبکہ عوام کو مزید سرمایہ لگانے کے لیے اُکساتے رہے۔ جب آخرکار مارکیٹ کریش ہوئی، تو فیڈرل ریزرو نے سخت مانیٹری پالیسی اپنائی، سود کی شرحیں بڑھائیں اور کرنسی کی رسد کم کر دی، جس سے کساد بازاری مزید گہری ہو گئی۔ بینکوں نے قرضے واپس مانگ لئے، ہزاروں بینک دیوالیہ ہو گئے، اور کروڑوں عام شہری برباد ہو گئے۔ بینکرز نے اسٹاک مارکیٹ کو مصنوعی طور پر اوپر لے جا کے نفع کمایا اور پھر نیچے گرا کردوبارہ نفع کمایا۔ اس کے بعد جب ان بینکرز کے طریقہ کار کے خلاف اصلاحات کی گئیں تو ان اصلاحات نے فیڈرل ریزرو کو مضبوط کیا جس سے یہ بینکرز اور مضبوط ہوئے۔
اس بحران کے بعد، سونا جو کبھی استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا اب ایک رکاوٹ بن چکا تھا۔ برطانیہ نے اگرچہ خود سونا چھوڑ دیا مگر اپنی کالونیز، خاص طور پر ہندوستان، کو سونے سے منسلک رکھا تاکہ اپنی مالی مشکلات کا بوجھ وہاں منتقل کر سکے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان سے 1926 سے 1931 کے درمیان 245 ٹن سونا برطانوی بینکوں میں منتقل کیا گیا، جو آج کے 17 ارب ڈالر کے برابر ہے، جبکہ ہندوستانی روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بلند رکھا گیا جس سے ہندوستانی برآمدات مہنگی ہو گئیں اور مقامی صنعتیں تباہ ہو گئیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے آرکائیوز کے مطابق اس دوران ہندوستان کی کپاس کی برآمدات میں 62 فیصد کمی آئی اور 4.3 ملین سے زیادہ دستکار بے روزگار ہوئے۔ ماہر معاشیات مارٹن ڈیوینٹن کے تخمینے کے مطابق برطانوی مالیاتی پالیسیوں نے ہر سال ہندوستان کی جی ڈی پی کا 3 سے 4 فیصد حصہ نکال لیا، جبکہ مائیک ڈیوس کی کتاب "لیٹ وکٹورین ہالوکاسٹس" کے مطابق 1931-32 میں ہندوستان سے 6 ملین ٹن اناج کی برآمد نے قحط کی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ یہ سارا نظام درحقیقت لندن کے مالیاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، جس کا مقصد ہندوستان کے سونے کے ذخائر کو برطانیہ کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔
اس بحران کے بعد ایک نیا اقتصادی نظریہ مقبول ہوا کہ معیشت خودبخود نہیں چل سکتی بلکہ توازن قائم رکھنے کیلئے حکومت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور عوامی روزگار کو ترجیح دینا پڑتی ہے۔
راجہ مبین اللہ خان۔