30/01/2025
یہ ایک ہولناک سانحہ تھا جو امریکہ کی فضاؤں میں پیش آیا۔ واشنگٹن ڈی سی کے قریب رونالڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران امریکن ایئرلائنز کے ایک طیارے کی امریکی فوج کے ہیلی کاپٹر سے ٹکر ہو گئی، جس کے نتیجے میں کم از کم 28 لاشیں دریا پوٹومیک سے برآمد ہو چکی ہیں، جبکہ دیگر لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
یہ بدترین فضائی حادثہ ہو سکتا ہے، کیونکہ حکام کو اب تک کسی کے زندہ بچنے کی امید نہیں ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے فائر چیف، جان ڈونلی نے پریس کانفرنس میں کہا:
"اس وقت ہمیں کسی بھی مسافر کے زندہ بچ جانے کی امید نہیں۔ ہم اب ریسکیو آپریشن سے ریکوری آپریشن کی طرف جا رہے ہیں۔"
طیارے کا ملبہ تین حصوں میں تقسیم ہو کر الٹا پانی میں پڑا ہوا ملا، جبکہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ بھی جائے حادثہ کے قریب برآمد ہوا۔ حکام کے مطابق حادثے کے وقت موسم صاف تھا، جب وچیٹا، کنساس سے روانہ ہونے والا یہ جیٹ معمول کے مطابق لینڈنگ کر رہا تھا کہ اچانک فوجی ہیلی کاپٹر اس کے راستے میں آ گیا۔
المناک لمحے
رونالڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ کی ٹرمینل اسکرینوں پر ہنگامی الرٹ کے پیغامات نمایاں تھے، جبکہ پورے علاقے میں سائرن بج رہے تھے۔ حادثے کے بعد ایئرپورٹ پر تمام پروازوں کی آمد و رفت فوری طور پر معطل کر دی گئی، جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہیلی کاپٹرز جائے حادثہ پر بچ جانے والوں کی تلاش میں گشت کرتے رہے۔
امریکی ٹرانسپورٹ سیکرٹری، شان ڈفی نے تصدیق کی کہ حادثے سے قبل طیارہ اور ہیلی کاپٹر دونوں ایک "معمول کے فلائٹ پیٹرن" میں تھے، لیکن اچانک طیارے کا فیوزلاج الٹ کر پانی میں جا گرا۔
امریکی فوج کے حکام نے بیان میں بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر بلیک ہاک ماڈل کا تھا، جس میں تین فوجی سوار تھے اور یہ ایک تربیتی پرواز پر تھا۔ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق یہ تصادم مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجے ہوا، جب علاقائی جیٹ نے لینڈنگ کے دوران ہیلی کاپٹر سے ٹکرائی۔
آئرلینڈ میں سوگ کی فضا
یہ حادثہ نہ صرف امریکہ بلکہ آئرلینڈ میں بھی دکھ اور افسوس کی لہر دوڑا چکا ہے۔ آئرلینڈ میں مقیم کئی شہریوں کے رشتہ دار اس پرواز میں سوار تھے، جن کی خیریت جاننے کے لیے لوگ بےچینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ڈبلن اور کورک ایئرپورٹس پر بھی اس حادثے پر تعزیتی پیغامات دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ حادثہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جدید فضائی سفر میں معمولی سی غلطی کتنی بڑی تباہی لا سکتی ہے۔ حادثے کی مکمل تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے، جبکہ امریکہ میں فضائی اور فوجی حکام کسی بھی انسانی یا تکنیکی غلطی کے پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔