Media Scan

Media Scan Media Scan English Monthly Magazine
Bangalore, India
'' In Pursuit of Truth''
http://mediascanenglish.blogspot.com

21/08/2025
مدرسہ بورڈ کی سو سالہ تقریب: تعلیم کا جشن یا سیاست کا کھیل؟پٹنہ (نمائندہ خصوصی):بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی سو سال...
21/08/2025

مدرسہ بورڈ کی سو سالہ تقریب: تعلیم کا جشن یا سیاست کا کھیل؟

پٹنہ (نمائندہ خصوصی):
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی سو سالہ تقریب، جسے تعلیمی تاریخ کا ایک روشن باب ہونا چاہیے تھا، چیئرمین سلیم پرویز کی بدانتظامی اور سیاسی کھیل تماشے کی وجہ سے تنازع کا شکار ہو گئی۔
بدانتظامی اور افرا تفری
وزیرِاعلیٰ نتیش کمار کی موجودگی میں سامعین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، جس سے تقریب کا پورا ماحول بگڑ گیا۔ یہ بدنظمی اس بات کا ثبوت تھی کہ تقریب کی تیاری میں سنجیدگی اور منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔ شرکاء کے مطابق چیئرمین سلیم پرویز نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
دہرا کھیل: مدرسہ تقریب یا الپسنکھیک سمواد؟
یہ بھی انکشاف ہوا کہ جس تقریب کو عوامی طور پر "مدرسہ بورڈ کی سو سالہ تقریب" بتایا گیا، درحقیقت اسے جے ڈی یو کا "الپسنکھیک سمواد" قرار دیا گیا۔
مسلمانوں کو لالچ دیا گیا کہ مدارس کے مسائل حل ہوں گے، جبکہ پارٹی کے اراکین کو یقین دلایا گیا کہ یہ جے ڈی یو کا سیاسی پروگرام ہے۔ اس تضاد نے چیئرمین سلیم پرویز کے دہرے چہرے کو سب کے سامنے عیاں کر دیا۔
ٹوپی تنازع: نتیش کمار اور زماں خاں
تقریب کا سب سے متنازع لمحہ اُس وقت آیا جب وزیرِاعلیٰ نتیش کمار کو ٹوپی پہنائی گئی۔
انہوں نے خود پہننے سے انکار کرتے ہوئے وہ ٹوپی اپنے اقلیتی فلاح کے وزیر زماں خاں کو پہنا دی۔
یہ منظر دیکھ کر حاضرین میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں:
کیا یہ مسلمانوں کے جذبات سے بے اعتنائی تھی؟ یا محض ایک سیاسی مصلحت؟
زماں خاں کا کردار
زماں خاں بہار کے اقلیتی فلاح کے وزیر ہیں اور جے ڈی یو کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ سیوان ضلع سے تعلق رکھتے ہیں اور اقلیتی اسکیموں و مدارس کے حوالے سے وزارت کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔
ناقدین کے مطابق، اکثر مواقع پر وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر کوئی موقف اختیار نہیں کرتے۔
تقریب میں ان کا ٹوپی پہننا بھی کئی مبصرین کے نزدیک اس بات کی علامت ہے کہ انہیں صرف نمائشی کردار دینے کے لیے آگے کیا گیا۔
عوامی ردعمل اور سوالات
سماجی و سیاسی حلقوں نے اس تقریب پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
سو سالہ تقریب کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔
مدارس کے مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے۔
چیئرمین سلیم پرویز کی نااہلی اور دہرا رویہ کھل کر سامنے آ گیا۔
🔎 نتیجہ
یہ تقریب، جو تعلیمی ورثے کو اجاگر کرنے اور مدارس کی خدمات کو سراہنے کے لیے ہونی چاہیے تھی، بدانتظامی، سیاسی چالوں اور نمائشی کرداروں کی نذر ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مدرسہ بورڈ واقعی تعلیم کی خدمت کے لیے ہے یا محض سیاسی مفادات کا آلہ کار بن گیا ہے؟

📰 خصوصی کالم بشکریہ چیٹ جی پی ٹی

30/03/2025

امارت شرعیہ کا تنازع۔ہرایک کردارمکروہ اور قابل نفرت
✍️نور اللہ جاوید

طالب رحمانی، فہد رحمانی، شبلی قاسمی اورخالدانورجیسے کردار جب تک رہیں گے ادارے تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے

آج شام بہارکے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اور ابوالمحاسن حضرت مولانامحمد سجادؒ کے خواب اور منصوبوں کا محور امارت شرعیہ پھلواری شریف میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف انتہائی شرمناک اوربدترین ہے بلکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بھارت کے مسلمان ذلت وپستی کی حدتک گر چکے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے مسلمان مختلف مرحلے اور مواقع پر سخت آزمائش سے گزررہے ہیں اورمسلمانوں کی مذہبی آزادی کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں ملک کے موقر ترین اداروں میں سے ایک میں اقتدار کی رسہ کشی کے مناظر نہ صرف تکلیف دہ ہیں بلکہ باعث ننگ وعار ہیں۔

اس پورے واقعے کے ویلن مولانا ابوطالب رحمانی نے دیر رات ایک وضاحت جاری کی ہے۔یہ پوری وضاحت مولانا ابوطالب رحمانی کے نفاق، اقتدار پرستی، عہد ہ طلبی کا بین ثبوت ہے۔مولانا طالب رحمانی نے فہد رحمانی اور امیر شریعت کے عہدہ پر فائز فیصل رحمانی سے متعلق جو کچھ انکشافات کئے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہے فرق یہ ہے کہ مولانا یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ معصوم ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوطالب رحمانی، فہد رحمانی اور فیصل رحمانی کے والد مرحوم مولانا ولی رحمانی کی چاپلوسی، خوشامد کے ذریعہ ہی امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بوڈ میں اپنی جگہ بنائی تھی۔مولانا رحمانی اللہ کے حضور میں پیش ہوچکے ہیں اس لئے ان سے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کے بجائے مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت امارت شرعیہ جن حالات سے گزرہا ہے اس میں مولا نا ولی رحمانی کی خوشامدپسندانہ مزاج، اقرباپروی اور مریدان با صفاکو عہدوں کو نوازنے کی سوچ کا بڑا کرداررہا ہے۔

یقینا امارت شرعیہ مسلمانوں کا ادارہ ہے اور یہاں خاندانی وراثت کیلئے جگہ نہیں ہے۔یقینا امارت کی ترقی میں مولانا منت اللہ رحمانی کا اہم کردار رہا ہے مگر امارت شرعیہ کے بانی مولانا ابو المحاسن سجاد ؒ کے خوابوں کا نتیجہ ہے۔ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ کے خلوص وللہیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ بانی ہونے کے باوجود امیر شریعت کا عہدہ کبھی کبھی قبول نہیں کیا۔مولانامنت اللہ رحمانی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا ولی رحمانی کو امیرشریعت نہیں مقرر کیا گیا۔شنیدہے کہ انہوں نے اس وقت کوشش کی تھی اورمریدان باصفالاٹھی اور ہتھیار کے ساتھ موجود تھے مگرناکام رہے اس درمیان مولانا عبدالرحمنؒ اور مولانا سید محمد نظام الدین کے دوادوارگزرے ہیں۔یہی وہ دونوں ادوار ہیں جس میں امارت شرعیہ نے ملک بھر میں اپنا اعتبار قائم کیا اوربہار ہی نہیں بلکہ بھارت کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔مولاناسید محمد نظام الدین اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی اس جوڑی نے امارت کو مالی اعتبار سے مستحکم کیا اور ان کے دورمیں ہی المعہدالعالی اوردارالعلوم امارت شرعیہ، ٹیکنیکل ادارے قائم ہوئے۔ملک بھرمیں دارالقضا قائم کئے گئے۔گجرات فسادات اور دیگر قدرتی آفات میں امارت سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھاتی تھی۔

مولاناسیدمحمد نظام الدینؒ کے وفات کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی اتفاق رائے سے امیرشریعت منتخب ہوئے۔مگرمولانا ولی رحمانی مرحوم کا دور امارت میں افرتفری کا دور رہا۔انہوں نے پرانے لوگوں کو نکالنا شروع کیا اور چاپلوسوں اور خوشامدیوں کوبحال کرنا شروع کردیا۔اس دور میں ہی مولانا ابوطالب رحمانی کی امارت میں دخل اندازی ہوئی۔امارت کے ٹرسٹی کے ممبربنے اور پھر فرعون وقت کی طرح امارت کے عملہ اور دیگر اسٹاف پر ڈھونس جمانے لگے۔مولانا ابوطالب رحمانی کسی بھی عہدہ پر فائز نہیں تھے مگر امارت میں ان کادخل تھا۔فہد رحمانی جس کو آج وہ گالی دے رہے ہیں اس کے ہرگناہوں میں شریک تھے۔طالب رحمانی کی ہرزہ سرائی کی وجہ سے مولانا انیس الرحمن قاسمی کو نظامت کے عہدہ سے چھٹی کرکے شبلی قاسمی کو بحال کیاگیا۔شبلی قاسمی الزامات کی زد میں آئے۔خاتون نے سنگین الزام عائد کیامگروہ اس کا دفاع کرتے رہے۔دارالعلوم امارت کے صدر مولانا محمد جنید کے خلاف سازش رچی گئی۔

مولانا ولی رحمانی کے دورمیں پٹنہ میں ہی ”دین بچاؤاور دیش بچاؤ“ کے عنوان سے ایک عظیم کانفرنس ہوئی۔بہار کے مسلمان اس میں شریک ہوئے۔مگر مولانا ولی رحمانی نے نتیش کمار سے اس پوری کانفرنس کی قیمت ایک ایم ایل سی کی سیٹ کے طور وصول کرلیا۔خالد انور جو آج نتیش کمار کی نگاہ میں آنے کیلئے امارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کررہا ہے وہ دراصل اسی خوشامدی طائفہ کا زائدہ ہے۔امارت کے اندرونی لوگ بتاتے ہیں کہ دین بچاؤ اور دیش بچاؤ کانفرنس کا انعقاد ہی سیاسی دھندے کیلئے کیا گیا تھا۔خالد انور، طالب رحمانی نے ہی مولانارحمانی کو ورغلایااور اس کانفرنس کیلئے آمادہ کیا۔ اور خالد انورنے امارت کے نام پر ایم ایل سی بننے پرکامیاب ہوگیا۔

مولانا ولی رحمانی کے انتقال کے بعد خالدانور، طالب رحمانی،شبلی قاسمی، فہد رحمانی، شمشاد قاسمی امارت کے حل و عقد کی فہرست میں گڑبڑی کی، غیرقانونی کام کئے، ووٹروں کو دھمکایا، بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی حمایت سے بڑی تعدادمیں پولس اہلکارکی مددلی گئی اور بہار کی سرزمین جہاں ایک سے ایک کبارعلماکی موجودتھے وہاں ایک ناتجربہ کار فیصل رحمانی جنہوں نے کبھی کبھی کسی دینی درس گاہ میں علم حاصل نہیں کی تھی۔وہ پیشے سے انجینئر تھے، امریکہ کے ملٹی نیشنل کمپنی میں برسرملازمت تھے کو امیر شریعت جیسے عہدہ جلیلہ پرفائز کردیا گیا۔

فیصل رحمانی کے امیرشریعت منتخب ہونے کے بعد اب باری تھی جوتیوں میں دال بٹنے کی۔مولاناابوطالب رحمانی کسی بڑے عہدہ کی لالچ میں تھے۔شبلی قاسمی مستقل ناظم بننا چاہتے تھے۔خالد انور اپنے اشاروں پر فیصل رحمانی کو نچوانا چاہتاتھا مگر امریکہ کی شہریت رکھنے والے فیصل رحمانی ان کے امیدوں کے خلاف ثابت ہوئے۔ وہ کٹھ پتلی بننے کے بجائے وہ خود فیصلہ کرنے لگے۔اس نے اپنے والد مرحوم کے چاپلوسوں کو منھ لگانے کے بجائے نئے چاپلوسوں کی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور اور اس طرح چاپلوسوں کا یہ طائفہ فیصل رحمانی کے خلاف سازش رچنے لگا۔انصاف نیو ز آن لائن کے قارئین جانتے ہیں کہ ہم نے کئی مہینے قبل ہی بتادیا تھا کہ مولانا ابوطالب رحمانی، خالدانور کی یہ جوڑی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فیصل رحمانی کسی بھی درجے میں امیرشریعت کے عہدہ جلیلہ کے لائق نہیں ہیں، ان کا انتخاب بھی مشکوک ارباب وحل عقد کی فہرست کی بنیادپر ہوا تھا۔مگر اب جب کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کام کررہے ہیں تو اگر وہ اس عہدہ کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ انہیں اس عہدہ سے معزول کرنے کیلئے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہے؟ کیا مجلس شوری، اربا ب وحل عقد کی اکثریت میٹنگ نہیں بلاسکتی تھی مگرآج شام جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے امارت پرقبضہ کرنے کی کوشش کی گئی وہ کسی بھی اصول و ضوابط کے تحت درست نہیں تھا۔

فیصل رحمانی جس دعوے اورامیدوں کے ساتھ امارت شرعیہ کی قیادت سنبھالی تھی وہ نظر نہیں آرہا ہے۔شہریت کے سوال پر جس طریقے سے مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکنیت ان کی موقوف کی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی امارت شرعیہ پھلواری شریف اور مسلم پرسنل لا بور ڈکے درمیان ٹکراؤ ناگزیرہے مگر بورڈ کی ہدایت پر فیصل رحمانی اور امارت شرعیہ نے وقف بل کے خلاف نتیش کمارکوچیلنج کیا اور جرأت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔یہی وہ نقطہ تھا جب جنتادل یو کے مسلم لیڈروں کو فیصل رحمانی کو سبق سیکھانے کا ٹاسک دیدیا اور پھر اقتدارپرستوں کا طائفہ جس کی قیادت ابو طالب رحمانی کررہے تھے کے درمیان ناپاک کٹھ جوڑ نے امارت کے وقار کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

امارت شرعیہ اس وقت خانقاہ رحمانی کے مریدان باصفا جو عقل و خردسے مکمل طورپرعاری ہے کے نرغے میں ہیں۔عقل و خرد سے عاری مریدان باصفا یہی وہ جماعتیں ہیں جس نے ماضی میں جمعیۃ علمائے ہند، دارالعلوم دیوبند،مظاہرعلوم سہارن پور جیسے ملت کے عظیم اداروں کو تقسیم کردیا۔مریدان باصفاکی یہ جماعت اب امارت شرعیہ کے وقار کوملیا میٹ کرنے پرآمادہ ہیں۔ مولانا ابوالمحاسن مولانا سجاد ؒنے امیر شریعت کے عہدہ کی تخلیق جس امارت کی امیدکے ساتھ کیا تھااس میں روحانیت، امت مسلمہ کی قیادت اور رہنمائی شامل تھی مگر اب امیرشریعت کاعہدہ اقتدار اورطاقت کا مرکز بن گیاہے۔امیر شریعت ہر سوالوں سے ماوار بن گیا ہے۔وہ جب چاہے جس کو چاہے راندہ درگاہ کرسکتا ہے۔امارت شرعیہ میں امیر شریعت اور قاضی شریعت کے دو عہدے طاقت کے دو مراکز ہیں۔قاضی شریعت دارلقضا کے نظام کو دیکھتے ہیں جب کہ امیرشریعت تنظیم اوردیگر امور انجام دیتے ہیں مگر فیصل رحمانی طاقت کے اس مرکز کو ختم کرکے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تاحیات امیرشریعت کا عہدہ غیرمنطقی اور تمام فتنوں کی جڑہے۔سوال یہی ہے کہ کیا امارت شرعیہ اپنے نظام میں اصلاح کی جرأت کرے گی۔اس کی امید تو نظر نہیں آتی ہے۔

علمی و نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر مولانا ابوالاعلی مودودی اور جماعت اسلامی کو لعن وطعن تشنیع کرنے والوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ جماعت اسلامی میں اقتدار کی رسہ کشی کبھی کبھی 75برسوں میں نظرآئے۔امیر جماعت کا عہدہ صلاحیت، قابلیت، اور للہیت کی بنیاد پر پر سونپاجاتا ہے۔اپنی امارت کیلئے تشہیر کرنے والا اس عہدہ کیلئے نااہل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں جماعت بڑی ہے۔فرد نظام کے تابع۔جب تک امیر رہتے ہیں تو نمایاں رہتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد ایک عام رکن بن کر جماعت کی خدمت کرتے ہیں۔آخر دیوبندی حلقے کی جماعتوں میں یہ خلوص و للہیت کیوں نظر نہیں آتی ہے۔یہاں اقتدار کی رسہ کشی کیوں ہے؟ کرسی کیلئے اداروں کے وقارکے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا جاتا ہے؟

ابوطالب رحمانی جیسے کردار کے حاملین جب تک رہیں گے ادارے تباہ و برباد ہوتے رہیں گے۔دیکھنایہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کب اپنی صفوں میں اصلاح کرے گی۔ابھی تو بھارت میں مسلمانوں کی آزمائش کا دور ہی شروع ہوا ہے۔مسلم دشمن طاقتیں مسلمانوں کی مذہبی شناخت چھیننے کیلئے سازشیں کررہی ہیں اور دوسری طرف خود ساختہ قائدین جوتیوں میں ڈال بانت رہے ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس تنازع کوہرایک کردار مکروہ اورلائق نفرت ہے۔

سلیم پرویز کی بدزبانی ناقابل برداشت امارت شرعیہ کی دھجیاں اڑانے کی دھمکی دینے والا ملت کا غدار ہے✒️عبدالاحد رحمانی ازہری...
24/03/2025

سلیم پرویز کی بدزبانی ناقابل برداشت
امارت شرعیہ کی دھجیاں اڑانے کی دھمکی دینے والا ملت کا غدار ہے
✒️عبدالاحد رحمانی ازہری
ملت اسلامیہ بہار کے لیے یہ ایک انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والا لمحہ ہے کہ ایک شخص، جو کبھی بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا چیئرمین رہ چکا ہے، آج اپنی مفاد پرستی اور خودغرضی کے سبب اتنی پستی میں گر چکا ہے کہ امارت شرعیہ جیسے عظیم اور معتبر ادارے کی توہین کرنے کی جرات کر بیٹھا۔ سلیم پرویز نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی افطار پارٹی میں شرکت کے دوران جو گستاخانہ اور احمقانہ بیان دیا، کہ وہ "امارت شرعیہ کی دھجی اڑا دیں گے"، اس نے نہ صرف ملت کے دلوں کو زخمی کر دیا بلکہ اپنی حقیقت بھی بے نقاب کر دی۔
سلیم پرویز کا یہ بیان ان کی کھوکھلی شخصیت اور ضمیر فروشی کا واضح ثبوت ہے۔ امارت شرعیہ وہ عظیم ادارہ ہے جس نے ہمیشہ ملت اسلامیہ کے حقوق، عزت، وقار اور دین کی سربلندی کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے۔ یہ ادارہ ملت کے اتحاد کی علامت ہے اور علماء حق کی سرپرستی میں چلنے والا ایک معتبر مرکز ہے۔ ایسی عظیم اور محترم امارت کے خلاف زبان درازی کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
سلیم پرویز جیسے خود غرض اور مفاد پرست لوگ اپنی وقتی شہرت اور سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ملت کے عظیم ترین اداروں کی بے حرمتی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان کا یہ بیان دراصل ان کی اپنی گندی ذہنیت اور منافقانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملت کے شعور کو للکارنے اور دین کے محافظ اداروں کی توہین کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
سلیم پرویز کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ملت اور اس کے اداروں کو روندنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ ایسے بے ضمیر اور ملت فروش افراد کو ملت کے اجتماعی شعور نے ہمیشہ رد کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔ وزیر اعلیٰ کی افطار پارٹی میں شرکت کر کے انہوں نے اپنی خود غرضی کا ثبوت تو دیا ہی تھا، مگر امارت شرعیہ کے خلاف بیان دے کر اپنی ملت دشمنی کو بھی ثابت کر دیا۔
ہم سلیم پرویز کے اس گھٹیا اور شرمناک بیان کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فی الفور اپنی زبان درازی پر توبہ کریں اور نہ صرف امارت شرعیہ بلکہ پوری ملت سے غیر مشروط معافی مانگیں۔ بصورت دیگر ملت ان کو ہمیشہ بدزبان اور غدار کے نام سے یاد رکھے گی اور وقت پر سبق سکھائے گی ۔
ہم امارت شرعیہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس مقدس ادارے کے خلاف کوئی بھی گستاخانہ بیان ملت کے جذبات کو مجروح کرے گا اور ہم کسی بھی قیمت پر ایسے بے ضمیر لوگوں کو معاف نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بصیرت اور جرأت عطا فرمائے کہ ہم ایسے فتنہ پرور اور ملت فروش عناصر کا مقابلہ کر سکیں اور دین کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن سکیں۔ آمین!

01/03/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعاون کی اپیل

الکتاب فاؤنڈیش کے زیرانتظام مدرسہ معہدالکتاب والسنہ آپ کیلے محتاج تعارف نہیں ہے چندسالوں میں اس تعلیمی ادارہ نے آپ کے پرخلوص تعاؤن و مدد سے نمایاں ترقی کی ہے اس ادارہ میں درجہ حفظ، ناظرہ اور دینیات کی تعلیم بھی جاری وساری ہے مدرسہ میں مقامی وبیرونی غریب ونادر طلباء و طالبات کی ایک کثیر تعداد اس وقت زیرتعلیم ہیں جن میں بیرونی طلبہ کے قیام وطعام کی ذمہداری منجانب ادارہ ہے، مدرسہ کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے سواے توکل علی اللہ کے ۔
معھدالکتاب والسنہ سیھن مدرسہ میں ایک ماہ سے تعمری کام مسلسل جاری ہے
اندرباہر دومنزلہ عمارت کا پلاسٹر
چہاردیواری، کھڑکی، درواز، بیت الخلاء، صدر دروازہ وغیرہ کا کام جاری ہے ۔
جملہ اہل خیر سے دردمندانہ اپیل ہے کہ کم ازکم ایک بوری سمنٹ یا ایک دن کی مزدوری یا 100 روپے سے ضرور مدد کریں ۔
قوی امید ہےکہ اس چھوٹی سی درخواست کو ضرور قبول کریں گے ان شاءاللہ
ان اللہ لایضیع اجرالمحسنین
محمد نوشاد عالم Naushad Zubair Malick
صدر: الکتاب فاؤنڈیشن Al-Kitab Foundation
مہتمم: معہدالکتاب والسنّہ
مقام وپوسٹ سیھن تھانہ ہسوا ضلع نوادہ بہار 805103
رابطہ نمبر: 9934266250, 083405 86502
الکتاب فاؤنڈیشن، نوادہ، بہار کا بینک اکاؤنٹ نمبر منددرجہ ذیل ہے!
Al-Kitab Foundation
A/C No.286502000000014
Indian Overseas Bank
Nawada Branch
IFSC Code:IOBA0002865
Paytm, G Pay phonePe No: 9934266250

11/09/2023
10/08/2023
14/06/2023

حج کمیٹی انڈیا کی بد عنوانی ملاحظہ کریں!

Address

2, 2nd Cross, Artillery Road, Ulsoor
Bangalore
560008

Opening Hours

Monday 10am - 6am
Tuesday 10am - 6am
Wednesday 10am - 6am
Thursday 10am - 6am
Friday 10am - 6am
Saturday 10am - 6am

Telephone

08040993126

Website

http://twitter.com/mediascan1

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Media Scan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share