Rahil Raqeebi

Rahil Raqeebi "تمھارے ایک آنسو کے بدلے وہ مسکرا کے تمھاری ساری خواہشوں پہ "کن" کہہ دیتا ہے، ایسی محبت "تم" سے صرف تمھارا " اللہ " ہی کر سکتا ہے " .

غزہ کی فضاؤں میں سکون اب بھی صرف ایک خواب ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بمباری، گولی باری اور حملے رکے نہیں۔ ایسے میں ...
10/12/2025

غزہ کی فضاؤں میں سکون اب بھی صرف ایک خواب ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بمباری، گولی باری اور حملے رکے نہیں۔ ایسے میں حماس نے عالمی برادری سے زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے تاکہ بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچ سکیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فائرنگ سے کم از کم 377 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار نے واضح کر دیا ہے کہ جنگ بندی صرف کاغذ پر ہے، زمین پر نہیں۔
فلسطینی علاقوں میں لوگ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں، امدادی سامان کم ہے، اور بارود کی بو ہر گلی میں محسوس ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں حماس نے عالمی تنظیموں، اسلامی ممالک، اور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مکمل طور پر جنگ بندی کی پابندی کرنے پر مجبور کریں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حقیقی دباؤ نہ ڈالا گیا تو اسرائیلی حملے کم ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے اور انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ غزہ میں پہلے ہی ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور مسلسل حملوں سے بچے شدید ذہنی تکلیف کا شکار ہیں۔
دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی افواج ابھی بھی غزہ کی گلیوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے فلسطینی عوام کی امید صرف ایک ہے — کہ دنیا آخرکار خاموشی توڑے اور انصاف کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھائے۔

دل دہلا دینے والا منظر…!غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران الشفا اسپتال کے صحن میں جلدی جلدی دفن کیے گئے درجنوں فلسطینی شہ...
10/12/2025

دل دہلا دینے والا منظر…!
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران الشفا اسپتال کے صحن میں جلدی جلدی دفن کیے گئے درجنوں فلسطینی شہدا کی قبریں دوبارہ کھولی گئی ہیں۔ فلسطینی سول ڈیفنس کے اہلکاروں نے 150 سے زائد لاشیں زمین سے نکال کر شناخت اور باقاعدہ تدفین کے لیے قبرستان منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
اسپتال کے صحن وہ جگہ بن گئے تھے جہاں لاشیں رکھنے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔ شدید بمباری، مسلسل حملوں اور محاصرے کے باعث بہت سے متاثرین کو اسپتال کے اندر ہی دفن کرنا پڑا۔ نہ کفن میسر تھا، نہ جنازہ، نہ فاتحہ، نہ ہی آخری دیدار کی کوئی سہولت۔
سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ ان شہدا میں بڑی تعداد اُن افراد کی ہے جن کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی۔ کچھ چہروں پر مٹی کے نیچے بھی درد اور ظلم کی کہانیاں نمایاں تھیں۔ اہلکار لرزتی آواز میں بتاتے ہیں کہ ”سب سے زیادہ تکلیف اُس وقت ہوئی جب ہمیں بچوں کی لاشیں ملا کیں… ایسے لگ رہا تھا جیسے نیند میں ہوں۔“
غزہ کے لوگ اب ان تمام شہدا کو صحیح مقام پر دفن کرنا چاہتے ہیں تاکہ کم از کم اُن کی آخری آرام گاہ عزت اور احترام کے ساتھ ہو۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی قبر کے قریب کھڑی کہہ رہی تھی: "میرے لال… اب کوئی بم نہیں گرے گا، اب کوئی تمہیں ڈرائے گا نہیں…"
یہ مناظر صرف غزہ کا دکھ نہیں، پوری انسانیت کا زخم ہیں، جو ہر روز مزید گہرا ہو رہا ہے۔ دنیا خاموش ہے، مگر فلسطینی صبر کے ساتھ اپنے پیاروں کو آخری سفر میں عزت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر آپ کو کبھی یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ خلا سے مکّہ کیسا دکھائی دیتا ہوگا، تو تیار ہوجائیے—کیوں کہ ایک شخص نے یہ خواب س...
09/12/2025

اگر آپ کو کبھی یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ خلا سے مکّہ کیسا دکھائی دیتا ہوگا، تو تیار ہوجائیے—کیوں کہ ایک شخص نے یہ خواب سچ کر دکھایا ہے۔
یہ تصویر دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمان جذبات میں ڈوب گئے، کیونکہ اس میں مکّہ مکرمہ چمکتے ہوئے نور کی طرح نمایاں دکھائی دیتا ہے، جیسے تاریکی میں روشنی کا مینار۔

خلا میں موجود اس فرد نے بتایا کہ جب اس نے نیچے دیکھا تو سب شہروں کے درمیان ایک جگہ عجیب سی روشنی کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ حیرت میں آکر جب اس نے توجہ سے دیکھا، تو وہ مقدس شہر مکّہ تھا۔
کہتے ہیں کہ یہ منظر اتنا روح پرور تھا کہ اس نے فوری طور پر تصویر لی اور دنیا کے ساتھ شیئر کردی۔

تصویر دیکھتے ہی لاکھوں لوگوں نے ایک ہی بات کہی: “یہ روشنی کسی اور جگہ کی نہیں ہوسکتی، صرف اور صرف مکّہ کی ہے!”
خلا سے کھینچی گئی اس تصویر میں حرم شریف واضح طور پر نظر آتا ہے، اور اس کے اردگرد کا علاقہ جیسے فطری طور پر احترام میں جھک رہا ہو۔

سوشل میڈیا پر یہ تصویر تیزی سے وائرل ہوگئی ہے، اور لوگ اسے دیکھ کر اس عظمت کا اعتراف کررہے ہیں جو اللہ نے اس مقدس شہر کو بخشی ہے۔
یہ محض ایک تصویر نہیں—یہ ایمان، محبت اور روحانی تعلق کی علامت بن گئی ہے جو زمین سے خلا تک پھیلا ہوا ہے۔

غزہ میں ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک عمر رسیدہ فلسطینی خاتون کو اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید کر دی...
09/12/2025

غزہ میں ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک عمر رسیدہ فلسطینی خاتون کو اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق خاتون کسی پناہ کی تلاش میں تیزی سے بھاگ رہی تھیں، لیکن ڈرون نے ان کا مسلسل پیچھا کیا اور پھر فائرنگ کر کے انہیں گرا دیا۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب علاقے میں فائر بندی کی لکیر سے آگے بھی اسرائیلی فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔

اس حملے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ عام شہریوں کی جانیں جنگی حکمت عملی میں کہاں کھڑی ہیں۔ خاتون نہ ہتھیار بند تھیں، نہ کسی خطرے کا باعث، اس کے باوجود انہیں نشانہ بنانا غزہ میں جاری انسانی بحران کی سنگینی کو مزید واضح کرتا ہے۔

غزہ کے مقامی ذرائع کے مطابق، ایک ہی دن میں کم از کم سات فلسطینی شہری شہید ہوئے، جن میں یہ بزرگ خاتون بھی شامل تھیں۔ حملوں کی شدت اُس وقت اور بڑھ گئی جب اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر فائر بندی کی حد سے آگے کارروائیاں شروع کیں، جس سے شہری علاقوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا۔

فلسطینی طبی عملہ بتاتا ہے کہ زخمیوں اور لاشوں کو محفوظ مقام تک پہنچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ڈرون کئی بار امدادی ٹیموں کو بھی نشانہ بناتے ہیں یا اُن کے قریب فائر کرتے ہیں۔ اس صورتحال نے امدادی کاموں کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔

بین الاقوامی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر شہریوں پر حملے نہیں رُکے تو انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ بزرگوں، بچوں اور عورتوں کے لیے غزہ اب پہلے سے زیادہ خطرناک بن چکا ہے




بابری مسجد کی شہادت کو پچیس برس گزر چکے ہیں، لیکن اس واقعے کی گونج آج بھی ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور مذہبی منظرنامے پر...
08/12/2025

بابری مسجد کی شہادت کو پچیس برس گزر چکے ہیں، لیکن اس واقعے کی گونج آج بھی ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور مذہبی منظرنامے پر گہری چھاپ چھوڑے ہوئے ہے۔ یہ وہ دن تھا جب لاکھوں لوگوں کے دل زخمی ہوئے، جب ایک تاریخی عبادت گاہ کو ہجوم نے چند لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔
اس دن نے نہ صرف ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل دیا بلکہ ہندو مسلم تعلقات کو ایک ایسی کھائی کی طرف دھکیل دیا جس سے آج تک باہر نکلنے کی جدوجہد جاری ہے۔

بابری مسجد کی تعمیر صدیوں پہلے ہوئی تھی اور یہ صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ ثقافتی ورثہ بھی تھی۔ لیکن 6 دسمبر 1992 کو صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب بڑی تعداد میں شدت پسندوں نے وہاں جمع ہوکر مسجد پر حملہ کر دیا۔ سرکاری ادارے تماشائی بنے کھڑے رہے اور پورا ملک آگ میں جلنے لگا۔

اس واقعے کے بعد ملک بھر میں فسادات بھڑک اٹھے جن میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ معصوم لوگ، بے گھر خاندان، ٹوٹی زندگیاں — ہر طرف صرف دکھ اور خوف کا سایہ تھا۔
یہ واقعہ آج بھی ہندوستان کی سیاست، عدالتوں، گلیوں اور گھروں میں بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کچھ لوگ اسے مذہبی دعووں کا مسئلہ کہتے ہیں، جبکہ بہت سے اسے انصاف اور آئین کی پامالی سے تعبیر کرتے ہیں۔

بابری مسجد کا مقدمہ برسوں عدالتوں میں چلتا رہا اور اس نے بار بار یہ سوال اٹھایا:
کیا طاقتور جیتتا ہے یا انصاف؟ کیا تاریخ دلوں پر لکھی جاتی ہے یا پتھروں پر؟

آج بھی اس واقعے کا ذکر ہوتے ہی ملک کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا باب ہے جسے چاہ کر بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ دن تھا جس نے ثابت کر دیا کہ ایک لمحہ پوری قوم کی سمت بدل سکتا ہے—اچھائی کی طرف بھی، اور برائی کی طرف بھی




















جنوب مشرقی ایشیا کے دو پڑوسی ممالک، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا، ایک بار پھر پرتشدد جھڑپوں کے دہانے پر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں...
08/12/2025

جنوب مشرقی ایشیا کے دو پڑوسی ممالک، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا، ایک بار پھر پرتشدد جھڑپوں کے دہانے پر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ جولائی میں طے پانے والی فائر بندی کے باوجود سرحدی علاقوں میں بداعتمادی، مسلح گشت اور پرانی دشمنیوں نے صورتحال کو دوبارہ بگاڑ دیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تھائی فضائیہ نے کمبوڈیا کی سرحد کے قریب ’’ہوائی حملے‘‘ کیے، جن کا دعویٰ تھائی حکام نے ایک ’’جوابی کارروائی‘‘ کے طور پر کیا۔ یہ حملے اس واقعہ کے بعد کیے گئے جس میں سرحدی جھڑپ کے دوران کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ تھائی حکام کا کہنا ہے کہ کمبوڈین فورسز نے ان کے گشت پر فائرنگ کی، جب کہ کمبوڈیا نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی‘‘۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی بڑھی ہو — 2008 سے 2011 تک بھی اس علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں تاریخی مندروں، گاؤں اور جنگلات کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سرحدی لکیر اب بھی متنازع ہے، اور دونوں جانب قوم پرست سیاستدان اس مسئلے سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

حالیہ حملوں نے علاقے میں خوف کی فضا قائم کردی ہے۔ سرحدی گاؤں خالی ہونے لگے ہیں، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ تجارت، اسکول، ٹرانسپورٹ — سب کچھ متاثر ہوچکا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ’’جنگ کا خوف ہمیشہ ہمارے سر پر لٹکتا رہتا ہے‘‘۔

عالمی برادری نے دونوں ممالک سے صبر، سفارتی بات چیت اور فوری جنگ بندی پر قائم رہنے کی اپیل کی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر دونوں حکومتوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو خطے میں ایک اور غیرضروری جنگ بھڑک سکتی ہے، جس کا نقصان عام لوگوں کو اٹھانا پڑے گا











جرمنی نے صدیوں سے یورپ کی سیاست، دفاع اور عالمی تعلقات میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہوا ہے۔ اس کی فوجی صنعت دنیا کی بڑی اسل...
08/12/2025

جرمنی نے صدیوں سے یورپ کی سیاست، دفاع اور عالمی تعلقات میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہوا ہے۔ اس کی فوجی صنعت دنیا کی بڑی اسلحہ برآمد کنندگان میں سے ہے اور اسرائیل ان ممالک میں شامل ہے جنہیں جرمنی اکثر اسلحہ فراہم کرتا آیا ہے۔ مگر 2025 کے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں، شہری ہلاکتوں اور انسانی بحران نے جرمنی کی پالیسی اور اخلاقی سمت پر دوبارہ سوال اٹھا دیے ہیں۔

پہلے پہل جب حملے زیادہ سخت ہوئے، جرمنی نے جزوی اسلحہ برآمد پر عارضی پابندی کا اعلان کیا — ایک ایسا اقدام جسے انسانی حقوق کے مداحوں نے سراہا۔ قرار پایا کہ ’’جو ہتھیار غزہ میں استعمال ہوسکتے ہیں، ان کی برآمدات مؤخر کی جائیں گی‘‘۔ یہ قدم دراصل عالمی دباؤ اور عوامی احتجاج کا نتیجہ تھا، مگر اس پر مستقل موقف نہ قائم رہا۔ نومبر 2025 میں برآمدات کی پابندی ہٹائی گئی اور اعلان ہوا کہ ’’مقدمہ فی مقدمہ جائزہ‘‘ کے تحت اسلحہ برآمد کی جائے گی۔ یو ٹیوب، سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں نے اسے ’’فریب‘‘ قرار دیا۔

اس تبدیلی کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی کہ اس کے بعد بھی غزہ میں بمباری اور شہری اموات میں اضافہ ہوا۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر، زخمی، اور یتیم ہوگئے۔ اسپتال تباہ، پانی اور بجلی بند، خوراک و دوا نایاب — ایک انسانی المیہ۔ جب جرمنی نے دوبارہ برآمدات شروع کیں تو اسے اسلحہ دینے والا ایک فعال شریک قرار دیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم Amnesty International نے جرمنی کی اس پالیسی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ’’اسلحہ کی برآمدات جاری رکھنا، اسرائیل کو مزید بلا خوف کارروائی کا اختیار دینا ہے‘‘۔ اس کا مطلب ہے— جرمنی بلاواسطہ طور پر غزہ میں ہو رہی نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔

کئی سیاسی تجزیہ کار بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جرمنی کی دوہری پالیسی — الفاظ میں انسانی حقوق کا نعرہ اور اعمال میں اسلحہ کی حمایت — اس کا اخلاقی دعویٰ مجروح کرتی ہے۔ ان کے بقول، واقعی انصاف، امن اور انسانی وقار کا داعی ہونا ہے تو اسلحہ برآمدات کو مکمل روکنا ہوگا۔

جرمنی کی اسلحہ صنعت اور دفاعی مفادات نے اسے ایک گہری پالیسی پھندے میں دھکیل رکھا ہے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ یہی مفادات کبھی اخلاق اور انسانیت کے ہاتھوں ہار جاتے ہیں۔ آج جب غزہ اور فلسطین کے لاکھوں لوگ خون بہا رہے ہیں، جرمنی کا مؤقف صرف اشارات تک محدود رہنا، انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں۔

اگر آزادی، انصاف اور انسانی وقار کی بات کرنی ہے — تو صرف فوجی برآمدات کو روکنا کافی نہیں، عوام کو بھی یہ حق ہے کہ وہ جانیں کہ ان کے ٹیکس سے بنی بندوقیں کہاں استعمال ہو رہی ہیں۔ اور ممالک جو “سلطنتِ انصاف” کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل میں بھی انسانی حقوق کی حفاظت کریں۔










بین الاقوامی فورموں میں ہمیشہ انصاف کی بات ہوتی رہی ہے، مگر جب دنیا کی نظریں غزہ پر لگی ہوں اور ہزاروں بے گناہ لوگ مقتل ...
08/12/2025

بین الاقوامی فورموں میں ہمیشہ انصاف کی بات ہوتی رہی ہے، مگر جب دنیا کی نظریں غزہ پر لگی ہوں اور ہزاروں بے گناہ لوگ مقتل میں تبدیل ہو چکے ہوں تو عالمی قانون کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ دوحہ فورم میں اس سال بھی سب سے زیادہ گفتگو غزہ کے انسانی المیے، تباہی، اور ان گنت جانوں کے ضیاع پر ہوئی۔ عالمی ماہرین نے کھل کر کہا کہ اگر ملکوں کی سیاسی طاقت اور عالمی مفادات انصاف کے راستے میں کھڑے رہیں گے تو بین الاقوامی قانون کبھی بھی اپنا اصل کردار ادا نہیں کر پائے گا۔

ماہرین نے واضح کیا کہ عالمی قانون کی بنیاد انصاف، مساوات اور انسانیت کے تحفظ پر رکھی گئی تھی، مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ طاقتور ملک قانون کو اپنی مرضی کے مطابق توڑتے، بدلتے اور استعمال کرتے ہیں۔ غزہ میں ہونے والی تباہی دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے، ہزاروں بچے، عورتیں اور عام شہری ملبے کے نیچے دبے پڑے ہیں، مگر اقوام متحدہ اور عالمی ادارے صرف قراردادوں اور بیانات تک محدود ہیں۔

دوحہ فورم میں شریک انسانی حقوق کے وکلاء اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے کہا کہ اگر عالمی برادری واقعی انصاف چاہتی ہے تو سیاسی دباؤ، دوغلے معیار اور طاقتور ملکوں کی مرضی کے نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ غزہ میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی قانون کی کھلی توہین بھی ہے۔ عدالتیں تب تک انصاف نہیں دے سکتیں جب تک حکومتیں خود انصاف میں مداخلت نہ چھوڑیں۔

فورم میں غزہ کے خاندانوں، صحافیوں اور متاثرہ لوگوں کی آواز بھی پیش کی گئی، جنہوں نے کہا کہ ہم انصاف کے منتظر ہیں، مگر عالمی نظام صرف طاقتوروں کے لیے کام کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر آج بھی دنیا نے خاموشی اختیار کی تو مستقبل میں کوئی ریاست، کوئی قوم اور کوئی انسان محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے بین الاقوامی قانون کو بچانے کے لیے دنیا کو متحد ہونا ہوگا، ورنہ انصاف صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود رہ جائے گا۔

اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشیدگی کے ماحول میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں اسرائیل اپنے آخری مغوی کی باقیات و...
06/12/2025

اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشیدگی کے ماحول میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں اسرائیل اپنے آخری مغوی کی باقیات واپس لانے کے منتظر ہے۔ اس وقت غزہ میں اسرائیلی پولیس آفیسر ران گویلی واحد مغوی رہ گیا ہے جس کی باقیات ابھی تک اسرائیل کے حوالے نہیں کی گئیں۔ چند روز قبل حماس نے ایک تھائی مزدور کی لاش واپس کی جس کے بعد اب تمام توجہ گویلی کی باقیات کی منتقلی پر مرکوز ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس لاش کی واپسی موجودہ نازک امن معاہدے کا ایک اہم حصہ ہے، جو خطے میں دو سالہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں جاری مذاکرات حساس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کا فقدان اب بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل میں اس معاملے پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے، اور مغویوں کے خاندان موجودہ حکومت سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ہر ممکن کوشش کر کے تمام مغویوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔ غزہ کی صورتحال اب بھی انتہائی نازک ہے، جنگ کے اثرات، تباہ شدہ علاقے، اور انسانی بحران مذاکرات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اس پیچیدگی کے باوجود امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتیں بھی اس معاملے میں سرگرم ہیں تاکہ خطے میں جاری بحران کو کم کیا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسرائیل اپنے آخری مغوی کی باقیات واپس لے پائے گا یا یہ معاملہ مزید تنازعہ اور بے یقینی کو جنم دے گا۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پہلے ہی نازک حالات چل رہے تھے، مگر طالبان نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس نے دونوں ممالک کے...
05/12/2025

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پہلے ہی نازک حالات چل رہے تھے، مگر طالبان نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ بھر دیا۔ طالبان نے معروف پشتو شاعر متی اللہ توراب کی قبر پر ایک بڑا نقشہ نصب کیا ہے جسے وہ ’’گریٹر افغانستان‘‘ کہتے ہیں۔ اس نقشے میں پاکستان کے وہ علاقے شامل دکھائے گئے ہیں جنہیں طالبان اپنے تاریخی علاقوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ طالبانی حکومت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان کیلئے تشویش کا باعث بنا ہے بلکہ خطّے میں ایک نئی سفارتی کھچاؤ کی شروعات بھی کردیتا ہے۔ اس عمل کو پاکستان کی سرحدی خودمختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام نے اس نقشے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے اور اسے خطّے کے امن کے خلاف ایک خطرناک اشارہ سمجھا جا رہا ہے، جبکہ طالبان کی جانب سے ابھی تک اس عمل پر باضابطہ وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ سرحدی کشیدگی کے پس منظر میں یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک حالیہ جھڑپوں اور سرحدی بندشوں کے باعث پہلے ہی سفارتی تناؤ کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود طالبان کے اس اقدام نے واضح طور پر ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ نقشہ نہ صرف جذباتی ردعمل بھڑکانے کے لیے ہے بلکہ یہ خطّے کی نئی سیاسی حکمتِ عملی کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ اگر دونوں ممالک نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ سنبھالا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اس وقت پورا خطہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو رہا ہے جہاں ذرا سی غلطی بڑے تصادم میں بدل سکتی ہے۔ پاکستان اس عمل کو اپنی علاقائی خودمختاری کے خلاف تصور کر رہا ہے جبکہ طالبان اسے اپنے ’’قومی نظریے‘‘ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک اس معاملے کو بات چیت سے سلجھاتے ہیں یا یہ قدم ایک بڑی سفارتی جنگ کی شروعات ثابت ہوگا۔

سوڈان میں جاری خانہ جنگی ایک بار پھر شدت اختیار کرگئی ہے، جب ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مغربی کر...
04/12/2025

سوڈان میں جاری خانہ جنگی ایک بار پھر شدت اختیار کرگئی ہے، جب ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مغربی کردوفان کے اسٹریٹجک شہر بابانوسہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ یہ شہر تجارت، فوجی نقل و حرکت اور ایندھن کی سپلائی کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اس علاقے پر قبضہ جنگ کے توازن کو بڑے پیمانے پر تبدیل کرسکتا ہے۔
RSF نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی فورسز نے فوجی ٹھکانوں، اسلحہ کے ڈپو، مواصلاتی مراکز اور شہر کے اہم داخلی راستوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، لیکن سوڈانی فوج نے RSF کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ RSF نے شہر کے کچھ حصوں پر حملہ تو کیا مگر مکمل کنٹرول کا دعویٰ جھوٹ اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔
سوڈانی فوج کا مزید کہنا ہے کہ RSF جنگ بندی کے اعلانات کرتی ہے لیکن ساتھ ہی شہری علاقوں پر حملے کرکے نہ صرف ہلاکتیں بڑھاتی ہے بلکہ لوگوں کو جان کے خطرے میں ڈالتی ہے۔ فوج نے الزام لگایا کہ RSF نے جان بوجھ کر رہائشی علاقوں اور حساس عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں معصوم لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
شہر کے مقامی باشندوں نے بھی بتایا کہ مسلسل جھڑپوں کے باعث حالات بدترین ہوچکے ہیں، اسپتال بند، بجلی منقطع، پانی کی شدید قلت اور خوراک کی کمی نے شہریوں کی زندگی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔
دوسری جانب، RSF کے سربراہ محمد حمدان دقلو (حمیدتی) نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، لیکن فوج نے کہا کہ اعلان صرف دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے تھا کیونکہ عملی طور پر RSF نے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر لڑائی نہ رکی تو مغربی کردوفان مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔
اس جاری جنگ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ سوڈان میں اقتدار کی لڑائی نے پورے ملک کو خون ریزی، بربادی اور انسانی بحران کے گرداب میں دھکیل دیا ہے، اور یہ تنازع رکنے کے بجائے مزید پھیل رہا ہے۔

آسام میں پیش آنے والا یہ واقعہ انسانیت، ہوش مندی اور حاضر دماغی کی عظیم مثال ہے۔ منگل کی صبح فجر کے وقت ایک گاڑی پانی س...
04/12/2025

آسام میں پیش آنے والا یہ واقعہ انسانیت، ہوش مندی اور حاضر دماغی کی عظیم مثال ہے۔ منگل کی صبح فجر کے وقت ایک گاڑی پانی سے بھری کھائی میں پھنس گئی جس میں سات لوگ بند تھے اور گاڑی آہستہ آہستہ ڈوب رہی تھی۔ نہ اندھیرا چھٹا تھا، نہ ہی قریب کوئی مددگار موجود تھا۔ ایسے نازک موقع پر ایک مسلمان کلیرک (موذن/امام) نے وہ فیصلہ کیا جس نے کئی گھروں کو برباد ہونے سے بچا لیا۔

موذن نے جب مسجد کے قریب شور اور لوگوں کی مدد کی آوازیں سنیں تو فوراً مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کا مائیک اٹھایا اور پورے گاؤں میں اعلان کیا کہ “ایک گاڑی پانی میں ڈوب رہی ہے، سب لوگ فوراً مدد کے لیے پہنچیں!” یہ اعلان فجر کی اذان سے قبل کیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیدار ہو جائیں اور مدد کو دوڑ پڑیں۔

اعلان سنتے ہی پورا علاقہ حرکت میں آ گیا۔ چند ہی منٹوں میں درجنوں لوگ موقع پر پہنچے اور رسیوں، بانسوں اور اپنے ہاتھوں کی مدد سے گاڑی کے اندر پھنسے ساتوں افراد کو باہر نکال لیا۔ اگر یہ بروقت اعلان نہ کیا جاتا تو گاڑی مکمل طور پر پانی میں جا سکتی تھی اور بڑی انسانی جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔

گاؤں والوں نے اس موذن کی حاضر دماغی کو بے حد سراہا اور اسے حقیقی ہیرو قرار دیا۔ مقامی انتظامیہ نے بھی اس اقدام کو ایک مثالی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اگر اعلان نہ کیا جاتا تو شاید سب کو بچانا ممکن نہ ہوتا۔”

اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ مذہب، قومیت یا زبان سے زیادہ اہم انسانیت ہے۔ ایک مائیک پر کی گئی بروقت آواز نے سات خاندانوں کو رو رو کر بچ جانے کی دعا کرنے کا موقع دیا۔




Address

Banmankhi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rahil Raqeebi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Rahil Raqeebi:

Share