10/11/2025
سوڈان: پسِ منظر اور پیشِ منظر
اسمٰعیل۔پرتاپ گڑھ
مدرسۃ العلوم الاسلامیہ۔ علی گڑھ
موجودہ زمانے میں عالمِ اسلام کی حالت نہایت نازک ہے۔ جگہ جگہ مسلمان تکلیفوں اور اذیتوں کا شکار ہیں۔ اسلام کی ایک سرزمین ارضِ سوڈان بھی انہی شدید مسائل سے گزر رہی ہے، جبکہ فلسطین کے المیے سے آپ پہلے ہی واقف ہیں۔ اسی طرح اسلام کا ایک اور خطہ، مشرقی ترکستان، آج چینی تسلط میں ہے۔ پہلے یہ علاقہ بڑا ترقی یافتہ تھا اور اس میں کاشغر، ختن اور ترکستان جیسے اہم شہر شامل تھے، مگر اب غیر مسلم طاقتوں کے زیرِ قبضہ ہے۔
سوڈان کی تاریخ نہایت طویل اور فکرانگیز ہے۔
اگر آپ افریقہ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو دنیا کا سب سے بڑا صحرا صحرائے اعظم (Sahara) نظر آتا ہے، جو مشرق میں بحیرہ احمر سے مغرب میں بحرِ اوقیانوس تک، اور شمال میں بحیرہ روم سے لے کر جنوب میں ساحل (Sahel) کے خطے تک پھیلا ہوا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث اس کا بڑا حصہ غیر آباد ہے، البتہ درمیان میں نخلستان موجود ہیں۔ جہاں پانی دستیاب ہے یا ساحلی زمین ہے، وہ علاقے سرسبز اور آباد ہیں۔
اسی طرح ارضِ سوڈان میں بھی جہاں دریا بہتے ہیں، خصوصاً نیلِ ابیض اور نیلِ ازرق، وہاں کی زمینیں نہایت زرخیز ہیں۔ یہی دونوں دریا خرطوم میں مل کر نیلِ عظیم بناتے ہیں جو مصر سے گزرتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ جنوبی سوڈان نسبتاً زیادہ بارش والا علاقہ ہے اور اس کے متعدد دلدلی مقامات کو قابلِ کاشت بنایا جا رہا ہے۔ یہاں کی اہم پیداوار میں گنا، کپاس اور مونگ پھلی شامل ہیں، جبکہ لوہا، تانبہ اور دیگر معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔
سوڈان کے ہمسایہ ممالک یہ ہیں: جنوب میں جنوبی سوڈان، مغرب میں چاڈ، شمال مغرب میں لیبیا، شمال میں مصر، شمال مشرق میں بحیرہ احمر، اور مشرق میں ایتھوپیا و اریٹیریا۔ مصر کے ساتھ اس کا تاریخی تعلق بہت گہرا ہے۔
ابتدا میں عرب اہلِ صحرا پورے صحرائے اعظم کے کالے فام باشندوں کو سودان کہا کرتے تھے۔ یہ لفظ سُودٌ کی جمع ہے، یعنی سیاہ فام لوگ۔ بعد میں یہی نام ایک مخصوص ملک کے لیے استعمال ہونے لگا۔
سوڈان کے بالکل قریب وہ ملک ہے جسے آج ایتھوپیا کہا جاتا ہے، قدیم نام حبشہ تھا۔ اسلام سب سے پہلے افریقہ میں اسی خطے تک پہنچا۔ بڑے بڑے صحابہ یہاں ہجرت کر کے آئے، اور مسلمانوں کی پہلی ہجرت بھی یہیں تھی۔
سوڈان کی قدیم تہذیب بھی نہایت قدیم ہے۔ یہاں نوبیہ نامی خطہ موجود تھا جس میں مملکتیں قائم تھیں، جیسے ناپاتا اور میروے۔ ان مملکتوں کے زوال کے بعد کئی صدیوں تک یہاں عیسائی ریاستیں قائم رہیں۔ پھر عرب مسلمان یہاں آئے، خاص طور پر پہلی سے تیسری صدی ہجری کے درمیان، اور بتدریج غالب آتے گئے۔
اس کے بعد مختلف مسلمان حکومتوں کا اثر و نفوذ جاری رہا۔ مملوکوں نے کچھ عرصہ اس خطے پر اثر رکھا، اور پندرھویں صدی میں سنار کے علاقے میں فُنْج سلطنت قائم ہوئی جو ایک مضبوط ریاست تھی۔ پھر مصر کے ترک حکمرانوں نے یہاں قبضہ کر کے خرطوم کی بنیاد رکھی، مگر ان کا رویہ مقامی آبادی کے ساتھ سخت تھا۔
اسی ناانصافی کے ماحول میں محمد احمد المہدی کی شخصیت ابھری۔ وہ صوفی مزاج، عبادت گزار اور اخلاقی سختی کے قائل انسان تھے۔ جامعہ ازہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے اور دریائے نیل کے کنارے جزیرہ ابا میں رہنے لگے۔ انہوں نے مقامی قبائل کو متحد کیا، اور ظلم کے خلاف تحریک برپا کی۔ مہدی کے ساتھیوں نے سخت جنگوں کے بعد کامیابی حاصل کی اور ایک مضبوط حکومت قائم کی۔ ان کا دارالحکومت اُم درمان تھا۔ وہ مصر کی طرف ایک بڑی مہم کی تیاری کر رہے تھے مگر اسی دوران وفات پا گئے۔
بعد میں مصر میں موجود برطانوی فوج نے، مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر، سوڈان پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ مہدی کے ماننے والے بہادری سے لڑے لیکن جدید اسلحے کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور بالآخر Anglo Egyptian Sudan کے نام سے مشترکہ مصری برطانوی حکومت قائم ہو گئی۔
انگریزوں نے ترقیاتی کام بھی کیے جیسے خرطوم یونیورسٹی، نیل پر بند، آبپاشی کا نظام، ریل کا جال اور سڑکیں؛ لیکن ساتھ ہی عیسائیت کی تبلیغ اور سیاسی تقسیم بھی پیدا کی۔ جاتے جاتے سوڈان کو اندرونی اختلافات میں دھکیل گئے۔
آزادی سے پہلے دو بڑی پارٹیاں وجود میں آئیں:
اشقہ (National Unionist Party) اور امّہ پارٹی۔
پہلی مصر کے ساتھ اتحاد چاہتی تھی، جبکہ امّہ پارٹی سوڈان کی مکمل آزادی چاہتی تھی۔ امّہ پارٹی کی قیادت مہدی کے خانوادے کو حاصل تھی۔ اختلافات کے باعث دیر ہوئی، لیکن آخرکار 1956 میں سوڈان نے آزادی حاصل کر لی۔
آزادی کے بعد امید قائم تھی، مگر جلد ہی سیاسی کشمکش بڑھتی گئی۔ جنوب میں جہاں عیسائی آبادی زیادہ تھی، وہاں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔ صدر جعفر نمیری نے انہیں اختیارات دینے کی کوشش کی، مگر بالآخر جنوب الگ ہو کر جنوبی سوڈان کے نام سے نیا ملک بن گیا۔
موجودہ شمالی سوڈان کبھی امن و امان کا گہوارہ تھا، مگر پھر بعض طاقتوں کی نظر اس کے سونے اور وسائل پر پڑ گئی۔ انہوں نے اپنی ناپاک چالوں سے یہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑایا، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ آج لوگ پیسے کے لالچ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ جدھر دیکھو خون ہی خون ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہر طرف جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ زمین پر قیامت کا سا منظر ہے۔
ہر طرف دیکھو، چھڑی ہے جنگ، قتل عام ہے
ہر جگہ محشر بپا ہے، شرور ہے کہرام ہے
بچے چیخ رہے ہیں، مائیں تڑپ رہی ہیں، مرد بے بسی میں کھڑے ہیں، مگر ان کی مدد کو کوئی نہیں آتا۔ سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
تہہ بتہہ جمتی چلی جاتی ہے سناٹوں کی گرد
حالِ دل سب دیکھتے ہیں، پوچھتا کوئی نہیں
خاص طور پر عرب ممالک اپنے عیش و عشرت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ انہیں انسانیت کی کوئی فکر نہیں۔ وہ طاقتوروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں، ان کی رسی انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے آباء و اجداد کو بھول چکے ہیں، اپنے دین سے دور ہو چکے ہیں۔ وہ دین جس نے کبھی بڑے بڑے طاغوتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج مغربی تہذیب ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔
کہاں بھاگے چلے جاتے ہو تم سب جانبِ مغرب
اُدھر سورج بھی جاتا ہے تو جا کر ڈوب جاتا ہے
سوڈان اور فلسطین دونوں سخت آزمائشوں سے گزر رہے ہیں، بلکہ سوڈان کی حالت تو فلسطین سے بھی زیادہ ابتر ہو چکی ہے۔