Abu Zaid Nadwi

Abu Zaid  Nadwi کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

سوڈان: پسِ منظر اور پیشِ منظراسمٰعیل۔پرتاپ گڑھمدرسۃ العلوم الاسلامیہ۔ علی گڑھموجودہ زمانے میں عالمِ اسلام کی حالت نہایت ...
10/11/2025

سوڈان: پسِ منظر اور پیشِ منظر
اسمٰعیل۔پرتاپ گڑھ
مدرسۃ العلوم الاسلامیہ۔ علی گڑھ
موجودہ زمانے میں عالمِ اسلام کی حالت نہایت نازک ہے۔ جگہ جگہ مسلمان تکلیفوں اور اذیتوں کا شکار ہیں۔ اسلام کی ایک سرزمین ارضِ سوڈان بھی انہی شدید مسائل سے گزر رہی ہے، جبکہ فلسطین کے المیے سے آپ پہلے ہی واقف ہیں۔ اسی طرح اسلام کا ایک اور خطہ، مشرقی ترکستان، آج چینی تسلط میں ہے۔ پہلے یہ علاقہ بڑا ترقی یافتہ تھا اور اس میں کاشغر، ختن اور ترکستان جیسے اہم شہر شامل تھے، مگر اب غیر مسلم طاقتوں کے زیرِ قبضہ ہے۔
سوڈان کی تاریخ نہایت طویل اور فکرانگیز ہے۔
اگر آپ افریقہ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو دنیا کا سب سے بڑا صحرا صحرائے اعظم (Sahara) نظر آتا ہے، جو مشرق میں بحیرہ احمر سے مغرب میں بحرِ اوقیانوس تک، اور شمال میں بحیرہ روم سے لے کر جنوب میں ساحل (Sahel) کے خطے تک پھیلا ہوا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث اس کا بڑا حصہ غیر آباد ہے، البتہ درمیان میں نخلستان موجود ہیں۔ جہاں پانی دستیاب ہے یا ساحلی زمین ہے، وہ علاقے سرسبز اور آباد ہیں۔
اسی طرح ارضِ سوڈان میں بھی جہاں دریا بہتے ہیں، خصوصاً نیلِ ابیض اور نیلِ ازرق، وہاں کی زمینیں نہایت زرخیز ہیں۔ یہی دونوں دریا خرطوم میں مل کر نیلِ عظیم بناتے ہیں جو مصر سے گزرتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ جنوبی سوڈان نسبتاً زیادہ بارش والا علاقہ ہے اور اس کے متعدد دلدلی مقامات کو قابلِ کاشت بنایا جا رہا ہے۔ یہاں کی اہم پیداوار میں گنا، کپاس اور مونگ پھلی شامل ہیں، جبکہ لوہا، تانبہ اور دیگر معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔
سوڈان کے ہمسایہ ممالک یہ ہیں: جنوب میں جنوبی سوڈان، مغرب میں چاڈ، شمال مغرب میں لیبیا، شمال میں مصر، شمال مشرق میں بحیرہ احمر، اور مشرق میں ایتھوپیا و اریٹیریا۔ مصر کے ساتھ اس کا تاریخی تعلق بہت گہرا ہے۔
ابتدا میں عرب اہلِ صحرا پورے صحرائے اعظم کے کالے فام باشندوں کو سودان کہا کرتے تھے۔ یہ لفظ سُودٌ کی جمع ہے، یعنی سیاہ فام لوگ۔ بعد میں یہی نام ایک مخصوص ملک کے لیے استعمال ہونے لگا۔
سوڈان کے بالکل قریب وہ ملک ہے جسے آج ایتھوپیا کہا جاتا ہے، قدیم نام حبشہ تھا۔ اسلام سب سے پہلے افریقہ میں اسی خطے تک پہنچا۔ بڑے بڑے صحابہ یہاں ہجرت کر کے آئے، اور مسلمانوں کی پہلی ہجرت بھی یہیں تھی۔
سوڈان کی قدیم تہذیب بھی نہایت قدیم ہے۔ یہاں نوبیہ نامی خطہ موجود تھا جس میں مملکتیں قائم تھیں، جیسے ناپاتا اور میروے۔ ان مملکتوں کے زوال کے بعد کئی صدیوں تک یہاں عیسائی ریاستیں قائم رہیں۔ پھر عرب مسلمان یہاں آئے، خاص طور پر پہلی سے تیسری صدی ہجری کے درمیان، اور بتدریج غالب آتے گئے۔
اس کے بعد مختلف مسلمان حکومتوں کا اثر و نفوذ جاری رہا۔ مملوکوں نے کچھ عرصہ اس خطے پر اثر رکھا، اور پندرھویں صدی میں سنار کے علاقے میں فُنْج سلطنت قائم ہوئی جو ایک مضبوط ریاست تھی۔ پھر مصر کے ترک حکمرانوں نے یہاں قبضہ کر کے خرطوم کی بنیاد رکھی، مگر ان کا رویہ مقامی آبادی کے ساتھ سخت تھا۔
اسی ناانصافی کے ماحول میں محمد احمد المہدی کی شخصیت ابھری۔ وہ صوفی مزاج، عبادت گزار اور اخلاقی سختی کے قائل انسان تھے۔ جامعہ ازہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے اور دریائے نیل کے کنارے جزیرہ ابا میں رہنے لگے۔ انہوں نے مقامی قبائل کو متحد کیا، اور ظلم کے خلاف تحریک برپا کی۔ مہدی کے ساتھیوں نے سخت جنگوں کے بعد کامیابی حاصل کی اور ایک مضبوط حکومت قائم کی۔ ان کا دارالحکومت اُم درمان تھا۔ وہ مصر کی طرف ایک بڑی مہم کی تیاری کر رہے تھے مگر اسی دوران وفات پا گئے۔
بعد میں مصر میں موجود برطانوی فوج نے، مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر، سوڈان پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ مہدی کے ماننے والے بہادری سے لڑے لیکن جدید اسلحے کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور بالآخر Anglo Egyptian Sudan کے نام سے مشترکہ مصری برطانوی حکومت قائم ہو گئی۔
انگریزوں نے ترقیاتی کام بھی کیے جیسے خرطوم یونیورسٹی، نیل پر بند، آبپاشی کا نظام، ریل کا جال اور سڑکیں؛ لیکن ساتھ ہی عیسائیت کی تبلیغ اور سیاسی تقسیم بھی پیدا کی۔ جاتے جاتے سوڈان کو اندرونی اختلافات میں دھکیل گئے۔
آزادی سے پہلے دو بڑی پارٹیاں وجود میں آئیں:
اشقہ (National Unionist Party) اور امّہ پارٹی۔
پہلی مصر کے ساتھ اتحاد چاہتی تھی، جبکہ امّہ پارٹی سوڈان کی مکمل آزادی چاہتی تھی۔ امّہ پارٹی کی قیادت مہدی کے خانوادے کو حاصل تھی۔ اختلافات کے باعث دیر ہوئی، لیکن آخرکار 1956 میں سوڈان نے آزادی حاصل کر لی۔
آزادی کے بعد امید قائم تھی، مگر جلد ہی سیاسی کشمکش بڑھتی گئی۔ جنوب میں جہاں عیسائی آبادی زیادہ تھی، وہاں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔ صدر جعفر نمیری نے انہیں اختیارات دینے کی کوشش کی، مگر بالآخر جنوب الگ ہو کر جنوبی سوڈان کے نام سے نیا ملک بن گیا۔
موجودہ شمالی سوڈان کبھی امن و امان کا گہوارہ تھا، مگر پھر بعض طاقتوں کی نظر اس کے سونے اور وسائل پر پڑ گئی۔ انہوں نے اپنی ناپاک چالوں سے یہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑایا، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ آج لوگ پیسے کے لالچ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ جدھر دیکھو خون ہی خون ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہر طرف جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ زمین پر قیامت کا سا منظر ہے۔
ہر طرف دیکھو، چھڑی ہے جنگ، قتل عام ہے
ہر جگہ محشر بپا ہے، شرور ہے کہرام ہے
بچے چیخ رہے ہیں، مائیں تڑپ رہی ہیں، مرد بے بسی میں کھڑے ہیں، مگر ان کی مدد کو کوئی نہیں آتا۔ سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
تہہ بتہہ جمتی چلی جاتی ہے سناٹوں کی گرد
حالِ دل سب دیکھتے ہیں، پوچھتا کوئی نہیں
خاص طور پر عرب ممالک اپنے عیش و عشرت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ انہیں انسانیت کی کوئی فکر نہیں۔ وہ طاقتوروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں، ان کی رسی انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے آباء و اجداد کو بھول چکے ہیں، اپنے دین سے دور ہو چکے ہیں۔ وہ دین جس نے کبھی بڑے بڑے طاغوتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج مغربی تہذیب ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔
کہاں بھاگے چلے جاتے ہو تم سب جانبِ مغرب
اُدھر سورج بھی جاتا ہے تو جا کر ڈوب جاتا ہے
سوڈان اور فلسطین دونوں سخت آزمائشوں سے گزر رہے ہیں، بلکہ سوڈان کی حالت تو فلسطین سے بھی زیادہ ابتر ہو چکی ہے۔

یہود و اسرائیل کی عہد شکنی — قرآنی بیان اور تاریخی حقائقمحمد ساحل۔بحروپور پرتاپ گڑھ مدرسۃ العلوم الإسلامیہ علی گڑھ الَّذ...
09/11/2025

یہود و اسرائیل کی عہد شکنی — قرآنی بیان اور تاریخی حقائق
محمد ساحل۔بحروپور پرتاپ گڑھ
مدرسۃ العلوم الإسلامیہ علی گڑھ
الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ ۔سورۃ الانفال (56)
ترجمہ:“جن لوگوں سے آپ نے معاہدہ کیا، پھر وہ ہر بار اپنا معاہدہ توڑ دیتے ہیں، اور وہ ڈرتے بھی نہیں۔”
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً۔سورۃ المائدہ (13)
ترجمہ:“پس ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دیے۔”
قرآنِ کریم نے یہود کے مسلسل عہد شکن رویّے کو بیان کیا ہے، اور تاریخ نے اسے بار بار ثابت کیا۔
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی اور وہاں موجود تین یہودی قبائل سے باقاعدہ "میثاقِ مدینہ" کے تحت امن و باہمی دفاع کے معاہدے کیے۔لیکن بنو قَینُقاع نے سب سے پہلے معاہدہ توڑا۔مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں۔معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔
انہیں مدینہ سے جلاوطن کیا گیا۔
بنو نَضیر نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی۔اور معاہدہ توڑنے پر مدینہ سے نکال دیے گئے۔یہ خیبر جا کر آباد ہوئے۔
بنو قُرَیظہ غزوۂ احزاب کے دوران دشمنوں سے جا ملے۔معاہدہ شکنی اور غداری کی۔
ان کا فیصلہ خود ان کے حلیف حضرت سعد بن معاذؓ نے کیا۔
فتحِ خیبر کے بعد یہودیوں نے درخواست کی کہ:“ہمیں یہاں کھیتی کرنے دی جائے اور پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو دیا جائے۔”رسول اللہ ﷺ نے قبول کیا، لیکن یہودیوں نے اس کے بعد دوبارہ عہد شکنی کی۔
ایک یہودی نے حضرت عبداللہؓ (مہمانِ رسول) کو چھت سے دھکا دے کر قتل کر دیا۔یہ کھلی بدعہدی اور معاہدہ شکنی تھی۔حضرت عمرؓ نے فرمانِ نبوی ﷺ کے مطابق:“جزیرۃ العرب میں دو دین جمع نہیں رہیں گے”تمام یہودیوں کو خیبر سے بھی جلا وطن کر دیا۔
فلسطین میں یہود کی رسائی اور سازشیں
تقریباً 1880ء سے یورپ کے یہودی بڑی تعداد میں فلسطین آنے لگے۔زمینیں خریدنے اور آبادیاں بسانے لگے۔پہلے ان کی تعداد تقریباً 5 فیصد تھی، جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔
یہودی قیادت نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی سے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی اجازت چاہی، مگر سلطان نے فرمایا:“میری لاش کے ٹکڑے کیے بغیر فلسطین کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔”
اسی فیصلے کے بعد مغربی طاقتوں نے سازش کے ذریعے انہیں معزول کر دیا۔
اب برطانیہ نے عربوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ترکوں کے خلاف ساتھ دیں گے تو انہیں حکومت دی جائے گی۔عرب اس وعدے کے جھانسے میں آگئے۔مگر برطانیہ نے وعدہ پورا نہ کیا۔
اعلانِ بالفور 1917ء
برطانیہ نے فلسطین میں “یہودی قومی وطن” کے قیام کی منظوری دے دی۔یہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی پہلی بین الاقوامی پشت پناہی تھی۔اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو یہودی و عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی ہی تھی کہ اسرائیل نے تجویز سے کہیں زیادہ زمین پر قبضہ کر لیا۔اقوام متحدہ نے ابھی ریاست کا اعلان نہیں کیا تھا کہ اسرائیلیوں نے خود ریاستِ اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔اورفلسطینی شہروں میں قتلِ عام ہوا۔اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا رہا۔اسلحہ کم ہونے پر اسرائیل نے چار ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کیا۔لیکن اس دوران ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔بیرونی امداد اور نئی فوجیں حاصل کیں۔پھر دوبارہ حملہ کر کے مزید زمین ہتھیالی۔
یہ وہی عہد شکنی تھی جسے قرآن نے صدیوں پہلے بیان کر دیا تھا۔
1949 تا جدید دور
1949 میں عربوں اور اسرائیل نے باضابطہ جنگ بندی کی، مگر یہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔ 1956–57ء — سینائی جنگ میں اسرائیل نے مصر، شام اور لبنان پر اچانک حملہ کر دیا۔ سخت لڑائی ہوئی،دونوں جانب نقصان ہوا۔
بعد میں امریکہ اور برطانیہ نے اپنی فوجیں واپس بلائیں ۔اسرائیل نے سینائی خالی کر کے دوبارہ اقوام متحدہ سے امن کی درخواست کی۔1967ء — جنگِ چھے روزہ میں پھر
اسرائیل نے بغیر اعلانِ جنگ کے عرب ایئرپورٹس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔عربوں نے تین دن بعد جنگ بندی کا اعلان کیا، اقوام متحدہ نے قبول کر لیا۔لیکن اسرائیل نے حملے جاری رکھے اور گولان کی پہاڑیاں بھی قبضے میں لے لیں۔10 جون 1967ء کو اسرائیل نے خود جنگ بندی کا اعلان کیا۔
1973 — جنگِ رمضان / یومِ کپور میں عربوں نے اچانک حملہ کیا۔سخت جنگ ہوئی۔آخرکار صورتِ حال پیچیدہ ہونے پر اسرائیل نے پھر اقوام متحدہ کی پناہ لی۔
2000 کے بعد بھی اسرائیل نے
معاہدوں کی خلاف ورزی،فریب،مکاری اور سیاسی
عسکری سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر سمجھوتے کے بعد دوبارہ وعدہ شکنی—یہ ان کی مستقل فطرت بن چکی ہے۔
امتِ مسلمہ کے لیے سبق
قرآن کا فرمان آج بھی حقیقتِ حال پر واضح دلیل ہے:“جن سے تم نے معاہدہ کیا، وہ ہر مرتبہ معاہدہ توڑ دیتے ہیں، اور انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا۔”(الانفال: 56)
اس لیے امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ اسرائیل کے وعدوں اور مذاکرات کے دھوکے میں نہ آئے، کیونکہ ان کے ہر معاہدے میں عیاری،مکاری،دغا بازی اور چال سازی چھپی ہوتی ہے۔
یہ چیز ان کی فطرت میں رچی بسی ہے اور تاریخ اسی کی گواہی دیتی ہے۔

ہر خواب بستر پر نہیں دیکھا جاتا، کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل کے بساط پر اترتے ہیں اور پھر نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے...
23/10/2025

ہر خواب بستر پر نہیں دیکھا جاتا، کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل کے بساط پر اترتے ہیں اور پھر نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
سالوں پہلے ایک بستی میں ایسا ہی ایک خواب نے جنم لیا۔ یہ خواب دولت یا شہرت کا نہیں تھا، یہ خواب تھا ایمان کی روشنی بانٹنے کا، یہ خواب تھا علم کی شمع جلانےکا، یہ خواب تھا دین کے پروانوں کو تیار کرنے کا۔ وقت گزرتا گیا، لوگ جڑتے گئے۔کسی نے اپنا وقت دیا، کسی نے اپنی صلاحیت، کسی نے سرمایہ لگایا، تو کسی نے راتوں کی نیندیں قربان کیں یوں یہ خواب رفتہ رفتہ اپنی شکل پانے لگا۔ انہی خواب دیکھنے والوں میں ایک ایسی شخصیت نمایاں ہوئی، جس کو پرتاپ گڑھ کی دینی فضا میں ایک ایسے مضبوط ستون کی حیثیت حاصل ہے جس پر علم و ادب اور فکر و اصلاح کی پوری عمارت قائم ہے، اور جس کے سائے میں آنے والا ہر شخص سکون و اطمینان کی ٹھنڈی سانس لیتا ہے۔ ان کی مجلسیں چراغاں کی ہوئی محفلوں کا منظر پیش کرتی ہیں، جہاں ہر لفظ دانائی کے موتیوں میں پرویا جاتا ہے، اور ہر نصیحت دلوں کو اس طرح شگفتہ کر دیتی ہے جیسے خزاں رسیدہ شجر پر اچانک بہار اتر آئے۔ لوگ جب اُن پر نظر ڈالتے ہیں تو یوں محسوس کرتے ہیں کہ یہ محض ایک فرد نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق سے نکل کر آنے والا وہ کردار ہے جو پورے ضلع کو اس کے اصل سرمایے—ایمان، علم اور کردار—کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قدم جہاں پڑتے ہیں وہاں کی فضا میں ایک تازگی بھر جاتی ہے، گویا صبح کا سورج رات کی گھنی تاریکی کو چھید کر اپنی کرنیں بکھیر دے۔ ان کی زبان میں تاثیر، نگاہ میں سکون اور دل میں وہ شعلہ ہے جو مردہ دلوں کو جلا دیتا ہے اور زنگ آلود روحوں کو چمکا دیتا ہے۔ یہ عظیم ہستی مولانا محمد شعیب صاحب ندوی (ناظم جامعہ عربیہ امداد العلوم، سرولی کہنڈور پرتاپ گڑھ) ہیں۔
بہرحال۔ یہ خواب کئی سالوں کی مسلسل جد وجہد کے بعد حقیقت میں تبدیل ہوا اور ایک زندہ و جاوید درسگاہ کی شکل میں ظاہر ہوا جس کو مدرسہ سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، امین نگر، بحروپور، پرتاپ گڑھ کے نام سے تعبیر کیا گیا۔
مدرسہ سید ابوالحسن علی حسنی ندوی مولانا محمد شعیب ندوی صاحب کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جس کی روشنی نے اطراف و اکناف کی ظلمتوں کو دور کیا۔ یہ وہ سرچشمہ ہے جس نے دین کے پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ یہاں آنے والا ہر شخص خواہ طالب علم ہو یا عام انسان اپنے حصے کی روشنی لے کر لوٹتا۔ مدرسے کے در و دیوار گویا گواہ ہیں کہ کس طرح یہ ادارہ ہر سطح کے لوگوں کی مدد کرتا رہا اور ہر ضرورت مند کے کام آتا رہا۔ اور یوں وقت کے دریاؤں میں یہ سلسلہ جاری رہا اور بڑھتا و پھیلتا رہا، کہ اچانک ایک حادثہ پیش آیا جس نے اس مدرسہ کی عمارت کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے مستقبل کو ظلمت و تاریکی کے زندان میں ہمیشہ کے لئے قید کردیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ حادثہ محض ایک اتفاق نہ تھا۔ یہ اُس فطرت کا شَاخْسَانہ تھا جو جہاں بھی موجود ہو، وہاں فساد اور اختلاف کے بیج بوئے بغیر سکون نہیں پاتی۔ وہ لوگ جو بظاہر خیرخواہ بن کر سامنے آتے ہیں مگر اندر سے چپکے چپکے چنگاریاں بھڑکاتے ہیں وہی لوگ پسِ پردہ ایک جال بُننے لگے جس کا مقصد چراغ کو بجھانا، اور بہتے دریا کا رخ موڑ دینا تھا، ان کے ترکش میں ہتھیار صرف ایک تھا، الزام الزام الزام۔ کہیں کہا گیا: امانت میں خیانت ہو رہی ہے، کہیں سرگوشیاں کی گئیں: خدمت کے پردے میں ذاتی مفاد چھپا ہوا ہے، کہیں یوں جتایا گیا گویا محنت کا صلہ آسائشوں کے روپ میں وصول کیا جا رہا ہو۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ تنگ دستی کے باوجود ایثار، کٹھن حالات کے باوجود استقامت، اور ہر موڑ پر دین کے لیے خالص خدمت کا جذبہ موجزن تھا۔ اورجب کوئی شخص ان کے اس جھوٹ سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی اور حق کے ساتھ کھڑا ہوا تو اسے ڈرایا دھمکایا گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سازش کرنے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے، بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ مفاد و نفس کا ایک ہجوم ہوتا ہے اور ان کے ارد گرد منافقت و خودغرضی کا غبار چھایا رہتا ہے۔ وہی غبار اُس وقت بھی اٹھا،
جب چند ایسے بھی نکل آئے جو منافقانہ انداز میں ان کے ساتھ صفِ باطل میں جا کھڑے ہوئے، ایسے چہرے جن سے بھلائی کی امید تھی وہی بوقتِ آزمائش کانوں میں سرگوشیوں کا زہر گھولتے دکھائی دیے، اور بالقصد فتنہ پروروں کے الزام کو حقیقت کا لباس پہنا کر آگ میں مزید تیل ڈالنے کا کام کیا۔
پھر میٹنگز ہوئیں… بیٹھکیں ہوئیں… سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ مگر ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ کیونکہ معاملہ وقت کے ایسے فرعونوں کے ساتھ تھا جو اپنے ناقص خیال و گمان کو ہی برحق سمجھتے تھے اور دوسروں کے مدلل کلام کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے تھے۔ اور پھر وہی کچھ ہوا جو کبھی مصر کے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، اور جو کفارِ مکہ نے اللہ کے رسول صلعم کے ساتھ کیا تھا۔
ایسی فضا اور ماحول میں مولانا محمد شعیب ندوی صاحب نے خاموشی اختیار کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سازش کے شور میں سچائی کی آواز دب جاتی ہے،
اور کبھی کبھی حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خود کو فتنے کے دائرے سے الگ کر لیا جائے۔
یوں ٹوٹے دل کے ساتھ استعفیٰ تحریری شکل میں سامنے آیا۔ اور ہر پڑھنے اور سننے والے کا دل غم سے لبریز ہو گیا۔
میرے بھائیوں۔
یہ قصہ محض ایک مدرسے کی سچی کہانی نہیں، بلکہ یہ اخلاص و نفس پرستی، ایمان و آزمائش کے معرکے کی داستان ہے۔ چند ظالم اور دنیا کے فریب میں گرفتار لوگوں نے چاہا کہ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کو اذیت دے کر، اس پر زمین تنگ کر کے، اس کے استقلال و عزم کو متزلزل کر دیں، اور اسے اپنی خود ساختہ عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کریں، مگر ایمان کی قوت، جب دل میں جاگزیں ہو جائے تو پھر وہ نہ ظلم سے ڈرتی ہے، نہ طاقت کے مظاہرے سے مرعوب ہوتی ہے، وہ نیک بندہ، سکون قلب اور اطمینان ایمان کے ساتھ، ان کی ظالم عدالت میں گیا، اور جب اس سے سوال ہوا تو اس نے یقین و ثبات کے لہجہ میں اعلان کر دیا کہ اصل خدمت اللہ تعالیٰ کی خدمت ہے، اصل کامیابی اس کی رضا و خوشنودی میں ہے، اور اگر مدرسے کا عہدۂ انتظام اس راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو وہ بھی قربان کیے جا سکتے ہیں، مگر رضاے الٰہی کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔
اس اعلان و اظہار حق کے بعد مولانا محمد شعیب ندوی صاحب نے جب بحرو پور کی گلیوں سے رخت سفر باندھا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ شاید یہ شمس وقمر ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، لیکن تاریخ گواہ ہے، اور قانون قدرت بھی یہی ہے کہ سورج اگر ایک جگہ ڈوبتا ہے، تو دوسری جگہ ضرور طلوع ہوتا ہے، اور اپنی چمکدار روشنی سے لوگوں کی تاریک زندگیوں کو روشن کرتا ہے۔
آج مولانا محمد شعیب صاحب ندوی جامعہ عربیہ امداد العلوم سرولی کہنڈور پرتاپ گڑھ میں اپنی نئی جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں، مولانا آج بھی اسی اخلاص اور انہی ارادوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ وہی خواب… وہی جذبہ… وہی مشن، امت کے ہونہاروں اور جیالوں کو علم، ایمان اور کردار کی روشنی سے منور کرنا۔ یہ ایک نیا سفر ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ان کی محنتیں وقت کی گرد میں دبتی نہیں، بلکہ نئی نسلوں کے خوابوں کا سرمایہ بن جاتی ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا محمد شعیب ندوی صاحب کی محنتوں کو قبول فرمائے، ان کے نئے ادارے کو امت کے لیے مفید اور بابرکت بنائے، اور ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ عطا فرمائے۔
کیونکہ
سورج کا ڈوبنا… انجام نہیں
بلکہ ایک نئے طلوع کی نوید ہے۔

آج مدرسۃ العلوم الإسلامیہ، علی گڑھ کے علمی ماحول میں خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ آج ایک طالب علم اسماعیل بن مولانا آدم علی ن...
20/10/2025

آج مدرسۃ العلوم الإسلامیہ، علی گڑھ کے علمی ماحول میں خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ آج ایک طالب علم اسماعیل بن مولانا آدم علی ندوی کی تالیف "اصول حدیث کی بنیادی باتیں" کے اجرا کی بابرکت تقریب منعقد ہوئی، جس میں مدرسہ کے تمام اساتذہ شریک ہوئے۔ سبھوں نے اس علمی کاوش پر بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور طالب علم کے لیے دعائیں کیں۔
یہ کتاب دراصل عربی زبان میں لکھی گئی ایک نصابی کتاب کا ترجمہ ہے، لیکن اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اصول حدیث کے تمام بنیادی مباحث کو نہایت سادہ، رواں اور قابل فہم اردو اسلوب میں پیش کیا گیا ہے اور مشکل علمی اصطلاحات کو طلبہ کی سطح کے مطابق آسان مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے، اس مقصد کے لیے ہر اصول کے تحت حدیث سے مناسب مثالیں پیش کی گئی ہیں تاکہ قاری کے ذہن میں مفہوم راسخ ہو جائے اور اصول محض نظری نہ رہیں بلکہ فہم و شعور کا حصہ بن جائیں۔
کتاب کی تیاری کا طریقہ بھی نہایت دلچسپ اور قابل تقلید ہے۔ طالب علم نے یہ کتاب روزآنہ ایک عربی درس کو حل کرنے، خود سے ترجمہ کرنے اور سمجھنے کے بعد تحریری صورت میں مرتب کی۔ ہر روز وہ اپنی تحریر اپنے والد محترم و استاذ مکرم مولانا آدم علی ندوی کی خدمت میں پیش کرتا، جو بڑی محبت اور توجہ سے اس کی نوک پلک درست کرتے اور علمی رہنمائی فرماتے۔ یہ علمی مشق صرف چند دن نہیں بلکہ کئی مہینوں تک مسلسل جاری رہی۔ اسی مسلسل محنت اور اصلاحی عمل کے نتیجے میں یہ کتاب کئی بار مکمل کی گئی، یہاں تک کہ آخر کار اپنی آخری صورت میں ایک منظم اور مفید تالیف کی شکل میں ہمارے سامنے آئی۔
اس کتاب کو مطبوعہ شکل میں پیش کرنے کا مقصد محض ایک علمی ذخیرہ مہیا کرنا نہیں بلکہ طالب علم کی ہمت افزائی اور اس کے اندر مطالعے اور تحریر کا شوق پیدا کرنا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب ایک طالب علم اپنے شوق اور استقامت کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے علم و قلم میں برکت عطا فرماتا ہے۔
آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب میں برکت عطا فرمائے، اسے طالب علم اور اس کے اساتذہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے، اور اصول حدیث میں الجھن محسوس کرنے والے طلبہ کے لیے اسے آسانی اور رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔آمین یا رب العالمین۔

18/10/2025

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صرف تاریخی واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہے۔ اس لیکچر میں آپ جانیں گے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوعی مطالعہ کیا ہے، اور سیرت کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ کیوں سب سے مؤثر اور جامع ہے۔ لیکچر از: مولانا مجیب الرحمن عتیق سنبھلی ندوی (ناظم تعلیمات دارالعلوم امام ربانی نیرل)

16/10/2025

قضیۂ فلسطین: احکام ولاء و براء کی روشنی میں
از مولانا مجیب الرحمن عتیق سنبھلی ندوی
( ناظم تعلیمات دار العلوم امام ربانی نیرل)

12/10/2025
10/10/2025

Truly inspiring message here

10/10/2025

फिलिस्तीन का मुद्दा और हाल ही में किया गया युद्धविराम समझौता | डॉ. मोहम्मद तारिक अय्यूबी नदवी

09/10/2025

تعزیتی پروگرام مدرسۃ العلوم الإسلامیہ علی گڑھ

بزم ماڈل سازی و تصویر سازی مدرسۃ العلوم الاسلامیہ علی گڑھ
09/10/2025

بزم ماڈل سازی و تصویر سازی مدرسۃ العلوم الاسلامیہ علی گڑھ

Address

Bela Pratapgarh

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abu Zaid Nadwi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share