13/10/2025
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا!
مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا
مری خاک جُگنو بنا کر اُڑا
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
ہری شاخِ مِلّت ترے نم سے ہے
نفَس اس بدن میں ترے دَم سے ہے
تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدّیقؓ دے
جگر سے وہی تِیر پھر پار کر
تمنّا کو سِینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مری ناؤ گِرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تُو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدۂ تَر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوَت و انجمن کا گداز
اُمنگیں مری، آرزوئیں مری
اُمیدیں مری، جُستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے، ٹھِکانے لگا دے اسے!
نظم: ساقی نامہ
کتاب: بالِ جبریل