
15/08/2025
یوم آزادی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد! 🇮🇳✨
اللہ ہمارے ملک کو ترقی، امن اور بھائی چارے کی نعمتوں سے نوازے اور ہمیں باہمی محبت، اتحاد اور انصاف کی راہ پر ثابت قدم رکھے۔
"اتحاد ہی طاقت ہے - یہی حقیقی آزادی کی پہچان ہے۔"
؟
دورِ حاضر میں جب جنگ آزادی کے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو مسلم مجاہدین کے کارنامے ہمارے حاشیۂ خیال میں کیوں نہیں آتے ہیں ۔ حالا ں کہ تاریخ کی ورق گردانی کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمان اور با لخصوص علما کی جما عت پیش پیش تھی ، اس کے با وجود اس دور میں دوسرے لوگ سرئے سے انکار کرتے ہیں کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے ۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ کچھ شر پسند تاریخ نگاروں نے مسلمانوں کے مجاہدانہ اور قائدانہ کردار کوتاریخی اوراق میں ظلماً درج نہیں کیا۔ تعصب نے ان کے آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ دوپہر میں چمکتے سورج کے انکار سے بھی گریز نہ کیا ۔ بایں سبب جہاں تعصب پرست تاریخ نگاروں نے تاریخ کو مسخ کرنے کی بے جاں کوشش کیں تو وہی حق پسند، منصف مزاج تاریخ نویسوں نے تاریخ بیان کر کے اپنی عظیم ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ با وجود اس کے ہماری غفلت و کوتاہی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم جنگ آزادی۱۸۵۷ء کے عظیم مجاہدوں کی قربانیوں کو فراموش کردیا ہے ۔ اور آج المیہ یہ ہے کہ جب اسلاف سے محبت کا دم بھرنے والوں کے سامنے مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی ،سید مبارک شاہ رامپوری ،مفتی عنایت احمد کاکوروی ، مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی ، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی ، مفتی مظہر کریم دریا بادی ، مولانا لیاقت الٰہ بادی ، مولانا رضا علی بریلوی ، مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی ، مولانا وہاج الدین مرادآبادی ، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی ، مولانا ڈاکٹر وزیر خان اکبر آبادی ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی ، اور جنرل وزیر خاں(وہم چنیں مسلسل ) کا تذکرہ کیا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ ان کے کارنامے کیا ہیں ؟ افسوس صد افسوس ! جنھوں نے ملک کی آزادی اور اپنے قوم وملت کے تحفظ کی خاطر اپنا سارا اثاثہ قربان کردیا یہاں تک کہ اپنی عزیز جان بھی قربان کر نے سے گریز نہ کیا اور جن کی بدولت آج ہم آزادنہ طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں،جن سر فروشوں نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا حتی کہ اپنی جان بھی قربان کر دی ، آج ہم ان کے ناموں سے بھی نا آشنا ہیں ، ہم زیادہ سے زیادہ علامہ فضلِ حق خیرا بآدی کانام جانتے ہیں اورعلامہ کے علاوہ ہم بے شمار مجاہدین ِ جنگ آزادی کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ اگر کچھ معلوم ہے تو دال میں نمک کے برابر ۔
آئیے ! ہم سب مل کر قائدینِ جنگ آزادی اور مجاہدینِ آزادی کا اس قدر تذکرہ کریں کہ آنے والی نسلوں کو قائدین و مجاہدین جنگ آزادی کے اسماے مبارکہ صرف سننے اور سنا نے سے یا د ہو جائیں ، انگریزصرف ہندوستان پر حکومت نہیں کر رہے تھے بلکہ اسلام ، احکامِ اسلام اور شعارِ اسلام کو ختم کر نے کی بے جاں کو شش کر رہے تھے ، ہاں ! منظم طورپرمذہبِ عیسائیت کے راہب ہند ستان میں آکر اپنے مذہب وملت کی نشر و اشاعت کر رہے تھے ، آگرہ میں باقائدہ عیسائیوں سے مناظرہ بھی ہوا ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی اہلِ سنت و جماعت کے جانب سے مناظر مقرر ہوئے اورمولانا فیض احمدعثمانی بدایونی ، مولانا ڈاکٹر وزیر خاں ان کے معاون ومدد گا ر تھے ۔ علماے اہلِ سنت کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور بنی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی عنایت وعطا سے فتحِ مبین حاصل ہوئی اورعیسائیوں کو شکتِ فاش سے دو چارہوناپڑا، گویا کہ آج ہم ان کی بدولت صرف آزادی کی سانس نہیں لے رہے ہیں بلکہ ہم اپنے مذہب و ملت (مذہبِ اسلام) پر انھیں مجاہدین کی سعی سےثابت قدم ہیں ۔
۲۶؍ جنوری ، ۱۵ ؍ اگست ان دنوں گورمنٹ کی طرف سے تعطیل ہوتی ہے ۔ مدارس ، کالج ، یونیور سیٹیز بھی بند ہو تے ہیں ، آخر کیوں ؟ ہم اس دن بھی مجاہدین و قائدینِ جنگ آزادی کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں ۔؟ ہاں ! ہاں ! اسی کو کہتے ہیں احسان فراموشی۔
عزیزوں!تاریخ کا مطالعہ کرو اور اپنے اسلاف کی عظیم اور ناقابل فراموش قربانیوں کو اپنے ذہن کے دریچہ میں محفوظ رکھو کیوں کہ
اپنی تاریخ کو جو قوم بھلا دیتی ہے
صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
✍️ :محمد علاءالدین قادری مصباحی بلرام پور