URDU Sports

URDU Sports UNI's newly launched "Sports" page dedicated to all sports Event, News & Controversy whether nationa The agency also has representatives in key world capitals.

The United News of India (UNI), founded in 1961, has emerged as one of the largest news agencies in India with several hundred subscribers across the length and breadth of the nation. The agency’s subscribers include newspapers published in 14 languages, All India Radio and Doordarshan, the Prime Minister’s Office as well as Union Ministers’ offices, Central and State governments, corporate and co

mmercial houses besides electronic and web based media. Having started its commercial operations on March 21, 1961, UNI has developed over the years to launch innovative steps and ideas that proved to be of immense benefit not only for its subscribers but to journalism as a whole. It has News Bureaus in all state capitals and other major cities. UNI was the first to start a multi-language news service UNIVARTA on May 1, 1982 that continues to provide Hindi newspapers and media organisations a comprehensive package of national, international, regional, sports and commercial news in their language of publication. UNI pioneered a national news photo service in 1987. From despatching just about a dozen black and white photographs through courier to subscribers, it now uses the latest technology to make available digital colour photos numbering nearly 150 from all over the country. The agency also has a tie up with Reuters to supply international photos. UNI remains the first and only news agency in the world to supply news in Urdu. UNI Urdu Service was launched by then Prime Minister PV Narasimha Rao on June 5, 1992. The service caters to newspapers, radio and television stations and government offices. Its ever expanding network covers Delhi, Uttar Pradesh, Madhya Pradesh, Bihar, Maharashtra, Karnataka, Andhra Pradesh and Jammu & Kashmir. Ad
Other Links
UNIVARTA (News Agency)
Indian News Agency
UNI-Urdu Service(News Agency)
Indian News Agency
Ad
UNI

سابق ہندوستانی اسپن گیندباز دلیپ دوشی جنہوں نے اپنے فن سے سچا پیار کیا22 دسمبر1947-23جون 2025سابق  ہندوستانی اسپن  گیندب...
24/06/2025

سابق ہندوستانی اسپن گیندباز دلیپ دوشی جنہوں نے اپنے فن سے سچا پیار کیا
22 دسمبر1947-23جون 2025

سابق ہندوستانی اسپن گیندباز دلیپ دوشی کا کل 23 جون کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقا ل ہوگیا۔ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق، دوشی کا انتقال دل کی تکلیف کے باعث ہوا۔ ان کی عمر 77 برس تھی۔ دوشی ڈومیسٹک سرکٹ میں اپنے دور کے سب سے زیادہ قابل اسپنرز میں سے ایک تھے۔ اسٹار اسپنر اور ہندوستانی کرکٹ کے گمنام ہیروز میں سے ایک، دلیپ دوشی نے بطور بزنس مین بڑی کامیابی حاصل کی۔ دوشی ہندستان کے ان چار کرکٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے 30 سال کی عمر کے بعد ڈیبیو کیا اور 100 سے زیادہ وکٹیں لیں۔یہ ان کی بہترین گیند بازی کا ایک نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ دوشی کے کرکٹ کیریئر کا تذکرہ اس وقت تک ادھورا رہے گا جب تک ناٹنگھم شائر اور واروکشائر کے ساتھ ان کے کاؤنٹی کے میچوں کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ان میچوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ایک ذہین اور صبر آزما گیند باز، دوشی انتہائی پرسکون ٹریکس پر بھی موثر رہے۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1979 میں کھیلا، جب وہ 32 سال کے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ 70 کی دہائی میں کھیلے، جب ہندوستان کے پاس ایراپلی پرسنا، بشن سنگھ بیدی، بھگوت چندر شیکھر اور وینکٹاراگھون جیسے کھلاڑی تھے۔ ان کی پہلی بیرون ملک سیریز – 1980 میں آسٹریلیا کے خلاف تھی جو نتیجہ خیز رہی۔ سڈنی میں بڑی شکست کے بعد ہندستان نے ایڈیلیڈ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جہاں کھیل کا اختتام تناؤ سے ڈرا پر ہوا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں برسوں کی محنت کے بعد جب دوشی نے 31 سال کی عمر میں ہندوستان کے لیے ڈیبیو کیا تو انھیں ایک بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ یہ ستمبر 1979 تھا، اور انہیں بشن سنگھ بیدی کی جگہ لینا پڑی، جو 1979 کے اوول ٹیسٹ کا حصہ تھے، جو ہندستان نے تقریباً جیت لیا تھا، لیکن وہ ہندستان کے کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں نہیں تھے –
اگر ہندوستان کی کرکٹ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے ایسے کرکٹرز نظر آئیں گے جنہیں اتنی شہرت اور پہچان نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔گجرات کے راجکوٹ میں 22 دسمبر 1947 کو ایک ایسے ہی کرکٹ کھلاڑی کی پیدائش ہوئی جس کا کرکٹ کا کیرئر بھلے ہی صرف چار برسوں پر محیط رہا ہولیکن وہ ایک ایسا کھلاڑی تھاجو ہندوستان میں ڈیبیو سے پہلے ہی بین الاقوامی سطح کا اسٹار بن چکا تھا۔جی ہاں دلیپ رسک لال دوشی،ہندستانی ٹیم میں بائیں ہاتھ کے بلے باز اور سلو لیفٹ آرم آرتھوڈوکس گیند باز تھے۔جنہوں نے ٹیم انڈیا کے علاوہ بنگال، ہرٹ فورڈ شائر، ناٹنگھم شائر ، سوراشٹر اور واروکشائر جیسی ٹیموں کے لئے کرکٹ کھیلی۔
سال 1981 میں ہندوستان اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ میچ آج بھی کرکٹ مداحوں کا یاد ہوگا۔ پہلے ٹسٹ میچ میں ہندستان کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ دوسرا ٹیسٹ میچ ڈرا پر ختم ہوا ۔ اس کے بعد میلبورن ٹیسٹ میں ہندوستانی ٹیم نے کرشمائی فتح حاصل کی اور دلیپ دوشی نے اس میچ میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہر کیا۔ وہ اس جیت کے ہیرو بھی رہے۔میلبورن میں کھیلے گئے اس ٹیسٹ میچ میں بلاشبہ گنڈاپا وشواناتھ کو ان کی سنچری کی وجہ سے مین آف دی میچ کے لئے منتخب کیا گیا ۔
حیرت کی بات یہ رہی کہ اس میچ میں دوشی نے آسٹریلیا کے خلاف ٹانگ میں فریکچر ہونے کے باوجود کھیلا۔پریکٹس/میچ کے دوران دوشی کے پیر میں زبردست چوٹ آئی اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔ہندستان اس سیریز میں اس کرو یا مرو کے مقام پر کھڑا تھا۔ سیریز میں قائم رہنے کے لئے ہندستان کو اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنی تھا۔ دوشی کو یقین تھا کہ ہم جیتنے والے ہیں۔ ٹانگ میں فریکچر کے باوجود دلیپ دوشی نے کپتان سنیل گواسکر کے سامنے اپنی فٹنس ثابت کی حالانکہ اس دوران ہر شام دوشی کے پاؤں پر برقی کرنٹ دوڑایا جاتا تھااس کے باوجود دوشی نے اس ٹیسٹ میچ میں 5 وکٹیں لے کر ہندوستان کے لیے اہم کردار ادا کیا اور اپنی ٹیم کو یادگار فتح دلانے میں مدد کی۔
یہ ٹسٹ میچ ہندستان کے لئے چیلنج سے بھرپور تھا۔ کئی کھلاڑی زخمی تھے۔ میلبورن میں ٹیم کا حصہ بننے کے لیے پرعزم، دوشی نے ڈاکٹر بل گیلیانو کی خدمات حاصل کیں، جو میلبورن فٹ بال کلب کے فزیو تھے۔ دوشی کے اسپن پارٹنر شیو لال یادو بھی زخمی ہو گئے تھے – ان کے پیر میں ہیئر لائن فریکچر ہو گیا تھا۔ کپل دیو کی ٹانگ کی چوٹ کا مطلب یہ تھا کہ پلیئنگ الیون میں تین زخمی کھلاڑی تھے۔ اس کے باوجود، ان سب نے غیر ملکی سرزمین پر سب سے یادگار ٹیسٹ جیت حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔دوشی نے آسٹریلیا کی پہلی اننگز میں تین اور دوسری اننگز میں دو وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے کپل دیو کے ساتھ بولنگ شروع کی۔
دوشی کی ٹانگ میں فریکچر ہندستانی ٹیم کے لئے ایک بڑا مسئلہ تھا لیکن انہوں نے پختہ ارادہ کررکھا تھا کہ وہ ضرور کھیلیں گے ۔ہر شام ان کے پاؤں پر الیکٹرک جھٹکے دیے جاتے تھے۔ ان جھٹکوں سے بہت درد ہوتا تھا لیکن اس سے سوجن کم ہو جاتی تھی۔ ان کے پیروں کو برف سے بھری بالٹی میں ڈالنا پڑا تاکہ وہ جوتوں میں فٹ ہو سکیں۔جوشی کو یقین تھا کہ ہم جیتنے والے ہیں اور اس جیت میں جوشی کا اہم کردار رہا۔
بالآخر، دوشی نے ہندوستان کے لیے 32 سال کی عمر میں ٹیم میں ڈیبیو کیا۔ اپنے دیر سے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہوں نے 33 ٹیسٹ میچ اور 15 ون ڈے کھیلے۔ انہوں نے اپنے ڈیبیو سال میں ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ یہ ریکارڈ آخر کار اسپیڈسٹر اسٹار جسپریت بمراہ نے 39 سال بعد 2018 میں توڑا۔دوشی نے 33 ٹسٹ میچوں میں 114 وکٹ لئے۔ 30.71 کی اوسط سے انہوں نے گیند بازی کی۔ چار مرتبہ ایک اننگز میں چار وکٹ لئے۔ ایک روزہ 15 میچوں میں انہوں نے 524 رن دے کر 22 وکٹ لئے۔انہوں نے ایک روزہ میچوں میں 23.81 کی اوسط گیند بازی کی۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے 238 میچوں کے دوران 898 وکٹ حاصل کئے۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے تقریباً 43 مرتبہ پانچ وکٹ لئے۔
دلیپ جوشی نے آسٹریلیا کے خلاف 11 ستمبر 1979 میں چنئی میدان پراپنا پہلا ٹسٹ میچ کھیلا۔جبکہ 14 ستمبر 1983 میں بنگلورو میں پاکستان کے خلاف اپنا آخری ٹسٹ میچ کھیلا۔میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 6 دسمبر 1980 کو دوشی نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔ جب کہ17 دسمبر 1982 کو ملتان میں پاکستان کے خلاف اپنا آخری ایک روزہ میچ کھیلا۔
وہ ایک ایسے ہی ہندوستانی کرکٹر رہے جنہوں نے اپنے فن سے سچا پیار کیا۔ کرکٹ میں بہت سوچ وچار کرکے کھیلتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوشی ایک کاروباری شخصیت بن گئے تھے اور لگژری برانڈ کا کاروبار شروع کیا۔ وہ امبیار گروپ کے سی ای او بنے اور ایک کمپنی اینٹڑک بھی بنائی۔ دوشی ہندوستان میں لگژری مصنوعات کے کاروبار کرنے اور 1990 کی دہائی میں عالمی سطح پر مشہور برانڈز کو ہندوستان میں لانے والے اولین تاجروں میں سے ایک تھے۔

مانسی جوشی: حوصلہ مند، قوت ارادی  کی حامل اور  ایک غیر معمولی پیرا بیڈمنٹن کھلاڑییوم پیدائش 11 جون کے لئے ہندوستان نے پی...
10/06/2025

مانسی جوشی: حوصلہ مند، قوت ارادی کی حامل اور ایک غیر معمولی پیرا بیڈمنٹن کھلاڑی
یوم پیدائش 11 جون کے لئے
ہندوستان نے پیرا لمپک کھیلوں میں ہمیشہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پیرا ایتھلیٹ کھلاڑیوں نے ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی ہندستان کاپرچم بلند کیا ہے۔ ہندستان میں معذور کھلاڑی کی فہرست میں ایک نام مانسی جوشی کا ہے جو بہت سی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل خاتون ہیں۔ وہ ایک حوصلہ مند ، ایک غیر معمولی بیڈمنٹن کھلاڑی اور معذور افراد کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔ مانسی جوشی ایک متاثر کن شخصیت ہیں جنہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ میں آگے بڑھنے کی ہمت ہے تو آپ کو اپنے مقاصد کے حصول سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ انہوں نے اب تک انتہائی باوقار بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں 22 تمغے حاصل کیے ہیں اور یقینی طور پر ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے خواب کوشرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
مانسی جوشی ایک ہندوستانی پیرا بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں۔ وہ پیرا بیڈمنٹن خواتین کے سنگلزایس ایل زمرے میں سابق عالمی چیمپئن ہیں۔ 8 مارچ 2022 کو، وہ خواتین کے سنگلز ایس ایل 3 زمرے میں عالمی نمبر 1 کی درجہ بندی پر تھیں۔
مانسی جوشی راجکوٹ، گجرات میں 11 جون 1989پیدا ہوئیں اور ان کی پرورش ممبئی کے انوشکتی نگر میں ہوئی۔ انہوں نے 2010 میں ممبئی یونیورسٹی کے کے جی سومیا کالج آف انجینئرنگ سے الیکٹرانکس انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ کھیلوں سے محبت کرنے والی، مناسی نے اپنی اسکول اور کالج کی زندگی میں فٹ بال اور بیڈمنٹن کھیلا۔ جوشی نے چھ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا، جو بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر سے ریٹائرڈ سائنسدان ہیں۔ کئی برسوں میں انہوں نے مختلف ٹورنامنٹس میں اپنے اسکول، کالج اور کارپوریٹ کی نمائندگی کی۔ 2010 میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے دسمبر 2011 تک سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر کام کیا۔ مناسی، بچپن سے ہی کھیلوں کی ایک گہری پرستار تھی، اس نے 6 سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ مل کر بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا۔ مناسی ایک ہنر مند کھلاڑی تھیں ۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ اور انٹر اسکول ٹورنامنٹس میں حصہ لیا تھا۔ مانسی نے ایک پڑھے لکھے گھر میں پرورش پائی اور کھیل کو کھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
دسمبر 2011 کا وہ دن مانسی کے زندگی میں بہت صدمہ لے کرا ٓیا۔ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ گھر جاتے ہوئے ایک ٹرک سے ٹکرا گئیں اور حادثہ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس حادثے میں ان کو شدید چوٹیں آئیں۔ مانسی کو ایم جی ایم ہسپتال واشی، نوی ممبئی میں داخل کرای گیا جہاں ان کی ٹانگ کا آپریشن ہوا۔ 8 ہفتے کے علاج کے بعد انہیں ہسپتال سے رخصت کر دیا گیا۔ اورانہیں مصنوعی ٹانگ کے ساتھ ہی اپنی زندگی کا آگے کا سفر کاٹنے کو کہا گیا۔ مصنوعی ٹانگ کے ساتھ صحیح طریقے سے چلنے کے لیے تھراپی بھی کروائی ۔حالانکہ مانسی اس حادثہ سے بہت مایوس ہوگئی تھیں اور انہیں مستقل کے کریئر کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ لیکن ان کی ہمت اور بلند حوصلوں نے انہیں گرنے نہیں دیا۔ وہ بیماری سے جلد شفایاب ہوکر دوبارہ کورٹ میں اتریں۔ انہوں نے مسلسل مشق کی اور بہترین کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کی۔ مانسی نے اس حادثہ کے بعد سے عالمی معیار کی ایتھلیٹ بننے کے اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے سے نہیں روکا۔
مانسی فٹنس کی گہری پرستار ہیں اور ہر روز چہل قدمی کرنے لگیں۔ انہوں نے جلد ہی اپنی بیڈمنٹن کی مہارت دوبارہ حاصل کر لی اور ہر روز اس کھیل کی مشق کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے اپنی کمپنی کے دفتر میں ایک بیڈمنٹن ٹورنامنٹ جیتا تھا۔ ان کی اس کارکردگی پر سب حیران رہ گئے اور نیرج جارج کی سفارش پر انہوں نے پیشہ ورانہ تربیت شروع کی اور پیرا بیڈمنٹن ٹورنامنٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔انہوں نے مسابقتی بیڈمنٹن کی تربیت شروع کی جبکہ ۔ مارچ 2017 میں، مانسی 2017 ہسپانوی پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل میں خواتین کے سنگلز کا گولڈ میڈل جیت کر ہندوستان کی پہلی خاتون پیرا اولمپئن بن گئی۔
ایک المناک حادثہ جو مانسی کی زندگی میں پیش آیا جس سے زیادہ تر لوگوں کو ہار ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی انہوں اس حادثہ سے ابھرتے ہوئے سب سے اوپر جانے میں کامیاب رہیں۔
جوشی نے کھیلوں کا اپنا سفر 2015 میں شروع کیا اور 2020 میں انہوں خواتین کے سنگلز ایس ایل3 زمرے میں عالمی نمبر 2 کا درجہ حاصل کیا۔ وہ ایشین پیرا گیمز 2014 کے لیے منتخب ہوئیں اور اسپین میں اپنا پہلا بین الاقوامی ٹورنامنٹ کھیلا۔ 2018 میں انہوں نے پلیلا گوپی چند سے اس کی کوچنگ لی اور حیدرآباد میں ان کی بیڈمنٹن اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ ستمبر 2015 میں، جوشی نےا سٹوک مینڈیویل، انگلینڈ میں منعقدہ پیرا-بیڈمنٹن ورلڈ چیمپئن شپ میں مکسڈ ڈبلز میں چاندی کا تمغہ جیتا ۔ اکتوبر 2018 میں، مانسی نے جکارتہ، انڈونیشیا میں منعقدہ ایشین پیرا گیمز 2018 میں ہندوستان کے لیے کانسہ کا تمغہ جیتا تھا۔ اگست 2019 میں، باسل، سوئٹزرلینڈ میں پیرا بیڈمنٹن ورلڈ چیمپیئن شپ 2019 میں، انہوں نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ انہوں نے گنگزو، چین میں 2022 کے ایشین پیرا گیمز میں تھولاسیماتھی مروگیسن کے ساتھ ڈبلز میں چاندی کا تمغہ اور سنگلز ایس ایل 3 میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی کامیابی قومی ٹورنامنٹ میں حاصل کی جہاں انہوں نے مہاراشٹر کی نمائندگی کرنے والی پارول پرمار کو شکست دی۔ انہوں نے اس سال سلیکشن ٹرائلز میں بھی قسمت آزمائی لیکن ناکام رہیں۔ سال 2015 میں انہیں اسپین پیرا بیڈمنٹن ورلڈ چیمپئن شپ میں مدعو کیا گیا تھا۔ جہاں انہوں نے ایس ایل 3 میں مکسڈ ڈبلز میں چاندی کا تمغہ جیتا اور بین الاقوامی سطح پر ڈیبیو کیا۔
مانسی نے سال2017 مہاراشٹر راجیہ ایکلویہ کھیل کریڈا پراسکر (اعلیٰ ترین ریاستی اعزاز) حاصل کیا۔ اس کے بعدسال2019 معذوری کے ساتھ بہترین کھلاڑی (خواتین) کے لیے قومی ایوارڈ سے انہیں نوازا گیا۔ ای ایس پی این 2019 - انڈیا ایوارڈز میں مختلف طور پر قابل ایتھلیٹ آف دی ایئر ایوارڈکے خطاب سے نوازی گئیں۔ سال 2019 - ٹائمز آف انڈیا اسپورٹس ایوارڈ برائے سال کے بہترین پیرا ایتھلیٹ،2019 - ایسیس 2020 اسپورٹس وومن آف دی ایئر (پیرا اسپورٹس) ہندو اخبار (نامزد)کیا گیا۔ سال2019 - بی بی سی انڈین اسپورٹس وومن آف دی ایئر دیا گیا ۔ ہندوستانی پیرا بیڈمنٹن کھلاڑی مانسی گریش چندر جوشی جو عالمی چیمپئن بھی ہیں،نے 2015 میں اپنے پیشہ ورانہ کھیلوں کے سفر کا آغاز کرتے ہوئے 2020 میں عالمی نمبر پرسرفہرست رہی۔
پیرا بیڈمنٹن اسٹار مانسی جوشی نے آسٹریلیا میں ہندوستان کی خراب فارم پر ردعمل ظاہر کیا، اور حکومت سے خصوصی درخواست کی۔ہندوستان میں کرکٹ کو کھیلوں کی توجہ کا مرکز بنائے جانے کے ساتھ، دوسرے کھیل جیسے شطرنج، بیڈمنٹن، فٹ بال، شوٹنگ، ایتھلیٹکس بھی مقبولیت کے پیمانے پر بڑھ رہے ہیں۔ ۔ فرانس میں 2024 کے پیرالمپکس میں، ہندوستان نے سات طلائی تمغے، نو چاندی اور 13 کانسی کے تمغے جیتے تھے۔
ہندوستان نے 2024 کے پیرالمپکس میں 12 کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے 84 کھلاڑیوں کا دستہ بھیجا تھا۔ افتتاحی تقریب کے دوران، بھاگیہ شری جادھو، سمیت انٹل ہندوستانی پرچم بردار تھے۔ اختتامی تقریب میں پریتھی پال اور ہرویندر سنگھ پرچم بردار تھے۔ ہندوستان کے 29 تمغے پیرالمپکس گیمز میں ان کے اب تک کے سب سے زیادہ تمغوں کی تعداد بھی تھی، جس نے ٹوکیو 2020 میں حاصل کیے گئے 19 تمغوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ہندوستانی پیرا بیڈمنٹن کھلاڑی ماناسی جوشی نے عوامی طور پر ہندوستانی حکومت سے پیرا اسپورٹس پر مزید سرمایہ کاری کرنے کی درخواست کی، اور بدلے میں بہتر نتائج کا وعدہ کیا۔مانسی کو اکتوبر 2020 میں ٹائم میگزین نے نیکسٹ جنریشن لیڈر 2020 کے طور پر نامزد کیا تھا اور وہ ان کے ایشیا کے سرورق پر شائع ہوئی تھیں، جس سے وہ دنیا کی پہلی پیرا ایتھلیٹ اور میگزین کے سرورق پر نمایاں ہونے والی پہلی ہندوستانی ایتھلیٹ بن گئیں، جو کہ معذور افراد کے حقوق کی حامی ہیں۔ مانسی جوشی ایک ایسی خاتون ہیں جو اپنی کہانی سے لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ماناسی جوشی، پیرا بیڈمنٹن کھلاڑی، بہت سے لوگوں کے لیے ایک تحریک ہے جنہوں نے اپنے ابتدائی سالوں میں امید کھو دی تھی۔

لیجنڈ ٹینس کھلاڑی ماریہ شراپووا  کواگر کوئی  مات دے سکتا تھا تو وہ خود ماریہ تھیںیوم پیدائش 19ا پریلسابق ٹینس نمبر ایک ک...
19/04/2025

لیجنڈ ٹینس کھلاڑی ماریہ شراپووا کواگر کوئی مات دے سکتا تھا تو وہ خود ماریہ تھیں
یوم پیدائش 19ا پریل
سابق ٹینس نمبر ایک کھلاڑی اور پانچ مرتبہ کی گرینڈ سلیم فاتح ماریہ شراپووا کا شمار ٹینس میں دنیا کی بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ شراپووا آسٹریلین اوپن جونیئر ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچنے والی کم عمر کھلاڑی ہیں۔ماریہ کی پیدائش 19 اپریل 1987 میں روس کے نیاگان میں ہوئی۔ جب شراپووا سات برس کی تھیں تو وہ اپنے والد کے ساتھ روس چھوڑ کر امریکہ آ گئیں۔ وہاں انہوں نےٹینس سیکھنا شروع کیا ۔ان کو ٹینس سے بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔ ماریہ نے چار برس کی عمر میں ٹینس شروع کر دیاتھا ۔ چھ سال کی عمر میں ماریہ نے ماسکو میں ایک نمائش میچ میں حصہ لیا جس میں مارٹینا ناوراتیلووا بھی شامل تھیں۔ نو سال کی عمر میں ماریہ نے نک بولٹیری کی ٹینس اکیڈمی میں تربیت شروع کی۔ اکیڈمی میں اپنے پہلے دو برسوں کے دوران، وہ ویزے کی پابندیوں اور مالی معاملات کی وجہ سے اپنی ماں یلینا سے الگ ہو گئیں۔ اس پیشہ میں بہت جلد اتنا ماہر ہوگئیں کہ محض سترہ برس کی عمر میں لیجنڈری سرینا ولیمز کو شکست دے کر اپنا پہلا گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتا۔ اس کے بعد انہوں نے 2004 میں ومبلڈن ٹائٹل جیتا۔
ماریہ یوریونا شراپووا کا پورا نام ماریہ یوریونا شراپووا ہے۔ ماریہ ایک روسی سابق پیشہ ور ٹینس کھلاڑی ہیں ۔انہیں دنیا کی نمبر ایک ٹینس کھلاڑی کے طور پر درجہ دیا گیا تھا ۔ خواتین کی ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) کی جانب سے 21 ہفتوں کے لیے خواتین کے سنگلز میں نمبر 1 ۔شراپووا نے 36 ڈبلیو ٹی اے ٹور لیول سنگلز ٹائٹل جیتے ہیں ، جن میں پانچ بڑے ٹائٹلز کے ساتھ ساتھ 2004 ڈبلیو ٹی اے ٹور چیمپئن شپ بھی شامل ہیں ۔وہ سنگلز میں کیریئر گرینڈ سلیم حاصل کرنے والی دس خواتین میں سے ایک ہیں ۔
دراصل ماریہ 17 برس کی عمر میں اس وقت پوری دنیا میں اسٹار بن گئی تھیں جب انہوں نے 2004 میں عالمی نمبر ایک کھلاڑی سرینا ولیمز کو شکست دے کر ومبلڈن چیمپئن شپ جیتی تھی۔اس فتح کے بعد ماریہ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی اور اس طرح ماریہ 21ویں صدی کی امیر ترین کھلاڑی بن گئیں۔شاراپووا نے نہایت کم عمر میں ومبلڈن میں اپنا پہلا گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتا تھا۔ پھر یہ کھلاڑی عالمی نمبر ایک بن گئیں۔ انہوں نے سرینا ولیمز کو شکست دے کر ٹائٹل جیتا۔ اس کے بعد ماریہ شراپووانے 19 برس کی عمر میں یو ایس اوپن جیتا ۔ انہوں نے 2012 فرنچ اوپن جیت کر کیرئیر سلیم بھی مکمل کیا۔
شاراپووا نے 2001 سے 2020 تک ڈبلیو ٹی اے ٹور میں حصہ لیا اور مجموعی طور پر 21 ہفتوں تک پانچ الگ الگ مواقع پر ڈبلیو ٹی اے کے ذریعہ سنگلز میں عالمی نمبر 1 کا درجہ حاصل کیا۔شاراپووا 22 اگست 2005 کو 18 سال کی عمر میں پہلی بار عالمی نمبر 1 ٹینس کھلاڑی بنیں، وہ پہلی روسی خاتون ٹینس کھلاڑی تھیں جو سنگلز رینکنگ میں سرفہرست رہیں اور پانچویں مرتبہ رینکنگ پر فائز رہیں، جو 11 جون سے چار ہفتے تک جاری رہی۔ ماریہ نے پانچ گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتے، دو فرنچ اوپن میں اور ایک آسٹریلین اوپن، ومبلڈن اور یو ایس اوپن میں۔ ماریہ نے کل 36 ٹائٹلز جیتے جس میں اپنے پہلے سال کے اختتام پر ڈبلیو ٹی اے فائنلز میں شرکت بھی شامل ہے۔ 2004 میں انہوں نے تین ڈبلز ٹائٹل بھی جیتے تھے۔
شراپووا نے پہلی بار ٹینس کی شہرت نومبر 2000 میں حاصل کی ، جب انہوں نے صرف 13 سال کی عمر میں لڑکیوں کے 16 ڈویژن میں ایڈی ہیر انٹرنیشنل جونیئر ٹینس چیمپئن شپ جیتی ۔اس کے بعد انہیں ایک خاص اعزاز ، رائزنگ اسٹار ایوارڈ دیا گیا ، جو غیر معمولی عزم کے حامل کھلاڑیوں کو دیا گیا ۔شراپووا نے 19 اپریل کو اپنی 14 ویں سالگرہ پر 2001 میں اپنا پیشہ ورانہ آغاز کیا ، اور 2002 میں پیسیفک لائف اوپن میں اپنا پہلا ڈبلیو ٹی اے ٹورنامنٹ کھیلا ، جس میں مونیکا سیلس سے ہارنے سے پہلے ایک میچ جیتا تھا ۔وہ کتنے پیشہ ورانہ مقابلوں میں کھیل سکتی ہیں اس پر پابندیوں کی وجہ سے ، شراپووا جونیئر ٹورنامنٹس میں اپنے کھیل کو بہتر بنانے کے لیے گئی ، جہاں وہ 2002 میں آسٹریلین اوپن اور ومبلڈن میں لڑکیوں کے سنگلز مقابلوں کے فائنل تک پہنچی ۔وہ 14 سال اور 9 ماہ کی عمر میں آسٹریلین اوپن جونیئر چیمپئن شپ کے فائنل تک پہنچنے والی اب تک کی سب سے کم عمر لڑکی تھیں ۔
شراپووا 5 مرتبہ گرینڈ سلیم چیمپئن شپ جیتنے والی پہلی کھلاڑی ہیں۔ ان میں 2006 میں یو ایس اوپن، 2008 میں آسٹریلین اوپن، 2012 اور 2014 میں فرنچ اوپن شامل ہیں۔ انہوں نے 2012 کے اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ روس میں 2008 کا فیڈ کپ ٹائٹل سمیت 36 دیگر ٹور سنگلز ٹائٹلز بھی ان کے نام ہیں۔ انہوں نے 2005 میں پہلی بار پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد 3 فروری کو جاری سنگلز رینکنگ میں 21 ہفتے تک پہلی پوزیشن پر رہنے کا ریکارڈ بھی ان کے پاس ہے۔اس کے بعد یہ ٹینس کھلاڑی یہی نہیں رکی اور 32 سال کی عمر میں اس نے مزید چار گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتے۔ ٹینس کورٹ پر شاراپووا جتنی شاندار تھیں، وہ اپنی خوبصورتی میں کسی اداکارہ سے کم نہیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ کورٹ کے علاوہ مختلف برانڈز بھی ان کے ساتھ جڑتے رہے اور کروڑوں اور اربوں کے معاہدے کرتے رہے۔
ماریہ شراپووا گرینڈ سلیم کے ساتھ سرگرم کھلاڑیوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پرر ہیں۔ ان سے آگے سرینا ولیمز اور وینس ولیمز ہیں۔ماریا شراپووا کا کیریئر زیادہ تر زخموں سے دوچار رہا ہے۔ اس کے باوجود 2003 سے ہر سال 2015 سے آج تک کم از کم ایک سنگلز ٹائٹل جیتنے کا ریکارڈ ہے۔ ایسا ریکارڈ صرف اسٹیفی گراف ، مارٹینا ناوراٹیلووا اور کرس ایورٹ کے پاس ہے۔ ماریہ شراپووا کے پاس ہمیشہ کھیل میں حالات کو جلد سمجھنے اور مسائل کو جلد حل کرنے کی صلاحیت رہی۔ وہ اپنے اہداف پر قابو میں مہارت رکھتی تھیں اور کھیل میں کسی کا دباؤ محسوس نہیں کرتی تھیں۔کھیل میں ہمیشہ انہوں نے حریف کھلاڑی پر دباؤ بناکر رکھا۔ ان کی کھیلنے کی رفتار بہت تیز تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ماریہ کو مات دے سکتا ہے تو وہ صرف خود ماریہ ہی ہیں۔
شراپووا ایک جارحانہ بیس لائنر تھی ، جن کا کھیل ان کی طاقتور سرو اور گراؤنڈ اسٹروک پر مرکوز تھا ۔وہ اپنے شاٹس کو انتھک رفتار ، طاقت اور گہرائی سے مارتی ہیں ، اور اپنے فور ہینڈ اور بیک ہینڈ دونوں سے تیز ، شدید زاویہ پیدا کر سکتی ہیں ۔اس کے جارحانہ ، زیادہ خطرہ والے کھیل کے انداز کا مطلب یہ ہوتاتھا کہ وہ عام طور پر فاتحین اور غیر ضروری غلطیوں دونوں کی بڑی تعداد پیدا کرتی تھی ۔شراپووا کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا بیک ہینڈ تھا ، جسے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد "ٹینس میں بہترین میں سے ایک" قرار دیا گیا تھا۔اس کا کراس کورٹ بیک ہینڈ اس کا سب سے بڑا شاٹ تھا ، حالانکہ وہ اپنے بیک ہینڈ کو لائن کے نیچے مارنے میں بھی ماہر تھی ، اور کورٹ میں کسی بھی پوزیشن سے اپنے بیک ہینڈ سے فاتحین کو مارنے میں کامیاب رہی ۔اس کا فور ہینڈ بھی مضبوط تھا ، جو اپنے فلیٹ اور طاقتور شاٹس سے مخالفین پر غلبہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔
ماریہ ڈبلیو ٹی اے ٹور کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے اکثر ریورس فور ہینڈ کا استعمال کیا-جسے 'بگی وپ' فور ہینڈ بھی کہا جاتا ہے-ایک ایسی تکنیک جس نے انہیں دفاعی پوزیشنوں سے فاتحین کو مارنے کی اجازت دی جو تیز گھاس ، سخت اور قالین کے عدالتوں پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تھی ۔تاہم ، یہ قیاس کیا گیا ہے کہ اس شاٹ پر اس کا انحصار اس کے کندھے کی چوٹ کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہوا ہوگا ۔
سال2010 کے بعد سے ، جب وہ کندھے کی سرجری کے بعد واپس آئیں ، شراپووا نے اپنے فور ہینڈ کو زیادہ روایتی سوئنگ سے مارنا شروع کیا ، جس میں ٹاپ اسپن کی مقدار میں اضافہ ہوا ۔اس تبدیلی نے اسے مٹی کے کورٹوں پر مہارت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ، لیکن تیز سخت اور گھاس کے کورٹوں پر ان کے کھیل کو متاثر کیا ۔بعد میں اپنے کیریئر میں ، شراپووا نے اپنے ذخیرے میں ایک ڈراپ شاٹ اور ایک کٹا ہوا بیک ہینڈ دونوں شامل کیے ، جس سے کھیل کا انداز زیادہ غیر متوقع ہو گیا ۔جب کہ اس کا ڈراپ شاٹ انتہائی ٹیلی گراف تھا ، ان کی غیر معمولی کارکردگی نے انہیں پوائنٹس ختم کرنے ، یا مخالفین سے غیر ضروری غلطیاں کرنے کا موقع فراہم کیا ۔شراپووا کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کورٹ کے ارد گرد اچھی رفتار رکھتی ہیں ، خاص طور پر ان کے قد کو دیکھتے ہوئے ، حالانکہ ان کے فٹ ورک ، رفتار اور کورٹ کوریج کو ہمیشہ ان کے کھیل کی بڑی کمزوری سمجھا جاتا تھا ۔ان میں اس کے پورے کیریئر میں بہتری آئی ، جس کی وجہ سے وہ زیادہ دفاعی کھیل کے انداز کو مؤثر طریقے سے انجام دے سکتی تھی ، جب تک کہ وہ فاتح کو مارنے کا موقع پیدا نہ کر سکے ۔
ٹینس لیجنڈ ماریہ شراپوا صرف 32 سال کی عمر میں اپنے 17 سالہ طویل ٹینس کیریئر کو الوداع کہہ دیا۔ ماریہ کی کم عمری میں ریٹائرمنٹ کی وجہ ان کے کندھے کی انجری رہی جو مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو پائی تھی۔ شراپووا اپنی جلد ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بہت جذباتی بھی تھیں۔ تاہم اس سے قبل انہوں نے وہ تمام کامیابیاں حاصل کرلیں جو کسی بھی کھلاڑی کا خواب ہوتی ہیں۔ شاراپووا کو ٹینس کے بہترین حریفوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
شاراپووا کو 2016 کے آسٹریلین اوپن کے دوران ممنوعہ دوا استعمال کرنے کا قصوروار پایا گیا ۔شراپووا کے ڈوپنگ میں ملوث ہونے سے کھیلوں کی دنیا میں مایوسی پھیل گئی۔ اس کے بعد انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے شراپووا پر پابندی لگا دی ،جیسے ہی اس پر پابندی لگائی گئی، بہت سے مشہور برانڈز نے ان سے اپنی اسپانسر شپ واپس لے لی۔ پھر فوربس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس اسٹار کھلاڑی کو 23 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ۔ وہ 15 ماہ کی پابندی کے بعد اپریل 2017 میں واپس آئیں۔ تاہم پابندی کے بعد شراپووا کی واپسی کمزور رہی۔ شاراپووا کے پاس 2003 سے 2017 کے درمیان لگاتار کم از کم ایک سنگلز ٹائٹل جیتنے کا ریکارڈ بھی ہے۔شراپووا تقریباً گیارہ برسوں تک دنیا کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی خاتون کھلاڑی رہیں۔ صرف یہی نہیں اپنے ریٹائرمنٹ کے وقت بھی وہ تیسری سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ٹینس کھلاڑی اور مجموعی طور پر آٹھویں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ٹینس کھلاڑی تھیں۔
روسی کھلاڑی نے اپنے کھیل کے کیریئر میں چیمپئن اور اپنے شاندار کھیل کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بھی سرخیوں میں رہیں۔فروری 2007 سے، وہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی خیر سگالی سفیر رہی ہیں، خاص طور پر چرنوبل ریکوری اینڈ ڈیولپمنٹ پروگرام سے متعلق۔اس روسی کھلاڑی کے مداح دنیا بھر میں موجود ہیں۔ اس کھیل نےماریہ کو 28 سال تک ایک نیا خاندان، خوشی اور شہرت دی۔

آسامی جل پری   فاریحہ زماں : ایک بہترین اور تیز  طرار مسلم سوئمریوم پیدائش 22 مارچ پر خاصآسام سے تعلق رکھنے والی  فاریحہ...
21/03/2025

آسامی جل پری فاریحہ زماں : ایک بہترین اور تیز طرار مسلم سوئمر
یوم پیدائش 22 مارچ پر خاص
آسام سے تعلق رکھنے والی فاریحہ زماں کی پیدائش بھلے ہی ایک مسلم متوسط گھرانے میں ہوئی ہو، لیکن اس نوجوان مسلم لڑکی نے اپنے خاندان اور ملک کا نام روشن میں کرنے میں قابل قدر محنت اور شاندار کھیل کا مظاہرہ کرکے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ہندستان میں یوں تو متعد د ایتھلیٹکس گیمز کھیلے جاتے ہیں۔ لیکن تیراکی کو جو اہمیت حاصل ہے وہ شاید کسی اور گیم کو نہیں۔ کیونکہ تیراکی محض ایک مقابلہ جاتی کھیل ہی نہیں بلکہ یہ ایک اہم ورزش ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک ماہرانہ فن کاری بھی ہے تو غلط نہ ہوگا ۔دراصل یہ ایک ایسا جنونی فن ہے جس میں تیراک پانی کی گہرائیوں میں جاکر دنیا کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ چھوٹےسوئمنگ پول سے لے کر بڑے بڑے سمندروں میں تیراکوں نے غوطے لگاکر بڑے بڑے ریکارڈ قائم کئے ہیں اور دنیا میں اپنا نام روشن کیا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی خواتین نے اس شعبے میں کافی نام کمایا ہے اور یہ خواتین کسی سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔ کیونکہ تیراکی کھیلوں کا ایک شعبہ ایسا ہے جس میں بہت کم عمری میں ہی بہترین سوئمر تیار ہوجاتے ہیں اور پندرہ بیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہ سوئمر ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اپنا نام روشن کردیتے ہیں۔انہیں تیراکوں میں سے ایک تیراک فاریحہ زماں بھی ہیں جو ایک ہندوستانی خاتون تیراک ہیں ۔تیراکی میں یہ معصوم چہرے والی جس کی پیدائش 22 مارچ 1991 میں ہندستان کی مشرقی ریاست آسام میں ہوئی اور یہی ان کی پرورش بھی ہوئی۔ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ سوئمنگ پر بچپن سے ہی توجہ مرکوز کی اور تیراکی کو اپنے مستقبل کے طور پر منتخب کیا۔
زماں نےبنگلور کے بسنت گیری سوئمنگ پول میں ملک کے ایک سرکردہ کوچ پردیپ کمار سے تربیت لی۔ اس سے قبل انہوں نے پنے میں کوچ تپن کمار پانیگراہی کے تحت اپنی جدید تربیت شروع کی تھی۔اس کے بعد سے، وہ اسکول کی سطح پر اور مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ اس پیشہ سے وابستہ ہوکر وہ شروع سے ہی ہندوستان کا نام پوری دنیا میں بلندیوں پر لے جانے کی خواہش مند رہی ہیں۔
فریحہ نے بہت کم عمر میں تیراکی شروع کردی تھی۔ ریاستی اور ضلعی سطح کے کئی مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے کھلے پانی میں تیرنا شروع کیا۔ تیراکی کے لئے انہوں نے اپنے بل بوتے پر ریاستی سطح پر بہت محنت کی۔ ان کی تربیت میں ان کے والدین نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ ان کی والدہ نے اپنی نوکری چھوڑ کر ان کے مستقبل پر توجہ دی ۔سخت محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ انہوں نے چھوٹے مقابلوں سے حوصلہ پاکر اپنی توجہ بڑے مقابلوں پر رکھی اورمسلسل کوششوں اور محنت سے آگے بڑھتی رہیں۔انہوں نے اپنے تیراکی کیریئر میں قابل ستائش کام کیا ہے اور کچھ قابل قدر سنگ میل طے کیے ہیں۔
فریحہ زمان ایک تیز تیراک ہیں جنہوں نے 50 میٹر بیک اسٹروک ایونٹ میں 31:22 سیکنڈ کے وقت کے ساتھ قومی ریکارڈ اپنے نام کیا۔کولمبو میں 22 اگست 2006 کو 10ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں ہندوستانی تیراک فریحہ زمان خواتین کے 200 میٹر بیک اسٹروک کے فائنل میں حصہ لے کر زمان نے طلائی تمغہ جیتا۔ اس مقابلے میں ان کی ہم وطن مادھوی گری اور پاکستان کی کرن خان نے بالترتیب چاندی اور کانسہ کا تمغہ حاصل کیاتھا۔
فریحہ زمان نے ڈھاکہ میں منعقد ایس اے ایف گیمز میں ہندوستان کے لیے اپنا دوسرا گولڈ میڈل جیتا۔ پھر کل 50 میٹر بیک اسٹروک میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد آسام کے تیراک نے 4100 x میٹر ریلے میں طلائی تمغہ جیتا۔ اس مقابلے میں گوری دیسائی، رچا مشرا اور تلسا پربھو ہندوستانی خواتین ریلے ٹیم کے دیگر کھلاڑی تھے۔
انہوں نے سال 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز، کولمبو، سری لنکا میں 50 میٹر بیک اسٹروک (31.7 سیکنڈ) میں گولڈ میڈل جیتا۔ پھر اسی برس 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز، کولمبو، سری لنکا میں 100 میٹر بیک اسٹروک (1.09.05 سیکنڈ) کے لیے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز، کولمبو، سری لنکا میں 200 میٹر بیک اسٹروک (2.31.49 سیکنڈ) کے لیے گولڈ میڈل جیتا۔2007 ساؤتھ ایشین سوئمنگ چیمپئن شپ (اوپن) میں 50 میٹر بیک اسٹروک (32.02 سیکنڈ) کے لیے گولڈ میڈل، اسلام آباد، پاکستان۔2007 ساؤتھ ایشین سوئمنگ چیمپئن شپ (اوپن)، اسلام آباد، پاکستان میں 100 میٹر بریسٹ اسٹروک (1.10.95 سیکنڈ) کے لیے گولڈ میڈل۔2007 ساؤتھ ایشین سوئمنگ چیمپئن شپ (اوپن)، اسلام آباد، پاکستان میں 50 میٹر بٹر فلائی (30.98 سیکنڈ) میں چاندی کا تمغہ جیت کر ملک کا نام روشن کیا۔
فریحہ نے سال 2006 میں آٹھویں فینا ورلڈ سوئمنگ چیمپئن شپ میں 25 میٹر کے مقابلے کو انہوں نے 32 منٹ 16 سیکنڈ میں عبور کیا۔ . خواتین کے 50 بیک اسٹروک میں محض پندرہ برس کی عمر میں حصہ لیا۔ فریحہ نے سال 2006 میں آٹھویں فینا ورلڈ سوئمنگ چیمپئن شپ میں 25 میٹر کے مقابلے کو انہوں نے ایک گھنٹہ نو منٹ 49 سیکنڈ میں عبور کیا۔ . خواتین کے 100 بیک اسٹروک میں محض پندرہ برس کی عمر میں حصہ لیا۔ فریحہ نے سال 2006 میں آٹھویں فینا ورلڈ سوئمنگ چیمپئن شپ میں 25 میٹر کے مقابلے کو انہوں نے دو گھنٹہ 38 منٹ 70 سیکنڈ میں عبور کیا۔ . خواتین کے 200 بیک اسٹروک میں محض پندرہ برس کی عمر میں حصہ لیا۔
سال 2010 میں 19ویں دولت مشترکہ کھیلوں میں 50 میٹر بیک اسٹروک کے مقابلے میں انہوں نے یہ دوری 31 منٹ 34 سیکنڈ میں پوری کی ۔ دسویں ایشین گیمس 2006 میں 50 میٹر کی دوری انہوں نے ایک گھنٹہ نو منٹ اور پانچ سیکنڈ میں مکمل کی۔ یہ مقابلہ 100میٹر بیک اسٹروک کا تھا۔سال 2009 میں13ویں فینا ورلڈ چیمپئن شپ میں 400 میٹر میڈلے ریلے میں حصہ لیا ۔ انہوں نے یہ دوری چارگھنٹے 53 منٹ اور دو سیکنڈ میں پوری کی۔فاریحہ ان خاتون کھلاڑیوں میں سے ایک ایسی ہیں، جنہیں نمایاں طور پر ایک بہترین تیراک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ۔

Address

Delhi
110001

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when URDU Sports posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to URDU Sports:

Share