Hindustan Epress

Hindustan Epress A leading Urdu Daily Newspaper دہلی سے شائع ہونے والا معروف اردو روزنامہ ہندوستان ایکسپریس جو 2006 سے تا دم تحریر اردوصحافت کی آبرو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے

01/10/2024

شمالی کیرولائنا،یکم اکتوبر (یو این آئی) امریکہ میں سمندری طوفان ہیلین سے پھیلی تباہی اور شدید ہو گئی ہے، 6

14/09/2024
14/09/2024

ہماچل پردیش کی برہمن لڑکی کا قبول اسلام

14/09/2024

ہماچل پردیش کی برہمن لڑکی کا قبول اسلام

پروفیسر شبیر حسن کا مونگیر میں انتقال
22/05/2024

پروفیسر شبیر حسن کا مونگیر میں انتقال

آج بعد نماز ظہر خانقاہ رحمانی میں مرحوم کے جنازے کی نماز اداکی جائے گی نئی دہلی(شاہدالاسلام)بہارکی سرکردہ سیاسی شخصیت

پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج ۔۔۔محمد شرافت علیپانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج آگئے اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی کارک...
04/12/2023

پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج ۔۔۔

محمد شرافت علی

پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج آگئے اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی کارکردگی بہ حیثیت مجموعی شاندار رہی۔ تین اہم صوبوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے فتح کا پرچم لہرا کر اپوزیشن کی امیدوں پر نہ صرف یہ کہ پانی پھیر دیا بلکہ 2024کے عام انتخابات کے حوالے سے بھی اپنی دعویداری مضبوط کرلی۔مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی نہایت مضبوط انداز میں واپسی اورچھتیس گڑھ و راجستھان میں کانگریس سے اقتدار چھین لینا یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ شمالی ہند میں مودی کو چیلنج دے پانا بالکل بھی آسان نہیں ہے!۔ہر چند کہ کانگریس نے جنوبی ہند کی اہم ریاست تلنگانہ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور علاقائی جماعت بی آر ایس کو پٹخنی بھی دی،اس کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ کانگریس بہ حیثیت مجموعی شمالی ہند میں بی جے پی کے متبادل کے طورپر رائے عامہ کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ یوں رائے دہندگان نے کانگریس کے ذریعہ اٹھائے گئے عوامی ایشوز پر بھی توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اور اس کا نتیجہ ہم سبھوں کے سامنے ہے۔
230رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے صرف واپسی درج نہیں کرائی،بلکہ اس نے رائے دہندگان کا بھروسہ اوردل دونوں جت لیا، جبھی تو163نشستوں پر اس کے امیدواروں نے کامیابی کا پرچم لہرایا جبکہ کانگریس کے حصے میں صرف 66سیٹیں آئیں۔یہ صورتحال تب ہے،جب قبل از الیکشن عوامی سطح پر اس بات کا بڑا شور تھا کہ ’ماما‘ کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے،دوقیٰ یہ بھی تھا کہ عائے عامہ کے درمیان ’تبدیلی کی لہر‘ پائی جارہی ہے۔انتخابی مہم کے دوران گوکہ کہیں کہیں ’عوامی سطح پرناراضگی‘ کااظہار بھی دکھاگیا مگر ایگزٹ پول کے اندازوں کے درمیان مختلف میڈیا ہاؤس کے ذریعہ یہی دکھایا اور سمجھایا گیا کہ مدھیہ پردیش میں ’زبردست ٹکر‘ ہے،لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو سبھی اندازے اور پیش قیاسیاں بے معنی ثابت ہوگئیں اور بی جے پی پر عوام نے کھل کر بھروسہ ظاہر کردیا۔ایسا لگتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتاپارٹی کوجس اندازکی شاندار کامیابی ملی ہے،خود پارٹی اعلیٰ کمان کو بھی اس کا بھروسہ نہیں تھا۔ غالباًیہی سبب ہے کہ مدھیہ پردیش کی سیاست کے بڑے ’کھلاڑی‘ سمجھے جانے والے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو ایک بار پھر سی ایم کا’چہرہ‘اسی وجہ سے ڈکلیئر نہیں کیا گیا اور پارٹی نے وزیر اعظم کی شخصیت کو نمایاں کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے سیاسی قلعہ کی نگہبانی کا فیصلہ لیا۔اس کے برعکس کانگریس کی مرکزی قیادت مدھیہ پردیش میں عملاً ’بونی‘بن گئی اور کملناتھ ایک طرح سے کانگریس کی انتخابی مہم کے دوران ریاست کے انتخابی منظرنامہ پر چھائے رہے۔ ایک تاثریہ بھی ہے کہ کمل ناتھ پر زیادہ انحصارشاید کانگریس کیلئے نقصان کا باعث بنا۔مدھیہ پردیش میں کانگریس کی انتخابی مہم کے دوران یوں تو کئی ایسے ایشوز اُٹھائے گئے،جن کا تعلق سیدھے طورپر عوام سے تھا۔اس کے باوجود رائے دہندگان نے کانگریس کو لائق توجہ نہیں سمجھا۔بڑھتی بے روزگازی اورکمرتوڑمہنگائی کے خاتمہ کے حوالے سے کانگریس کی ’گارنٹی‘بھی مدھیہ پردیش میں ’فیل‘ہوگئی اورشمالی ہند میں ہندوتواکی اہم تجربہ گاہ سمجھی جانے والی اس ریاست میں کانگریس کا’اوبی سی کارڈ‘ بھی کام نہ آسکا اور یوں نتیجہ سامنے ہے۔ یوں مدھیہ پردیش میں ’خوش امید‘ کانگریس کا خواب چکناچورہوگیااور بی جے پی نے یہاں یہ ثابت کردیا کہ وہ ابھی بھی ناقابل تسخیر ہے۔
200رکنی راجستھان اسمبلی کے نتائج کو’حیران کن‘ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں ’رواج‘ بدلنے کی پختہ روایت رہی ہے۔ البتہ199 نشستوں پر ہونے والے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں شکست کے باوجود کانگریس کا مظاہرہ ایسا نہیں رہا،جسے بہتر کہاجاسکے۔یہاں بھارتیہ جنتاپارٹی نے کانگریس کو پٹخنی دیتے ہوئے 115نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ کانگریس کو صرف 69سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔یوں کانگریس کی ہارکو ’شرمندگی سے بھرپور‘کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نے نعریہ لگایاتھا’رواج‘ بدلنے کا،لیکن اس نے ’راج‘گنوادیا۔شاید یہ کہنادرست ہوگاکہ راجستھان میں کانگریس ’باعزت شکست‘ کا ’تمغہ‘بھی حاصل نہ کرسکی۔ یوں توراجستھان میں کانگریس الیکشن بری طرح ہار گئی،لیکن بڑا سچ یہ بھی ہے کہ یہ اشوک گہلوت اور ان کی سیاسی ٹیم کی شکست پہلے ہے، کانگریس کی ہار بعد میں ہے۔یہ اس وجہ سے کہ اشوک گہلوت اس الیکشن میں کم و بیش اسی طرح کا کردار نبھارہے تھے، جس طرح کا رول مدھیہ پردیش میں کملناتھ نے نبھایا۔ مذکورہ دونوں ریاستوں میں کانگریس اعلیٰ کمان کی حیثیت جس طرح محدود رہی، داخلہ سطح پر جس انداز کی رسہ کشی پائی جارہی تھی اورجس نہج پرسیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کانگریس کے ریاستی قائدین نے نہیں کی،اس کا نتیجہ یہی برآمد ہونا تھا اور ہوا بھی۔
90رکنی چھتیس گڑھ کی اسمبلی کا نتیجہ بھی کانگریس کیلئے بڑے خسارے کا سودا ثابت ہوا۔یہاں بی جے پی کی’لہر‘ انتخابی مہم کی دوران کہیں محسوس نہیں کی گئی۔حد تو یہ ہے کہ ایگزٹ پول کے اخذ کردہ نتائج میں بھی کانگریس کی جیت پکی تھی،مگر جب نتیجہ سامنے آیا تو کانگریس حیران بھی ہوئی اور شرمندہ بھی۔ایک مرتبہ پھروزیر اعلیٰ بننے کے تئیں ’خوش امید‘بھوپیش بگھیل کے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے بی جے پی نے نہ صرف یہ کہ 54 حلقوں میں فتح کاپرچم لہرایا بلکہ بگھیل کے9وزراء کو بھی شکست کا مزا چکھادیا۔کل تک حکمرانی کرنے والی کانگریس کی حالت یہاں ایسی ہوگئی کہ اسے 35 سیٹوں پراکتفا کرنا پڑگیا۔
مجموعی طورپریہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ شمالی ہندکی تین ریاستوں کا الیکشن بی جے پی کیلئے فائدے کابڑا سامان اس وجہ سے بناکیونکہ ان تینوں صوبوں میں کانگریس نے وہ سیاسی رول پلے نہیں کیا،جس طرح کا کردار اس نے تلنگانہ میں نبھایا۔کانگریس کی عمدہ اور حوصلہ افزا کامیابی کا ہی یہ نمونہ ہے کہ وہ جنوب کی اس ریاست میں 19سے بڑھ کر 64پر پہنچ گئی۔یوں بی آر ایس کے اقتدارکا سورج یہاں غروب ہوگیا۔البتہ بی آر ایس اس شکست کے باوجودایک مضبوط اپوزیشن کا رول نبھانے کے موقف میں ضرور ہے،جسے119 ریاستی مقننہ میں 39نشستیں حاصل ہوئیں۔ یہاں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے اپنی سابقہ پوزیشن کو برقرار رکھااور7نشستوں پر کامیابی درج کرائی۔کانگریس نے بہرحال تلنگانہ میں ایک مضبوط علاقائی جماعت کوشکست دے کرنہ صرف یہ کہ ریاست کے مرکز اقتدار پر قبضہ جمایا بلکہ شمالی ہند میں ملنے والی ناکامیوں کا دردبھی کسی حد تک اس سے ہلکا ہوگیا۔خاص بات یہ بھی ہے کہ شمال میں جیت کی ہیٹ ٹرک لگانے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کی دال جنوب میں پھر نہیں گل سکی۔کرناٹک کی شکست کے بعدجنوب میں بی جے پی کیلئے کچھ کرپانے کی خاطر تلنگانہ کا سیاسی میدان خاصا اہم تھا،جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی صرف8 سیٹیں حاصل کرسکی۔مجموعی طورپربی جے پی کو تلنگانہ میں 13.90 فیصد رائے دہندگان کی تائید حاصل رہی۔
شمال مشرقی ریاست میزورم کی 40رکنی اسمبلی کے الیکشن کا نتیجہ ایک دن کے وقفہ کے بعد آج آیااور یہاں زورم پیپلز فرنٹ نامی 6علاقائی جماعتوں کے اتحادنے27نشستوں پرفتح کا پرچم لہرایا۔اس ریاست میں نہ کانگریس کی دال گلی اور نہ ہی بی جے پی کی۔اول الذکرنے ایک جبکہ آخرالذکرنے 2نشستوں پر کامیابی درج کراتے ہوئے صوبہ میں اپنی اپنی سیاسی موجودگی ظاہر کی ہے۔یہاں حکمراں اتحادمیزونیشنل فرنٹ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کی آمد اور تین صوبوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی شاندارجیت کے بعدوزیر اعظم نریندر مودی نے اس کامیابی کو 2024کی کامیابی کی گارنٹی قرار دیا ہے۔انہیں یہ اعتماد ہے کہ اگلاپارلیمانی الیکشن بی جے پی ہی جیتے گی،جبکہ دوسری جانب کانگریس نے عاجزی کے ساتھ اس شکست کو قبول کرتے ہوئے مزید قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں کودنے اورصورتحال کا مقابلہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔بہر حال دیکھنے اور سمجھنے کی بات اب یہ ہوگی کہ حالیہ انتخابی نتائج سے کانگریس کیا سبق لیتی ہے اور اس کا 2024کی اپوزیشن کی تیاریوں پر کیا اثر پڑتاہے؟

چارریاستوں کا موڈ کیا ہے؟آج  پتہ چل جائے گامحمد شرافت علی انتظار کی گھڑی ختم ہوا چاہتی ہے۔اب سے چند گھنٹوں کے بعدملک کی5...
02/12/2023

چارریاستوں کا موڈ کیا ہے؟آج پتہ چل جائے گا
محمد شرافت علی
انتظار کی گھڑی ختم ہوا چاہتی ہے۔اب سے چند گھنٹوں کے بعدملک کی5میں سے4 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ملک کی سیاست کیا کروٹ لے بھی رہی ہے آیا نہیں؟ہر چند کہ پانچ ریاستوں کے الیکشن کے نتائج3دسمبر کو آناتھے لیکن الیکشن کمیشن نے میزورم میں ووٹ شماری کی تاریخ ایک دن کیلئے بڑھانے کا اعلانیہ جاری کر دیا۔ اس طرح تبدیل شدہ شیڈول کے تحت اب 5میں سے4 صوبوں یعنی مدھیہ پردیش،راجستھان، چھتیس گڑھ اورتلنگانہ کے اسمبلی الیکشن کے نتائج 3دسمبر کو آئیں گے اور ایک دن بعد میزورم کا نتیجہ سامنے آسکے گا۔انتخابی نتائج کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ایک طرف ان صوبوں میں راج کون کرے گا،یہ طئے ہوگا، وہیں ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی پتہ چل سکے گا کہ اس وقت رائے عامہ کا سیاسی مزاج کیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے علاوہ راجستھان کے حوالے سے اس وقت ملک بھر کے عوام کے درمیان کچھ زیاد ہ ہی تجسس پایا جارہاہے۔ ان دونوں ریاستوں میں سابقہ حکومتوں کو رائے دہندگان حکمرانی کاایک بار پھر موقع دیں گے یا ان دونوں صوبوں میں تبدیلیئ اقتدارکو یقینی بنانے کا فیصلہ سامنے آئے گا،یہ دیکھنا بہر حال دلچسپ ہوگا۔ متذکرہ دونوں ریاستوں کے حوالے سے یہ اندازہ ہے کہ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ آرائی ہوگی اوریہ بعید از امکان بھی نہیں کہ جیت کا فاصلہ خاصا کم ہو!۔
انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد جو ایگزٹ پول سامنے آئے،ان سے بھی اسی خیال کی عکاسی ہورہی ہے۔ حالانکہ کچھ ایگزٹ پول میں راجستھان میں تبدیلیئ اقتدار کی امید ضرور ظاہر کی گئی ہے،لیکن امکانی نتائج کا جو اظہار کیا گیا ہے،انہیں دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سخت مقابلہ آرائی کے درمیان ایسی ٹکر ہوسکتی ہے،جو چند نشستوں کے فرق کے ساتھ کسی کی جیت اور کسی کی ہار کا سبب بن سکتی ہے۔ راجستھان کی گہلوت سرکار کی واپسی اگر ہوئی تو اسے غیر معمولی بھی قرار دیاجانا فطری ہوگاکیونکہ اس ریاست کے عوام کا اب تک یہی مزاج رہاہے کہ وہ ہر الیکشن میں تبدیلی کے حق میں فیصلہ سنا دیا کرتے ہیں۔کانگریس انتخابی مہم کے دوران یہاں ’رواج‘ بدلنے کا نعرہ لگاتی رہی،لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ’رواج‘ بدلتا ہے یا ’راج‘؟۔اگر ’رواج‘ بدل گیاتو پھر اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلے گا کہ گہلوت سرکار کے تئیں عوام کا بھروسہ بڑھاہے اور اگر سرکار بدل گئی تو اس کے معنی یہی نکالے جائیں گے کہ عوام نے ماضی سے بہت زیادہ مختلف انداز میں فیصلہ نہیں لیا۔یہ سچ ہے کہ راجستھان میں گہلوت کی قیادت پر ماضی میں کانگریس کے ہی دوسرے گروپ کے ذریعہ انگلی اٹھائی گئی بلکہ کئی بار کانگریس کے ناراض عناصر نے گہلوت کی جگہ سچن پائلٹ کو زمام اقتدار سپرد کرنے کا بھی تقاضا کیا۔یوں گہلوت سرکار اپنی موجودہ میعادکار کے درمیان داخلی محاذ پر بھی چیلنج جھیلتی رہی،لیکن انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد اس سرکار کیلئے اطمینان کی بات یہ بھی رہی کہ داخلی سطح پر گہلوت کے تئیں پائی جانے والی بے اطمینانی میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی ہی محسوس کی گئی۔میڈیا اور اپوزیشن دونوں نے اس ایشو کو گرم بھی کرنا چاہا لیکن ایک طرح سے یہ کانگریس کیلئے اچھی خبر رہی کہ سچن پائلٹ نے بطورخاص انتخابی مہم کے دوران گہلوت کے تئیں کسی طرح کی بے اطمینانی ظاہر نہیں کی۔ اس طرح گہلوت سرکارکو خارجہ محاذپر پائی جانے والی صورتحال کا بہتر انداز سے مقابلہ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طورپر کسی چہرے کو نمایاں کرنے کی زحمت نہیں کی،اس وجہ سے بھی یہ مانا جانے لگا کہ گہلوت کیلئے واپسی کا راستہ آسان ہوسکتا ہے،مگر راجستھان کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ راجستھان کے عوام اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے گہلوت کی واپسی کا فیصلہ بآسانی کر لیں گے،یہ بہ ظاہر آسان دکھائی نہیں دیتا۔200 رکنی راجستھان اسمبلی میں کانگریس کو پچھلے الیکشن میں 100 نشستیں ملی تھیں،جبکہ بی جے پی کو73 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑاتھا۔اس بار یہاں کی رائے عامہ کیا فیصلے لے گی،یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
جہاں تک مدھیہ پردیش کی سیاست کا تعلق ہے تو یہاں 18 برسوں سے ’ماما‘کی سرکاررہی ہے،جسے بڑے پیمانے پر نہ سہی،لیکن کسی حد تک عوام کی ناراضگیوں کا سامنا رہا۔عوامی سطح پر مدھیہ پردیش کی شیوراج سرکارکے تئیں بے اطمینانی سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی مرکزی قیادت بھی اچھی طرح واقف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے شیوراج کو باضابطہ اگلے وزیر اعلیٰ کے طورپر نماں نہیں کیا۔حد تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے کئی انتخابی جلسوں میں شیوراج کا نام یا تو نہیں لیایا انہیں اگنور کرنے والا فارمولہ اختیار کیا۔خلاصہ یہ کہ شیوراج کے تئیں عوامی سطح پرپائی جانے والی بے اطمینانی کے درمیان بھارتیہ جنتاپارٹی نے یہاں اقتدار میں واپسی کی کوشش کی۔یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی،یہ کل تب پتہ چلے گا،جب انتخابات کے نتائج ہم سبھوں کے سامنے ہوں گے۔انتخابات کی تکمیل کے بعدمدھیہ پردیش کے تعلق سے جو ایگزٹ پول سامنے آئے،ان سے بھی تصویرغیر واضح ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کیلئے واپسی درج کراپانالوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں ہے۔اقتدارمخالف لہروں کا سامنا تو صحیح معنوں میں شیوراج کو2018 کے ہی اسمبلی الیکشن میں کرنا پڑ گیا تھا،جب بی جے پی یہاں اقتدار کھو بیٹھی تھی۔230رکنی مدھیہ پردیش کی اسمبلی کے2018 کے الیکشن میں کانگریس نے114نشستوں پر کامیابی کا جھنڈا لہراکرمقننہ میں سب سے بڑی پارٹی کا اعزاز اپنے نام کرلیا تھا جبکہ بی جے پی 109سیٹوں پر سمٹ گئی تھی،جس کے بعد کملناتھ کی قیادت میں یہاں کانگریس نے حکومت سازی بھی کی لیکن15ماہ میں ہی کانگریس کی سرکارگر گئی اور توڑجوڑ کے ’سیاسی کرشمہ‘کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ جس شیوراج کو عوامی ناراضگی کے سبب اقتدار سے بے دخل ہونا پڑاتھا، وہی شیوراج ایک بار پھروزیر اعلیٰ بن گئے اورباقی ماندہ میعادکارانہوں نے پورا بھی کیا۔
جہاں تک چھتیس گڑھ کا تعلق ہے تو انتخابی رجحان تقریباً واضح ہے کہ یہاں کانگریس ایک بار پھر اقتدار میں واپسی درج کراسکتی ہے۔ تقریباً تمام کے تمام ایگزٹ پول میں یہ بتایا گیا ہے کہ چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کی سرکار کی واپسی لگ بھگ پکی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ الگ الگ اگزٹ پول میں امکانی تصویر الگ الگ ظاہر کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی واپسی ہوسکتی ہے،البتہ سیٹوں کا فرق پہلے کے مقابلے زیادہ نہ ہو،یہ ایک الگ بات ہے۔
اس بار تلنگانہ کا انتخابی نتیجہ کیا واقعی دلچسپ ہوگا،کل یہ بھی پتہ چل جائے گا۔ جنوب کی اس ریاست میں بڑی تبدیلی کی واضح لکیریں ایگزٹ پول کے اخذ کردہ نتائج میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ مختلف ایگزٹ پول کے اخذ کردہ دنتائج کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ اس بار یہاں بی آر ایس (سابقہ ٹی آر ایس) کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والاہے۔ذہن نشیں رہے کہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعدسے یہاں تلنگانہ راشٹر سمیتی اقتدارمیں ہے،جس کے مکھیا کے چندر شیکھرراؤبہ حیثیت وزیر اعلیٰ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ماضی قریب میں انہوں نے اپنی پارٹی’ٹی آر ایس‘ کا نام تبدیل کر لیاتھااوریوں ’بی آر ایس‘کے طور پر انہوں نے اپنی پارٹی کی نئی شروعات کی تھی۔’بھارت راشٹر سیمتی‘کے بینر تلے انہوں نے قومی سیاست میں ایک نئی شروعات کا خواب توضرور سجایا تھا،لیکن اتفاق دیکھئے کہ ان کی ریاست میں ہی ان کی واپسی مشکل نظر آرہی ہے،جس کیلئے بہت سے تجزیہ نگار انہیں اور ان کی پارٹی کو ہی ذمہ دار یا قصوروار قرار دے رہے ہیں۔گوکہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ’بی آرایس‘کا انتخابی مظاہر ہ کیسا رہے گا،لیکن اگزٹ پول کا اندازہ سامنے آنے کے ساتھ ہی محسوس کی جانے والی ’تبدیلی‘ کی لہرمیں اضافہ ہوگیا ہے۔119حلقوں پر مشتمل تلنگانہ اسمبلی میں ٹی آر ایس نے 2018میں 88نشستوں پر قبضہ جمایا تھا،جبکہ کانگریس کو محض19سیٹیں مل سکی تھیں۔پچھلے الیکشن میں ملک کی سب سے بڑی جماعت یعنی بھارتیہ جنتاپارٹی یہاں سب سے چھوٹی بن گئی تھی اور اسے صرف ایک سیٹ مل سکی تھی۔اس بار کیا ہوگا،یہ کل پتہ چلے گا۔
بہرحال دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہوگی کہ راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اورتلنگانہ کے عوام کا فیصلہ کیا سامنے آتا ہے؟پھر اس کے بعد شمال مشرق کی ریاست میزورم کے انتخابی نتائج کی آمد کا ہمیں انتظار کرنا ہوگا،جہاں ایک دن بعد رائے شماری ہوگی۔40رکنی اسمبلی کے پچھلے الیکشن میں یہاں میزو نیشنل فرنٹ نے26نشستوں پر کامیابی کا پرچم لہرایا تھا۔زورم پیپلز موومنٹ کو8، جبکہ کانگریس کو5سیٹیں ملی تھی۔بی جے پی کویہاں صرف ایک سیٹ پراکتفا کرنا پڑا تھا۔بہرحال!اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اگلے پارلیمانی الیکشن پر اثر پڑنا فطری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان پانچ صوبوں کے الیکشن کوبہت سے سیاسی تجزیہ نگار ’سیمی فائنل‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے یہ الیکشن وقار کی لڑائی سے کم نہیں ہے،ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ وقار کی اس لڑائی کاسیاسی انجام کیا نکلتا ہے،کون جیت کر سکندر بنتا ہے اور کسے شکست کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

29/11/2023

نئی دہلی (یو این آئی) کانگریس پارلیمانی پارٹی کی لیڈر سونیا گاندھی نے پارٹی صدر ملکارجن کھڑگے کی تعریف کرتے

29/11/2023

لکھنؤ:29نومبر(یواین آئی) سماج وادی پارٹی(ایس پی)سربراہ اکھلیش یادو نے بی جے پی حکومت میں صرف چار دن کے سیشن اور

28/11/2023

نئی دہلی (یواین آئی) اترکاشی میں سلکیارا ٹنل میں پھنسے مزدوروں تک پہنچ گئے ہیں اور ریسکیو ٹیم اور ان

28/11/2023

نئی دہلی (یو این آئی) وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے منگل کو یہاں بحریہ کے جدید ترین جنگی جہاز

Address

G/79 Kalindi Kunj, AFE PART-II
Delhi
110025

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hindustan Epress posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hindustan Epress:

Share