11/02/2024
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
ہر محب وطن ذلیل ہوا
رات کا فاصلہ طویل ہوا
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی کام و داد پاتے رہے
رہزنوں نے رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی
یہ پڑوسی ملک پاکستان کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب کے ان اشعار کے ذریعے کل ہفتہ 10/فروری 2024ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں، وطنِ عزیز ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی مجموعی نمائندگی کرتے ہوئے حیدرآباد (تلنگانہ) کے معزز رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی کا بےلاگ و بےباک بیان ہے!
اسی کے ساتھ ۔۔۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے رام مندر پر مباحث کے دوران لوک سبھا میں "بابری مسجد زندہ باد"، "بھارت زندہ باد" اور "جئے ہند" کے نعرے بھی لگائے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کو یہ پیام دے رہی ہے کہ آیا وہ جان بچانا چاہتے ہیں یا انصاف چاہتے ہیں؟ صدر مجلس نے کہا کہ مسلمان بھیک نہیں مانگیں گے، سنکھی تعصب کو قبول نہیں کریں گے، دوسرے درجے کے شہری کے موقف کو قبول نہیں کریں گے ، اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے ، جھوٹی اور دل غریب باتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کریں گے اور وہ کام نہیں کریں گے جو بی جے پی اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں چاہتی ہیں۔ دستور کے دائرے میں رہ کر وہ کام کریں گے جو حکومت کو پسند نہیں ہے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ بحیثیت بھارت کے غیور مسلمان، بھارت کی جمہوریت کی روشنی آج بجھا دی گئی ہے اور ان کی فکر اور ایمان یہ کہتا ہے کہ جس جگہ مسجد تھی ، ہے اور رہے گی۔ بابری مسجد ہے اور رہے گی۔
جب اویسی نے یہ کہا کہ آج مودی حکومت 6 دسمبر کو جو ہوا تھا ، اس پر جشن منا رہی ہے۔ تو لوک سبھا کرسئ صدارت پر فائز صدرنشین نے کہا کہ 6 دسمبر پر کوئی جشن نہیں ہو رہا ہے، جشن اس بات پر ہے کہ رام مندر میں جو مورتی نصب کی گئی ہے اس عمل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انجام دیا گیا ہے۔ رام مندر کا قیام سپریم کورٹ کے ذریعہ کیا گیا۔ صدر نشین نے کہا کہ مجلسی رکن قانون کے جانکار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کسی دیگر دھرم کی جگہ پر اگر مسجد بنائی جائے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھی قبول کیا تھا کہ وہاں رام مندر موجود تھا۔ انھوں نے بیرسٹر اویسی سے خواہش کی کہ وہ موضوع پر بات کریں۔
بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ انھیں غلط ثابت کر دیں گے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ صدر نشین کی عزت کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ساتھ یہ بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 1222 میں صاف لکھا ہوا موجود ہے کہ مسجد کی تباہی سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کی گئی۔ عدالت کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوا نہیں جائے گا۔ مسجد کی تباہی مجرمانہ حرکت تھی۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ صدر نشین نے یہ کہا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا گراف کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا ، سپریم کورٹ نے اے ایس آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ وہ ان تفصیلات پر مشتمل پیرا گرافس کو کرسی صدارت کے حوالے کر دیں گے۔ بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت سے یہ پوچھنا چاہا کہ آیا مودی سرکار صرف ایک مذہب کی حکومت ہے یا ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی حکومت ہے؟ انھیں بتا دیا جائے۔ کیا مودی حکومت کو صرف ایک فکر ہے اور وہ ہندوتوا کی حکومت ہے؟ کیا اس ملک کا اور حکومت ہند کا ایک مذہب ہے؟ وطن عزیز سب مذاہب کو مانتا ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ان کا یہ مانتا ہے کہ اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آیا یہ حکومت 22 جنوری کے پیام کو پیش کر کے یہ بتانا چاہتی ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہے؟ آیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا حکومت اس ایوان کے ذریعہ یہ پیام دے رہی ہے، 17 کروڑ مسلمانوں کو کیا پیام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ سوال وہ کرسی صدارت پر چھوڑتے ہیں۔
بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ وہ مریادا پرشوتم رام کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ ناتھو رام گوڈسے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نسلیں بھی نفرت کرتی رہیں گی۔ کیونکہ اس نے اس شخص کو گولی ماری جس کی زبان سے آخری الفاظ 'ہے رام' نکلے تھے۔ بھارت کے 17 کروڑ مسلمان آج خود کو اجنبی محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کنارے پر کر دیا گیا ہے۔ بہت بڑی نا انصافی کی جا رہی ہے۔ اس پر مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ: اسپیکر صاحب، وہ اویسی صاحب سے صرف ایک سوال کا جواب مانگنا چاہتے ہیں کہ وہ بابر کو حملہ آور مانتے ہیں یا نہیں؟
اس پر بیرسٹر اویسی نے الٹا نشی کانت دوبے سے سوال کیا کہ وہ پشیا مترا سنگھا کو کیا مانتے ہیں؟ جموں و کشمیر کے ایک راجہ کو وہ کیا مانتے ہیں؟ جس کے پاس ایک فوج تھی جو صرف مندروں کو توڑنے کے لئے مختص تھی ، اس کا جواب دیا جائے۔
اس پر ایوان میں خاموشی چھا گئی۔
اسد اویسی نے نشی کانت دوبے سے کہا کہ 1947ء میں ہمیں آزادی ملی ، ہم سے بابر کی بات کیا پوچھ رہے ہو؟ اسد اویسی سے تو گاندھی جی ، سبھاش چندر بوس ، جلیان والا باغ ، کالا پانی میں شہید مسلمانوں کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے، لیکن ہم سے بابر کی بات پوچھی جاتی ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس دیش کو کس کی ضرورت ہے؟ وہ بتانا چاہتے ہیں کیونکہ لوگ تاریخ کو نہیں پڑھتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کون تھے؟ دونوں کا تعلق ایودھیا سے تھا۔ دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، گرفتار کر لئے گئے اور ایک ہی پیڑ پر مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ دیش کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ شمھو پرساد اور اچھن خان جو راجہ دیوی سنگھ کی فوج کے تھے انھوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا جس کے بعد مسلمان کی لاش کو تو جلا دیا گیا اور شمھو پرساد کو دفنا دیا گیا تھا، آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ دیش کو بابا مودی کی ضرورت نہیں ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس ایوان میں سیاسی جماعتیں آئیں گی اور چلے جائیں گی لیکن ایوان تو باقی رہے گا۔ لوک سبھا کو تو ایک آواز میں بولنا چاہئے لیکن لوک سبھا میں مختلف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ وہ کافی دیر سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے بیانات کو سن رہے ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ قاضی صاحب جب گواہوں کو لے کر دلہن کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم کو نکاح قبول ہے؟ تو دلہن شرما کر خاموش ہو جاتی ہے۔ یہاں اس ایوان میں ان نام نہاد جماعتوں کی خاموشی بھی رضا مندی کی علامت ہے۔ بیرسٹر اویسی نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے اختتام میں کہا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جواب چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھارت کے 140 کروڑ عوام کے لئے جواب دیں گے؟ یا پھر صرف ہندو توا کی فکر رکھنے والوں کو جواب دیں گے؟ دیش ، دنیا اور مسلمان یہ سب دیکھ رہے ہیں۔
*****
(رپورٹ بشکریہ: شجاع الدین افتخاری ، اعتماد نیوز۔ روزنامہ 'اعتماد' بروز اتوار، 11/فروری 2024ء)
Shuja Ifteqari
TaemeerNews.com , an effort to build positive thinking and society, A Social, Cultural and Literary