
01/03/2024
یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:
"مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے والے کو یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالباً موسم کی خرابی کے باعث اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
میرے ایک دوست یوسفی کے اسی قولِ زریں کے سہارے اکثر مجھ پر طعنہ زن ہوتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا کی اپنی مزاحیہ طرز پوسٹس کی آڑ میں دراصل اپنی کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اب اللہ جانے کتنا سچ ہے۔ لیکن اس کے برعکس کچھ قلمکار ایسے بھی یہیں کہیں پائے جاتے ہیں جو 'جو ہے سو ہے' کی طرز پر دھونس دھڑلے سے مشین گنوں کی دھواں دھار فائرنگ میں سب کچھ فرما جاتے ہیں اور بعد از تقریر بندوقیں پھینک کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے نہایت معصومیت سے کہتے ہیں:
اب کر لو جو کرنا ہے!
جب میں مشین گنوں کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے باریکی سے پڑھنے والے فوراً سمجھ جاتے ہیں: یقیناً گمشدہ خوابوں کے سفر میں صفر کی توہین کرنے والے کسی جوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 'اس نے کہا ہے'۔
پچھلے جمعہ کو مدیرِ 'اثبات' اشعر نجمی نے ایک تقریب کی ویڈیو رپورٹ اپنی ٹائم لائن پر شئر کی۔ بلکہ شاید یہ ایک سیریز ہے آٹھ دس ویڈیو کی جو سلسلہ وار پیش کی گئی ہیں۔ پہلی ویڈیو ہی تقریب کے نوشہ اشعر نجمی کی تقریر کی تھی۔ نوشہ اس لیے بھی کہا کہ متذکرہ ادبی تقریب انہی کی چار کتابوں کے رسم اجرا پر مبنی تھی جس میں شرکت کے لیے اشعر نجمی نے بطور خاص ممبئی سے دہلی کے لیے اڑان بھری تھی۔
تقریر زیادہ لمبی نہیں ہے بس یہی کوئی بیس بائیس منٹ کی ہوگی، مگر اسے توجہ سے اور وقفہ وقفہ سے سننے میں وقت کچھ زیادہ ہی لگ گیا۔ میں عموماً سننے کی بہ نسبت پڑھنے میں زیادہ دلچسپی اور تیزرفتاری رکھتا ہوں، اس لیے جب خاتونِ خانہ نے میری اس قدر توجہ پر غور کیا تو بعد ازاں خود بھی نہ صرف ویڈیو کو ملاحظہ کیا بلکہ اپنی اسکالرلی عادت کے باعث وہ نکات بھی ڈائری میں نوٹ کیے جو انہیں متاثرکن محسوس ہوئے۔ پھر مجھ سے تقاضا ہوا کہ: یہ ویڈیو اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے آج کی نسل کے ہر قاری کو دیکھنا/سننا/سمجھنا چاہیے، آپ اپنی تحریر سے اس کی ترغیب دلائیں۔
سو صاحبو، یہ تحریر اسی خانہ دار نسائی حکم کی تعمیل سمجھیے۔
رضوان الدین فاروقی نے صاحبِ کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے شائستہ انداز میں کہا تھا: وہ کچھ منفرد سوچتے ہیں۔ جس کی تردید میں اشعر نجمی نے بتایا کہ بندہ نے مہذب طریقے سے لفظ "منفرد" کہہ دیا جبکہ وہاں لفظ "الٹا" فٹ بیٹھتا ہے۔ صاحب، اللہ گواہ ہے مجھے تعارف کروانے کہا جاتا تو یوں کہتا:
اشعر نجمی الٹا نہیں بہت الٹا سوچتے ہیں اور پھر اس سوچ کو زبان کے ذریعے جب الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو ان کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں گَن ہوتی ہے!
کم از کم میرے نزدیک اشعر نجمی کی اس تقریر میں بیشتر باتیں تو وہ ہیں جو میں ان کے قلم سے یہاں وہاں پڑھ چکا ہوں۔ مگر انہیں سننے کا شاید یہ پہلا دلچسپ موقع تھا اور سن کر واقعی اچھا لگا کہ مجھے اپنے طالب علمی کے دور کے اساتذہ کی یاد آ گئی۔ اشعر نجمی نے جس سادہ اور بےجھجھک انداز میں اپنا موقف پیش کیا وہ حقیقتاً لاجواب ہے، بلکہ ہماری بیگم کے مطابق:
بڑے میاں کی آواز اور پیشکش کا لہجہ بڑا شاندار ہے!
میں مختصراً اس تقریر کے متن پر روشنی ڈالنا چاہوں گا تاکہ پتا چلے کہ فکشن کے ہر سنجیدہ قاری کو یہ کیوں سننا چاہیے؟ تقریر کے آغاز میں ہی ایک ادبی قولِ زریں:
ایک تخلیق کار کو تخلیق کرنے کے بعد الگ ہو جانا چاہیے۔
کو بیان کرتے ہوئے اشعرنجمی نے شمس الرحمن فاروقی کی وضاحت بھی دہرائی کہ: تخلیق کار سے اس کی تخلیق کے متعلق زیادہ پوچھا نہیں جانا چاہیے اور اگر وہ بولے بھی تب بھی اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
جن لکھنے والوں کی نثر پر آپ دسترس دیکھتے ہیں وہ کچھ یونہی حاصل ہوا خداداد کمال نہیں بلکہ اس کے پس پشت طویل مطالعہ کی محنت مشقت کارفرما ہوتی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشعرنجمی نے ہمیں بتایا کہ اپنے لڑکپن سے کس طرح وہ فکشن کی کتب کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور کس طرح فکشن سے ان کا بالواسطہ رشتہ قائم ہوا تھا۔ اگر عصر حاضر کے فکشن کی صلاحیتوں سے لبریز کسی کتاب میں آپ کو زبان و بیان کی کسی بھی طرح کی کوئی خامی نظر آ جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آنی چاہیے کہ فکشن نگار کا مشاہدہ/تجربہ خوب یا خوب تر سہی مگر اس کا مطالعہ یقیناً کمزور رہا ہے! بلاشبہ طویل مطالعے کا سفر اور اس سفر سے موزوں اکتساب کے بعد ہی کوئی اس مقام پر پہنچ پاتا ہے جہاں سے وہ ایسی نثر لکھ سکے جسے پڑھ کر قاری بےساختہ کہہ اٹھے: اُس نے کہا تھا!
اشعر نجمی نے بتایا ہے کہ جو کتاب انہیں پسند نہیں آتی وہ انہیں شیلف میں رکھ دیتے ہیں، جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسے بالکلیہ نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ سوچتے ہیں کہ بعد میں کسی اور وقت پڑھی جائے۔
میں نے یوسفی کا قول (چاہے مزاحیہ سہی) اسی لیے سب سے پہلے تحریر کیا تاکہ بتایا جائے کہ قاری کا مزاج کوئی جامد شئے نہیں بلکہ یہ تغیر پذیر امر ہے۔ یہ ہمارے مطالعہ کے معیار کی ترقی یا تنزلی کا پیمانہ بھی ہے۔ ممتاز و مقبول عام فکشن نگار محی الدین نواب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: "جب کسی لکھنے والے کو اپنی پرانی چیز اچھی نہ لگے اور بچکانہ محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا فن ترقی کر رہا ہے۔"
تقریباً یہی بات قاری کے ساتھ بھی وابستہ ہے کہ وہ خود جان سکے کہ اس کے مطالعے کا فنی معیار کس گراف پر جا رہا ہے؟
محی الدین نواب کے ذکر پر یاد آیا کہ اشعر نجمی نے میلان کنڈیرا کے جس افسانے "لفٹ لینے کا کھیل" کا اپنی تقریر میں ذکر کیا اور افسانے کی کچھ تفصیل بتائی ہے ۔۔۔ تقریباً اسی موضوع پر نواب صاحب (یا شاید شان الحق حقی) کی ایک پرانی کہانی بھی ہے جو کسی پاکستانی ڈائجسٹ میں نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی میں میاں بیوی، سال میں ایک بار عاشق معشوق بن کر کسی ہوٹل میں اتفاقیہ ملاقات کرتے اور رات ساتھ گزارتے ہیں۔۔۔ اب کسی مذہبی معاشرے میں جہاں پولیس "مورال پولسنگ" کا ڈنڈا لیے پھرتی ہو، ایسی صورت میں کیسے کیسے مسائل قدم در قدم پیش آئیں گے، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا تھا۔ میں نے میلان کنڈیرا کا وہ افسانہ ابھی تک تو نہیں پڑھا، امید ہے جلد ضرور مطالعے سے گزرے گا۔
میں نے یہاں محی الدین نواب کا ذکر جان بوجھ کر اس لیے بھی کیا ہے کہ اشعر نجمی نے پاپولر فکشن کے اپنے مطالعاتی زمانے میں جس 'دیبا خانم' کو پڑھنے کا ذکر کیا ہے، وہ انہی محی الدین نواب کا ایک قلمی نام تھا (اس کی تفصیل میری ٹائم لائن کی کسی پوسٹ میں درج ہے)۔
میری نصف بہتر کا فرمانِ مبارک ہے کہ یہاں اس جگہ وہ جملہ بھی ضرور درج کیا جائے جو بقول ان کے، فکشن کے قاری کے لیے سنہرا قول باور کیا جانا چاہیے:
"۔۔۔ تو اس دوران میں نے بہت ساری کتابیں پڑھیں کیونکہ اس وقت میں اپنے لیے پڑھ رہا تھا، مجھے پڑھ کر لکھنا نہیں تھا اس لیے میں کم از کم ایک ایماندار قاری تھا۔۔۔"
ذرا ایک لمحہ رک کر آج کے قلمکاروں کو کیا سوچنا نہیں چاہیے کہ ۔۔۔ وہ جو لکھ رہے ہیں ایمانداری سے سہی مگر جو پڑھ رہے ہیں کیا اس میں بھی ایمانداری برت رہے ہیں؟
آخر میں آج کے فکشن نگاروں (اور بالخصوص سوشل میڈیا پر لکھ کر انسٹنٹ داد بٹورنے والے) کو بین السطور میں اشعر نجمی نے جو مخلصانہ مشورہ دیا ہے، وہ درحقیقت جدید ادب کا ایک بنیادی اصول بھی ہے۔ اشعر نجمی کہتے ہیں:
میں اس رائٹر سے ناراض رہتا ہوں، غصہ آتا ہے جب وہ بار بار انگلی پکڑ کر کہتا ہے اِدھر سے چلو اُدھر سے چلو، دیکھو یہ ساری چیزیں تمہارے لیے کھول کر رکھ دی ہیں۔۔۔ یعنی رائٹر کو مجھ پر بھروسہ نہیں، وہ میرے لیے اپنی کتاب میں کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑ رہا ہے، میرے لیے اسپیس کہاں ہے کہ کچھ ڈسکوور کر سکوں؟ رائٹر کو چاہیے کہ اپنے قاری کو اپاہج نہ بنائے۔ رائٹر کے لیے قاری اہم ہونا چاہیے۔۔۔
خیر ، اشعر نجمی کی ویڈیو تقریر کا تحریری تعارف کچھ لمبا ہو گیا ۔۔۔ ویڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے ۔۔۔ ضرور دیکھیے/سنیے اور ہمارے عہد کے جدید فکشن نگار کی باتوں پر غور کیجیے۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا۔
*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن) ، بروز جمعہ یکم/مارچ 2024ء