Taemeer News

Taemeer News TaemeerNews.com , an effort to build positive thinking and society, A Social, Cultural and Literary

پڑوس میں کسی کے ہاں پارٹی تھی ، جس کے متعلق ہمارے دوست جو ہمارے میزبان بھی تھے صبح ہی سے نت نئے انکشافات کر رہے تھے فرما...
30/08/2025

پڑوس میں کسی کے ہاں پارٹی تھی ، جس کے متعلق ہمارے دوست جو ہمارے میزبان بھی تھے صبح ہی سے نت نئے انکشافات کر رہے تھے فرمایا:
"ذرا اس پارٹی کا تصور تو کیجئے جس کے پیچھے ایک ساتھ کئی خوشیاں کارفرما ہیں۔ ایک تو صاحبِ خانہ کی 'بے بی' کا جنم دن ہے اور غالباً اس بار بھی انیسویں سالگرہ ہوگی جو پچھلے دو برس سے انتہائی پابندی کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ اور آثار بتاتے ہیں کہ اگلے دو چار برس تک بھی انیسویں ہی سالگرہ منائی جاتی رہے گی ، بہرحال واللہ عالم۔۔ دوسرے صاحبِ خانہ کے بڑے صاحب زادے کے بارے میں سنا ہے کہ بی۔ اے کے تین سالہ ڈگری کورس کو پانچ اقساط میں مکمل کرکے برخوردار نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیاہے ، تیسرے ان کے چھوٹی صاحبزادے کا جشنِ صحت ہے اور چوتھے۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ چوتھا سبب بیان کرتے ہم نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یوں کہئے ان کے ہاں "پارٹی" نہیں بلکہ "پارٹیاں" ہیں۔۔۔

شام میں جس وقت ہم اپنے دوست اور ان کی بیوی کے ہمراہ پارٹی میں پہنچے بھانت بھانت کے نمونے اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ اور سب کے سب دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی نے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تو کسی کو کپڑوں نے پہن رکھا تھا۔ خواتین کی سج دھج دیکھ کر ہمارے چودہ بلکہ اکیس طبق روشن ہوگئے۔ بدن سے لپٹے ہوئے لباس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کافی ہاتھا پائی کے بعد اسے زیب تن کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں چہروں پر رنگ برنگے میک اپ کی کچھ اتنی تہیں جمی ہوئی تھیں کہ صحیح عمر کا اندازہ لگانا مشکل بلکہ ناممکن تھا ، ویسے بھی الٹراماڈرن خواتین کی صحیح عمر کا اندازہ لگانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ بلکہ اس کوشش میں تو سُنا ہے کہ اب تک کئی اہل دل و گردہ نہ صرف اپنے دل گردے بلکہ دوسرے کئی ضروری اور اہم ترین اعضا سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ سب کی سب ایک جیسی عمر کی نظر آرہی تھیں، اور یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں کون ماں ہے کون بے بی، کون ساس ہے، کون بہو۔۔ ؟
ایک طرف الٹرا ماڈرن نوجوان نسل اپنے اپنے دیڑھ اینٹ کے کلب بنائے چہلیں کرنے میں مگن تھی۔ ان میں یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ کون لڑکی ہے کون لڑکا ؟ یعنی میں و تو کا فرق یکسر مٹ چکا تھا ان سب نے کم خرچ بالانشین ، قسم کا لباس پہن رکھا تھا لگتا ہے آج کے بیشتر ماڈرن نوجوان کپڑوں کے قحط کا زبردست شکار ہیں۔

اقتباس از : مضمون "پارٹی"، مصنف: پرویز یداللہ مہدی۔ مکمل مضمون تعمیرنیوز پر۔۔۔

کتابی سلسلہ "اثبات" کے متعدد ضخیم خصوصی شمارے مثلاً : مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ؛ احیائے مذاہب: اتحاد ، انتشار ...
19/07/2025

کتابی سلسلہ "اثبات" کے متعدد ضخیم خصوصی شمارے مثلاً :
مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ؛ احیائے مذاہب: اتحاد ، انتشار اور تصادم؛ مشاعرہ : روایت، ثقافت اور تجارت؛ وہ جو چاند تھا سر آسماں - شمس الرحمن فاروقی نمبر؛ تراجم فاروقی - شمس الرحمن فاروقی کے تراجم کا مجموعہ؛ افغانستان مذہب اور جنگ کی انڈسٹری
شائع ہو کر ہند و پاک کے علمی و ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ اب "اثبات" کا متعاقب خاص شمارہ (شمارہ نمبر:45) درج ذیل عنوان کے تحت اسی ہفتے شائع ہو رہا ہے:
"یعنی مسلمان! مدارس اور اردو کا اسلامی تشخص"

اثبات کے مدیر اشعر نجمی اس خصوصی شمارہ "مدارس اور اردو کا اسلامی تشخص" کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔ 'مدارس' میرے نزدیک مسلمانوں کی ایک قدیم درسگاہ ہے جس کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے، لیکن بہرحال اس پر 'تقدس' کا لیبل لگا کر اس پر بات کرنا 'حرام' نہیں ہے، البتہ میں 'تعلیم' کو مقدس ضرور تعبیر کرتا ہوں ، پھر خواہ وہ مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ تعلیم ایک ایسی اہم معاشرتی سرگرمی ہے جو سماج کے ارتقا کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔چنانچہ اس پر نظر ثانی کرتے رہنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اس پر گفتگو کریں گے۔ گفتگو کرتے وقت یہ دھیان ضرور رکھنا چاہیے کہ ہم دونوں فریقوں کے دلائل سنیں، سمجھیں، اور پھر کسی نتیجے پر پہنچیں جس میں عقیدے ، تعصبات اور تحفظات کا دخل نہ ہو۔
اس شمارے میں مدارس اسلامیہ کے تعلق سے میری یہی کوشش ہے کہ اس موضوع کا غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا جائے جو مصدقہ حوالوں، سروے رپورٹوں اور قدیم و جدید ماخذوں پر مبنی ہو، سو میں نے مبالغہ، تاویلات، خلط مبحث اور دعوؤں کے لیے جگہ تنگ کردی ہے۔ جہاں تک 'اردو کے اسلامی تشخص' کی بات ہے، اس پر بھی گفتگو ضروری ہوگئی تھی چونکہ اب وہ وقت آگیا ہے جب ہم اسے ہندوستان کی مشترکہ 'گنگا جمنی تہذیب' کہہ کر اور چند غیر مسلم شاعروں اور ادیبوں کے نام گنوا کر حسب موقع اِ دھر سے اُدھر شفٹ نہ کرتے رہیں، اس مسلسل منتقلی سے اب اردو اور محبان اردو دونوں بیزار آچکے ہیں۔

درج ذیل لنک سے شمارے میں شامل مضامین کی فہرست ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور شمارے کی خریدی کی تفصیلات بھی معلوم کی جا سکتی ہیں۔

یعنی مسلمان : مدارس اور اردو کا اسلامی تشخص - اثبات کا 45 واں خصوصی شمارہ

دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کی بغیر کسی تیاری کے اردو ادب میں اعلیٰ سطح پر داخل ہونے کی تشویش ...
05/06/2025

دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کی بغیر کسی تیاری کے اردو ادب میں اعلیٰ سطح پر داخل ہونے کی تشویش کے مکمل طور پر درست ہونے کے باوجود بھی اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے فارغین کو یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں داخلہ نہ دیا جائے بلکہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے یہ فارغین یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں بہ حیثیت طلبہ اس تیاری کے ساتھ کیسے داخل ہوں کہ ان کے اندر نہ صرف اردو ادب پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے بلکہ وہ اس کے خُلقیے سے بھی واقف ہو جائیں، اور ان کے ذریعے کیا جانے والا علمی کام اردو ادب کا اعلا معیاری کام ہو۔ نیز اردو ادب کی تعلیم کی جلوہ گری ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دے۔
ادب اور سماجی علوم آدمی کو بہتر اور سوچنے والی روح میں تبدیل کر دیتے ہیں مگر دینی مدارس میں اردو اور سماجی علوم تو کیا عربی ادب بھی، جو دنیا کا عظیم ترین ادب ہے، براے نام ہی پڑھایا جاتا ہے۔
ہر ادب کا مخصوص کلچر ہوتا ہے جس کا تعلق اس معاشرے سے تو لازمی طور پر ہوتا ہی ہے جس میں وہ ادب پروان چڑھتا ہے مگر اس میں بہ شمول دیگر عناصر کے ادب کے آفاقی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ اردو ادب کا خُلقیہ اردو کی اس ادبی تہذیب میں مضمر ہے جس کی تشکیل مختلف مقامی تہذیبوں اور لسانی رویوں کے اشتراک سے صدیوں میں ہوئی ہے۔

دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس - مضمون از ڈاکٹر صدف فاطمہ

 یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:"مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے وال...
01/03/2024



یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:
"مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے والے کو یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالباً موسم کی خرابی کے باعث اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
میرے ایک دوست یوسفی کے اسی قولِ زریں کے سہارے اکثر مجھ پر طعنہ زن ہوتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا کی اپنی مزاحیہ طرز پوسٹس کی آڑ میں دراصل اپنی کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اب اللہ جانے کتنا سچ ہے۔ لیکن اس کے برعکس کچھ قلمکار ایسے بھی یہیں کہیں پائے جاتے ہیں جو 'جو ہے سو ہے' کی طرز پر دھونس دھڑلے سے مشین گنوں کی دھواں دھار فائرنگ میں سب کچھ فرما جاتے ہیں اور بعد از تقریر بندوقیں پھینک کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے نہایت معصومیت سے کہتے ہیں:
اب کر لو جو کرنا ہے!
جب میں مشین گنوں کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے باریکی سے پڑھنے والے فوراً سمجھ جاتے ہیں: یقیناً گمشدہ خوابوں کے سفر میں صفر کی توہین کرنے والے کسی جوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 'اس نے کہا ہے'۔
پچھلے جمعہ کو مدیرِ 'اثبات' اشعر نجمی نے ایک تقریب کی ویڈیو رپورٹ اپنی ٹائم لائن پر شئر کی۔ بلکہ شاید یہ ایک سیریز ہے آٹھ دس ویڈیو کی جو سلسلہ وار پیش کی گئی ہیں۔ پہلی ویڈیو ہی تقریب کے نوشہ اشعر نجمی کی تقریر کی تھی۔ نوشہ اس لیے بھی کہا کہ متذکرہ ادبی تقریب انہی کی چار کتابوں کے رسم اجرا پر مبنی تھی جس میں شرکت کے لیے اشعر نجمی نے بطور خاص ممبئی سے دہلی کے لیے اڑان بھری تھی۔
تقریر زیادہ لمبی نہیں ہے بس یہی کوئی بیس بائیس منٹ کی ہوگی، مگر اسے توجہ سے اور وقفہ وقفہ سے سننے میں وقت کچھ زیادہ ہی لگ گیا۔ میں عموماً سننے کی بہ نسبت پڑھنے میں زیادہ دلچسپی اور تیزرفتاری رکھتا ہوں، اس لیے جب خاتونِ خانہ نے میری اس قدر توجہ پر غور کیا تو بعد ازاں خود بھی نہ صرف ویڈیو کو ملاحظہ کیا بلکہ اپنی اسکالرلی عادت کے باعث وہ نکات بھی ڈائری میں نوٹ کیے جو انہیں متاثرکن محسوس ہوئے۔ پھر مجھ سے تقاضا ہوا کہ: یہ ویڈیو اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے آج کی نسل کے ہر قاری کو دیکھنا/سننا/سمجھنا چاہیے، آپ اپنی تحریر سے اس کی ترغیب دلائیں۔
سو صاحبو، یہ تحریر اسی خانہ دار نسائی حکم کی تعمیل سمجھیے۔

رضوان الدین فاروقی نے صاحبِ کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے شائستہ انداز میں کہا تھا: وہ کچھ منفرد سوچتے ہیں۔ جس کی تردید میں اشعر نجمی نے بتایا کہ بندہ نے مہذب طریقے سے لفظ "منفرد" کہہ دیا جبکہ وہاں لفظ "الٹا" فٹ بیٹھتا ہے۔ صاحب، اللہ گواہ ہے مجھے تعارف کروانے کہا جاتا تو یوں کہتا:
اشعر نجمی الٹا نہیں بہت الٹا سوچتے ہیں اور پھر اس سوچ کو زبان کے ذریعے جب الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو ان کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں گَن ہوتی ہے!
کم از کم میرے نزدیک اشعر نجمی کی اس تقریر میں بیشتر باتیں تو وہ ہیں جو میں ان کے قلم سے یہاں وہاں پڑھ چکا ہوں۔ مگر انہیں سننے کا شاید یہ پہلا دلچسپ موقع تھا اور سن کر واقعی اچھا لگا کہ مجھے اپنے طالب علمی کے دور کے اساتذہ کی یاد آ گئی۔ اشعر نجمی نے جس سادہ اور بےجھجھک انداز میں اپنا موقف پیش کیا وہ حقیقتاً لاجواب ہے، بلکہ ہماری بیگم کے مطابق:
بڑے میاں کی آواز اور پیشکش کا لہجہ بڑا شاندار ہے!
میں مختصراً اس تقریر کے متن پر روشنی ڈالنا چاہوں گا تاکہ پتا چلے کہ فکشن کے ہر سنجیدہ قاری کو یہ کیوں سننا چاہیے؟ تقریر کے آغاز میں ہی ایک ادبی قولِ زریں:
ایک تخلیق کار کو تخلیق کرنے کے بعد الگ ہو جانا چاہیے۔
کو بیان کرتے ہوئے اشعرنجمی نے شمس الرحمن فاروقی کی وضاحت بھی دہرائی کہ: تخلیق کار سے اس کی تخلیق کے متعلق زیادہ پوچھا نہیں جانا چاہیے اور اگر وہ بولے بھی تب بھی اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
جن لکھنے والوں کی نثر پر آپ دسترس دیکھتے ہیں وہ کچھ یونہی حاصل ہوا خداداد کمال نہیں بلکہ اس کے پس پشت طویل مطالعہ کی محنت مشقت کارفرما ہوتی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشعرنجمی نے ہمیں بتایا کہ اپنے لڑکپن سے کس طرح وہ فکشن کی کتب کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور کس طرح فکشن سے ان کا بالواسطہ رشتہ قائم ہوا تھا۔ اگر عصر حاضر کے فکشن کی صلاحیتوں سے لبریز کسی کتاب میں آپ کو زبان و بیان کی کسی بھی طرح کی کوئی خامی نظر آ جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آنی چاہیے کہ فکشن نگار کا مشاہدہ/تجربہ خوب یا خوب تر سہی مگر اس کا مطالعہ یقیناً کمزور رہا ہے! بلاشبہ طویل مطالعے کا سفر اور اس سفر سے موزوں اکتساب کے بعد ہی کوئی اس مقام پر پہنچ پاتا ہے جہاں سے وہ ایسی نثر لکھ سکے جسے پڑھ کر قاری بےساختہ کہہ اٹھے: اُس نے کہا تھا!

اشعر نجمی نے بتایا ہے کہ جو کتاب انہیں پسند نہیں آتی وہ انہیں شیلف میں رکھ دیتے ہیں، جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسے بالکلیہ نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ سوچتے ہیں کہ بعد میں کسی اور وقت پڑھی جائے۔
میں نے یوسفی کا قول (چاہے مزاحیہ سہی) اسی لیے سب سے پہلے تحریر کیا تاکہ بتایا جائے کہ قاری کا مزاج کوئی جامد شئے نہیں بلکہ یہ تغیر پذیر امر ہے۔ یہ ہمارے مطالعہ کے معیار کی ترقی یا تنزلی کا پیمانہ بھی ہے۔ ممتاز و مقبول عام فکشن نگار محی الدین نواب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: "جب کسی لکھنے والے کو اپنی پرانی چیز اچھی نہ لگے اور بچکانہ محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا فن ترقی کر رہا ہے۔"
تقریباً یہی بات قاری کے ساتھ بھی وابستہ ہے کہ وہ خود جان سکے کہ اس کے مطالعے کا فنی معیار کس گراف پر جا رہا ہے؟
محی الدین نواب کے ذکر پر یاد آیا کہ اشعر نجمی نے میلان کنڈیرا کے جس افسانے "لفٹ لینے کا کھیل" کا اپنی تقریر میں ذکر کیا اور افسانے کی کچھ تفصیل بتائی ہے ۔۔۔ تقریباً اسی موضوع پر نواب صاحب (یا شاید شان الحق حقی) کی ایک پرانی کہانی بھی ہے جو کسی پاکستانی ڈائجسٹ میں نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی میں میاں بیوی، سال میں ایک بار عاشق معشوق بن کر کسی ہوٹل میں اتفاقیہ ملاقات کرتے اور رات ساتھ گزارتے ہیں۔۔۔ اب کسی مذہبی معاشرے میں جہاں پولیس "مورال پولسنگ" کا ڈنڈا لیے پھرتی ہو، ایسی صورت میں کیسے کیسے مسائل قدم در قدم پیش آئیں گے، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا تھا۔ میں نے میلان کنڈیرا کا وہ افسانہ ابھی تک تو نہیں پڑھا، امید ہے جلد ضرور مطالعے سے گزرے گا۔
میں نے یہاں محی الدین نواب کا ذکر جان بوجھ کر اس لیے بھی کیا ہے کہ اشعر نجمی نے پاپولر فکشن کے اپنے مطالعاتی زمانے میں جس 'دیبا خانم' کو پڑھنے کا ذکر کیا ہے، وہ انہی محی الدین نواب کا ایک قلمی نام تھا (اس کی تفصیل میری ٹائم لائن کی کسی پوسٹ میں درج ہے)۔

میری نصف بہتر کا فرمانِ مبارک ہے کہ یہاں اس جگہ وہ جملہ بھی ضرور درج کیا جائے جو بقول ان کے، فکشن کے قاری کے لیے سنہرا قول باور کیا جانا چاہیے:
"۔۔۔ تو اس دوران میں نے بہت ساری کتابیں پڑھیں کیونکہ اس وقت میں اپنے لیے پڑھ رہا تھا، مجھے پڑھ کر لکھنا نہیں تھا اس لیے میں کم از کم ایک ایماندار قاری تھا۔۔۔"
ذرا ایک لمحہ رک کر آج کے قلمکاروں کو کیا سوچنا نہیں چاہیے کہ ۔۔۔ وہ جو لکھ رہے ہیں ایمانداری سے سہی مگر جو پڑھ رہے ہیں کیا اس میں بھی ایمانداری برت رہے ہیں؟

آخر میں آج کے فکشن نگاروں (اور بالخصوص سوشل میڈیا پر لکھ کر انسٹنٹ داد بٹورنے والے) کو بین السطور میں اشعر نجمی نے جو مخلصانہ مشورہ دیا ہے، وہ درحقیقت جدید ادب کا ایک بنیادی اصول بھی ہے۔ اشعر نجمی کہتے ہیں:
میں اس رائٹر سے ناراض رہتا ہوں، غصہ آتا ہے جب وہ بار بار انگلی پکڑ کر کہتا ہے اِدھر سے چلو اُدھر سے چلو، دیکھو یہ ساری چیزیں تمہارے لیے کھول کر رکھ دی ہیں۔۔۔ یعنی رائٹر کو مجھ پر بھروسہ نہیں، وہ میرے لیے اپنی کتاب میں کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑ رہا ہے، میرے لیے اسپیس کہاں ہے کہ کچھ ڈسکوور کر سکوں؟ رائٹر کو چاہیے کہ اپنے قاری کو اپاہج نہ بنائے۔ رائٹر کے لیے قاری اہم ہونا چاہیے۔۔۔

خیر ، اشعر نجمی کی ویڈیو تقریر کا تحریری تعارف کچھ لمبا ہو گیا ۔۔۔ ویڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے ۔۔۔ ضرور دیکھیے/سنیے اور ہمارے عہد کے جدید فکشن نگار کی باتوں پر غور کیجیے۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا۔

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن) ، بروز جمعہ یکم/مارچ 2024ء

اردو کے مستند و معروف شاعر علامہ حیرت بدایونی کی ایک نادر و نایاب تصویرحیدرآباد دکن کی چند نامور ادبی شخصیات کے ہمراہ، ب...
18/02/2024

اردو کے مستند و معروف شاعر علامہ حیرت بدایونی کی ایک نادر و نایاب تصویر
حیدرآباد دکن کی چند نامور ادبی شخصیات کے ہمراہ، بشمول علامہ کی دخترِ نیک اختر ممتاز ادیب پدم شری جیلانی بانو، جو کہ الحمدللہ ابھی بقید حیات ہیں اور والد مرحوم رؤف خلش (وفات: جنوری 2020ء)۔
نوٹ: علامہ حیرت بدایونی کے داماد اور پدم شری جیلانی بانو کے رفیق حیات پروفیسر انور معظم 27/نومبر 2023ء کو حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔
رسالہ "شاہکار" (ستمبر-اکتوبر/1967ء) میں شائع شدہ ایک یادگار تصویر۔

نشست دائیں سے بائیں:
شاہد حسینی، سلیمان اریب، حکیم یوسف حسین، بھارت چند کھنہ، علامہ حیرت بدایونی، صفیہ اریب، جیلانی بانو، ساجدہ عابد۔
ایستادہ دائیں سے بائیں:
سرینواس راؤ لاہوتی، عطاءالرحمن ارشاد، مجتبیٰ حسین، اقبال متین، مغنی تبسم، رؤف خلش، حسن فرخ، احمد جلیس۔

*****
متذکرہ رسالے سے اخذ شدہ تصویر فراہم کرنے کے لیے محترم نجیب احمد نجیب کا شکریہ - Mohammed Najeeb Ahmed

  ❤️    💐 #اردو سے محبت کا ثبوت دینے حیدرآباد کے کتب میلہ (سہ روزہ) میں تشریف لائیے زیر اہتمام:مولانا ابوالکلام آزاد اور...
14/02/2024

❤️
💐

#اردو سے محبت کا ثبوت دینے حیدرآباد کے کتب میلہ (سہ روزہ) میں تشریف لائیے
زیر اہتمام:
مولانا ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ
زیرسرپرستی:
پروفیسر اشرف رفیع (صدر ادارہ ہذا)

بمقام:
ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (باغ عامہ)، پبلک گارڈن، نامپلی، متصل تلنگانہ ریاستی اسمبلی، حیدرآباد.
بتاریخ:
18/فروری (اتوار) تا 20/فروری (منگل)
اوقات کار:
صبح 11 بجے تا شام 4 بجے

کتب میلہ کا افتتاح بدست:
جناب عامر علی خان (نیوز ایڈیٹر روزنامہ 'سیاست' حیدرآباد)

زیرنگرانی:
جناب غلام یزدانی، سینئر ایڈووکیٹ (نائب صدر ادارہ)
پروفیسر ایس اے شکور (نائب صدر ادارہ)
کنوینرس:
ڈاکٹر جاوید کمال (ڈائریکٹر/سکریٹری ادارہ)
محبوب خان اصغر (رکن ادارہ)
لطیف الدین لطیف (رکن ادارہ)

نوٹ:
کتب میلے میں تعمیر پبلیکیشنز اور مکرم نیاز کی کچھ کتابیں موجود رہیں گی.

11/02/2024

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
ہر محب وطن ذلیل ہوا
رات کا فاصلہ طویل ہوا
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی کام و داد پاتے رہے
رہزنوں نے رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی

یہ پڑوسی ملک پاکستان کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب کے ان اشعار کے ذریعے کل ہفتہ 10/فروری 2024ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں، وطنِ عزیز ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی مجموعی نمائندگی کرتے ہوئے حیدرآباد (تلنگانہ) کے معزز رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی کا بےلاگ و بےباک بیان ہے!
اسی کے ساتھ ۔۔۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے رام مندر پر مباحث کے دوران لوک سبھا میں "بابری مسجد زندہ باد"، "بھارت زندہ باد" اور "جئے ہند" کے نعرے بھی لگائے۔

بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کو یہ پیام دے رہی ہے کہ آیا وہ جان بچانا چاہتے ہیں یا انصاف چاہتے ہیں؟ صدر مجلس نے کہا کہ مسلمان بھیک نہیں مانگیں گے، سنکھی تعصب کو قبول نہیں کریں گے، دوسرے درجے کے شہری کے موقف کو قبول نہیں کریں گے ، اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے ، جھوٹی اور دل غریب باتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کریں گے اور وہ کام نہیں کریں گے جو بی جے پی اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں چاہتی ہیں۔ دستور کے دائرے میں رہ کر وہ کام کریں گے جو حکومت کو پسند نہیں ہے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ بحیثیت بھارت کے غیور مسلمان، بھارت کی جمہوریت کی روشنی آج بجھا دی گئی ہے اور ان کی فکر اور ایمان یہ کہتا ہے کہ جس جگہ مسجد تھی ، ہے اور رہے گی۔ بابری مسجد ہے اور رہے گی۔

جب اویسی نے یہ کہا کہ آج مودی حکومت 6 دسمبر کو جو ہوا تھا ، اس پر جشن منا رہی ہے۔ تو لوک سبھا کرسئ صدارت پر فائز صدرنشین نے کہا کہ 6 دسمبر پر کوئی جشن نہیں ہو رہا ہے، جشن اس بات پر ہے کہ رام مندر میں جو مورتی نصب کی گئی ہے اس عمل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انجام دیا گیا ہے۔ رام مندر کا قیام سپریم کورٹ کے ذریعہ کیا گیا۔ صدر نشین نے کہا کہ مجلسی رکن قانون کے جانکار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کسی دیگر دھرم کی جگہ پر اگر مسجد بنائی جائے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھی قبول کیا تھا کہ وہاں رام مندر موجود تھا۔ انھوں نے بیرسٹر اویسی سے خواہش کی کہ وہ موضوع پر بات کریں۔
بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ انھیں غلط ثابت کر دیں گے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ صدر نشین کی عزت کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ساتھ یہ بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 1222 میں صاف لکھا ہوا موجود ہے کہ مسجد کی تباہی سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کی گئی۔ عدالت کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوا نہیں جائے گا۔ مسجد کی تباہی مجرمانہ حرکت تھی۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ صدر نشین نے یہ کہا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا گراف کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا ، سپریم کورٹ نے اے ایس آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ وہ ان تفصیلات پر مشتمل پیرا گرافس کو کرسی صدارت کے حوالے کر دیں گے۔ بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت سے یہ پوچھنا چاہا کہ آیا مودی سرکار صرف ایک مذہب کی حکومت ہے یا ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی حکومت ہے؟ انھیں بتا دیا جائے۔ کیا مودی حکومت کو صرف ایک فکر ہے اور وہ ہندوتوا کی حکومت ہے؟ کیا اس ملک کا اور حکومت ہند کا ایک مذہب ہے؟ وطن عزیز سب مذاہب کو مانتا ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ان کا یہ مانتا ہے کہ اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آیا یہ حکومت 22 جنوری کے پیام کو پیش کر کے یہ بتانا چاہتی ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہے؟ آیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا حکومت اس ایوان کے ذریعہ یہ پیام دے رہی ہے، 17 کروڑ مسلمانوں کو کیا پیام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ سوال وہ کرسی صدارت پر چھوڑتے ہیں۔

بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ وہ مریادا پرشوتم رام کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ ناتھو رام گوڈسے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نسلیں بھی نفرت کرتی رہیں گی۔ کیونکہ اس نے اس شخص کو گولی ماری جس کی زبان سے آخری الفاظ 'ہے رام' نکلے تھے۔ بھارت کے 17 کروڑ مسلمان آج خود کو اجنبی محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کنارے پر کر دیا گیا ہے۔ بہت بڑی نا انصافی کی جا رہی ہے۔ اس پر مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ: اسپیکر صاحب، وہ اویسی صاحب سے صرف ایک سوال کا جواب مانگنا چاہتے ہیں کہ وہ بابر کو حملہ آور مانتے ہیں یا نہیں؟
اس پر بیرسٹر اویسی نے الٹا نشی کانت دوبے سے سوال کیا کہ وہ پشیا مترا سنگھا کو کیا مانتے ہیں؟ جموں و کشمیر کے ایک راجہ کو وہ کیا مانتے ہیں؟ جس کے پاس ایک فوج تھی جو صرف مندروں کو توڑنے کے لئے مختص تھی ، اس کا جواب دیا جائے۔
اس پر ایوان میں خاموشی چھا گئی۔
اسد اویسی نے نشی کانت دوبے سے کہا کہ 1947ء میں ہمیں آزادی ملی ، ہم سے بابر کی بات کیا پوچھ رہے ہو؟ اسد اویسی سے تو گاندھی جی ، سبھاش چندر بوس ، جلیان والا باغ ، کالا پانی میں شہید مسلمانوں کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے، لیکن ہم سے بابر کی بات پوچھی جاتی ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس دیش کو کس کی ضرورت ہے؟ وہ بتانا چاہتے ہیں کیونکہ لوگ تاریخ کو نہیں پڑھتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کون تھے؟ دونوں کا تعلق ایودھیا سے تھا۔ دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، گرفتار کر لئے گئے اور ایک ہی پیڑ پر مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ دیش کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ شمھو پرساد اور اچھن خان جو راجہ دیوی سنگھ کی فوج کے تھے انھوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا جس کے بعد مسلمان کی لاش کو تو جلا دیا گیا اور شمھو پرساد کو دفنا دیا گیا تھا، آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ دیش کو بابا مودی کی ضرورت نہیں ہے۔

بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس ایوان میں سیاسی جماعتیں آئیں گی اور چلے جائیں گی لیکن ایوان تو باقی رہے گا۔ لوک سبھا کو تو ایک آواز میں بولنا چاہئے لیکن لوک سبھا میں مختلف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ وہ کافی دیر سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے بیانات کو سن رہے ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ قاضی صاحب جب گواہوں کو لے کر دلہن کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم کو نکاح قبول ہے؟ تو دلہن شرما کر خاموش ہو جاتی ہے۔ یہاں اس ایوان میں ان نام نہاد جماعتوں کی خاموشی بھی رضا مندی کی علامت ہے۔ بیرسٹر اویسی نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے اختتام میں کہا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جواب چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھارت کے 140 کروڑ عوام کے لئے جواب دیں گے؟ یا پھر صرف ہندو توا کی فکر رکھنے والوں کو جواب دیں گے؟ دیش ، دنیا اور مسلمان یہ سب دیکھ رہے ہیں۔

*****
(رپورٹ بشکریہ: شجاع الدین افتخاری ، اعتماد نیوز۔ روزنامہ 'اعتماد' بروز اتوار، 11/فروری 2024ء)
Shuja Ifteqari

TaemeerNews.com , an effort to build positive thinking and society, A Social, Cultural and Literary

 حیدرآباد اور سہ رنگ شعلےThe Three Musketeers of Hyderabadمالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایس...
09/02/2024



حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے
The Three Musketeers of Hyderabad

مالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایسی سر پڑی ہیں کہ جو تھوڑا بہت وقت میسر بھی ہو تو بس گزارا لائق آن لائن مطالعے میں گزر جاتا ہے۔ مگر کل اتفاق سے ایک دو نہیں بلکہ تین چبھتی ہوئی ایسی چٹخارے دار حیدرآبادی تحریریں نظر سے گزریں جن سے محظوظ نہ ہونا کفرانِ نعمت قرار پاتا۔ متذکرہ تحریروں کا لنک تو کمنٹ میں دے دیا جائے گا لیکن لکھنے والوں کا کچھ تعارف اور کچھ اقتباسات بھی پیش ہیں تاکہ اچھے مطالعے کے شائقین انہیں فالو کر سکیں۔

ڈاکٹر عابد معز - Abid Moiz
یہ ہیں تو پیشۂ طب سے وابستہ ڈاکٹر صاحب، مگر اردو سے محبت اتنی ہے کہ اپنے مطب کا نام تک "اردو کلینک" سے موسوم کر رکھا ہے۔ ان کے زیادہ تعارف کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ اردو کے عالمی منظرنامے پر طنز و مزاح کے ممتاز ادیب اور کثیرالتصانیف مصنف کی حیثیت سے مشہور و مقبول ہیں۔ ان کے مطب "اردو کلینک" پر بچارے مریض آتے ہوں گے تو قوی امکانات ہیں کہ چاروں دیواروں کی شوکیسوں میں دواؤں کے ڈبوں کے بجائے سلیقے سے جمی کتابوں کے انبار کو دیکھ کر مرعوب و پریشان ہو جاتے ہوں گے۔ مرعوب اس لیے کہ: ابا بابابا بڑا پڑھا لکھا ڈاکٹر لگتا ہے یارو۔ اور پریشان اس لیے کہ: کہیں ڈاکٹر صاحب دوا کی پڑیا دینے کے بجائے کوئی کتاب تھما کر یہ نہ کہہ دیں کہ فلاں صفحے کا فلاں پیراگراف علی الصبح نہار پیٹ اور ہر طعام سے قبل رٹ لیجیے، انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔ ویسے آپس کی بات ہے۔۔۔ ان سے ملنے والے حیدرآبادی دوست احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کی لائبریری کی کوئی کتاب مانگنا ایسا ہے جیسے اوکھلی میں سر دینا۔ کتاب وقت پر واپس نہ کی جائے تو سیدھے ہائیکورٹ کے کسی وکیل کی نوٹس اپنے نام وصول ہو جاتی ہے۔
خیر کل عابد معز نے ایک انشائیہ بعنوان "میں بھی حاضر تھا وہاں" اپنی ٹائم لائن پر جو پیش کیا وہ ایک جامعاتی ادبی سمینار کی مظلومانہ روداد تھی جہاں کسی پروفیسر صاحب نے انکشاف فرمایا کہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ نہیں بلکہ شاہجہاں کے دربار کا ایک فارسی/اردو کا شاعر چندر بھان برہمن ہے۔
اب اس موضوع پر جو خامہ فرسائی ڈاکٹر صاحب نے کی ہے، وہ بس پڑھنے کے لائق ہے، لہذا ان کی ٹائم لائن سے استفادہ فرمائیں۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** شہ نشین پر اردو پروفیسروں کی ایک کہکشاں براجمان تھی۔ شرکاء محفل ادب و احترام سے سب کو سن کر تالیاں بجا رہے تھے اور واہ واہ کا ورد بھی جاری تھا۔
** یہ انکشاف سن کر ہمیں حیرت ہوئی لیکن تعجب اس لیے نہیں ہوا کہ پروفیسر موصوف کا تعلق وارانسی سے ہے۔ جلسہ کے بعد وقفہ کے دوران چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجھے پروفیسر مقبول فاروقی دکھائی دیے۔ میں ادبی معاملات پر ان کی رائے لیا کرتا ہوں اور وہ صحت کے مسائل پر مجھ سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ خلوص کی شکل میں ہم اپنی اپنی مشورہ فیس وصول کر لیتے ہیں۔

سردار سلیم - Sardar Saleem
ہمارے کالج کے زمانے میں نوجوان شاعر کہلائے جاتے تھے، بھولے سے پچھلے دنوں انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر اپنے فرزند کی گریجویشن تکمیل پر ٹاپر میڈل حاصل ہونے والی تصویر لگا دی، لہذا اب نوجوان تو کیا جواں سال شاعر ہونے کا استحقاق بھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ آج سے کوئی بائیس تئیس سال قبل ان کے اولین شعری مجموعہ "راگ بدن" کی رسم اجرا تقریب میں تقریر کرتے ہوئے والد مرحوم رؤف خلش نے کہا تھا:
"سردار سلیم نے جب میدانِ شعر و ادب میں اپنا اشہبِ قلم دوڑایا تو خود شاعر کی زبان میں بعض لوگوں نے اس پر سرقاتِ شعری کی تہمتیں چسپاں کر دیں اس استدلال کے ساتھ کہ کسی متبدی میں ایسی ندرت اور فن پر ایسا عبور ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن شاعر نے خود لکھا ہے کہ 'احقر نے بہتوں کو فی البدیہہ طبع آزمائی کے ذریعہ قائل کر دیا مگر بیشتر افراد اب بھی بدگمان ہیں'۔"
خیر یہ تو چوتھائی صدی قبل کی داستاں ہے، ہم تو آج بس اتنا جانتے ہیں کہ حیدرآباد میں جو چند مستند و معتبر استاد شاعر باقی رہ گئے ہیں، اس فہرست میں سردار سلیم کو بھی ہم بلاجھجھک شمار کرتے ہیں۔ لحاظ خاطر رہے کہ یہ سند وہ مکرم نیاز دے رہا ہے جسے یہ کہتے ہوئے بھی جھجھک نہیں ہوئی کہ چچاجان یوسف روش (مرحوم) کے چار ہزار مشاعروں کا کلام چھانٹ لیا جائے تو کوئی چالیس غزلیں کام کی نکلیں گی۔ ویسے سردار سلیم کو صرف نظم نہیں بلکہ نثر پر بھی یکساں دسترس حاصل ہے۔ وہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے بچوں کے رسالے کی ادارت نبھا چکے ہیں، ماضی میں روزنامہ 'اعتماد' کے ادبی صفحہ کو نہ صرف مرتب کرتے رہے بلکہ اپنا ایک مخصوص طنزیہ مزاحیہ کالم بھی تحریر کرتے رہے ہیں جس کے تحت لکھا گیا قلی قطب شاہ پر ایک قسط وار فکاہیہ سلسلہ خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ تو انہی سردار سلیم نے میک اپ زدہ نسائی شاعری پر نکتہ چیں ہوتے ہوئے کل ایک طنزیہ شہ پارہ "ہم غزل نہیں کہتے۔۔۔؟" کے زیر عنوان سپردِ قلم کیا۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** ایک دور تھا! جب موزوں طبع نوجوان محفل میں بزرگ شعراء کے سامنے اپنا کلامِ موزوں سناتے ہوئے جھجھکتے تھے ۔۔۔ اب دنیا بدل گئی ہے، نقلیوں کی خود اعتمادی اصلیوں پر سبقت لے جا چکی ہے ۔۔۔
** شاعر اپنی شاعری میں واردات قلبی کو نظماتا ہے اور اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میرے دل پر اثر ہوا تو میں نے یہ شعر کہا۔۔۔ اور میں پورے دعوے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جن کا مزاج غنائیت سے نا آشنا ہے اور وہ اپنی ناموزوں طبیعت کے زیر اثر پابند وزن شاعری کی بجائے نثری نظم پر اکتفا کرتے ہیں انہیں یہ کہنے کا قطعی حق نہیں کہ "ہم غزل نہیں کہتے"
انھیں یوں کہنا چاہیے کہ " ہم غزل نہیں کہہ سکتے"

ڈاکٹر عمر بن حسن - Omar Bin Hasan
نام اتنا بردبار پروقار ہے کہ عام قاری خواہ مخواہ دھوکہ کھا جاتا ہے کہ شاید فرحت اللہ بیگ یا محققِ اعظم حمیداللہ بھٹ سے موصوف کا نسبی تعلق ہوگا، مگر نہیں صاحب، یہ حیدرآبادی بساطِ ادب پر نووارد جواں سال طنز و مزاح نگار ہیں جو پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ بڑے اہتمام و احترام سے خود کو ڈاکٹر عابد معز کا شاگردِ رشید قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ خود ان کی نمکین و تیکھی تحریروں کے حوالے سے جچتا بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اردو میمز کے منظرنامے پر ڈوین جانسن کے یادگار کارٹون کلپس کے ذریعے اردو کے نام نہاد مجاہدین و مپھکرین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وائرل ہوئے ہیں۔ ان کارٹونوں میں زبان ایسی استعمال کرتے ہیں جسے حیدرآباد میں "میٹھی چھری" کہا جاتا ہے۔ اور سرجن صاحب کی یہ چھری بھی اتفاقاً دو دھاری ہوتی ہے، جس سے بچنا نہ اردو کے کسی سالخوردہ مجاور کے لیے ممکن ہے اور نہ مجھ جیسے ڈھونڈورچی کو اس چھری سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہ چھری میری بھی تکہ بوٹی کر چکی ہے۔ اور تو اور بہت عرصہ پہلے کلکتہ والے میرے ایک عزیز قلمکار دوست نے عمری تنقید کی یلغار پر چیں بہ چیں ہو کر خارپشت لہجہ میں پوچھا تھا: ابے کون ہے یار یہ تنقیدی ڈاکٹر؟ ہمارے ایک اور مولانا دوست و ادب کے ڈاکٹر بھی تنقیدِ عمر پر پچھلے دنوں خواہ مخواہ ناراض ہو بیٹھے۔ حالانکہ اردو تنقید کے بابائے آدم کلیم الدین احمد، ایلیٹ کا مشہور و معروف فقرہ "تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس" بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "واقعہ یہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ 'بینائی' یا 'گویائی' کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔" تو صاحب لکھنے والے کو صرف تعریف پر چہکنا نہیں چاہیے بلکہ تنقید بھی اسی لَے میں جھیلنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ ویسے بھی جھیلنے کے لیے ہمارے پاس تو ایک عدد بڑی موزوں و مناسب سی وجہ بھی ہے جو کہ اردو طنز و مزاح میں قوسین کے بادشاہ کے لقب سے معروف یوسف ناظم کے ایک شاہکار فکاہیے کا عنوان بھی ہے: ہم بھی شوہر ہیں!
تو ہمارے یہ جواں سال نوواردِ بساطِ ادبِ ظریف ڈاکٹر عمر بن حسن نے کل ایک اردو اخبار کے ادبی ایڈیشن کو نشانے پر رکھ لیا یا حیدرآبادی زبان میں کہیں تو "ادبی ایڈیشن اور اس کے مرتب کو ہاتھ پہ لے لیا"۔ مکمل مضمون بعنوان "مُنصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے" تو ان کی وال پر پڑھیے ۔۔۔ فی الحال یہاں صرف دو اقتباسات ۔۔۔
** اب لوگوں کو کون سمجھائے کہ ادب کوئی " اِس ہاتھ دے اور اُس ہاتھ لے" قِسم کا کاروبار نہیں ہے ۔ اخبار کی پالیسی اور دیگر تحدیدات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ ادبی صفحہ کا مدیر کسی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی جیسا نہیں ہوتا کہ صرف ذاتی مفاد اور اقرباء پروری کے لئے وقف ہو جائے ۔
** معترضین یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام صفحہ ہی جب پاکستانی، اماراتی اور شمالی ہند کے قلمکاروں کی نذر ہو گیا تو حیدرآبادیوں کے لیے کیا بچا۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔ حیدرآباد سے منصف شائع ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ حیدرآبادی قلمکاروں کو بلا ضرورتِ شعری صفحہ کی زینت بنایا جائے ۔ میرے خیال میں دکن میں اچھی اردو لکھنے والے ٹنُڈے کے کٹے ہاتھ کی انگلیوں پر بہ آسانی گنے جا سکتے ہیں۔ اگلے زمانے میں اچھے ادباء و شعراء رہے ہوں گے لیکن اب تو ادیبوں کا کال پڑا ہے۔ جو ہیں وہ اصغر بھائی کے قائم کردہ اعلیٰ معیار پر پورے نہیں اترتے۔

نوٹ:
تصویر کا کوئی تعلق تحریر سے نہیں ہے۔ یہ تو پبلک کو مطالعہ کے لیے ورغلانے کا فیس بکی ٹوٹکا ہے۔ ویسے یہ تصویر راقم نے کندیکل گیٹ فلائی اوور (چھتری ناکہ/لال دروازہ، پرانا شہر حیدرآباد) سے گزرتے ہوئے آج صبح لی ہے۔ کئی برسوں سے پاس پاس موجود یہ دونوں مندر مسجد کس بات کی گواہی دیتے ہیں، یہ سوچنے کا کام میں قارئین پر چھوڑتا ہوں!

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن) ، بروز جمعہ 9/فروری 2024ء

تعمیر پبلی کیشنز کی تین نئی کتابیںمرتب کردہ : مکرم نیازہر دور کی تاریخ کو، ہر زبان کے موضوعاتی میدان کے ماہرین کے نقاط ن...
28/01/2024

تعمیر پبلی کیشنز کی تین نئی کتابیں
مرتب کردہ : مکرم نیاز

ہر دور کی تاریخ کو، ہر زبان کے موضوعاتی میدان کے ماہرین کے نقاط نظر کے ذریعے کاغذی اور ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل کے محققین کو منصفانہ تحقیق میں آسانی ہو۔ انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کی افادیت کے باوجود اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کتاب اور کتب خانے کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی بھی۔ یہی سبب ہے کہ طباعتی ادارہ 'تعمیر پبلی کیشنز' کی جانب سے آن لائن پورٹل 'تعمیرنیوز' پر شائع شدہ مختلف موضوعات کی منتخب تحریروں کو کتابی شکل میں طبع کرنے اور قومی و بین الاقوامی کتب خانوں میں ان کتب کو شامل کروانے کے عملی منصوبے کی شروعات کی جا چکی ہے۔
درج ذیل تین کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔ ان کے (کم قیمت) ہندوستانی ایڈیشن جلد ہی منظر عام پر آ رہے ہیں۔

1) کتب خانے : لفظوں کے روشن مینار
2) اردو صحافت : کچھ جائزے
3) اردو صحافت کے روشن مینار

رام جی رونے لگےنظم از: رؤف خلشؔ (شعری مجموعہ: شاخسانہ / 2007ء)***سادھوؤں، سنتوں کی بیٹھک میں تھا چرچا کا وشئےکیا وہ کوئی...
22/01/2024

رام جی رونے لگے
نظم از: رؤف خلشؔ (شعری مجموعہ: شاخسانہ / 2007ء)
***
سادھوؤں، سنتوں کی بیٹھک میں تھا چرچا کا وشئے
کیا وہ کوئی دھرم یدھ تھا، دھرم سنکٹ تھا، یا کیا تھا؟
دُکھ بھری بانی سُنائی دی:
دھرم سنکٹ تھا، نہ کوئی دھرم یدھ تھا
پریم شکشا کا اُچارن ہو رہا تھا
راج نیتی جا کے ٹکرائی
پھر کرودھ اگنی میں کتنے دیش واسی جل مرے
پریم گاتھاؤں کی کتنی پستکیں جلنے لگیں
نیائے انیائے کی باتیں ماننے والے
"پاپ" کی گٹھری کو لے کر
"پُنّ" کا اُپہار سمجھے
رام جی کے دوار پہنچے تو وہی بانی سنائی دی:

سب شرَدّھا، ساری بھگتی رہنے دو اپنی جگہ
یہ چڑھاوے کی تو سامگری نہیں ہے
آگ کی لپٹوں میں "تانڈو ناچ" جاری ہے
شانتی کو بھنگ کر کے
آج میرے دوار کیوں آئے ہو، جاؤ
پریم شکشا کے سبھی پنّے
اُسی اگنی میں جلتے جا رہے ہیں
جاؤ! پھر اک چاہ میں ڈوبے ہوئے ہردے سے
"پریم اُپنّیاسوں" کی تم رچنا کرو
من ہے ساگر ایسا،
جس کی "سیما ریکھا" ہی نہیں
موہ لو من کو، اسی میں ڈھونڈ لو مکتی
پھر اس کے بعد میرے پاس آنا

اتنا کہہ کر رام جی رونے لگے!!
***

بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء ا...
16/01/2024

بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء الدین شکیب۔

"حلف" یعنی: 'حیدرآباد لٹریری فورم' شہر حیدرآباد دکن کی ایک نمایاں، معروف و معتبر ادبی تنظیم رہی ہے جو اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کی علمبردار رہی۔ 1975ء میں جب اس کا قیام عمل میں آیا تب اس کے بانی اراکین میں والد ماجد رؤف خلش (مرحوم) کے علاوہ پھوپھا مرحوم غیاث متین، حسن فرخ، اعظم راہی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، رؤف خیر وغیرہ شامل رہے۔ تقریباً چار دہائیوں تک اس کے ادبی اجلاس اپنی آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوکر شہر حیدرآباد میں علم و ادب کی راہیں روشن کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 'حلف' کے ادبی اجلاس کی رپورٹیں ریاست (سابقہ متحدہ) آندھرا پردیش و بیرون ریاست کے اخبار و رسائل میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل والد مرحوم کی کتب کے انبار میں ایسا ہی ایک کتابچہ نظر آیا، جو 'حلف' کے پانچ اجلاسوں کی روئداد پر مشتمل تھا (جولائی 1985ء تا ستمبر 1985ء) اور جسے ممتاز شاعر علی ظہیر نے مرتب کیا تھا۔ میں نے اسے حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ سمجھ کر تعمیر پبلی کیشنز کے زیراہتمام ستمبر 2023ء میں، اس کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر عمل میں لائی اور جب اس کے چند نسخے بیرون ممالک کی لائبریریوں نے خریدے تو خوشی ہوئی کہ: علاقائی سطح پر اردو کی ترقی و ترویج میں مشغول اداروں/تنظیموں کی تاریخ دنیا کے مختلف ممالک میں کتابی شکل میں محفوظ کی جا رہی ہے۔
دسمبر/جنوری کے مہینوں میں امریکی و یورپین ممالک میں کتابوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے اور ابھی کل ہی جب پتا چلا کہ اسی کتابچے (صفحات: 32) کے مزید پانچ نسخے اسی ہفتے فروخت ہوئے ہیں تو مزید خوشی ہوئی۔

ماہرِ دکنیات و اقبالیات ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب (پیدائش: اکتوبر 1933ء ، وفات: 20/جنوری 2021ء) شہر حیدرآباد کی ایک علمی و ادبی شخصیت ہونے کے علاوہ شعر و شاعری کے میدان میں بھی ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔ وہ تاریخ داں کی حیثیت سے بھی خاصے معروف تھے کہ قلمی نسخوں کی شناخت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے محکمہ آثار قدیمہ میں کچھ مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ماہ جولائی 1985ء میں جب ایک مختصر دورہ پر ان کی حیدرآباد میں آمد ہوئی تھی تب 'حلف' نے ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ادبی نشست ('حلف' کا 24 واں اجلاس) کا اہتمام کیا تھا جس کی رپورٹ بھی متذکرہ کتابچے میں شامل ہے۔ اسی اجلاس کی رپورٹ سے ماخوذ شکیب صاحب مرحوم کی تقریر کے چند دلچسپ اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

(بمقام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، نامپلی اسٹیشن روڈ، حیدرآباد لٹریری فورم کا چوبیسواں اجلاس 28/جولائی 1985ء شام سات بجے جناب مضطر مجاز کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں لندن سے آئے ہوئے محقق اور دانشور ڈاکٹر ضیا الدین شکیب نے اردو کی جدید شاعری پر تقریر کی۔)
ضیا الدین شکیب نے کہا:
"بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے۔ انگریزی زبان کے شعرا میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اکثر جدید انگریزی شاعر محض شاعری کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ شاید یہ بات اس لیے بھی ممکن ہے کہ وہاں کا معاشرہ فن کی قدر کرتا ہے۔
لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر شعر کہتے اور پڑھتے ہیں۔ میں شعر تاریخ کے نقطۂ نظر سے پڑھتا ہوں۔ اس لیے میں یہ دیکھتا ہوں کہ شاعر نے زبان کو، سوسائٹی کو اور ادب کو کیا دیا؟"

ضیا الدین شکیب نے جہاں ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کے مابین ماحول اور حالات کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفریق کی نشاندہی کی وہیں یہ بھی کہا کہ انگلستان کے ماحول کے فرق کی بنا پر لندن میں لکھنے والوں اور برصغیر کے لکھنے والوں کے مابین فرق واضح ہے، اسی لیے برصغیر کے شعرا کو مغربی ادبی تحریکات سے وابستہ ہو کر ان کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔
ضیا الدین شکیب نے بتایا کہ لندن میں اردو بولنے والوں میں زیادہ تر شعرا کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہرچند کہ لندن میں ہندوستان اور پاکستان کے لکھنے والوں کی اکثر تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن شہر حیدرآباد کے لکھنے والوں کی چیزیں وہاں بہت مشکل سے ملتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حیدرآبادی شعرا سے لندن میں لوگ واقف نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے 'حلف' کے بعض شعرا کے نام گنواتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ لندن میں بخوبی جانے جاتے ہیں۔

ضیا الدین شکیب نے شاعری میں فکری عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جتنا حیدرآبادی شعرا میں فکری عنصر انہیں نظر آتا ہے وہ ہندوستان کے اور جگہوں سے تعلق رکھنے والے شعرا کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مغرب اور مشرق کی شاعری میں جس قدر مثبت عناصر ہم کو مشرق میں ملتے ہیں، مغرب میں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ وہاں مستقبل سے مایوسی ہے جبکہ ہماری تہذیب ترقی پذیری کے عمل سے گزر رہی ہے اس لیے ہم کو مستقبل سے ابھی ویسی مایوسی نہیں ہے اور چونکہ مستقبل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے اسی لیے جو مستقبل سے وابستہ ہوگا اس کے پاس تخلیقی اظہار بھی بیشتر ہونا چاہیے۔ برصغیر کی شاعری میں مایوسی کا پایا جانا غیرفطری ہے۔

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن، بروز منگل 16/جنوری 2024ء)۔

Address

16-8-544, Beside Green Apple Store, New Malakpet
Hyderabad
500024

Opening Hours

Monday 6pm - 11pm
Tuesday 6pm - 11pm
Wednesday 6pm - 11pm
Thursday 6pm - 11pm
Friday 6pm - 11pm
Saturday 6pm - 11pm
Sunday 11:30am - 9pm

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taemeer News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Taemeer News:

Share