Taemeer News

Taemeer News TaemeerNews.com , an effort to build positive thinking and society, A Social, Cultural and Literary

 یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:"مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے وال...
01/03/2024



یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:
"مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے والے کو یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالباً موسم کی خرابی کے باعث اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
میرے ایک دوست یوسفی کے اسی قولِ زریں کے سہارے اکثر مجھ پر طعنہ زن ہوتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا کی اپنی مزاحیہ طرز پوسٹس کی آڑ میں دراصل اپنی کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اب اللہ جانے کتنا سچ ہے۔ لیکن اس کے برعکس کچھ قلمکار ایسے بھی یہیں کہیں پائے جاتے ہیں جو 'جو ہے سو ہے' کی طرز پر دھونس دھڑلے سے مشین گنوں کی دھواں دھار فائرنگ میں سب کچھ فرما جاتے ہیں اور بعد از تقریر بندوقیں پھینک کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے نہایت معصومیت سے کہتے ہیں:
اب کر لو جو کرنا ہے!
جب میں مشین گنوں کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے باریکی سے پڑھنے والے فوراً سمجھ جاتے ہیں: یقیناً گمشدہ خوابوں کے سفر میں صفر کی توہین کرنے والے کسی جوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 'اس نے کہا ہے'۔
پچھلے جمعہ کو مدیرِ 'اثبات' اشعر نجمی نے ایک تقریب کی ویڈیو رپورٹ اپنی ٹائم لائن پر شئر کی۔ بلکہ شاید یہ ایک سیریز ہے آٹھ دس ویڈیو کی جو سلسلہ وار پیش کی گئی ہیں۔ پہلی ویڈیو ہی تقریب کے نوشہ اشعر نجمی کی تقریر کی تھی۔ نوشہ اس لیے بھی کہا کہ متذکرہ ادبی تقریب انہی کی چار کتابوں کے رسم اجرا پر مبنی تھی جس میں شرکت کے لیے اشعر نجمی نے بطور خاص ممبئی سے دہلی کے لیے اڑان بھری تھی۔
تقریر زیادہ لمبی نہیں ہے بس یہی کوئی بیس بائیس منٹ کی ہوگی، مگر اسے توجہ سے اور وقفہ وقفہ سے سننے میں وقت کچھ زیادہ ہی لگ گیا۔ میں عموماً سننے کی بہ نسبت پڑھنے میں زیادہ دلچسپی اور تیزرفتاری رکھتا ہوں، اس لیے جب خاتونِ خانہ نے میری اس قدر توجہ پر غور کیا تو بعد ازاں خود بھی نہ صرف ویڈیو کو ملاحظہ کیا بلکہ اپنی اسکالرلی عادت کے باعث وہ نکات بھی ڈائری میں نوٹ کیے جو انہیں متاثرکن محسوس ہوئے۔ پھر مجھ سے تقاضا ہوا کہ: یہ ویڈیو اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے آج کی نسل کے ہر قاری کو دیکھنا/سننا/سمجھنا چاہیے، آپ اپنی تحریر سے اس کی ترغیب دلائیں۔
سو صاحبو، یہ تحریر اسی خانہ دار نسائی حکم کی تعمیل سمجھیے۔

رضوان الدین فاروقی نے صاحبِ کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے شائستہ انداز میں کہا تھا: وہ کچھ منفرد سوچتے ہیں۔ جس کی تردید میں اشعر نجمی نے بتایا کہ بندہ نے مہذب طریقے سے لفظ "منفرد" کہہ دیا جبکہ وہاں لفظ "الٹا" فٹ بیٹھتا ہے۔ صاحب، اللہ گواہ ہے مجھے تعارف کروانے کہا جاتا تو یوں کہتا:
اشعر نجمی الٹا نہیں بہت الٹا سوچتے ہیں اور پھر اس سوچ کو زبان کے ذریعے جب الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو ان کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں گَن ہوتی ہے!
کم از کم میرے نزدیک اشعر نجمی کی اس تقریر میں بیشتر باتیں تو وہ ہیں جو میں ان کے قلم سے یہاں وہاں پڑھ چکا ہوں۔ مگر انہیں سننے کا شاید یہ پہلا دلچسپ موقع تھا اور سن کر واقعی اچھا لگا کہ مجھے اپنے طالب علمی کے دور کے اساتذہ کی یاد آ گئی۔ اشعر نجمی نے جس سادہ اور بےجھجھک انداز میں اپنا موقف پیش کیا وہ حقیقتاً لاجواب ہے، بلکہ ہماری بیگم کے مطابق:
بڑے میاں کی آواز اور پیشکش کا لہجہ بڑا شاندار ہے!
میں مختصراً اس تقریر کے متن پر روشنی ڈالنا چاہوں گا تاکہ پتا چلے کہ فکشن کے ہر سنجیدہ قاری کو یہ کیوں سننا چاہیے؟ تقریر کے آغاز میں ہی ایک ادبی قولِ زریں:
ایک تخلیق کار کو تخلیق کرنے کے بعد الگ ہو جانا چاہیے۔
کو بیان کرتے ہوئے اشعرنجمی نے شمس الرحمن فاروقی کی وضاحت بھی دہرائی کہ: تخلیق کار سے اس کی تخلیق کے متعلق زیادہ پوچھا نہیں جانا چاہیے اور اگر وہ بولے بھی تب بھی اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
جن لکھنے والوں کی نثر پر آپ دسترس دیکھتے ہیں وہ کچھ یونہی حاصل ہوا خداداد کمال نہیں بلکہ اس کے پس پشت طویل مطالعہ کی محنت مشقت کارفرما ہوتی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشعرنجمی نے ہمیں بتایا کہ اپنے لڑکپن سے کس طرح وہ فکشن کی کتب کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور کس طرح فکشن سے ان کا بالواسطہ رشتہ قائم ہوا تھا۔ اگر عصر حاضر کے فکشن کی صلاحیتوں سے لبریز کسی کتاب میں آپ کو زبان و بیان کی کسی بھی طرح کی کوئی خامی نظر آ جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آنی چاہیے کہ فکشن نگار کا مشاہدہ/تجربہ خوب یا خوب تر سہی مگر اس کا مطالعہ یقیناً کمزور رہا ہے! بلاشبہ طویل مطالعے کا سفر اور اس سفر سے موزوں اکتساب کے بعد ہی کوئی اس مقام پر پہنچ پاتا ہے جہاں سے وہ ایسی نثر لکھ سکے جسے پڑھ کر قاری بےساختہ کہہ اٹھے: اُس نے کہا تھا!

اشعر نجمی نے بتایا ہے کہ جو کتاب انہیں پسند نہیں آتی وہ انہیں شیلف میں رکھ دیتے ہیں، جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسے بالکلیہ نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ سوچتے ہیں کہ بعد میں کسی اور وقت پڑھی جائے۔
میں نے یوسفی کا قول (چاہے مزاحیہ سہی) اسی لیے سب سے پہلے تحریر کیا تاکہ بتایا جائے کہ قاری کا مزاج کوئی جامد شئے نہیں بلکہ یہ تغیر پذیر امر ہے۔ یہ ہمارے مطالعہ کے معیار کی ترقی یا تنزلی کا پیمانہ بھی ہے۔ ممتاز و مقبول عام فکشن نگار محی الدین نواب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: "جب کسی لکھنے والے کو اپنی پرانی چیز اچھی نہ لگے اور بچکانہ محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا فن ترقی کر رہا ہے۔"
تقریباً یہی بات قاری کے ساتھ بھی وابستہ ہے کہ وہ خود جان سکے کہ اس کے مطالعے کا فنی معیار کس گراف پر جا رہا ہے؟
محی الدین نواب کے ذکر پر یاد آیا کہ اشعر نجمی نے میلان کنڈیرا کے جس افسانے "لفٹ لینے کا کھیل" کا اپنی تقریر میں ذکر کیا اور افسانے کی کچھ تفصیل بتائی ہے ۔۔۔ تقریباً اسی موضوع پر نواب صاحب (یا شاید شان الحق حقی) کی ایک پرانی کہانی بھی ہے جو کسی پاکستانی ڈائجسٹ میں نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی میں میاں بیوی، سال میں ایک بار عاشق معشوق بن کر کسی ہوٹل میں اتفاقیہ ملاقات کرتے اور رات ساتھ گزارتے ہیں۔۔۔ اب کسی مذہبی معاشرے میں جہاں پولیس "مورال پولسنگ" کا ڈنڈا لیے پھرتی ہو، ایسی صورت میں کیسے کیسے مسائل قدم در قدم پیش آئیں گے، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا تھا۔ میں نے میلان کنڈیرا کا وہ افسانہ ابھی تک تو نہیں پڑھا، امید ہے جلد ضرور مطالعے سے گزرے گا۔
میں نے یہاں محی الدین نواب کا ذکر جان بوجھ کر اس لیے بھی کیا ہے کہ اشعر نجمی نے پاپولر فکشن کے اپنے مطالعاتی زمانے میں جس 'دیبا خانم' کو پڑھنے کا ذکر کیا ہے، وہ انہی محی الدین نواب کا ایک قلمی نام تھا (اس کی تفصیل میری ٹائم لائن کی کسی پوسٹ میں درج ہے)۔

میری نصف بہتر کا فرمانِ مبارک ہے کہ یہاں اس جگہ وہ جملہ بھی ضرور درج کیا جائے جو بقول ان کے، فکشن کے قاری کے لیے سنہرا قول باور کیا جانا چاہیے:
"۔۔۔ تو اس دوران میں نے بہت ساری کتابیں پڑھیں کیونکہ اس وقت میں اپنے لیے پڑھ رہا تھا، مجھے پڑھ کر لکھنا نہیں تھا اس لیے میں کم از کم ایک ایماندار قاری تھا۔۔۔"
ذرا ایک لمحہ رک کر آج کے قلمکاروں کو کیا سوچنا نہیں چاہیے کہ ۔۔۔ وہ جو لکھ رہے ہیں ایمانداری سے سہی مگر جو پڑھ رہے ہیں کیا اس میں بھی ایمانداری برت رہے ہیں؟

آخر میں آج کے فکشن نگاروں (اور بالخصوص سوشل میڈیا پر لکھ کر انسٹنٹ داد بٹورنے والے) کو بین السطور میں اشعر نجمی نے جو مخلصانہ مشورہ دیا ہے، وہ درحقیقت جدید ادب کا ایک بنیادی اصول بھی ہے۔ اشعر نجمی کہتے ہیں:
میں اس رائٹر سے ناراض رہتا ہوں، غصہ آتا ہے جب وہ بار بار انگلی پکڑ کر کہتا ہے اِدھر سے چلو اُدھر سے چلو، دیکھو یہ ساری چیزیں تمہارے لیے کھول کر رکھ دی ہیں۔۔۔ یعنی رائٹر کو مجھ پر بھروسہ نہیں، وہ میرے لیے اپنی کتاب میں کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑ رہا ہے، میرے لیے اسپیس کہاں ہے کہ کچھ ڈسکوور کر سکوں؟ رائٹر کو چاہیے کہ اپنے قاری کو اپاہج نہ بنائے۔ رائٹر کے لیے قاری اہم ہونا چاہیے۔۔۔

خیر ، اشعر نجمی کی ویڈیو تقریر کا تحریری تعارف کچھ لمبا ہو گیا ۔۔۔ ویڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے ۔۔۔ ضرور دیکھیے/سنیے اور ہمارے عہد کے جدید فکشن نگار کی باتوں پر غور کیجیے۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا۔

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن) ، بروز جمعہ یکم/مارچ 2024ء

اردو کے مستند و معروف شاعر علامہ حیرت بدایونی کی ایک نادر و نایاب تصویرحیدرآباد دکن کی چند نامور ادبی شخصیات کے ہمراہ، ب...
18/02/2024

اردو کے مستند و معروف شاعر علامہ حیرت بدایونی کی ایک نادر و نایاب تصویر
حیدرآباد دکن کی چند نامور ادبی شخصیات کے ہمراہ، بشمول علامہ کی دخترِ نیک اختر ممتاز ادیب پدم شری جیلانی بانو، جو کہ الحمدللہ ابھی بقید حیات ہیں اور والد مرحوم رؤف خلش (وفات: جنوری 2020ء)۔
نوٹ: علامہ حیرت بدایونی کے داماد اور پدم شری جیلانی بانو کے رفیق حیات پروفیسر انور معظم 27/نومبر 2023ء کو حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔
رسالہ "شاہکار" (ستمبر-اکتوبر/1967ء) میں شائع شدہ ایک یادگار تصویر۔

نشست دائیں سے بائیں:
شاہد حسینی، سلیمان اریب، حکیم یوسف حسین، بھارت چند کھنہ، علامہ حیرت بدایونی، صفیہ اریب، جیلانی بانو، ساجدہ عابد۔
ایستادہ دائیں سے بائیں:
سرینواس راؤ لاہوتی، عطاءالرحمن ارشاد، مجتبیٰ حسین، اقبال متین، مغنی تبسم، رؤف خلش، حسن فرخ، احمد جلیس۔

*****
متذکرہ رسالے سے اخذ شدہ تصویر فراہم کرنے کے لیے محترم نجیب احمد نجیب کا شکریہ - Mohammed Najeeb Ahmed

  ❤️    💐 #اردو سے محبت کا ثبوت دینے حیدرآباد کے کتب میلہ (سہ روزہ) میں تشریف لائیے زیر اہتمام:مولانا ابوالکلام آزاد اور...
14/02/2024

❤️
💐

#اردو سے محبت کا ثبوت دینے حیدرآباد کے کتب میلہ (سہ روزہ) میں تشریف لائیے
زیر اہتمام:
مولانا ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ
زیرسرپرستی:
پروفیسر اشرف رفیع (صدر ادارہ ہذا)

بمقام:
ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (باغ عامہ)، پبلک گارڈن، نامپلی، متصل تلنگانہ ریاستی اسمبلی، حیدرآباد.
بتاریخ:
18/فروری (اتوار) تا 20/فروری (منگل)
اوقات کار:
صبح 11 بجے تا شام 4 بجے

کتب میلہ کا افتتاح بدست:
جناب عامر علی خان (نیوز ایڈیٹر روزنامہ 'سیاست' حیدرآباد)

زیرنگرانی:
جناب غلام یزدانی، سینئر ایڈووکیٹ (نائب صدر ادارہ)
پروفیسر ایس اے شکور (نائب صدر ادارہ)
کنوینرس:
ڈاکٹر جاوید کمال (ڈائریکٹر/سکریٹری ادارہ)
محبوب خان اصغر (رکن ادارہ)
لطیف الدین لطیف (رکن ادارہ)

نوٹ:
کتب میلے میں تعمیر پبلیکیشنز اور مکرم نیاز کی کچھ کتابیں موجود رہیں گی.

11/02/2024

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
ہر محب وطن ذلیل ہوا
رات کا فاصلہ طویل ہوا
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی کام و داد پاتے رہے
رہزنوں نے رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی

یہ پڑوسی ملک پاکستان کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب کے ان اشعار کے ذریعے کل ہفتہ 10/فروری 2024ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں، وطنِ عزیز ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی مجموعی نمائندگی کرتے ہوئے حیدرآباد (تلنگانہ) کے معزز رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی کا بےلاگ و بےباک بیان ہے!
اسی کے ساتھ ۔۔۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے رام مندر پر مباحث کے دوران لوک سبھا میں "بابری مسجد زندہ باد"، "بھارت زندہ باد" اور "جئے ہند" کے نعرے بھی لگائے۔

بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کو یہ پیام دے رہی ہے کہ آیا وہ جان بچانا چاہتے ہیں یا انصاف چاہتے ہیں؟ صدر مجلس نے کہا کہ مسلمان بھیک نہیں مانگیں گے، سنکھی تعصب کو قبول نہیں کریں گے، دوسرے درجے کے شہری کے موقف کو قبول نہیں کریں گے ، اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے ، جھوٹی اور دل غریب باتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کریں گے اور وہ کام نہیں کریں گے جو بی جے پی اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں چاہتی ہیں۔ دستور کے دائرے میں رہ کر وہ کام کریں گے جو حکومت کو پسند نہیں ہے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ بحیثیت بھارت کے غیور مسلمان، بھارت کی جمہوریت کی روشنی آج بجھا دی گئی ہے اور ان کی فکر اور ایمان یہ کہتا ہے کہ جس جگہ مسجد تھی ، ہے اور رہے گی۔ بابری مسجد ہے اور رہے گی۔

جب اویسی نے یہ کہا کہ آج مودی حکومت 6 دسمبر کو جو ہوا تھا ، اس پر جشن منا رہی ہے۔ تو لوک سبھا کرسئ صدارت پر فائز صدرنشین نے کہا کہ 6 دسمبر پر کوئی جشن نہیں ہو رہا ہے، جشن اس بات پر ہے کہ رام مندر میں جو مورتی نصب کی گئی ہے اس عمل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انجام دیا گیا ہے۔ رام مندر کا قیام سپریم کورٹ کے ذریعہ کیا گیا۔ صدر نشین نے کہا کہ مجلسی رکن قانون کے جانکار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کسی دیگر دھرم کی جگہ پر اگر مسجد بنائی جائے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھی قبول کیا تھا کہ وہاں رام مندر موجود تھا۔ انھوں نے بیرسٹر اویسی سے خواہش کی کہ وہ موضوع پر بات کریں۔
بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ انھیں غلط ثابت کر دیں گے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ صدر نشین کی عزت کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ساتھ یہ بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 1222 میں صاف لکھا ہوا موجود ہے کہ مسجد کی تباہی سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کی گئی۔ عدالت کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوا نہیں جائے گا۔ مسجد کی تباہی مجرمانہ حرکت تھی۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ صدر نشین نے یہ کہا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا گراف کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا ، سپریم کورٹ نے اے ایس آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ وہ ان تفصیلات پر مشتمل پیرا گرافس کو کرسی صدارت کے حوالے کر دیں گے۔ بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت سے یہ پوچھنا چاہا کہ آیا مودی سرکار صرف ایک مذہب کی حکومت ہے یا ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی حکومت ہے؟ انھیں بتا دیا جائے۔ کیا مودی حکومت کو صرف ایک فکر ہے اور وہ ہندوتوا کی حکومت ہے؟ کیا اس ملک کا اور حکومت ہند کا ایک مذہب ہے؟ وطن عزیز سب مذاہب کو مانتا ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ان کا یہ مانتا ہے کہ اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آیا یہ حکومت 22 جنوری کے پیام کو پیش کر کے یہ بتانا چاہتی ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہے؟ آیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا حکومت اس ایوان کے ذریعہ یہ پیام دے رہی ہے، 17 کروڑ مسلمانوں کو کیا پیام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ سوال وہ کرسی صدارت پر چھوڑتے ہیں۔

بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ وہ مریادا پرشوتم رام کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ ناتھو رام گوڈسے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نسلیں بھی نفرت کرتی رہیں گی۔ کیونکہ اس نے اس شخص کو گولی ماری جس کی زبان سے آخری الفاظ 'ہے رام' نکلے تھے۔ بھارت کے 17 کروڑ مسلمان آج خود کو اجنبی محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کنارے پر کر دیا گیا ہے۔ بہت بڑی نا انصافی کی جا رہی ہے۔ اس پر مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ: اسپیکر صاحب، وہ اویسی صاحب سے صرف ایک سوال کا جواب مانگنا چاہتے ہیں کہ وہ بابر کو حملہ آور مانتے ہیں یا نہیں؟
اس پر بیرسٹر اویسی نے الٹا نشی کانت دوبے سے سوال کیا کہ وہ پشیا مترا سنگھا کو کیا مانتے ہیں؟ جموں و کشمیر کے ایک راجہ کو وہ کیا مانتے ہیں؟ جس کے پاس ایک فوج تھی جو صرف مندروں کو توڑنے کے لئے مختص تھی ، اس کا جواب دیا جائے۔
اس پر ایوان میں خاموشی چھا گئی۔
اسد اویسی نے نشی کانت دوبے سے کہا کہ 1947ء میں ہمیں آزادی ملی ، ہم سے بابر کی بات کیا پوچھ رہے ہو؟ اسد اویسی سے تو گاندھی جی ، سبھاش چندر بوس ، جلیان والا باغ ، کالا پانی میں شہید مسلمانوں کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے، لیکن ہم سے بابر کی بات پوچھی جاتی ہے۔
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس دیش کو کس کی ضرورت ہے؟ وہ بتانا چاہتے ہیں کیونکہ لوگ تاریخ کو نہیں پڑھتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کون تھے؟ دونوں کا تعلق ایودھیا سے تھا۔ دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، گرفتار کر لئے گئے اور ایک ہی پیڑ پر مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ دیش کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ شمھو پرساد اور اچھن خان جو راجہ دیوی سنگھ کی فوج کے تھے انھوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا جس کے بعد مسلمان کی لاش کو تو جلا دیا گیا اور شمھو پرساد کو دفنا دیا گیا تھا، آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ دیش کو بابا مودی کی ضرورت نہیں ہے۔

بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس ایوان میں سیاسی جماعتیں آئیں گی اور چلے جائیں گی لیکن ایوان تو باقی رہے گا۔ لوک سبھا کو تو ایک آواز میں بولنا چاہئے لیکن لوک سبھا میں مختلف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ وہ کافی دیر سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے بیانات کو سن رہے ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ قاضی صاحب جب گواہوں کو لے کر دلہن کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم کو نکاح قبول ہے؟ تو دلہن شرما کر خاموش ہو جاتی ہے۔ یہاں اس ایوان میں ان نام نہاد جماعتوں کی خاموشی بھی رضا مندی کی علامت ہے۔ بیرسٹر اویسی نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے اختتام میں کہا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جواب چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھارت کے 140 کروڑ عوام کے لئے جواب دیں گے؟ یا پھر صرف ہندو توا کی فکر رکھنے والوں کو جواب دیں گے؟ دیش ، دنیا اور مسلمان یہ سب دیکھ رہے ہیں۔

*****
(رپورٹ بشکریہ: شجاع الدین افتخاری ، اعتماد نیوز۔ روزنامہ 'اعتماد' بروز اتوار، 11/فروری 2024ء)
Shuja Ifteqari

TaemeerNews.com , an effort to build positive thinking and society, A Social, Cultural and Literary

 حیدرآباد اور سہ رنگ شعلےThe Three Musketeers of Hyderabadمالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایس...
09/02/2024



حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے
The Three Musketeers of Hyderabad

مالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایسی سر پڑی ہیں کہ جو تھوڑا بہت وقت میسر بھی ہو تو بس گزارا لائق آن لائن مطالعے میں گزر جاتا ہے۔ مگر کل اتفاق سے ایک دو نہیں بلکہ تین چبھتی ہوئی ایسی چٹخارے دار حیدرآبادی تحریریں نظر سے گزریں جن سے محظوظ نہ ہونا کفرانِ نعمت قرار پاتا۔ متذکرہ تحریروں کا لنک تو کمنٹ میں دے دیا جائے گا لیکن لکھنے والوں کا کچھ تعارف اور کچھ اقتباسات بھی پیش ہیں تاکہ اچھے مطالعے کے شائقین انہیں فالو کر سکیں۔

ڈاکٹر عابد معز - Abid Moiz
یہ ہیں تو پیشۂ طب سے وابستہ ڈاکٹر صاحب، مگر اردو سے محبت اتنی ہے کہ اپنے مطب کا نام تک "اردو کلینک" سے موسوم کر رکھا ہے۔ ان کے زیادہ تعارف کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ اردو کے عالمی منظرنامے پر طنز و مزاح کے ممتاز ادیب اور کثیرالتصانیف مصنف کی حیثیت سے مشہور و مقبول ہیں۔ ان کے مطب "اردو کلینک" پر بچارے مریض آتے ہوں گے تو قوی امکانات ہیں کہ چاروں دیواروں کی شوکیسوں میں دواؤں کے ڈبوں کے بجائے سلیقے سے جمی کتابوں کے انبار کو دیکھ کر مرعوب و پریشان ہو جاتے ہوں گے۔ مرعوب اس لیے کہ: ابا بابابا بڑا پڑھا لکھا ڈاکٹر لگتا ہے یارو۔ اور پریشان اس لیے کہ: کہیں ڈاکٹر صاحب دوا کی پڑیا دینے کے بجائے کوئی کتاب تھما کر یہ نہ کہہ دیں کہ فلاں صفحے کا فلاں پیراگراف علی الصبح نہار پیٹ اور ہر طعام سے قبل رٹ لیجیے، انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔ ویسے آپس کی بات ہے۔۔۔ ان سے ملنے والے حیدرآبادی دوست احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کی لائبریری کی کوئی کتاب مانگنا ایسا ہے جیسے اوکھلی میں سر دینا۔ کتاب وقت پر واپس نہ کی جائے تو سیدھے ہائیکورٹ کے کسی وکیل کی نوٹس اپنے نام وصول ہو جاتی ہے۔
خیر کل عابد معز نے ایک انشائیہ بعنوان "میں بھی حاضر تھا وہاں" اپنی ٹائم لائن پر جو پیش کیا وہ ایک جامعاتی ادبی سمینار کی مظلومانہ روداد تھی جہاں کسی پروفیسر صاحب نے انکشاف فرمایا کہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ نہیں بلکہ شاہجہاں کے دربار کا ایک فارسی/اردو کا شاعر چندر بھان برہمن ہے۔
اب اس موضوع پر جو خامہ فرسائی ڈاکٹر صاحب نے کی ہے، وہ بس پڑھنے کے لائق ہے، لہذا ان کی ٹائم لائن سے استفادہ فرمائیں۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** شہ نشین پر اردو پروفیسروں کی ایک کہکشاں براجمان تھی۔ شرکاء محفل ادب و احترام سے سب کو سن کر تالیاں بجا رہے تھے اور واہ واہ کا ورد بھی جاری تھا۔
** یہ انکشاف سن کر ہمیں حیرت ہوئی لیکن تعجب اس لیے نہیں ہوا کہ پروفیسر موصوف کا تعلق وارانسی سے ہے۔ جلسہ کے بعد وقفہ کے دوران چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجھے پروفیسر مقبول فاروقی دکھائی دیے۔ میں ادبی معاملات پر ان کی رائے لیا کرتا ہوں اور وہ صحت کے مسائل پر مجھ سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ خلوص کی شکل میں ہم اپنی اپنی مشورہ فیس وصول کر لیتے ہیں۔

سردار سلیم - Sardar Saleem
ہمارے کالج کے زمانے میں نوجوان شاعر کہلائے جاتے تھے، بھولے سے پچھلے دنوں انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر اپنے فرزند کی گریجویشن تکمیل پر ٹاپر میڈل حاصل ہونے والی تصویر لگا دی، لہذا اب نوجوان تو کیا جواں سال شاعر ہونے کا استحقاق بھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ آج سے کوئی بائیس تئیس سال قبل ان کے اولین شعری مجموعہ "راگ بدن" کی رسم اجرا تقریب میں تقریر کرتے ہوئے والد مرحوم رؤف خلش نے کہا تھا:
"سردار سلیم نے جب میدانِ شعر و ادب میں اپنا اشہبِ قلم دوڑایا تو خود شاعر کی زبان میں بعض لوگوں نے اس پر سرقاتِ شعری کی تہمتیں چسپاں کر دیں اس استدلال کے ساتھ کہ کسی متبدی میں ایسی ندرت اور فن پر ایسا عبور ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن شاعر نے خود لکھا ہے کہ 'احقر نے بہتوں کو فی البدیہہ طبع آزمائی کے ذریعہ قائل کر دیا مگر بیشتر افراد اب بھی بدگمان ہیں'۔"
خیر یہ تو چوتھائی صدی قبل کی داستاں ہے، ہم تو آج بس اتنا جانتے ہیں کہ حیدرآباد میں جو چند مستند و معتبر استاد شاعر باقی رہ گئے ہیں، اس فہرست میں سردار سلیم کو بھی ہم بلاجھجھک شمار کرتے ہیں۔ لحاظ خاطر رہے کہ یہ سند وہ مکرم نیاز دے رہا ہے جسے یہ کہتے ہوئے بھی جھجھک نہیں ہوئی کہ چچاجان یوسف روش (مرحوم) کے چار ہزار مشاعروں کا کلام چھانٹ لیا جائے تو کوئی چالیس غزلیں کام کی نکلیں گی۔ ویسے سردار سلیم کو صرف نظم نہیں بلکہ نثر پر بھی یکساں دسترس حاصل ہے۔ وہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے بچوں کے رسالے کی ادارت نبھا چکے ہیں، ماضی میں روزنامہ 'اعتماد' کے ادبی صفحہ کو نہ صرف مرتب کرتے رہے بلکہ اپنا ایک مخصوص طنزیہ مزاحیہ کالم بھی تحریر کرتے رہے ہیں جس کے تحت لکھا گیا قلی قطب شاہ پر ایک قسط وار فکاہیہ سلسلہ خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ تو انہی سردار سلیم نے میک اپ زدہ نسائی شاعری پر نکتہ چیں ہوتے ہوئے کل ایک طنزیہ شہ پارہ "ہم غزل نہیں کہتے۔۔۔؟" کے زیر عنوان سپردِ قلم کیا۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** ایک دور تھا! جب موزوں طبع نوجوان محفل میں بزرگ شعراء کے سامنے اپنا کلامِ موزوں سناتے ہوئے جھجھکتے تھے ۔۔۔ اب دنیا بدل گئی ہے، نقلیوں کی خود اعتمادی اصلیوں پر سبقت لے جا چکی ہے ۔۔۔
** شاعر اپنی شاعری میں واردات قلبی کو نظماتا ہے اور اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میرے دل پر اثر ہوا تو میں نے یہ شعر کہا۔۔۔ اور میں پورے دعوے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جن کا مزاج غنائیت سے نا آشنا ہے اور وہ اپنی ناموزوں طبیعت کے زیر اثر پابند وزن شاعری کی بجائے نثری نظم پر اکتفا کرتے ہیں انہیں یہ کہنے کا قطعی حق نہیں کہ "ہم غزل نہیں کہتے"
انھیں یوں کہنا چاہیے کہ " ہم غزل نہیں کہہ سکتے"

ڈاکٹر عمر بن حسن - Omar Bin Hasan
نام اتنا بردبار پروقار ہے کہ عام قاری خواہ مخواہ دھوکہ کھا جاتا ہے کہ شاید فرحت اللہ بیگ یا محققِ اعظم حمیداللہ بھٹ سے موصوف کا نسبی تعلق ہوگا، مگر نہیں صاحب، یہ حیدرآبادی بساطِ ادب پر نووارد جواں سال طنز و مزاح نگار ہیں جو پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ بڑے اہتمام و احترام سے خود کو ڈاکٹر عابد معز کا شاگردِ رشید قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ خود ان کی نمکین و تیکھی تحریروں کے حوالے سے جچتا بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اردو میمز کے منظرنامے پر ڈوین جانسن کے یادگار کارٹون کلپس کے ذریعے اردو کے نام نہاد مجاہدین و مپھکرین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وائرل ہوئے ہیں۔ ان کارٹونوں میں زبان ایسی استعمال کرتے ہیں جسے حیدرآباد میں "میٹھی چھری" کہا جاتا ہے۔ اور سرجن صاحب کی یہ چھری بھی اتفاقاً دو دھاری ہوتی ہے، جس سے بچنا نہ اردو کے کسی سالخوردہ مجاور کے لیے ممکن ہے اور نہ مجھ جیسے ڈھونڈورچی کو اس چھری سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہ چھری میری بھی تکہ بوٹی کر چکی ہے۔ اور تو اور بہت عرصہ پہلے کلکتہ والے میرے ایک عزیز قلمکار دوست نے عمری تنقید کی یلغار پر چیں بہ چیں ہو کر خارپشت لہجہ میں پوچھا تھا: ابے کون ہے یار یہ تنقیدی ڈاکٹر؟ ہمارے ایک اور مولانا دوست و ادب کے ڈاکٹر بھی تنقیدِ عمر پر پچھلے دنوں خواہ مخواہ ناراض ہو بیٹھے۔ حالانکہ اردو تنقید کے بابائے آدم کلیم الدین احمد، ایلیٹ کا مشہور و معروف فقرہ "تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس" بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "واقعہ یہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ 'بینائی' یا 'گویائی' کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔" تو صاحب لکھنے والے کو صرف تعریف پر چہکنا نہیں چاہیے بلکہ تنقید بھی اسی لَے میں جھیلنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ ویسے بھی جھیلنے کے لیے ہمارے پاس تو ایک عدد بڑی موزوں و مناسب سی وجہ بھی ہے جو کہ اردو طنز و مزاح میں قوسین کے بادشاہ کے لقب سے معروف یوسف ناظم کے ایک شاہکار فکاہیے کا عنوان بھی ہے: ہم بھی شوہر ہیں!
تو ہمارے یہ جواں سال نوواردِ بساطِ ادبِ ظریف ڈاکٹر عمر بن حسن نے کل ایک اردو اخبار کے ادبی ایڈیشن کو نشانے پر رکھ لیا یا حیدرآبادی زبان میں کہیں تو "ادبی ایڈیشن اور اس کے مرتب کو ہاتھ پہ لے لیا"۔ مکمل مضمون بعنوان "مُنصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے" تو ان کی وال پر پڑھیے ۔۔۔ فی الحال یہاں صرف دو اقتباسات ۔۔۔
** اب لوگوں کو کون سمجھائے کہ ادب کوئی " اِس ہاتھ دے اور اُس ہاتھ لے" قِسم کا کاروبار نہیں ہے ۔ اخبار کی پالیسی اور دیگر تحدیدات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ ادبی صفحہ کا مدیر کسی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی جیسا نہیں ہوتا کہ صرف ذاتی مفاد اور اقرباء پروری کے لئے وقف ہو جائے ۔
** معترضین یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام صفحہ ہی جب پاکستانی، اماراتی اور شمالی ہند کے قلمکاروں کی نذر ہو گیا تو حیدرآبادیوں کے لیے کیا بچا۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔ حیدرآباد سے منصف شائع ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ حیدرآبادی قلمکاروں کو بلا ضرورتِ شعری صفحہ کی زینت بنایا جائے ۔ میرے خیال میں دکن میں اچھی اردو لکھنے والے ٹنُڈے کے کٹے ہاتھ کی انگلیوں پر بہ آسانی گنے جا سکتے ہیں۔ اگلے زمانے میں اچھے ادباء و شعراء رہے ہوں گے لیکن اب تو ادیبوں کا کال پڑا ہے۔ جو ہیں وہ اصغر بھائی کے قائم کردہ اعلیٰ معیار پر پورے نہیں اترتے۔

نوٹ:
تصویر کا کوئی تعلق تحریر سے نہیں ہے۔ یہ تو پبلک کو مطالعہ کے لیے ورغلانے کا فیس بکی ٹوٹکا ہے۔ ویسے یہ تصویر راقم نے کندیکل گیٹ فلائی اوور (چھتری ناکہ/لال دروازہ، پرانا شہر حیدرآباد) سے گزرتے ہوئے آج صبح لی ہے۔ کئی برسوں سے پاس پاس موجود یہ دونوں مندر مسجد کس بات کی گواہی دیتے ہیں، یہ سوچنے کا کام میں قارئین پر چھوڑتا ہوں!

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن) ، بروز جمعہ 9/فروری 2024ء

تعمیر پبلی کیشنز کی تین نئی کتابیںمرتب کردہ : مکرم نیازہر دور کی تاریخ کو، ہر زبان کے موضوعاتی میدان کے ماہرین کے نقاط ن...
28/01/2024

تعمیر پبلی کیشنز کی تین نئی کتابیں
مرتب کردہ : مکرم نیاز

ہر دور کی تاریخ کو، ہر زبان کے موضوعاتی میدان کے ماہرین کے نقاط نظر کے ذریعے کاغذی اور ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل کے محققین کو منصفانہ تحقیق میں آسانی ہو۔ انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کی افادیت کے باوجود اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کتاب اور کتب خانے کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی بھی۔ یہی سبب ہے کہ طباعتی ادارہ 'تعمیر پبلی کیشنز' کی جانب سے آن لائن پورٹل 'تعمیرنیوز' پر شائع شدہ مختلف موضوعات کی منتخب تحریروں کو کتابی شکل میں طبع کرنے اور قومی و بین الاقوامی کتب خانوں میں ان کتب کو شامل کروانے کے عملی منصوبے کی شروعات کی جا چکی ہے۔
درج ذیل تین کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔ ان کے (کم قیمت) ہندوستانی ایڈیشن جلد ہی منظر عام پر آ رہے ہیں۔

1) کتب خانے : لفظوں کے روشن مینار
2) اردو صحافت : کچھ جائزے
3) اردو صحافت کے روشن مینار

رام جی رونے لگےنظم از: رؤف خلشؔ (شعری مجموعہ: شاخسانہ / 2007ء)***سادھوؤں، سنتوں کی بیٹھک میں تھا چرچا کا وشئےکیا وہ کوئی...
22/01/2024

رام جی رونے لگے
نظم از: رؤف خلشؔ (شعری مجموعہ: شاخسانہ / 2007ء)
***
سادھوؤں، سنتوں کی بیٹھک میں تھا چرچا کا وشئے
کیا وہ کوئی دھرم یدھ تھا، دھرم سنکٹ تھا، یا کیا تھا؟
دُکھ بھری بانی سُنائی دی:
دھرم سنکٹ تھا، نہ کوئی دھرم یدھ تھا
پریم شکشا کا اُچارن ہو رہا تھا
راج نیتی جا کے ٹکرائی
پھر کرودھ اگنی میں کتنے دیش واسی جل مرے
پریم گاتھاؤں کی کتنی پستکیں جلنے لگیں
نیائے انیائے کی باتیں ماننے والے
"پاپ" کی گٹھری کو لے کر
"پُنّ" کا اُپہار سمجھے
رام جی کے دوار پہنچے تو وہی بانی سنائی دی:

سب شرَدّھا، ساری بھگتی رہنے دو اپنی جگہ
یہ چڑھاوے کی تو سامگری نہیں ہے
آگ کی لپٹوں میں "تانڈو ناچ" جاری ہے
شانتی کو بھنگ کر کے
آج میرے دوار کیوں آئے ہو، جاؤ
پریم شکشا کے سبھی پنّے
اُسی اگنی میں جلتے جا رہے ہیں
جاؤ! پھر اک چاہ میں ڈوبے ہوئے ہردے سے
"پریم اُپنّیاسوں" کی تم رچنا کرو
من ہے ساگر ایسا،
جس کی "سیما ریکھا" ہی نہیں
موہ لو من کو، اسی میں ڈھونڈ لو مکتی
پھر اس کے بعد میرے پاس آنا

اتنا کہہ کر رام جی رونے لگے!!
***

بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء ا...
16/01/2024

بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء الدین شکیب۔

"حلف" یعنی: 'حیدرآباد لٹریری فورم' شہر حیدرآباد دکن کی ایک نمایاں، معروف و معتبر ادبی تنظیم رہی ہے جو اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کی علمبردار رہی۔ 1975ء میں جب اس کا قیام عمل میں آیا تب اس کے بانی اراکین میں والد ماجد رؤف خلش (مرحوم) کے علاوہ پھوپھا مرحوم غیاث متین، حسن فرخ، اعظم راہی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، رؤف خیر وغیرہ شامل رہے۔ تقریباً چار دہائیوں تک اس کے ادبی اجلاس اپنی آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوکر شہر حیدرآباد میں علم و ادب کی راہیں روشن کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 'حلف' کے ادبی اجلاس کی رپورٹیں ریاست (سابقہ متحدہ) آندھرا پردیش و بیرون ریاست کے اخبار و رسائل میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل والد مرحوم کی کتب کے انبار میں ایسا ہی ایک کتابچہ نظر آیا، جو 'حلف' کے پانچ اجلاسوں کی روئداد پر مشتمل تھا (جولائی 1985ء تا ستمبر 1985ء) اور جسے ممتاز شاعر علی ظہیر نے مرتب کیا تھا۔ میں نے اسے حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ سمجھ کر تعمیر پبلی کیشنز کے زیراہتمام ستمبر 2023ء میں، اس کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر عمل میں لائی اور جب اس کے چند نسخے بیرون ممالک کی لائبریریوں نے خریدے تو خوشی ہوئی کہ: علاقائی سطح پر اردو کی ترقی و ترویج میں مشغول اداروں/تنظیموں کی تاریخ دنیا کے مختلف ممالک میں کتابی شکل میں محفوظ کی جا رہی ہے۔
دسمبر/جنوری کے مہینوں میں امریکی و یورپین ممالک میں کتابوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے اور ابھی کل ہی جب پتا چلا کہ اسی کتابچے (صفحات: 32) کے مزید پانچ نسخے اسی ہفتے فروخت ہوئے ہیں تو مزید خوشی ہوئی۔

ماہرِ دکنیات و اقبالیات ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب (پیدائش: اکتوبر 1933ء ، وفات: 20/جنوری 2021ء) شہر حیدرآباد کی ایک علمی و ادبی شخصیت ہونے کے علاوہ شعر و شاعری کے میدان میں بھی ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔ وہ تاریخ داں کی حیثیت سے بھی خاصے معروف تھے کہ قلمی نسخوں کی شناخت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے محکمہ آثار قدیمہ میں کچھ مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ماہ جولائی 1985ء میں جب ایک مختصر دورہ پر ان کی حیدرآباد میں آمد ہوئی تھی تب 'حلف' نے ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ادبی نشست ('حلف' کا 24 واں اجلاس) کا اہتمام کیا تھا جس کی رپورٹ بھی متذکرہ کتابچے میں شامل ہے۔ اسی اجلاس کی رپورٹ سے ماخوذ شکیب صاحب مرحوم کی تقریر کے چند دلچسپ اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

(بمقام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، نامپلی اسٹیشن روڈ، حیدرآباد لٹریری فورم کا چوبیسواں اجلاس 28/جولائی 1985ء شام سات بجے جناب مضطر مجاز کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں لندن سے آئے ہوئے محقق اور دانشور ڈاکٹر ضیا الدین شکیب نے اردو کی جدید شاعری پر تقریر کی۔)
ضیا الدین شکیب نے کہا:
"بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے۔ انگریزی زبان کے شعرا میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اکثر جدید انگریزی شاعر محض شاعری کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ شاید یہ بات اس لیے بھی ممکن ہے کہ وہاں کا معاشرہ فن کی قدر کرتا ہے۔
لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر شعر کہتے اور پڑھتے ہیں۔ میں شعر تاریخ کے نقطۂ نظر سے پڑھتا ہوں۔ اس لیے میں یہ دیکھتا ہوں کہ شاعر نے زبان کو، سوسائٹی کو اور ادب کو کیا دیا؟"

ضیا الدین شکیب نے جہاں ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کے مابین ماحول اور حالات کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفریق کی نشاندہی کی وہیں یہ بھی کہا کہ انگلستان کے ماحول کے فرق کی بنا پر لندن میں لکھنے والوں اور برصغیر کے لکھنے والوں کے مابین فرق واضح ہے، اسی لیے برصغیر کے شعرا کو مغربی ادبی تحریکات سے وابستہ ہو کر ان کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔
ضیا الدین شکیب نے بتایا کہ لندن میں اردو بولنے والوں میں زیادہ تر شعرا کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہرچند کہ لندن میں ہندوستان اور پاکستان کے لکھنے والوں کی اکثر تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن شہر حیدرآباد کے لکھنے والوں کی چیزیں وہاں بہت مشکل سے ملتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حیدرآبادی شعرا سے لندن میں لوگ واقف نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے 'حلف' کے بعض شعرا کے نام گنواتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ لندن میں بخوبی جانے جاتے ہیں۔

ضیا الدین شکیب نے شاعری میں فکری عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جتنا حیدرآبادی شعرا میں فکری عنصر انہیں نظر آتا ہے وہ ہندوستان کے اور جگہوں سے تعلق رکھنے والے شعرا کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مغرب اور مشرق کی شاعری میں جس قدر مثبت عناصر ہم کو مشرق میں ملتے ہیں، مغرب میں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ وہاں مستقبل سے مایوسی ہے جبکہ ہماری تہذیب ترقی پذیری کے عمل سے گزر رہی ہے اس لیے ہم کو مستقبل سے ابھی ویسی مایوسی نہیں ہے اور چونکہ مستقبل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے اسی لیے جو مستقبل سے وابستہ ہوگا اس کے پاس تخلیقی اظہار بھی بیشتر ہونا چاہیے۔ برصغیر کی شاعری میں مایوسی کا پایا جانا غیرفطری ہے۔

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن، بروز منگل 16/جنوری 2024ء)۔

نئے سال کی آمد اور سوشل میڈیا کے ہندوستانی اردو منظرنامے پر کیا پڑھا، کیا لکھا، کیا سوچا ۔۔۔ جیسا علمی، ادبی، مذہبی، سما...
01/01/2024

نئے سال کی آمد اور سوشل میڈیا کے ہندوستانی اردو منظرنامے پر کیا پڑھا، کیا لکھا، کیا سوچا ۔۔۔ جیسا علمی، ادبی، مذہبی، سماجی تبادلۂ خیال تو جاری ہے مگر "تفریحی" موضوع کی مناسبت سے کوئی آگے نہیں آیا تو اردو زبان کی موضوعاتی ترویج کی خاطر یہ فریضہ نبھانا مکرم نیاز کے حصے میں آیا ہے۔ جو قارئین فلمی تفریح کے قائل نہیں یا اسے وقت کا زیاں سمجھتے ہیں وہ ازراہ کرم اس تحریر کو نظرانداز فرمائیں۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ گذشتہ سال 2023ء فلموں کے حوالے سے کیسا رہا یا کیسا گزرا؟ ذیل میں گذشتہ برس کی ان بیس (20) فلموں کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے، جو سینما ہال میں دیکھی گئیں۔ ان فلموں نے کسی نہ کسی حوالے سے تفریحی فلمی دنیا میں اپنی مثبت/منفی شناخت بنائی اور ناظرین کی داد یا بےداد سمیٹی۔ اس فہرست میں تقریباً تمام فلمیں ہندی زبان کی ہیں سوائے دو انگریزی، ایک تلگو اور ایک تمل کے۔ اور ان بیس میں سے شاید صرف دو/چار فلمیں ہی ایسی ہیں جنہیں کسی قدر سنجیدہ یا 'کلاس' فلمیں قرار دیا جا سکے ورنہ باقی تمام کو عوامی طبقے کی 'ماس' فلمیں کہا جا سکتا ہے۔ چونکہ فلمی جائزے میں عموماً 'سہ ماہی' حوالے سے تقسیم برتی جاتی ہے لہذا اس تحریر میں بھی سال کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سال کی آخری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں کچھ زیادہ فلموں نے
ہنگامہ مچایا اور بزنس کیا ہے لہذا آخری سہ ماہی تذکرے میں فلموں کی تعداد زیادہ ہے۔

***
پہلی سہ ماہی (جنوری تا مارچ) (فلمیں: 4)
***
-1-
پٹھان (25/جنوری) - Pathaan
اپنی فلم "زیرو" (2018) کے تقریباً چار سال بعد کنگ خان شاہ رخ خان کی یہ فلم اپنی ریلیز سے قبل ہی کئی تنازعات میں گرفتار تو ہوئی مگر جن سے اس فلم نے فائدہ بھی اٹھایا اور یہ باکس آفس پر تقریباً ہزار کروڑ کی کمائی کے ساتھ سال 2023ء کی دوسری زیادہ کمائی کرنے والی فلم قرار پائی۔ حالانکہ فلم میں شاہ رخ خان سے زیادہ بہتر اداکاری کا کریڈٹ ویلن کا رول نبھانے والے جان ابراہام کو گیا۔ مجموعی طور سے فلم کی کہانی اوسط درجہ کی رہی۔

-2-
سیلفی (24/فروری) - Selfiee
فلم تھی تو اکشے کمار کے مرکزی کردار پر مگر ان کے مساوی سطح پر حیران کن اداکاری کا کرشمہ دکھانے والے عمران ہاشمی نے اپنے منفرد مثبت رول کے ذریعے ناظرین کا دل جیتا۔ یہ فلم عمران ہاشمی کی جاندار اداکاری اور اکشے کمار کی طرف سے ایک فلم اسٹار کی مجبوریوں کو اجاگر کرنے والی جذباتی کردار نگاری کے باعث یاد رکھی جا سکتی ہے۔

-3-
تو جھوٹی میں مکار (8/مارچ) - Tu Jhoothi Main Makkaar
فلم کا موضوع جوائنٹ فیملی کے روایتی مسائل اور چپقلشوں کے درمیان رنبیر اور شردھا کپور کی لو اسٹوری پر مبنی تھا۔ ڈمپل کپاڈیہ نے ہیرو رنبیر کی ماں کا کردار دلچسپ طریقے سے ادا کیا۔ نئے زمانے کی ایک اچھی کہانی ہونے کے باوجود ہدایت کار لَو رنجن اس فلم کو صحیح طریقے سے پیش کرنے سے قاصر رہے۔

-4-
ژویگاٹو (17/مارچ) - Zwigato
آرٹ فلموں کی مشہور ہدایت کار نندیتا داس سے بھلا کون واقف نہیں۔ فوڈ ڈیلیوری بوائے کی روزمرہ کی زندگی سے جڑے مسائل کی سیدھی سادی عام سی کہانی کو نندیتا داس نے جس ہنرمندی سے فلمایا، بطور خاص ریاست اوڈیشہ کے علاقوں کی دیدہ زیب منظرکشی، وہ لاجواب اور قابل داد ہے۔ کپل شرما جیسے مشہور ٹی۔وی اینکر نے اپنی اداکاری سے جہاں ناظرین سے خوب داد بٹوری وہیں ان کی بیوی کے جذباتی کردار میں شاہانہ گوسوامی نے بھی متاثر کیا ہے۔ اسے 'کلاس' فلم کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔

-دیگر-
(مشن مجنوں، شہزادہ، مسز چٹرجی ورسز ناروے، بھیڑ، بھولا)
سدھارتھ ملہوترہ کی 'مشن مجنوں' کا جس قدر مذاق پڑوسی ملک پاکستان کے فلم بینوں نے اڑایا، وہ بالکل بجا تھا۔ اس موضوع کی فلمیں بنانے سے قبل پتا نہیں مناسب ریسرچ ورک کیوں نہیں کیا جاتا؟ ایسے ناقص ریسرچ کی ایک اور نادر مثال "ٹائیگر 3" بھی ہے۔ نوجوان دلوں کی دھڑکن کارتک آریان سال 2023ء میں ایک تلگو ریمیک فلم "شہزادہ" کے ذریعے وارد ہوئے مگر نہ تو فلم کی کہانی متاثر کر پائی اور نہ ہیرو کی اداکاری۔ اجے دیوگن کی فلم "بھولا" کے ایکشن کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر فلم بین متاثر نہیں ہوئے۔ راج کمار راؤ کی "بھیڑ" کووڈ زمانے میں عوام کی نقل مکانی کے مسائل کو اجاگر کرنے والی ایک سنجدہ فلم تھی اور جس کی تعریف بےشمار فلم ناقدین نے کی بھی مگر فلم عوام کے درمیان چل نہ سکی۔ اسی طرح رانی مکھرجی کی یادگار رول والی فلم "مسز چٹرجی ورسز ناروے" کا بھی حشر ہوا۔

***
دوسری سہ ماہی (اپریل تا جون) (فلمیں: 3)
***
-5-
کسی کا بھائی کسی کی جان (21/اپریل) - Kisi Ka Bhai Kisi Ki Jaan
فلم کی خصوصیت تلگو فلموں کے میگا اسٹار وینکٹیش کی برسوں بعد کسی ہندی فلم میں دوبارہ آمد تھی۔ کمزور کہانی کے باوجود سلمان خان اپنی فلم کو فلاپ ہونے سے بچا لے گئے۔ وینکٹیش کے ساتھ پوجا ہیگڑے کی دلچسپ اداکاری اور جنوبی ہند کے روایتی قدامت پسندانہ ماحول کی عکاسی فلم کا قابل ذکر پہلو رہے۔

-6-
ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے (2/جون) - Zara Hatke Zara Bachke
موجودہ دور کی نسل میں اچھی اداکاری کے حوالے سے جہاں ایوشمان کھرانہ اور راج کمار راؤ مشہور ہیں وہیں وکی کوشل کا نام بھی اسی لیول پر لیا جا سکتا ہے۔ جوائنٹ فیملی کے درمیان زندگی گزارنے والے اوسط سے کمتر معاشی سطح کے کفایت شعار نوجوان کا رول بےشک وکی کوشل نے بہترین طریقہ سے ادا کیا ہے۔ اپنا خود کا گھر خریدنے کی خواہش رکھنے والی بیوی کا کردار ادا کرتے ہوئے وکی کوشل کا ساتھ سارہ علی خان نے بھی خوب نبھایا۔

-7-
انڈیانا جونز 5 (30/جون) - Indiana Jones and the Dial of Destiny
ہالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار ہیریسن فورڈ کو بھلا کون نہیں جانتا۔ ویسے بھی 'انڈیانا جونز' فرنچائز کی پہلی فلم "رائیڈرز آف دی لاسٹ آرک (1981)" کے ذریعے ہی فورڈ نے فلمی دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی تھی۔ انچالیس (39) سال کی عمر میں انڈیانا جونز سیریز کی پہلی فلم کی ریلیز کے 42 سال بعد 81 سال کی عمر میں بھی فورڈ کو اس سیریز کی پانچویں اور آخری فلم "ڈائل آف ڈیسٹنی" میں دیکھنا خوشگوار تجربہ رہا۔ آثار قدیمہ کی مہمانی تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے فلمی شائقین کو انڈیانا جونز سیریز کی تمام فلمیں لازمی دیکھنا چاہیے۔

-دیگر-
(افواہ، دی کیرالہ اسٹوری، ادی پرش، ستیہ پریم کی کتھا)
رامائن کے موضوع پر پین انڈیا اسٹار پربھاس کی فلم "ادی پرش" افسوس کہ بری طرح فلاپ رہی، حتی کہ راون کے کردار میں سیف علی خان کا بھی ازحد مذاق اڑایا گیا۔ 'دی کیرالہ اسٹوری' کو سیاسی اور سماجی سطح پر ایک مخصوص ذہنیت کے گروہ نے زہریلے پروپگنڈے کے سہارے باکس آفس کامیابی دلائی۔ جبکہ انوبھو سنہا جیسے مایہ ناز ہدایت کار کی زندہ حقائق پر مبنی "افواہ" ایک بہترین موضوعاتی فلم ہونے اور نواز الدین صدیقی کی یادگار اداکاری کے باوجود درکار کامیابی حاصل کرنے سے محروم رہی۔ کارتک آریان اور کائرا اڈوانی کی رومانٹک ڈرامہ فلم "ستیہ پریم کی کتھا" بھی کوئی خاص پہچان بنا نہیں پائی۔

***
تیسری سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) (فلمیں: 4)
***
-8-
مشن امپاسیبل 7 (14/جولائی) - Mission Impossible 7
ہالی ووڈ کے کنگ ٹام کروز کی مشن امپاسیبل فرنچائز کی پہلی فلم مئی 1996ء میں ریلیز ہوئی تھی اور 27 سال بعد اس سیریز کی ساتویں فلم (ڈیڈ ریکننگ: پارٹ ون) کا انتظار اس لیے بھی فلم بینوں نے شدت کے ساتھ کیا کہ ٹام کروز نے اس میں اپنی موٹربائک کے ساتھ ایک پہاڑی سے گھاٹیوں کے بیچ چھلانگ لگانے کا ہوشربا منظر فلمایا تھا جو سوشل میڈیا پر بےپناہ وائرل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ فلم کے ٹرین حادثے کا منظر، ہندی فلم "پٹھان" میں بھی نقل کیا گیا۔ فلم گو ٹھیک ٹھاک ایکشن تھرلر فلم تھی مگر باکس آفس پر توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سیریز کی آٹھویں فلم 2025ء میں ریلیز ہوگی۔

-9-
راکی اور رانی کی پریم کہانی (28/جولائی) - Rocky Aur Rani Kii Prem Kahaani
رنویر سنگھ کی سال 2023ء میں ریلیز ہونے والی یہ واحد فلم تھی جس نے کمرشیل کامیابی حاصل کرتے ہوئے سال کی ساتویں زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا اعزاز اپنے نام کیا۔ فلم کی خصوصیت دھرمیندر، جیا بہادری اور شبانہ اعظمی کے دلچسپ اور یادگار کردار اور چند پرانے گانوں کی دھنوں کی بازیافت تھی۔ مختلف طبقوں کے بیچ ہم آہنگی کا سماجی پیغام فلم کے ذریعے موثر طریقے سے پیش بھی کیا گیا۔

-10-
غدر 2 (11/اگست) - Gadar 2
سنی دیول اور امیشا پٹیل کی معرکۃ الآرا فلم "غدر : ایک پریم کتھا (2001)" کے بائیس سال بعد جب اس کا دوسرا حصہ "غدر:2" کے نام سے ریلیز ہوا تو اس نے پہلی فلم کی طرح کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور باکس آفس پر سال 2023ء کی چوتھی کامیاب فلم کا تمغہ اپنے نام حاصل کیا۔ فلم میں دونوں پڑوسی ممالک کے فلم بینوں کو بعض جذباتی مناظر کے سہارے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی فلم میں امیشا پٹیل اور امریش پوری نے بھی اپنے مضبوط کردار نگاری سے متاثر کیا تھا مگر اس دوسرے حصے میں فلم کا پورا بوجھ سنی دیول کے کاندھے پر دھرا رہا۔

-11-
جوان (7/ستمبر) - Jawan
شاہ رخ خان کی سال 2023ء میں ریلیز ہونے والی یہ دوسری فلم باکس آفس پر گیارہ سو کروڑ سے زائد کی کمائی کے ساتھ اس سال کی کامیاب ترین فلم قرار پائی ہے۔ کمزور کہانی اور غیرعقلی واقعات کے باوجود شاہ رخ کے خان کے ڈبل رول اور موجودہ دور کے سلگتے سماجی موضوعات کو اجاگر کرتے ہوئے ممکنہ حل بتانے کی کوشش کو عام و خاص فلم بین طبقے کے علاوہ ناقدین نے بھی سراہا ہے۔

-دیگر-
(ڈریم گرل 2، بوال، او مائی گاڈ 2، گھومر، ہڈی، فُکرے 3)
ایوشمان کھرانہ نے "ڈریم گرل" کے پہلے حصے میں اپنی منفرد اداکاری کا جادو جگایا تھا جس میں انوکپور نے بھی ہیرو کے باپ کا کردار نبھاتے ہوئے اپنی جاندار موجودگی کا احساس دلایا مگر ایسا جادو "ڈریم گرل 2" میں نظر نہ آ سکا۔ اسی طرح "فُکرے" کے پہلے دو حصوں میں کامیڈی پُرلطف تھی جو تیسرے حصے "فُکرے 3" میں مفقود رہی۔ "او مائی گاڈ" کے پہلے حصے نے جتنی ستائش وصول کی تھی وہ "او مائی گاڈ 2" وصول نہ کر پائی۔ فلم ناقدین نے ٹرانس جینڈر کے رول میں نواز الدین صدیقی کی "ہڈی" والی اداکاری کی خاصی تحسین کی، اسی طرح "گھومر" جیسی انسپائریشنل مووی میں ابھیشک بچن اور سیامی کھیر کی اداکاری کو سراہا گیا، ورون دھون اور جھانوی کپور اچھی اداکاری کے باوجود کمزور پلاٹ والی فلم "بوال" کو ناکام ہونے سے بچا نہیں پائے۔

***
چوتھی سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) (فلمیں: 9)
***
-12-
مشن رانی گنج (6/اکتوبر) - Mission Raniganj
غالباً گزرے برس اکشے کمار نے "سیلفی" کے بعد یہ دوسری ایسی فلم دی ہے جس میں ان کی سنجیدہ اداکاری قابلِ تعریف ہے۔ کان کنی کے ایک حقیقی واقعے (رانی گنج کول فیلڈ، مغربی بنگال) پر بنائی گئی یہ فلم اکشے کمار کی چند اچھی فلموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔

-13-
دھک دھک (13/اکتوبر) - Dhak Dhak
صرف خواتین پر مبنی کوئی فلم چاہے کتنے بھی اچھے اور تحریکی موضوع پر اور عمدہ طریقے سے تخلیق کی جائے مگر ہمارے پدرشاہی معاشرے میں ایسی فلموں کو ریسپانس کم ہی ملتا رہا ہے جس کی ایک مثال یہ فلم بھی ہے، جو ممتاز اداکارہ رتنا پاٹھک شاہ، دیا مرزا اور فاطمہ ثنا شیخ کی موثر اداکاری سجی ہے۔ اپنے باطن میں پوشیدہ صلاحیتوں کی شناخت کی خاطر چار خواتین جب ایک طویل پہاڑی سفر پر نکلتی ہیں تو انہیں کیا اور کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ فلم انہیں بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے انسانیت نوازی کا سبق بھی دیتی ہے۔ اس فلم کو بھی 'کلاس' زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

-14-
لیو (18/اکتوبر) - Leo
جنوبی ہند کے مقبول عام سپراسٹار وجے تھلاپتی کی اس تمل فلم کی شوٹنگ سے قبل ہی بڑا شہرہ برپا ہوا تھا مگر ہندی ڈب میں ریلیز کیے جانے کے باوجود فلم صرف جنوبی ہند میں ہی زیادہ کمائی کر پائی۔ ہرچند کہ فلم میں سنجے دت نے پرقوت کردار نبھایا تھا۔

-15-
بارہویں فیل (27/اکتوبر) - 12th Fail
ودھو ونود چوپڑا کی اس فلم نے ملک و بیرون ملک کے ناظرین سے جہاں بہت داد سمیٹی وہیں ہر سطح کے فلم ناقدین نے بھی اس کی پذیرائی کی ہے۔ انوراگ پاٹھک کے اسی نام کے ناول پر بنائی گئی یہ فلم چمبل گھاٹی کے پسماندہ دیہات کے متوطن ایک نوجوان کی مسلسل جدوجہد کی کہانی کو بیان کرتی ہے کہ کس طرح قومی سطح کے مسابقتی امتحان میں پےدرپے ناکامی کے بعد بالآخر کامیابی حاصل کرتے ہوئے انڈین پولیس آفیسر کے عہدہ پر وہ فائز ہوا۔ فلم کی ایک خوبی دیہات کے مسائل اور مناظر کی موزوں پیشکش بھی رہی۔

-16-
ٹائیگر 3 (11/نومبر) - Tiger 3
سلمان خان کی ٹائیگر فرنچائز کی اس تیسری فلم نے کمزور پلاٹ کے باوجود باکس آفس پر سال کی پانچویں بڑی کمائی کرنے والی فلم کا رتبہ حاصل کیا ہے۔ فلم کے ایکشن مناظر ہالی ووڈ سے مستعار لگتے ہیں، اس پر مستزاد پٹھان (شاہ رخ خان) کے کیمیو نے عام فلم بین کے جوش و خروش کو ہوا دی ہے۔

-17-
انیمل (یکم/دسمبر) - Animal
فلم جوان اور پٹھان کے بعد حیرت انگیز طور پر تقریباً 900 کروڑ روپے کے باکس آفس کلکشن کے سہارے سال 2023ء کی تیسری بڑی فلم کا خطاب جیتتے ہوئے فلم ناقدین کے ساتھ ساتھ باشعور و سنجیدہ فلم بینوں کو بھی حیرت سے دوچار کیا ہے۔ کیونکہ فلم غیرضروری طور پر بےتحاشا تشدد سے بھرپور ہے۔ البتہ رنبیر کپور نے اپنے کردار کے مختلف پہلوؤں سے انصاف کیا ہے اور اسی طرح بابی دیول نے بھی قوت گویائی سے محروم منفی کردار کے ذریعے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ہے۔

-18-
سام بہادر (یکم/دسمبر) - Sam Bahadur
میگھنا گلزار نے ہندوستان کے پہلے فیلڈ مارشل سام مانک شا کی سوانح پر جنگی پس منظر کی ڈراما فلم بنا کر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بھرپور داد سمیٹی ہے۔ وکی کوشل نے بھی اپنی لاجواب کردار نگاری کے ذریعے اس فلم کو چار چاند لگائے ہیں۔

-19-
ڈنکی (21/دسمبر) - Dunki
اس سال ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی اس تیسری فلم نے باکس آفس کلکشن کے حساب سے سال کا چھٹا مقام حاصل کیا ہے۔ ہر چند کہ فلم اپنے موضوع سے مکمل انصاف کرنے سے قاصر رہی مگر ایک سماجی پیغام پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ وکی کوشل کی لازوال کردار نگاری اور تاپسی پنو کی دلچسپ اداکاری کے باعث فلم کلک کر گئی ہے۔

-20-
سالار (22/دسمبر) - Salaar
لیو اور انیمل کی طرح سالار بھی بےپناہ تشدد سے لبریز ہے۔ پربھاس کے پین انڈیا اسٹارڈم کی بدولت اور دیوقامت فلمی مناظر کے سہارے اس نے تلگو فلمی صنعت کے باکس آفس کے اول درجہ پر اپنا قبضہ جمایا ہے۔ جبکہ فلم کی فکشنل اسٹوری جہاں پیچیدہ ہے وہیں پربھاس کو صرف ایکشن مناظر تک محدود رکھا گیا ہے۔

-دیگر-
(گن پتھ، تیجاس، فَرّے)
امیتابھ بچن کی موجودگی، اپنے بہترین ایکشن، ڈانس اور ڈبل رول کے باوجود ٹائیگر شراف اس سال کی اپنی واحد فلم کو فلاپ ہونے سے بچا نہیں پائے۔ اسی طرح کنگنا رناوت کی اس سال کی واحد ہندی فلم "تیجاس" بھی باکس آفس پر بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ دوسری طرف معمولی بجٹ کی فلم "فَرّے" بین الاقوامی مسابقتی امتحان میں نقل نویسی کے منفرد طریقوں کے موضوع کی وجہ سے نوٹ کی گئی، حالانکہ یہ تھائی لینڈ کی ایک پرانی فلم کا آفیشل ریمیک تھی۔

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن، بروز پیر، یکم/جنوری/2024ء)

Address

16-8-544, Beside Green Apple Store, New Malakpet
Hyderabad
500024

Opening Hours

Monday 6pm - 11pm
Tuesday 6pm - 11pm
Wednesday 6pm - 11pm
Thursday 6pm - 11pm
Friday 6pm - 11pm
Saturday 6pm - 11pm
Sunday 11:30am - 9pm

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taemeer News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Taemeer News:

Share