
28/08/2025
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا
لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
فراق گورکھپوری