Urdu Deccan اُردو دکن

Urdu Deccan اُردو دکن اردو شاعری کے قدر دانوں اور اردو سے محبت رکھنے والوں کا پیج پر استقبال ہے خوش آمدید اردو شاعری کے فروغ اور بقاء کے لے اس پیج کو لائک کریں , شیر کریں
(1)

جو اپنے غم کو غمِ جاوداں بنا نہ سکےوہ بدنصیب کسی کے بھی کام آ نہ سکےمری نظر میں وہ بزمِ طرب ہے ویرانہجو تیرے نور کے جلو...
04/09/2025

جو اپنے غم کو غمِ جاوداں بنا نہ سکے
وہ بدنصیب کسی کے بھی کام آ نہ سکے

مری نظر میں وہ بزمِ طرب ہے ویرانہ
جو تیرے نور کے جلوؤں سے جگمگا نہ سکے

کرو وہ کام امرجس سے زندگی ہوجائے
بنو وہ نقش زمانہ جسے مٹا نہ سکے

وہ تیرے حسنِ حقیقی کے راز کیا جانے
پتا جو اپنی حقیقت کا خود لگا نہ سکے

دیا ہے غم تو غمِ جاوداں بھی بخش مجھے
وہ درد دے کہ جو کونین میں سما نہ سکے

جیے تو کیا جیے وہ اور مرے تو کیا وہ مرے
جو اپنے وقت کی بگڑی کوئی بنا نہ سکے

دلائی یاد بہت اپنی ان کو اے لائق
وہ ایسے بھولے کہ ہم ان کو یاد آ نہ سکے

بابو لاڈلی لال لائق

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1946آنکھوں میں رنگ و نور کا منظر سمیٹ لو جو دل کو دے سکون وہ پیکر سمیٹ لو پتھر دلوں کو نرم نہ کر پ...
03/09/2025

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1946
آنکھوں میں رنگ و نور کا منظر سمیٹ لو
جو دل کو دے سکون وہ پیکر سمیٹ لو

پتھر دلوں کو نرم نہ کر پاؤ گے کبھی
اشکوں کو اپنی آنکھوں کے اندر سمیٹ لو

بڑھتے وہ آ رہے ہیں اندھیروں کے قافلے
تم اے اجالوں اپنا یہ دفتر سمیٹ لو

مسجد میں ہونے والی ہے جوہر اذان صبح
اب تو خدا کے واسطے بستر سمیٹ لو

جوہر نوری

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1979یہاں کہاں کوئی اپنا دکھائی دیتا ہےجسے بھی دیکھیے تنہا دکھائی دیتا ہےمیں دوڑتا ہوں کہ شاید حیات ...
03/09/2025

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1979
یہاں کہاں کوئی اپنا دکھائی دیتا ہے
جسے بھی دیکھیے تنہا دکھائی دیتا ہے

میں دوڑتا ہوں کہ شاید حیات مل جائے
قدم قدم پہ تو مرنا دکھائی دیتا ہے

میں پھوٹ پھوٹ کے روتا ہوں سامنے اس کے
مگر اسے مرا ہنسنا دکھائی دیتا ہے

ہمارے جسم پہ مہنگا لباس ہے لیکن
ہمارا جسم برہنہ دکھائی دیتا ہے

غموں کا لیپ لگائے ہوں چہرے پر
مگر جہاں کو سنورنا دکھائی دیتا ہے

ممتاز عالم رضوی

یوم پیدائش 30 اگست 1959غزل بھی اشک فشانی میں میں نے رکھ دی ہےجو دل میں آگ تھی پانی میں میں نے رکھ دی ہےملا ہے دل کو سکو...
30/08/2025

یوم پیدائش 30 اگست 1959
غزل بھی اشک فشانی میں میں نے رکھ دی ہے
جو دل میں آگ تھی پانی میں میں نے رکھ دی ہے

ملا ہے دل کو سکوں اس لیے کہ وقتِ سخن
کسک قلم کی روانی میں میں نے رکھ دی ہے

مجھے تھی عشق میں جاں سے گزرنے کی جلدی
کتاب پڑھ کے روانی میں میں نے رکھ دی ہے

کمالِ تشنہ لبی پھر بھی وہ سمجھتا نہیں
زبان کھولتے پانی میں میں نے رکھ دی ہے

جو بات رو بہ رو اس سے نہ کہہ سکا دل کی
وہ آنسوؤں کی روانی میں میں نے رکھ دی ہے

خطوط میرے جلا دو مگر یہ دھیان رہے
متاعِ جاں بھی نشانی میں میں نے رکھ دی ہے

سند ملے گی اسے اعتبار کی مظہر
جو طرز لفط و معانی میں میں نے رکھ دی ہے

مظہر سعید

عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہےزندگی آئنہ خانے میں گزر جاتی ہےشام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیااور شب اس کو منانے ...
30/08/2025

عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے
زندگی آئنہ خانے میں گزر جاتی ہے

شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا
اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے

ہر محبت کے لیے دل میں الگ خانہ ہے
ہر محبت اسی خانے میں گزر جاتی ہے

زندگی بوجھ بتاتا تھا بتانے والا
یہ تو بس ایک بہانے میں گزر جاتی ہے

تو بتا آنکھ نیا خواب کہاں سے دیکھے
روز شب تجھ کو بھلانے میں گزر جاتی ہے

وہ چلا جاتا ہے اور ساعت رخصت اشفاقؔ
جسم کا بوجھ اٹھانے میں گزر جاتی ہے

اشفاق ناصر

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھاوہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھاپھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھاپھر فسانہ ...
28/08/2025

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا

پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا

ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا

یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا

لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا

آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا

عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا

نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا

جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا

آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا

پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا

رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا

جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا

آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا

قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

فراق گورکھپوری

25/08/2025

تیرے در سے جب اٹھ کے جانا پڑے گا
خود اپنا جنازہ اٹھانا پڑے گا

اب آنکھوں کو دریا بنانا پڑے گا
تبسم کا قرضہ چکانا پڑے گا

بلا سے میرا غم نہ ہو ان پہ ظاہر
جب آئیں گے وہ مسکرانا پڑے گا

چلا ہوں میں کوچے سے ان کے بگڑ کر
ہنسی آ رہی ہے کہ آنا پڑے گا

خمارؔ انکے گھر جا رہے ہو تو جاؤ
مگر راستے میں زمانہ پڑے گا

خمار بارہ بنکوی

24/08/2025

سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر
اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

آغا حاشر کاشمیری

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سےجانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سےہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سےیہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے...
22/08/2025

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے

ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے

وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہیں شاخ ثمر دار میں گل پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مرے جذبۂ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

لبریز مئے صاف سے ہوں جام بلوریں
زمزم سے ہے مطلب نہ صفا سے نہ حجر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوئے در یار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلک کی بھی سپر سے

کھلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانے کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

اف گرمیٔ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اڑے جاتے شرر سے

کچھ رحمت باری سے نہیں دور کہ ساقی
روئیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

میں کشتہ ہوں کس چشم سیہ مست کا یا رب
ٹپکے ہے جو مستی مری تربت کے شجر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

شیخ ابراہیم ذوق

ریت  پر یہ نظر دیکھتی رہ گئیوہ مجھے مَیں شجر دیکھتی رہ گئیمیرا محبوب آکر چلا بھی گیامَیں کھڑی تھی ڈگر دیکھتی رہ گئیمیرے...
20/08/2025

ریت پر یہ نظر دیکھتی رہ گئی
وہ مجھے مَیں شجر دیکھتی رہ گئی

میرا محبوب آکر چلا بھی گیا
مَیں کھڑی تھی ڈگر دیکھتی رہ گئی

میرے ہاتھوں میں کِس کا یہ دِل آگیا
مَیں دعا میں اثر دیکھتی رہ گئی

ان کی یادوں نے دِل کھوکھلا کر دیا
درد میں ڈوب کر دیکھتی رہ گئی

تھیں زباں بند دونوں کی انجم مگر
وہ اِدھر مَیں اُدھر دیکھتی رہ گئی

انجم پروین

زیرِ زمیں کھلے  کہ تہِ  آسماں  کھلےمیرے خدا کہیں تومری داستاں کھلےکھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاںہم نے زمین اوڑھ لی...
17/08/2025

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرے خدا کہیں تومری داستاں کھلے

کھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کو بچھڑے ہوئے مگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شاید ستم کچھ اور بڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی

یوم آزادی مبارک
15/08/2025

یوم آزادی مبارک

Address

Hyderabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Deccan اُردو دکن posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share