Urdu Deccan اُردو دکن

Urdu Deccan اُردو دکن اردو شاعری کے قدر دانوں اور اردو سے محبت رکھنے والوں کا پیج پر استقبال ہے خوش آمدید اردو شاعری کے فروغ اور بقاء کے لے اس پیج کو لائک کریں , شیر کریں
(2)

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھاوہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھاپھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھاپھر فسانہ ...
28/08/2025

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا

پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا

ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا

یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا

لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا

آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا

عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا

نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا

جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا

آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا

پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا

رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا

جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا

آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا

قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

فراق گورکھپوری

25/08/2025

تیرے در سے جب اٹھ کے جانا پڑے گا
خود اپنا جنازہ اٹھانا پڑے گا

اب آنکھوں کو دریا بنانا پڑے گا
تبسم کا قرضہ چکانا پڑے گا

بلا سے میرا غم نہ ہو ان پہ ظاہر
جب آئیں گے وہ مسکرانا پڑے گا

چلا ہوں میں کوچے سے ان کے بگڑ کر
ہنسی آ رہی ہے کہ آنا پڑے گا

خمارؔ انکے گھر جا رہے ہو تو جاؤ
مگر راستے میں زمانہ پڑے گا

خمار بارہ بنکوی

24/08/2025

سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر
اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

آغا حاشر کاشمیری

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سےجانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سےہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سےیہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے...
22/08/2025

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے

ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے

وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہیں شاخ ثمر دار میں گل پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مرے جذبۂ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

لبریز مئے صاف سے ہوں جام بلوریں
زمزم سے ہے مطلب نہ صفا سے نہ حجر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوئے در یار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلک کی بھی سپر سے

کھلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانے کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

اف گرمیٔ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اڑے جاتے شرر سے

کچھ رحمت باری سے نہیں دور کہ ساقی
روئیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

میں کشتہ ہوں کس چشم سیہ مست کا یا رب
ٹپکے ہے جو مستی مری تربت کے شجر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

شیخ ابراہیم ذوق

ریت  پر یہ نظر دیکھتی رہ گئیوہ مجھے مَیں شجر دیکھتی رہ گئیمیرا محبوب آکر چلا بھی گیامَیں کھڑی تھی ڈگر دیکھتی رہ گئیمیرے...
20/08/2025

ریت پر یہ نظر دیکھتی رہ گئی
وہ مجھے مَیں شجر دیکھتی رہ گئی

میرا محبوب آکر چلا بھی گیا
مَیں کھڑی تھی ڈگر دیکھتی رہ گئی

میرے ہاتھوں میں کِس کا یہ دِل آگیا
مَیں دعا میں اثر دیکھتی رہ گئی

ان کی یادوں نے دِل کھوکھلا کر دیا
درد میں ڈوب کر دیکھتی رہ گئی

تھیں زباں بند دونوں کی انجم مگر
وہ اِدھر مَیں اُدھر دیکھتی رہ گئی

انجم پروین

زیرِ زمیں کھلے  کہ تہِ  آسماں  کھلےمیرے خدا کہیں تومری داستاں کھلےکھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاںہم نے زمین اوڑھ لی...
17/08/2025

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرے خدا کہیں تومری داستاں کھلے

کھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کو بچھڑے ہوئے مگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شاید ستم کچھ اور بڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی

یوم آزادی مبارک
15/08/2025

یوم آزادی مبارک

یوم پیدائش 14 اگست 1957کبھی تو ہوگی ترے انتظار سے فرصتدیے کی لَو کی طرح انتظار سے فرصتبساطِ ذہن پہ مُہرے پڑے ہیں بے ترتی...
14/08/2025

یوم پیدائش 14 اگست 1957

کبھی تو ہوگی ترے انتظار سے فرصت
دیے کی لَو کی طرح انتظار سے فرصت

بساطِ ذہن پہ مُہرے پڑے ہیں بے ترتیب
خیال آیا ملی جب خمار سے فرصت

خبر نہیں مجھے اب تک وہ کون ہے کیا ہے
کسے ہے ذات کے اس انتشار سے فرصت

میں خود سے باتیں نہیں کرتا اب تو تّو آجا
نکل چکی ہے مرے اب حصار سے فرصت

ابھی نہ آئے وہ جس کا ہے انتظار مجھے
ابھی نہیں مجھے قرب و جوار سے فرصت

کبھی تو خواب حقیقت کا روپ دھاریں گے
کبھی تو ہوگی دنوں کے شمار سے فرصت

میں تیرے پاس بہت جلد آؤں گا شاداب
کبھی تو ہوگی غمِ روزگار سے فرصت

شاداب احسانی

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئےالله کی رحمت کے آثار نظر آئےمنظر ہو بیاں کیسے، الفاظ نہیں ملتےجس وقت محمدﷺ کا دربار نظر...
12/08/2025

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے
الله کی رحمت کے آثار نظر آئے

منظر ہو بیاں کیسے، الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے

مکے کی فضاوں میں، طیبہ کی ہواوں میں
ہم نے تو جدھر دیکھا سرکارﷺ نظر آئے

محمد علی ظہوری

12/08/2025

لوگ پتّھر اُٹھائے پھرتے ہیں
اور ہم سر اٹھائے پھرتے ہیں

زندگی ایسا بوجھ ہے کہ جسے
زندگی بھر اٹھائے پھرتے ہیں

ہم سے اُٹھتا نہیں ہے ایک قدم
لوگ محشر اٹھائے پھرتے ہیں

کل جو اِک بُوند کو ترستے تھے
اب سمندر اٹھائے پھرتے ہیں

عافیت کا نہیں کوئی گوشہ
دوست خنجر اٹھائے پھرتے ہیں

جتنے کم ظرف ہیں سرِ محفل
بارِ ساغر اٹھائے پھرتے ہیں

خوب گلشن میں انقلاب آیا
پھول پتّھر اٹھائے پھرتے ہیں

ہم تو خانہ بدوش ہیں اعجاز
مستقبل گھر اٹھائے پھرتے ہیں

اعجاز رحمانی

آپﷺ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلاجہل نے بازو سمیٹے، علم کا شہپر کھلاچاند سورج آپ کی تسکین سے روشن ہوئےبابِ مغرب و...
09/08/2025

آپﷺ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا
جہل نے بازو سمیٹے، علم کا شہپر کھلا

چاند سورج آپ کی تسکین سے روشن ہوئے
بابِ مغرب وا ہوا ، دروازۂ خاور کھلا

آپؐ کی بخشش سے سب پر، کیا فرشتے کیا بشر
آپؐ کا بابِ سخاوت ہے دوعالم پر کھلا

جب زمیں پر آپؐ کے قدموں سے بکھری کہکشاں
مقصدِ تکوینِ عالم تب کہیں جاکر کھلا

دل میں جب آیا کبھی عہدِ رسالت کا خیال
ایک منظر وقت کی دیوار کے اندر کھلا

اِس کو کہتے ہیں سخاوت، یہ سخی کی شان ہے
حرفِ مطلب لب پہ آیا، لطف کا دفترکھلا

اُس کی مدحت کیا لکھیں گے ہم زمیں والے ایازؔ!
جس شہِ لوح و قلم پر گنبدِ بے در کھلا

ایاز صدیقی

08/08/2025

اجائے ذہن میں ہیں، روشنی ضمیر میں ہے
کہ خاک کوئے مدینے میرے خمیر میں ہے

یہ دل ہے یاد رسالت مآب سے معمور
متاعِ کون و مکاں کاسہِ فقیر میں ہے

مدینہ جاؤں سبکدوش مدعا ہو جاؤں
یہ اک عظیم امانت دلِ حقیر میں ہے

ہوائے کوئے مدینہ فضائے صحنِ حرم
یہ دل مسلسل اسی کیفیت دلپذیر میں ہے

زمین شعر ثنانے نبی ہے عرش مقام
کہاں یہ رفعت ادرک چرخ پیر میں ہے

دھڑک رہا ہے دلِ کائنات کی صورت
وہ راز کن جو ابھی وقت کے ضمیر میں ہے

مدینہ پہنچوں گا یار وہ ضرور پہنچوں گا
کہ یہ سفر تو میرے ہاتھ کی لکیر میں ہے

مری شریعت کردار صاف گوئی ہے
وہی زبان ہے سر شار جو ضمیر میں ہے

سرشار صدیقی

Address

Hyderabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Deccan اُردو دکن posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share