04/08/2025
تاریخ دانوں نے روایت کیا ہے کہ عمر بن خطابؓ، جنہیں ان کی سختی اور قوت کے لیے جانا جاتا ہے، ایک دن مدینہ میں لوگوں کے لیے کھانے کے دسترخوان لگا رہے تھے۔ انہوں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے کھاتے ہوئے دیکھا، تو پیچھے سے آ کر کہا:
"اے عبداللہ! دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔"
اس شخص نے جواب دیا: "اے عبداللہ! میرا دایاں ہاتھ مصروف ہے۔"
عمرؓ نے دوبارہ یہی بات کہی۔
شخص نے پھر وہی جواب دیا۔
عمرؓ نے پوچھا: "اسے کیا مصروفیت ہے؟"
تو اس نے جواب دیا: "یہ ہاتھ غزوۂ مؤتہ میں زخمی ہوا تھا، اب حرکت نہیں کرتا۔"
یہ سن کر عمرؓ اس کے پاس بیٹھ گئے اور رونے لگے، اور سوالات کرنے لگے:
"تجھے وضو کون کراتا ہے؟
تیرے کپڑے کون دھوتا ہے؟
تیرا سر کون دھوتا ہے؟
اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔؟"
اور ہر سوال کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
پھر انہوں نے اس کے لیے ایک خادم، ایک سواری اور کھانے کا بندوبست کیا، اور اس سے معذرت کرنے لگے کہ انہوں نے نادانستہ طور پر ایسی بات کہہ دی جو اسے تکلیف دے گئی۔
اسی طرح قوانین بنتے ہیں...
عمرؓ رات کو مدینے کی گلیوں میں گشت کرتے تھے، نہ کہ رعایا پر نظر رکھنے کے لیے، بلکہ ان کے حالات جاننے کے لیے۔
ایک رات انہوں نے ایک دیہاتی عورت کو اپنے شوہر کی یاد میں اشعار پڑھتے سنا:
"طویل ہو گیا ہے یہ رات، اور اس کا اندھیرا بڑھ گیا ہے
مجھے نیند نہیں آتی کہ میرا محبوب میرے ساتھ نہیں کھیلتا
اگر نہ ہوتا وہ ذات جس کا عرش آسمانوں پر ہے
تو یہ بستر میرے ہجر کی شدت سے ہل گیا ہوتا"
امیر المؤمنین قریب آئے، سنا، اور پھر دروازے کے پیچھے سے پوچھا:
"اے بہن! کیا ہوا؟"
عورت نے جواب دیا:
"میرے شوہر کئی مہینوں سے جہاد کے لیے گئے ہوئے ہیں، میں انہیں یاد کرتی ہوں۔"
عمرؓ فوراً اپنی بیٹی حفصہؓ کے پاس گئے اور پوچھا:
"عورت اپنے شوہر کی جدائی کتنے عرصے برداشت کر سکتی ہے؟"
بیٹی شرما گئی اور سر جھکا لیا، تو عمرؓ نے عاجزی سے کہا:
"اللہ حق کہنے سے نہیں شرماتا، اگر یہ سوال رعایا کے معاملے کے لیے نہ ہوتا تو میں نہ پوچھتا۔"
حفصہؓ نے جواب دیا:
"چار، پانچ یا چھ مہینے۔"
عمرؓ واپس گئے اور تمام فوجی کمانڈروں کو لکھا:
"فوجوں کو چار ماہ سے زیادہ نہ روکا جائے۔"
یوں عورت کے ایک فطری حق کی بنیاد پر ایک قانون بنا۔
یہ قانون ریاست نے نہیں، بلکہ معاشرے (ایک دیہاتی عورت اور حفصہؓ) نے تشکیل دیا۔ ریاست نے صرف اسے نافذ کیا۔
اسی طرح عورت کا قانون تشکیل پایا۔
ایک رات عمرؓ گشت پر تھے تو ایک بچے کی رونے کی آواز سنی۔ قریب گئے اور پوچھا:
"کیا ہوا بچے کو؟"
ماں نے کہا:
"میں اسے دودھ چھڑوا رہی ہوں، اس لیے رو رہا ہے۔"
ظاہر ہے، یہ عام بات تھی۔ لیکن عمرؓ نے اس سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ وہ عورت صرف اس لیے بچے کو وقت سے پہلے دودھ چھڑا رہی ہے تاکہ بیت المال سے ملنے والے سو درہم حاصل کر سکے، جو صرف دودھ چھڑانے کے بعد دیے جاتے تھے۔
عمرؓ گھر واپس گئے، مگر نیند نہ آئی۔ اس بچے کی سسکیوں نے دل کو جھنجھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے فوراً حکم جاری کیا:
"بچے کو پیدائش کے وقت ہی سے سو درہم دیے جائیں، نہ کہ دودھ چھڑانے کے بعد۔"
یوں بچوں کے لیے قانون بنا جو ان کی مناسب غذا اور صحت کا ضامن بن گیا۔
اگر عمرؓ اس عورت سے گفتگو نہ کرتے تو یہ قانون نہ بنتا۔
یوں بچے کا قانون بھی تشکیل پایا۔
عمرؓ کو اپنے بھائی زید سے محبت تھی، جو حروبِ ارتداد میں شہید ہو گئے تھے۔
ایک دن بازار میں عمرؓ کی ملاقات زید کے قاتل سے ہوئی، جو اب مسلمان ہو چکا تھا۔
عمرؓ نے غصے سے کہا:
"اللہ کی قسم! میں تجھ سے اتنی نفرت کرتا ہوں جتنا زمین بہتے ہوئے خون سے کرتی ہے!"
اعرابی نے پوچھا:
"کیا اس نفرت سے میرے حقوق متاثر ہوں گے، اے امیر المؤمنین؟"
عمرؓ نے کہا:
"نہیں۔"
تو اعرابی نے بے پروائی سے کہا:
"محبت کا غم تو عورتیں کرتی ہیں۔"
(یعنی مجھے تمہاری محبت کی پروا نہیں، میرے اور تمہارے درمیان صرف حقوق اور فرائض کا رشتہ ہے)
عمرؓ نے غصے کے باوجود نہ اسے جیل بھیجا، نہ سزا دی۔
اس کی آزادی رائے کا احترام کیا۔
یوں معاشرے میں آزادیِ اظہار کا قانون بنا۔
ایک عورت نے ایک جمعے کے خطبے کے دوران کہا:
"اے عمر! تم غلطی پر ہو۔"
یہ اس وقت ہوا جب عمرؓ نے مہر کی حد مقرر کرنے کا قانون تجویز کیا۔
وہ عورت عام تھی، مگر اس کی دلیل درست تھی۔
عمرؓ نے نہ اسے گرفتار کیا، نہ سزا دی، نہ شرمندہ کیا، بلکہ علی الاعلان کہا:
"عمر غلطی پر تھا، اور عورت نے درست کہا۔"
اور اس قانون کو واپس لے لیا۔
یوں مہر کی مقدار کا فیصلہ معاشرے پر چھوڑ دیا گیا۔
یوں قوانین بنتے ہیں۔۔۔ معاشرے کی ضرورت، خواہش، روایت، اور فطری تقاضوں سے۔
قانون نہ ایوان اقتدار میں بنتے ہیں، نہ محلات میں، بلکہ لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر، ان کی حالت سن کر، ان سے سیکھ کر۔
اصل قانون ساز معاشرہ ہے، اقتدار
نہیں۔
Copy